مئی, 2012 کے لیے آرکائیو


علیٰحدہ رہا ئش کا مطالبہ اور اہم نصیحت
اسلام نے بیوی کو ایک حق یہ بھی دیا ہے کہ اس کی رہا ئش کا کو ا رٹر علیحدہ ہو ۔ شوہر پر اس کا حق واجب ہی نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہا ئش کے لئے علیحدہ کو ارٹر مہیا کر ے ۔ ایک بڑے گھر میں اگر ایک سے زیادہ خا ندان آ باد ہیں تو علیحدہ ایک کمرہ ، جس میں کوئی دو سرا خلل انداز نہ ہو ۔
عور ت کے سونے کا کمرہ ، جس پر اس کا مکمل اختیار ہو نا چا ہئے ۔ یہ اس کے اسلامی حق کے دائرہ کا ر میں آتا ہے اور اس کا اسے قانونی حق بھی حا صل ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کے والدین کو بلکہ اپنے والدین کو اپنے ذاتی سونے کے کمرے میں آنے سے منع کر دے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیوی کا طے شدہ اور ماناگیا حق ہے ۔ مگر عورتوں کو اس امر کا بھی علم ہو نا چا ہئے کہ اکثر شوہر شر یعت کے قوانین سے نا بلد ہو تے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کو علم ہو تا بھی ہے تو ان کو پورا کر نے میں تساہل بر تتے ہیں ۔ دین سے دوری کے اس دور میں شو ہر حضرات اپنے دینی حقوق وفرائض کا بہت کم علم رکھتے ہیں وہ اپنی نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہونے کے سبب برداشت کے مادہ سے عاری ۔ اگر کسی نے اپنے حق کی با ت منوانے کی کو شش کی تو اس پر بھڑک اٹھتے ہیں ۔ عقل مند بیوی یہ سمجھ لے کہ اگر اس نے اپنے حقوق کے حصول پر اصرار کیا تو وہ گھر یلو خوشیاں حاصل کر نے میں کامیاب نہ ہو گی ۔ ایسا کرنے پر نہ صرف اس کا شوہر اس سے نفرت کرنے لگے گا بلکہ اس سے دوردور رہنے کی کوشش کرے گا۔
بعض اوقات شوہر نا مساعد حالا ت کی وجہ سے بیوی کے لئے فو ری طور پر علیٰحدہ گھر کو ا رٹر کا بندوبست نہیں کر سکتا ۔ بیوی کو شو ہر کی مجبو ری کا احساس ہو نا چا ہئے اور وہ صبر سے اچھے دنوں کا انتظار کر ے ۔ وہ عیب گیری کر کے شوہر کو اس امر پر مجبو ر نہ کر ے کہ ہر صورت میں اس کی اس ضرورت کو پورا کر ے ۔
جہاں بیوی سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہو تی ہے تو جان بو جھ کر ایسی سکیمیں تیا ر کر تی ہے جن سے سسرال والوں کے لئے مسائل پیدا ہو جائیں ۔ روزروز کے جھگڑوں سے خاوند کے تعلقا ت اپنے عزیزوں سے بگڑ جائیں جن کی وجہ سے صلہ رحمی سے باز آجا ئے اور ان کی امداد سے اپنا ہا تھ ر وک لے ۔ خاوند اپنے اس رویہ کی وجہ سے عذاب کا مستحق ٹھہر ے گا ۔
مسلما ن بیوی کو چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یاد رکھے کہ اسے آخرت میں اپنے اعمال کی جو ابدہی کر نا ہو گی ۔ وہ اپنے حقوق کے حصول کی خا طر اس قدر آگے نہ بڑ ھے کہ شوہر کی حکم عدولی کے گنا ہ کی مرتکب ہو ۔ اپنے حقوق کے حصول کی خواہش میں اسے چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں عمل کرے ۔ اس کے ذہن میں رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
اے عورت ! دیکھ ۔ وہ (تمہا را شوہر ) تمہا ری جنت ہے یا دوزخ
عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش رکھے جب وہ اس کی طرف دیکھے۔ اطاعت کر ے جب وہ اسے حکم دے … اور اپنے اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ نہ اختیا ر کر ے جو شو ہر کو نا پسند ہو ۔
(
بہ روایت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ، نسائی)
