جون, 2011 کے لیے آرکائیو


علما کا دینی خدمت کا جذبہ اور زائد شادیاں
مولانا طارق مسعود مدظلہ فرماتے ہیں:
فطرت کسی کے ذاتی جذبات سے بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ اب کسی قوم کے علما  اگر یہ سوچ کر ایک بیوی پر قناعت شروع کردیں کہ اس  صورت میں ہم اطمینان قلب کے ساتھ دین کا کام زیادہ کرلیں گے تو اگر فطرت ان حضرات کے اس جذبے سے متاثر ہو کر ان کی قوم بلکہ ان کی اپنی اولادوں میں عورتوں کی شرح پیدائش کم کردیتی تو پھر تو اس جذبے سے ایک بیوی پر قناعت کئے رہنا شاید کچھ اچھا کام ہوتا، مگر ایسا ہوتا نہیں، اور فطرت ایسے جذبات سے ذرا بھی متاثر ہوئے بغیر عورتیں اسی حساب سے پیدا کرتی چلی جاتی ہے جس حساب سے اس نے مردوں کے دل میں عورتوں سے نکاح والی رغبت رکھی، کیونکہ فطرت کا دعویٰ ہے:
انّا کلّ شی خلقناہ بقدر(الآیۃ)
ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے (مناسب مقدارمیں) پیدا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے اندازوں اور اصولوں میں لوگوں کی‘‘رسومات’’،‘‘مزاج’’،‘‘جذبات’’،‘‘مہنگائی’’اور ‘‘مصروفیات’’ کی بنا پر تبدیلی نہیں فرماتے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی شخص کی مصروفیات کی وجہ سے فطرت نے اس بھوک کی خواہش اور ضرورت اس لئے چھین لی ہو کہ اس بے چارے کے پاس کھانا کھانے کی فرصت نہیں۔۔۔؟؟؟۔
پس جس طرح بھوک لگنا ایک فطری عمل ہے اسے ختم کرنے کے لئے بہرحال وقت نکالنا پڑتا ہےبلکہ اس کام کے لئے وقت نکالنے کو بقیہ تمام کاموں پر ترجیح دی جاتی ہے بالکل اسی طرح قوم کی عورتوں اور خود اپنی آل اولاد میں پیدا ہونے والی بیٹیوں کی باعزت شادیوں جیسی اہم فطری ضرورت کے لئے وقت نکالنا بھی بقیہ عام کاموں پر مقدم ہے کیونکہ یہ سوچ کر شادیوں سے اجتناب کرنے والی قوم کہ کون بیویوں کے حقوق اور پھر پیدا ہونے والی کثیر اولاد (ریل کے دبوں)کی ذمہ داریاں اپنے سر لے۔۔۔؟۔
اس سے بہتر ہے کہ ایک آدھ بیوی اور ایک آدھ بچے پر اکتفا کرکے اپنے کاروبار زندگی یا عبادت اور خدمات دینیہ میں اطمینانِ قلب اور سکون سے مشغول رہنا چاہئے، چنانچہ اس جذبے سے متعدد شادیوں سے اجتناب کرنے والی قوم میں جس کے بیٹیاں کثرت سے ہو جائیں تو ایسے لاکھوں افراد کو بچیوں کی شادیوں کی فکر اور ان کے لئے مناسب داماد کی تلاش ایسی تشویش(ٹینشن) میں مبتلا کرکے رکھ دیتی ہے کہ اس قوم میں اطمینان قلب کے ساتھ عبادت اور کاروبار زندگی وغیرہ کا سارا مزہ آہستہ آہستہ کِرکِرا   ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس تحریر سے معلوم ہوا کہ جلدی، اور کثیر شادیوں کی ضرورت ہے، عورتیں بھی اللہ کی مخلوق ہیں ، ہم بعض اوقات اس جذبے سے مختلف جانور پالتے ہیں کہ ان کو کھلائیں گے ہمیں خوشی ہوگی اللہ بھی خوش ہوگا تو کیا کسی انسان یعنی عورت کے ساتھ اس جذبے سے شادی نہیں کی جاسکتی کہ میں اس کا کفیل بن جاوں گا اور اس کے لئے خوراک لباس کا انتظام کروں گا۔
                                                                                                                  (ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں۔ازمولانا طارق مسعود صاحب)

The system of Allah (SWT) runs its course and is neither affected by personal feelings nor swayed by emotions. Shaykh (Maulana) Tariq Mas’ood (HA) states that if the Ulama of a region begin to contend with a single wife thinking that it will free them up for the Service of theDeen of Allah (SWT) thus they will be able to devote more time then still the system of Allah (SWT) will not diminish or decrease the birth of girls ( to affect the overall sex ratio) in that locality in response to their feelings and wishes. Rather, the system of Allah (SWT)  will continue to run its course and the birth of women will be unaffected as it is part of Fitrah (of men) to have the desire for women in their hearts.