کچھ عورتیں شادی کے پہلے دن ہی علیٰحدہ گھر کا تقاضا کر دیتی ہیں ۔ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کسی صورت میں بھی ہنسی خوشی رہنا گواراہ نہیں کر تیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ نئے نئے ڈھونگ رچا تی ہیں ۔ زبان درازی پر اتر آتی ہیں اور لڑائی جھگڑا کر تی ہیں ۔ یوں اپنے خاوند اور اس کے عزیزوں کا جینا حرام کر دیتی ہیں ۔ اپنے مقصد کے حصول کی خا طر وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں اٹھا ر کھتیں ۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کی خو شی اور احسا سات کا ذرہ برابر خیال نہیں کرتیں ۔ حالات کے ساز گار ہو نے کا انتظار نہیں کر تیں ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ بس ان کی خواہش اور ضرورت دم بھر میں پو ری ہو جائے ۔ ان کا یہ رویہ بجا نہیں ہے ۔ خاوندکے ساتھ انہیں اپنی پو ری زندگی بسر کر نی ہے لیکن وہ اپنی بے صبری اور حما قت سے شادی کے آغاز ہی میں اپنی راہ میں کا نٹے بچھا دیتی ہیں ۔
بیوی کو اچھے دنوں کا انتظار کر نا چاہئے ۔ وہ صبر اور دعا کو اپنا شعار بنائے ۔ یہ عورت کی کم عقلی اور اسلامی قوانین سے بے خبری کی دلیل ہو گی اگر وہ خا وند کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کے عزیز و اقارب سے بر گشتہ اور علیٰحدہ کر دے ۔ ایسے بر ے حالا ت پیدا کر دینا کہ خا وند کو دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے ، اپنے والدین کو چھوڑ ے یا بیوی کو ، ایک اچھی مسلما ن عورت کا طور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ 

نا فرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ
بعض اوقات عورت سے کوئی غلطی ہو جائے تو سمجھدار بیوی خود ہی معافی مانگ لیتی ہے اور آئندہ اس غلطی کو نہ کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہے مگر بعض عورتیں کچھ لا پر وا ہوتی ہیں۔ انہیں بار بار سمجھا نے کی ضرورت ہو تی ہے۔ اگر آپ کی بیوی کا شمار بھی انہی عورتوں میں ہوتا ہے تو پھر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ اپنی بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھا ئیں اور بار بار سمجھا ئیں ۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی بات سمجھ لے گی اور اپنی اصلا ح کر لے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ آپ اصلاح کے لیے حکیمانہ اُسلوب اختیار کریں ورنہ ممکن ہے کہ آپ کے غلط انداز سے سمجھانے کا الٹا نقصان ہو اور بیوی مزید بگڑ جائے۔ بیوی کو سمجھا نے کا طریقہ کچھ اختصار سے بتا تے ہیں۔ اسے مد نظر رکھیں:
(۱)…بعض اوقات بیوی آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے قصداً کو ئی ایسا نخرہ یا شرارت کرتی ہے جسے آپ اس کی نافرنانی ، گلہ شکوہ یا غلط رویہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے سنجیدہ ا ور خشک انداز میں وعظ و نصیحت شروع کر دیتے ہیں۔ بیوی سمجھ جاتی ہے کہ شوہر صاحب میرا مقصد انہیں سمجھے اور آپ کی نصیحتیں اس پر پتھر بن کر برس رہی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں غلطی دراصل شوہر کررہا ہوتا ہے جو اپنی بیوی کا مزاج نہیں سمجھ پاتا۔ لہٰذ ا بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی بیوی کا مزاج سمجھیں تاکہ اس کی غلطی اور نخرے میں فرق کر سکیں اس کی پیار طلب شرارت اور نافرمانی میں امتیاز کر سکیں۔
(
۲)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی موقع پر اصلاح ضروری ہوتی ہے لیکن ہر غلطی ایسی نہیں ہوتی کہ آپ فوراً اصلاح کے لیے لیکچر دینا شروع کردیں۔لہٰذا پہلے یہ دیکھیں کہ آپ اپنی بیوی میں جو غلطی محسوس کررہے ہیں ، وہ ایسی ہے کہ اس پر فوراً اصلاح کی جائے یا کسی اور مناسب وقت پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے بیوی کو سمجھانا مناسب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت ہو ، اس کے مطابق عمل کریں۔
(
۳)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے طنز یہ انداز اختیار نہ کریں ۔ جتنی غلطی ہے اس سے بڑھ کر الزام نہ دیں ۔ انتہائی شگفتہ انداز میں بیوی کو سمجھا نے کی کوشش کریں تاکہ وہ یہ سمجھے کہ آپ اس کے لیے مشفق و مہربان ہیں ، دشمن نہیں ۔
(