نکاح میں تاخیر کرنے والا

Posted: جون 27, 2011 by EtoPk in مضامین

Delaying the Nikah is the hallmark of a fool, an impotent or a Faasiq!

بیوی کے بغیر موت

Posted: جون 26, 2011 by EtoPk in مضامین

بیوی کے بغیر موت:
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے ایک انتہائی بری خرابی یہ بھی ہے کہ عمررسیدہ شخص کی بیوی فوت ہوجائے اور اس کے بعد اگر وہ شخص شادی کرنا چاہے تو لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں، اس کی تحقیر کرتے ہیں اور وہ بیچارہ اپنی آئندہ کی زندگی اسی طرح اکیلے میں گزارتا ہے ، اگر وہ نیک ہے تو پھر پاکدامنی کی زندگی گزار لیتا ہے اور اگر کچھ کمزور ہے تو پھر بدنظری اور برے خیالات کے ساتھ اس کی زندگی گزرتی ہے ، اس طرح کہ کئی مشاہدات بھی راقم نے دیکھے ہیں کہ ایسا عمر رسیدہ شخص جو شادی کرنا چاہتا تھا مگر اسے اس کی اپنی اولاد یا دوسرے لوگوں نے طعنے دیکر شادی سے روکا تو پھر وہ شخص بڑھاپے کی عمر میں زنا کرنے پر مجبور ہوگیا ، اسی طرح ایک شخص اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں اپنی بہو کے ساتھ زنا کرتا رہا۔
اس سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے اور صحابہ کرام کا کیا طرز عمل تھا مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اس بیماری میں جس میں ان کا انتقال ہوا فرمایا کہ لوگومیرا(فوراً) نکاح کراو اس لئے کہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ازدواجی زندگی کے بغیر ملاقات کروں۔
شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے ، اس حالت میں اپنے متعلقین سے فرمانے لگے کہ لوگو میرا (فوراً) نکاح کرا دو اس لئے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ میں اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات نہ کروں کہ (موت کے وقت) میرے نکاح میں کوئی عورت نہ ہو۔
ان روایات میں جہاں جلد نکاح کی ترغیب ہے وہاں ان لوگوں پر بھی زبردست رد ہے جو کسی بوڑھے شخص کے لئے نکاح کرنے کو باعث شرم اور باعث عار سمجھتے ہیں ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر بوڑھے شخص میں قوت جنسیہ ختم ہوچکی ہو تو اسے پہلے ہی یہ بات واضح کرنا چاہئے کہ میرا نکاح کرنے کا مقصد محض خدمت یا کفالت کرنا ہےتاکہ کسی کے ساتھ دھوکہ نہ ہوکسی کو دھوکہ دیکر نکاح کرنا حرام ہے۔
بالکل یہی معاملہ عورتوں کا بھی ہے انہیں بھی بیوہ ہونے کی صورت میں فوراً نکاح کرلینا بہتر ہے،
رابعہ بصری ایک بہت ہی نیک اور عابدہ زاہدہ خاتون گزری ہیں ، آج لوگ ان کی عبادت کی مثالیں دیتے ہیں ، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی شاگرد خواتین اور لڑکیا ں ان کے اردگرد بیٹھی تھی ، ان شاگردوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ نصیحت کریں تو رابعہ بصری نے فرمایا کہ کبھی بھی بغیر نکاح کے نہ رہو اور پھر اپنا واقعہ سنایا کہ میں جب آدھی رات کو مصلے پر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرتی تھی اس وقت گلیوں میں پھرنے والا چوکیدار جب میرے گھر کے سامنے سے گزرتا تھا تو میرے دل میں بُرے بُرے وسوسے آتے تھے کہ اس وقت سارے لوگ سوئے ہوئے ہیں کوئی بھی نہیں دیکھ رہا ۔ یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ اس نے مجھے زنا سے محفوظ رکھا۔
اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ رابعہ بصری جیسی پاکدام اور عابدہ زاہدہ خاتون کو ایسے وسوسے آرہے ہیں تو   آج کل کے اس گندے معاشرے میں جہاں ہر طرف بے حیائی ، بے پردگی ، اور بے دینی کا ماحول غالب ہے ایسے میں کون عورت ہے جو اپنے آپ کو بچائے گی۔
علامہ زاہدالکوثری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
شوہر دوسرا نکاح کرنا چاہے تو کسی کو رکاوٹ بننے کا کوئی حق نہیں کسی دوسرے کا رکاوٹ بنتے ہوئے مداخلت کرنا کتاب اللہ او سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور قطعی،منصوص،مطلق اور عام حکم کو بغیر کسی دلیل کے مقید وخاص کرنا ہے اور یہ (زبردستی کی رکاوٹ) کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی جرات کی بات ہے اور قطعی اور یقینی اجماع کی مخالفت ہے۔
لہٰذا اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کے والد ، چچا، مامو، وغیرہ اگر اکیلے ہیں تو ان کو شادی کی ترغیب دیکر شادی کروائیں۔