۴)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے مناظر انہ انداز بھی اختیار نہ کریں ۔ بحث و مباحثہ کی کیفیت پیدا نہ کریں ۔ بلکہ داعیانہ و مصلحانہ انداز اختیار کریں ۔ ایک وقت اگر بیوی اپنی ضد پر اصرار کرے تو مزید نہ اُلجھیں بلکہ کسی اور وقت میں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۵)…دوسروں کی موجودگی میں بیوی کی اصلاح کے لیے اس کی غلطیاں بیان نہ کریں ۔ اس میں اس کی ہتک ہے اور اس طرح وہ آپ کی بات کا برُا اثر لے گی ۔ اس لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ یا تو علیٰحدگی میں سمجھاتے یا پھر اس انداز میں سمجھاتے کہ صرف غلطی کرنے والے کو علم ہو تا کہ مجھے سمجھایا جارہا ہے اور دوسروں کو بالکل خبر نہ ہوتی کہ غلطی کس نے کی تھی۔
(
۶)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں منہ سے کچھ کہنے کی بجائے عمل سے سمجھانا پڑتا ہے اگر اس کی غلطی اس نو عیت کی ہوتو پھر زبانی تقریر کی بجائے خود عمل کرکے سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۷)…جب بیوی کواس کی کسی غلطی پر ٹوکنا اور سمجھانا چاہتے ہو ں تو اسکی پچھلی تمام غلطیوں کو پھر سے دہرانے کی کوشش نہ کریں اور یہ انداز اختیار کریں کہ تم تو ہمیشہ سے ایسی اور ایسی تھی۔ تمہیں تو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ اس طرح آپ کچھ اصلاح نہیں کر سکتے بلکہ اور بگاڑ ہی پیدا کریں گے ۔

بیوی کو سمجھانے کے طریقے
(
۸)…”مسلم شریف “ کی ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور عورت تمہارے بتائے ہوئے راستہ پر کبھی سیدھی نہ ہوگی پس اگر تم عورت کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو اس حالت میں فائدہ اٹھا سکتے ہو کہ اس کا ٹیڑھاپن اس میں باقی رہے گا لیکن اگر تم یہ چاہو کہ اس کی کجی دور کر کے فائدہ اٹھا وٴ تو سیدھا کرتے کرتے اس کو تم تو ڑدو گے اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے ۔ یعنی اس کی حالت ضرور بدلتی رہے گی کبھی خوش ہوگی کبھی ناخوش، کبھی شکر گزار ہوگی کبھی نہیں ،کبھی تمہاری اطاعت کرے گی کبھی نہیں ،کبھی تھوڑے پر صبر کرے گی کبھی طمع اور حرص کرے گی اور بات بات پر طعنہ دے گی اور تمہاری نافرمانی کرے گی ۔
بہرحال عورت کے تمام عادات و اطوار و اخلاق برُے نہیں اگر کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں اس کی خوبیوں اور اس کی بھلائیوں پر نظر کرنی چاہیے اور اس خامیوں پر درگزر اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کی اذیتوں اور نقصان کو برداشت کرنا چاہیے۔
(
۹)…آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا آپ کے والدین یا آپ کی بہنیں وغیرہ آپ سے بیوی کی شکایت کریں تو فوری طور پر مشتعل ہونے یا کوئی قد م اٹھا نے سے گریز کریں اس وقت بیوی کوکچھ بھی نہ کہیں کم ازکم اتنا صبر کرلیں کہ دونمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی ظہر کے وقت بات پیش ہوئی تومغرب تک اور اگر مغرب کے وقت پیش آتی تو فجر تک ۔
اس کے بعد بیوی سے بات کریں اگر واقعتااس کی غلطی معلوم ہوتو اس کو سمجھا ئیں اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشاء اللہ عزوجل آپ کے گھر میں بہت ہی زیادہ مثبت تبدیلی رونما ہوگی آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی بیوی کی نگاہ میں آپ کی عزت رہے گی ۔ آپ کی سمجھداری اور بردباری کاسکہ بھی جمے گا اور وہ آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔
(
۱۰)…آپ کو آپ کی ہمشیر ہ نے بتایا کہ فلاں موقع پر بھابھی نے فلاں رشتہ دار سے فلاں فلاں بات کی جس سے ہماری شکایت کا پہلو نکلتا ہے توآپ اس پر فوری ردعمل ہر گز ظاہر نہ کریں اور نہ بیوی پر جرح شروع کردیں بلکہ حکمت سے کام لیں اول غور کریں کہ آیا بات واقعی اتنی اہم ہے جتنی بہن نے سمجھی ؟
اگر اہم نہ ہو تو ٹال دیں اور اگر اہم ہو تو بیوی کو سمجھا نے کیلئے عمومی انداز اختیار کریں۔
(
۱۱)…ایک تدبیر یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی بیوی کی چار شکایتیں پہنچی ہیں یا خود کو کچھ باتیں ناگوار محسوس ہوتی ہیں تو سب پر الگ الگ نہ سمجھا ئیں ، بلکہ ان سب کی وجہ پر غور کریں ۔ پھر اس وجہ کا سد باب کرنے کی کوشش کریں ۔
(۱۲)…اور کوئی بات سمجھا تے ہوئے گڑے مردے نہ اکھاڑیں ۔ کہ جو بات ہوگئی سو ہوگئی اس کو بھول جایئے ۔
یاد رکھیئے!اگر آپ پرانی باتوں کو نہیں بھولیں گے اور بیوی کی ہر چھوٹی بڑی کوتاہی اور غفلت یا ددلاکر اس کے ذہن کو کچوکے دیتے رہیں گے تو یہ بالکل نامناسب ہوگا۔
(
۱۳)…اور سمجھا نے میں موقع محل کا ضرور خیال رکھیں کہ جب آپ بیوی کو سمجھا رہے ہوں تو وقت اور جگہ بھی ایسی مناسب ہوکہ بات نہ بگڑے اورمقصد پورا ہوجائے بعض اوقات جب مناسب موقع پر اور مناسب وقت سے سمجھا یا جاتا ہے تو بیوی کی غلطی نہ ہو تو بھی وہ مان جاتی ہے اور بعض اوقات موقع کا خیال نہیں رکھا جاتا تو غلطی ہونے کے باوجود وہ ضد پر آجاتی ہے اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔
(
۱۴)… اس کا خاص خیا ل رکھیں کہ کبھی بھی کسی کے سامنے اس کو نہ سمجھا ئیں دوسرو ں کے سامنے اس کو ذلیل نہ کریں اس طرح اکیلے میں سمجھاتے ہوئے بھی اپنے رشتہ دارو ں کی عورتوں کی مثالیں دیکر نہ سمجھائیں ۔
اصلاح کیلئے نرمی ، محبت ، اپنا ئیت ، نصیحت ، برداشت ، ہمدردی ، خیر خواہی ، دل سوزی اور درمندی کے جذبات سے معمور اور تلخ کلامی سخت بیانی اور طعن و تشیع سے دور ہو نا چاہیے۔
ان سب تدبیر وں کے ساتھ استغفار بھی کرتے ر ہنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست سے بیوی نا فرمان ہو جاتی ہے اس طرح بیوی کی اصلاح کیلئے بھی خوب دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی بھی فکر کرتے رہنا چاہیے۔
اگر بیوی پر غصہ آجائے تو؟
جہاں محبت ہوتی ہے ، وہاں لڑائی بھی ہوتی ہے اور جہاں پیار آتا ہے، وہاں غصہ بھی آتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے بیوی پر سخت غصہ آجائے تو فوراً بیوی پر غصہ اتارنے کی بجائے اس غصے کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اپنا غصہ دور کریں کیونکہ غصے کی حالت میں انسان جذباتی ہو کر غلط قدم اٹھالیتا ہے اور اسے افسوس ہوتا ہے ۔ اکثر طلا قیں غصے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اور جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی بات پر طلاق دے دی ۔
غصہ دور کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کریں :
۱)…اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں ، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں ۔
۲)…غصہ آئے تو تعوذ پڑ ھیں اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔
۳)…اٹھ کر وضو یا غسل کریں تاکہ جسم نارمل ہوجائے ۔
۴)…اپنے آپ میں غصہ دبانے کی کوشش کریں کیونکہ پہلو ان وہ نہیں جو مد مقابل کو گرا لے بلکہ اصل پہلو ان تو وہ ہے جو اپنے غصے کو پچھاڑلے تاکہ غصہ اسے پچھاڑلے ۔
۵)…یہ طے کرلیں کہ غصہ کی حالت میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے بلکہ جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تب کوئی فیصلہ کریں گے۔
۶)…غصہ کے وقت گھر سے کچھ دیر کے لیے باہر چلے جائیں یا کسی اور اہم کام میں مصروف ہوجائیں ۔
۷)…اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پہلے نماز بڑھیں یا پھر نفل نماز پڑھنے میں مصروف ہوجائیں ،
۸)…یہ سوچیے کہ جس طرح آپ کو اپنی بیوی کی کسی غلطی یا نافرمانی پر اتنا غصہ آیا ہے خود اللہ تعالیٰ کو آ پ کی غلطیوں اور نافرمانیوں پر کتنا غصہ آتا ہوگا۔ اگر آپ اس غصے کے باوجود بھی اپنی بیوی کو معاف کردیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ پر اپنے غصے کو معاف کردیں گے ۔ ان شاء اللہ !