In our society a despicable trend is to discourage and taunt an old man whose wife passed away and he wishes to get his Nikah done. This is in complete contrast to the lifestyle and methodology of Sahaba (RA) of Sayyidina Nabi (Sallaho Alaihe Wassallam).

Sayyidina Muadh Ibn Jabal (RA) in the illness in which he passed away ordered the people to have his Nikah done immediately as he disliked meeting Allah (SWT) in the state of celibacy.

Sayyidina Shaddad Ibn Aws (RA) who had become blind in his last age ordered his relatives to have his Nikah done immediately as he reported that Sayyidina Nabi (Sallaho Alaihe Wassallam) had instructed him not to meet Allah (SWT) in the state that there is no woman in his Nikah.

ظالم عورت کون

Posted: جون 25, 2011 by EtoPk in مضامین

The unjust lady

Islamic Shariah doesn’t consider the women an oppressor who becomes the 2nd wife, rather oppressor is the wife who holds on to a man who is able to financially, emotionally and physically provide for 4 women thus giving them a life of chastity and purity. 

اصول کی بات

Posted: جون 24, 2011 by EtoPk in مضامین

اصول کی بات

جب کسی چیز کی بہتات ہوجائے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے، لوگ اس کی قدر نہیں کرتے، اس کی حفاظت نہیں کرتے، اس پر چوکیدار نہیں بٹھاتے، اسے چھپاتے نہیں، اگر کوئی اس کی ناقدری کرے تو پرواہ نہیں کرتے۔  مثلا آپ پانی کو لے لیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ نے پانی وافر مقدار میں دیا ہے ، پینے کے لئے ہمیں مفت میں دستیاب ہے، آپ کسی سے پانی کا گلاس مانگیں ، کسی ہوٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے پانی کا گلاس پی لیں آپ سے کوئی پیسے نہیں مانگے گا، آپ پانی کا گلاس گرا دیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔
پانی کے مقابلے میں آپ پٹرول یا سونے کو لے لیں یہ دونوں قیمتی چیزیں ہیں لوگ ان کی قدر کرتے ہیں، حفاظت کرتے ہیں، چوکیدار بٹھاتے ہیں اگر کسی کے پاس سونا ہوتو ہرکسی کو نہیں بتاتا کہ میرے پاس سونا ہے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟  اس لئے کہ یہ دونوں قیمتی ہیں ، مقدار میں کم ہیں، مانگ زیادہ ہے۔
یہ اصول تقریباً ہر چیز کا ہے۔بالکل اسی طرح کا معاملہ اس وقت عورت کا بھی ہے۔ دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے عورت کی قدروقیمت ختم ہوگئی ہے۔اس قدروقیمت کو ختم کرنے میں ہمارے دشمن کے ساتھ ساتھ ہماری عورت کا اپنا قصور بھی ہے۔
لوگوں کی بیٹیوں کو رشتے نہیں مل رہےجس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں ، زنا عام ہورہے ہیں، جس معاشرے میں نکاح مہنگا ہوجائے اس معاشرے میں زنا سستا ہوجاتا ہے۔آپ نکاح کا تصور کریں آپ کے ذہن میں فوراً ڈیڑھ دو لاکھ کا بجٹ آجائے گا، لیکن زنا کا سوچیں تو صرف چار پانچ سو میں دستیاب ہے(نعوذ بااللہ)۔
بعض والدیں اپنی بیٹیوں کو کسی کے ساتھ دوستی لگاتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں مگر صرف نظر کرلیتے ہیں کیوں؟  اس لئے کہ کسی طریقے سے دوستی لگ جائے اور ہماری بیٹی کو رشتہ مل جائے۔
اگر آج کے مسلمان نبیوں اور صحابہ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ایک سے زائدشادیاں کرنا شروع کردیں تو کنواری عورتوں کی تعداد کم ہوجائے گی، جس سے ان کی قدروقیمت میں اضافہ ہوگا۔ مانگ زیادہ ہوگی تو قیمت بڑھ جائے گی، لوگ اپنی بیٹی کو چھپا کر رکھیں گے بے دین بھی اپنی بیٹی سے پردہ کروائے گا۔ اس لئے اپنے معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیوں کو ترویج دیں۔