 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت
اے مسلما ن بہن !
اس حدیث مبارک کو تو جہ سے پڑھیے!
حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی عورتیں ، بہترین عورتیں ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو تی ہیں ، بچوں پر بڑی مہر با ن ہو تی ہیں اور تنگ دست شو ہر کے مال کی حفا ظت کر تی ہیں ۔“ ( البخاری ۳۳۳۳، مسلم ۱۶/۸۰)
حدیث مذکو رہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ” قریش کی عورتیں ، بہتر ین عورتیں ہیں ۔“ یہ قریش کی عورتوں کو عرب کی عورتوں پر خا ص طو ر پر فضیلت دینا ہے اس لیے کہ اہل عرب عمو ماً اونٹوں والے ہو تے تھے ۔ ( فتح الباری : ۶/۳۷۳)
پھر فرمایا کہ ” احناہ “ یعنی بچوں پر بہت شفقت کر نے والی ہو تی ہیں ، ” حا نیتہ “ اس عورت کو کہتے ہیں جو با پ کے مر نے کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کر تی ہو ، جیسا کہ کہا جا تا ہے :” حنت المرأة علی ولدھا “ یعنی عورت نے بچوں کے باپ کے مر نے کے بعد دوسری شادی نہیں کی ، کیونکہ جو شادی کر لیتی ہے اس کو ” حا نیتہ “ نہیں کہتے ۔ اس حدیث سے اولاد پر شفقت و مہر با نی اور ان کی اچھی تر بیت کر نے کی فضیلت معلوم ہو ئی کہ جب بچوں کا باپ فوت ہو جائے تو بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھا ل بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے ۔ ( شرح النووی : ۱۶ / ۸۰)
پھر فرمایا: ” وار عاہ علی زوج فی ذات ید “ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے مال کی خوب حفاظت رکھتی ہے اور فضو ل خر چی نہیں کر تی ۔ ” وذات ید “ کا معنی قلیل الما ل ہے ، یعنی تنگ دست ہو ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بناتی ہے، شو ہر کے ساتھ تنگ زندگی گزار تی ہے ، شو ہر کی تنگ دستی اور مادی حالت سے نہیں اکتاتی بلکہ صبر و احتساب سے کا م لیتی ہے اور جا نتی ہے کہ اصل لذت ایمان کی لذت ہے نہ کہ مال کی لذت ۔
لیجئے !سنیئے ! حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھا نجے حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے کیا فرماتی ہیں : حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھا نجے سے فرمایا: ” اے میر ے بھا نجے ! ہم مسلسل چاند پر چاند دیکھتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ نے پو چھا : خالہ جان پھر آپ کا گزر بسر کیسے ہو تا تھا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : دو سیاہ چیزیں ، یعنی کھجو ر اور پا نی پر گزر ہو تا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار سے کچھ پڑوسی ہو تے تھے ، وہ کبھی کبھا ر اپنی بکریوں کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا تے تھے۔“ ( البخاری : ۶۳۵۹

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بیوی کی غلطی معاف کرنے کی نصیحت
یہ خیا ل دل سے نکال دیں کہ بیوی سے کبھی کوئی غلطی اور کمی کوتاہی نہ ہوگی ۔ وہ بھی ایک انسان ہے ۔ انسان ہونے کے ناطے کمی کو تا ہی کا صدور بھی اس سے ہوگا ۔ جہاں آپ کے بیسیوں حقوق اس نے پورے کرنے ہیں، گھر کے سب کام کاج سنبھالنے ہیں، بچوں کی تربیت کرنی ہے ، وہاں ان کاموں میں کبھی غفلت ، لاپروائی اور سستی بھی ہو سکتی ہے کبھی بیماری کی وجہ سے کوئی کام خراب بھی ہوسکتا ہے۔ کبھی تھکاوٹ سے کوئی کا م لیٹ بھی ہوسکتا ہے اگر بیوی سے کبھی لاپروائی ہوجائے،یا آپ کا کوئی نقصان ہو جائے ، یاوہ وقت پر کوئی چیز مہیا نہ کر سکے ، تو فوراً اس پر برسنا شروع نہ کردیں بلکہ حوصلے اور تحمل سے کام لیں۔ اس کی کوتاہی کو نظر انداز کردیں ۔ اس کی غلطی معاف کرنا سیکھیں ۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بیوی کی دوسر ی ذمہ داریاں اور نیکیاں یا د کیجیے ۔