The system of supply and demand runs through our lives. Where the supply is abundant the price diminishes and similar is the case with women. In today’s world, the ratio of women is significantly higher thus the supply is abundant which has cheapened the value of women and unfortunately women have also contributed to this devaluation. 

تعدد ازواج میں اصل حکم کیا ہے؟
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے مرد کی فطرت سے پوری طرح مطابقت کے باعث اسلام میں اصل ترغیبی حکم یہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں رکھی جائیں ، یعنی تعدد اصل ہے اور ایک پر اکتفا کرنا یہ مجبوری کے وقت ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النسا مثنیٰ وثلٰث وربٰع، وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ ۔
نکاح کرو دودو سے تین تین سے چار چار سے،اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل قائم نہ کرسکو گے تو پھر ایک کرو۔
دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک کا حکم نہیں دیا بلکہ دو دو تین تین چار چار بیویاں رکھنے کا حکم دیا اور مجبوری کے وقت ایک ہی رکھنے کی اجازت بھی دی۔اس سے معلوم ہوا اصل حکم تعدد ازواج کا ہے۔
ایک سے زیادہ عورتوں کی خواہش اور طلب مرد کی فطرت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ صرف ایک عورت پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ ابتدا ہی سے مردوں کا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رجحان رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنت میں بھی ایک مومن مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں اور کئی حوریں ملیں گی۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی ہزار خادم ہونگے اور بہتّر بیویاں ہونگی۔ ایک اور  روایت میں ہے کہ ایک جنتی مرد کی پانچ سو حوروں اور چارہزار کنواریوں اور آٹھ ہزار بیوہ عورتوں سے شادی کروائی جائے گی۔
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عقلاً ونقلاً وتجربۃً وقیاساً ہر لحاظ سے یہ امر مسلّم ہے کہ مرد میں عورت کی بہ نسبت شہوت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
عقلاً اس لئے کہ مرد کا مزاج گرم ہے ، جوسبب شہوت ہے اور عورت کا مزج سرد ہے۔
شرعاً اور نقلاً اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو چار بیویوں کا اختیار دیا ہے اگر عورت میں شہوت زیادہ ہوتی تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔
تجربۃً اس لئے کہ کوئی شخص اس کا قائل نہیں اور اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ عورت ہمبستری کی دعوت دے اور مرد انکار کرے ، اس کے برعکس اس کی مثالیں روزانہ پیش آتی رہتی ہیں کہ مرد بلاتا ہے اور عوت راضی نہیں ہوتی۔
قیاساً اس طریقے سے کہ دوسرے حیوانات میں یہ امر مشاہد ہے کہ ایک مذکر سینکڑوں مونث کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مردوں میں کثرت احتلام اور عورتوں میں اس کا وجود کالعدم ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں میں شہوت کم ہوتی ہے۔

Islam is divinely ordained by Allah (SWT) thus fully compatible with human nature, particularly the Fitrah of man. Therefore Islam encourages polygny and to become content with one is the exception and not the rule. 