یاد کریں کہ آپ کی بیوی سارا دن کس طرح کام کاج میں مصروف رہتی ہے ۔ پچھلے ایک عرصہ سے کبھی اس نے کوتاہی نہیں کی ۔آج اگر کو تاہی ہوگئی ہے تو پھر کیا ہوا۔کیا آپ سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ۔ کیا آپ اپنے عزیزواقارب اور والدین کے سارے حقوق ہمیشہ پورے کرتے رہے ہیں۔ کیا آپ اللہ کے حقوق بندگی میں کبھی سستی اور غفلت کا شکار نہیں ہوئے ، کیا آپ نے اپنے کاروبار میں اپنی غلطی سے کبھی نقصان نہیں اٹھایا ۔ ایک دودن گھر کے کام کاج ذرا آپ سنبھال کر دیکھیں تاکہ آپ کو انداز ہوسکے کہ یہ کام کتنے مشکل ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کتنا محنت طلب کام ہے ۔کپڑے دھونا کتنا مشقت کاکام ہے۔ امید ہے جب آپ ان چیزوں پر غور کریں گے تو آپ میں بیوی کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے گا۔
یہ کبھی نہ سوچیں کہ یہ بیوی تو ہے ہی ایسے، کو ئی اور ہوتی تو کبھی غلطی اور لاپروائی کا ارتکاب نہ کرتی ۔ نہیں ، یہ سوچ غلط ہے ۔ آپ اس کی جگہ کو ئی اور حور پر ی بھی ڈھونڈ لائیں گے تو وہ بھی کوتاہی کرے گی۔ممکن ہے وہ اس سے بڑھ کر لاپر واثابت ہو ،تو پھر آپ کیا کریں گے؟
آپ کا اطمینان اسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عورت سے کمی ، کوتاہی اور سستی ہوسکتی ہے اور پھر آپ یہ فیصلہ کرلیں کہ اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کروں گا۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


تنگی معاش میں شوہر کا ساتھ دینے کی نصیحت
﴿وعنھا قالت یاتی علینا الشھر مانوقد فیہ نارا انما ھو التمرو المآ ء الا ان یوتی باللحیم۔﴾
(
متفق علیہ)(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب کیف، کان عیش النبی ﷺ و اصحابہ، ح ۶۴۵۸)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض مہینہ ہم پر ایسا گزرتا تھا کہ ہم اس میں آگ نہ جلاتے تھے (یعنی بعض مرتبہ پورا پورا مہینہ ایسا گزرتا تھا کہ ہمارے گھر میں سامان خوراک نہ ہونے کی وجہ سے چولہے میں آ گ بھی نہیں جلتی تھی) اور ( اس عرصہ میں) ہماری غذا کا انحصار ( صرف) کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ اِ لا یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تھا“۔
اِلاَّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تھا“ کا مطلب یہ ہے کہ تنگی معاش کے اس عرصہ میں ہم صرف کھجوریں کھاکھا کر اور پانی پی پی کر گزارا کر لیا کرتے تھے، یا اگر کوئی شخص تھوڑا بہت گوشت بھیج دیا کرتا تھا تو اس کو کھا لیتے تھے۔ یا یہ مطلب ہے کہ گھر میں خوراک کا کوئی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی، ہاں اگر کہیں سے کچھ گوشت آجاتا تو اس کو پکانے کے لئے آگ جلالیا کرتے تھے۔
وعنھا قالت ماشبع ال محمد یومین من خبز برالا و احد ھما تمر۔ ( متفق علیہ)
(
صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ، ح ۶۴۵۵)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا ( کبھی نہیں ہوا ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے دو دن گیہوں کی روٹی سے اپنا پیٹ بھرا ہو اور ان دونوں میں سے ایک دن کی غذا کھجور نہ ہوئی ہو“۔  بخاری و مسلم
ہر وقت تنگیٴ معاش کا رونا نہ رو تی رہئے
﴿وعنھا قالت توفی رسول اللہ اوما شبعنا من الاسودین(صحیح البخاری، کتاب الا طعمہ، باب من اکل حتی شبع، ح ۵۲۸۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ہم نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کبھی ) دو سیاہ چیز وں یعنی کھجور اور پانی سے پیٹ نہیں بھرا“۔ ( بخاری و مسلم)
یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کس تنگی و سختی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور باوجود یکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو دنیا کی تمام لذات اور ایک خوش حال بافراغت زندگی گزارنے کے سارے وسائل و ذرائع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہوتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کمال ایثار و استغناء اور نفس کشی و ترک لذات میں عامل رہے۔
اسودین( دو سیاہ چیزوں)میں سے ایک سیاہ چیز کھجور ہے اور دوسری سیاہ چیز پانی! کو سیاہ چیز سے تعبیر کرنا مجاورت و مقارنت کی وجہ سے ہے اور اس طرح کا طرزِ کلام اہل عرب کی یہاں مستعمل ہے۔ جیساکہ ماں اور باپ کو ابوینیا چاند اور سورج کو قمرین کہتے ہیں، اس کو عربی میں تغلیبکہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد میں ” پانی کا ذکر “ کھجور کے ضمن و طفیل میں ہے۔ اصل مقصود کھجور ہی کا ذکر کرنا ہے، کیونکہ پانی نہ تو پیٹ بھرنے کے مصرف میں آتاہے اور نہ اس کی کوئی کمی ہی تھی، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والوں کو غذا کے طور پرکھجوریں بھی اتنی مقدار میں مہیا نہیں ہوتی تھیں جو پیٹ بھر نے کے بقدر ہوں، بلکہ بس اتنی ہی مہیا ہو جاتی تھیں جس سے پیٹ کو سہارا مل جاتا تھا۔
﴿وعن النعمان بن بشیر قال انتم فی طعام و شراب ما شئتم لقدرایت نبیکم و ما یجد من الدقل مایملا بطنہ۔﴾  صحیح مسلم، کتاب الزھد، ح ۲۹۷۷
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ( ایک موقع پر ) فرمایا: ” کیا تم لوگ اپنے کھانے پینے میں جس طرح چاہتے ہو عیش نہیں کرتے ( یعنی تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں اپنی خواہش کے مطابق و سعت و افراط اختیار کر کے عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہو)جب کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکارہ کھجوریں بھی اس قدر میسر نہیں ہوتی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ بھر دیتیں“ ( مسلم

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بیوی کی بے عزّتی نہ کرنے کی نصیحت
عام طور پر خاوند حضرات یہ کرلیتے ہیں کہ اپنی بیوی کی کسی غلطی پر اسے لوگوں کے سامنے روک ٹوک کرتے ہیں ۔ لوگوں کے سامنے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔لوگوں کے سامنے بے عزت کے دیتے ہیں او ر ڈانٹ پلادیتے ہیں۔ اپنے طور پر تو وہ اچھے بن جاتے ہیں۔ دوسروں کوتأثر یہ مل جاتا ہے کہ دیکھو گھر میں میرا کتنا کنٹرول ہے بہن کے سامنے بیوی کو ڈانٹ پلادی ۔ ماں کے سامنے بیوی کو ڈانٹ دیا۔ اور ماں کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے کہ ہاں ہمارا بیٹا تو گھر میں بہت کنٹرول رکھتا ہے ۔ بہن کہتی ہے کہ میرے بھائی کا تو گھر میں بہت کنٹرول ہے۔ یوں وہ اپنی ماں بہن کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے مگر حقیقتاً اپنی بیوی کی نظر میں انہوں نے اپنے وقار کو صفر بنا دیا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے۔ جب کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے تو پھر اس انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور یہ چیزگناہ میں شامل ہے ۔ اگر ایک چھوٹے بچے کو لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیا جائے تو وہ رونا شروع کردیتا ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ تو پھر عورت تو بالآخر بڑی ہوتی ہے، اس کوتو عزت نفس کی زیادہ پروا ہوتی ہے ۔ لہٰذا ااس کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اس کو نصیحت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو اور اگر تعریف کرنی ہے لوگوں کے سامنے کرو۔ اس نصیحت کو زندگی کا اصول بنالو تنہائی میں اگر بیوی کو جلی کٹی بھی سنادو گے بیوی بیچاری برداشت کرلے گی مگر لوگوں کے سامنے کی ذلت برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بیوی کو دوسروں کے سامنے کبھی بھی اس طرح تنقید کا نشانہ نہ بناوٴ ۔ وہ زندگی کی ساتھی ہے۔ تھوڑا وقت جو دونوں کو علیٰحد گی میں ملتا ہے اس میں ایک دوسرے کو سمجھا دو جو سمجھانا ہے لوگوں میں تم اس قسم کی باتیں نہ کرو۔
علماء نے لکھا ہے کہ بچہ جب تنہائی میں گرتا ہے اس کو زیادہ چوٹ لگتی ہے وہ نہیں روتا اور اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر لوگوں کے سامنے گر جائے ، اس سے آدھی چوٹ بھی لگے تو رونا شروع کر دیتاہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ وہ درد سے نہیں رورہا ہوتا عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے رورہا ہوتا ہے ۔ لہٰذا کبھی انسان کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔

 