عدل کا مفہوم

Posted: جون 24, 2011 by EtoPk in مضامین

بیویوں میں ‘‘عدل’’۔
جس طرح لوگ پردے کے معاملے میں ایک غلط فہمی کا شکار ہیں یعنی ‘‘ستر اور پردہ’’ میں فرق نہیں سمجھتے بالکل اسی طرح دوسری شادی کی صورت میں عدل کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
لہٰذا اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ عدل کے معنی ظلم کا مقابل ہے،
 ظلم کہتے ہیں حق کے موافق برتاو نہ کرنا، مثلا ٹو پی کا مقام سرپر رکھنا ہے اگر آپ اسے پاوں پر رکھ دیں تو یہ ظلم ہے۔
 عدل کہتے ہیں حق موافق کے برتاو کرنا۔
عام طور پر لوگ عدل اور تسویہ(برابری)میں فرق کو نہیں سمجھتے۔ عدل ہر حال میں ضروری ہے چاہے بیوی ایک ہو یا ایک سے زائد جبکہ تسویہ(برابری) ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں صرف دو چیزوں میں ضروری ہے۔۱۔بیتوتہ(رات گزارنا)  ۲۔وصلات زائدہ(اضافی تحفے تحائف) میں۔
عدل کا مطلب یہ ہوا کہ کسی پر ظلم نہ ہو، اور یہ بات تو ایک بیوی کی صورت میں بھی ضروری ہے کہ آپ اس پر ظلم اور زیادتی نہ کریں اس کے حقوق واجبہ کو ادا کریں۔
البتہ ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں دوچیزوں میں تسویہ یعنی برابری بھی کرنا ہوگی،
یاد رکھیں ہر چیز میں برابری کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر دونوں بیویاں مالی حیثیت سے برابر ہیں یعنی دونوں مالدار ہیں یا دونوں غریب ہیں تو پھر نان نفقہ میں برابری ضروری ہے ورنہ نان نفقہ میں برابری ضروری نہیں ہے ، مالدار بیوی کو اچھا کھانا جو اس کے لائق ہو وہ دینا ضروری ہے اور غریب بیوی کو ہلکا کھانا جو اس کے موافق ہو وہ دینا ضروری ہے۔ البتہ دو چیزیں ایسی ہیں جن میں برابری ضروری ہے:
۱۔ رات گزارنے میں یعنی جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاری ہیں اتنی ہی دوسری کے پاس بھی گزارنا ہوں گی، چاہے جماع کریں یا نہ کریں۔ اور یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔
۲۔ اضافی تحفے تحائف دینا۔ یعنی ضروری نان نفقہ کے علاوہ اضافی کوئی چیز دینی ہو تو پھر دونوں میں برابری کرنا ہوگی۔(مثلا شادی بیاہ یا عید کے موقع پر کپڑے وغیرہ بنانا)
کیا آپ ان دو چیزوں میں برابری نہیں کرسکتے۔۔؟؟
کیا آپ انسان نہیں ہیں آپ کو اللہ نے عقل نہیں دی کہ آپ عدل کو چھوڑ کر ظلم کریں گے۔۔؟؟
لہٰذا خود بھی زیادہ شادیاں کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

Just like people don’t understand the difference between "Awrah & Hijab” they are also mistaken about the concept of "Adl (justice)” in case of polygny. Adl is the opposite of oppression and it is not the same as "equality”. Adl (i.e. absence of oppression) is obligatory whether a person has 1 wife or practises polygny while "equality” in later case only has to be maintained in case of spending equal time and providing additional gifts (above and beyond the stipulated Nafaqah).

غربت کا بہانہ

Posted: جون 24, 2011 by EtoPk in مضامین

غربت کا بہانہ
کچھ لوگ دوسروں کو یہ کہہ کردوسری شادی سے روکتے ہیں کہ پہلی بیوی کے اخراجات پورے نہیں ہورہے اور تم دوسری کی بات کرتے ہو۔
دراصل آج کل کے زمانے میں جو شخص بحریہ ٹاون اور ڈیفنس میں مکان نہیں بنا سکتا وہ اپنے آپ کو غریب سمجھتا ہے حالانکہ غربت یہ نہیں ہے، جو آدمی دو وقت(تین وقت نہیں) خود بھی کھاتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کھلاتا ہے وہ غریب نہیں ہے۔
ایک سے زائد شادیاں کرنے کے لئے بہت زیادہ مالدار ہونا ضروری نہیں ہے،بس اتنا کافی ہے کہ آپ اپنی بیوی کو تین چیزیں اس کے مناسب حال دے سکیں:
۱۔ مناسب خوراک
۲۔مناسب لباس
۳۔مناسب رہائش، پھر اس رہائش میں یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ 500 گز کا بنگلا بنا کردیں بلکہ اتنا کافی ہے کہ ایک ایسا کمرہ بیوی کو دینا چاہئے جس میں اس کا پورا اختیار ہو، یعنی اس کمرے میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہ ہوسکے اسے بند کرنا اور کھولنا بیوی کے اختیار میں ہوجیسے کوئی مالک ہوتا ہے۔
مذکورہ شرائظ صرف دوسری بیوی کے لئے نہیں ہیں بلکہ پہلی بیوی  کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں اگر آپ ان شرائط کو پورا نہیں کرسکتے تو پھر آپ پہلی شادی بھی نہیں کرسکتے۔
ہمارے سروں کے تاج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون غریب ہوگا، آپ کواپنی ازواج مطہرات کو دو وقت کھلانے کے لئے مناسب خوراک تو کیا میسر ہوتی غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولہا جلنے کی نوبت بھی نہ آتی تھی۔
معلوم ہوا غربت کا بہانہ بنا کر ایک یا متعدد شادیوں سے اجتناب کرناشرعاً اچھی بات نہیں،اگر آپ واقعی غریب ہیں تو لڑکی کے انتخاب میں اپنا معیار بدل دیں اور ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو آپ سے بھی زیادہ غریب ہو یا اس غربت کے باوجود آپ کے ساتھ رہنے پر راضی ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو ا لئے کہ یہ عورتیں تمہارے مال میں برکت واضافے کا سبب ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو روزی کو نکاح میں تلاش کرواور پھر یہ آیت تلاوت کی:
اِن یَکونُوا فقرا یغنھم اللہ من فضلہ
اگر یہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں(نکاح کے باعث) غنی کردے گا۔
بخاری شریف میں ایک غریب صحابی کے نکاح کا عجیب واقعہ موجود ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں ایک عورت آئی اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ایک نظر کی اور سر جھکا لیاکچھ دیر اسی طرح گزر گئی تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کو اس عورت سے نکاح کی رغبت نہیں تو میرا نکاح کرادیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہر دینے کے لئے کچھ ہے؟ صحابی نے کہا اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر بھیجا تاکہ کوئی چیز لائے ، وہ صحابی اپنے گھر سے ہوکر واپس آئے اور کہا کہ اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ بھیجا کہ دوبارہ تلاش کرکے آو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو، وہ دوبارہ تلاش کرکے آئے اور کہا اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قرآن سے کچھ یاد ہے؟ اس پر صحابی نے کچھ سورتیں گنوائیں کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سورتوں کو تم زبانی پڑھ سکتے ہو؟ صحابی نے عرض کیا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تمہارا نکاح اس عورت سے اس قرآن کے بدلے کردیا جو تمہیں یاد ہے(یعنی جتنی سورتیں یاد ہیں ان کی تعلیم بیوی کو بھی دے دینا فی الحال یہ سہی)۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا غربت کا بہانہ بنا کر نکاح میں رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی۔

Some people discourage others from practising polygny on the grounds of poverty. In fact, our views of poverty are skewed and we think that anyone who doesn’t have a luxurious house or a bungalow is poor. However, polygny doesn’t require immense wealth just that the wives are provided with:
  1. Adequate Nourishment (food)
  2. Adequate clothing
  3. Adequate Accommodation and this doesn’t mean that she has to have a palatial residence, rather the minimum is to provide her with a room on which she has full control and she can secure it at her own will.

Prevent violence against women

Posted: جون 21, 2011 by EtoPk in مضامین

Click Here

Prevent violence against women
Erase your community zina to
Find cheap Marriage
Many marriages do

Second marriage،More wives،What is fair،Compete،Four weddings،Adultery،Husband،Marry ،late،Transport،Wife،Laid