خوش طبعی میں بھی سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی نصیحت
آپ کو ہم اس چیز کی ہر گز تاکید نہیں کر رہے کہ ہر وقت فقط ان رشتوں پہ ہی نظر رکھیئے بلکہ اپنی آخرت کی فکر بھی آپ کو دامن گیر رہنی چاہیے ۔ اسی لئے خوشی طبعی میں بھی جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دیجئے۔
عن ابی ھریرة قال قالو ایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) انک تد اعبنا قال انی لا اقول الاحقا۔
(
جامع الترمذی ، کتاب البروالصلة ، باب ما جاء فی المزاح ، ح ۔۱۹۹
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن اس خوش طبعی میں بھی سچی بات کہتا ہوں ۔“( ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسی مذاق بھی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتا تھا
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو زیادہ ہنسی مذاق کرنے سے منع فرمایا تو اس کے بعد انہوں نے مذکورہ سوال کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ ہنسی مذاق کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ اس میں عام طور پر جھوٹی باتوں اور غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔
خوش طبعی کا ایک اندازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
وعن انس ان رجلا استحمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقة فقال مااصنع بولد الناقة فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھل تلد الابل الاالنوق ۔ ( رواہ الترمذی وابو داوٴد ) (جامع الترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی المزاح،ح ۱۹۹۱)
اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کاایک جانور مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہاری سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا ۔ اس شخص نے (حیرت کے ساتھ) کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔“ (ترمذی ، ابو داوٴد)
اس شخص نے یہ سمجھاتھا کہ اونٹنی کے بچہ سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جو سواری کے قابل نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ سواری کے قابل جو اونٹ ہوتا ہے وہ بچہ تو اونٹنی ہی کا ہوتا ہے ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طلب پر مذکورہ ارشاد بطور خوش طبعی فرمایا اور پھر اس کی حیرت پر جو جواب دیا اس کے ذریعہ نہ صرف حقیقت مفہوم کو ادا کیا بلکہ اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اگر تم تھوڑی عقل سے کام لیتے اور میری بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو اس حیرت میں نہ پڑتے اور حقیقی مفہوم کو خود سمجھ لیتے لہٰذا اس ارشاد میں نرمی ظرافت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کرنا بھی مقصود ہے کہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ اس بات میں غور و تامل کرے جو اس سے کہی گئی ہے اور بغیر سوچے سمجھے سوال و جواب نہ کرے بلکہ پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور غور وفکر کے بعد آگے بڑھے ۔
(
وعنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ یا ذاالا ذنین ) (جامع الترمذی ،کتاب البروالصلة ، باب فی المزاح ، ح ۱۹۹۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے دوکانوں والے“۔ (ابو داوٴد، ترمذی )
تعریف پر مشتمل خوش طبعی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دوکانوں والے کے ذریعہ جو مخاطب فرمایا تو اس میں خوش طبعی و ظرافت بھی تھی اور ان کے تیئں اس تعریف و توصیف کا اظہار بھی مقصود تھا کہ تم نہایت فہیم و ذکی ہو اور تم سے جو بات کہی جا تی ہے اس کو تم خوب اچھی طرح سنتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑھیا کے ساتھ خوش طبعی فرمانا
وعنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الامراة عجوزانہ لا تدخل الجنة عجوز فقالت ومالھن وکانت تقرا القران فقال لھا اما تقرئین القران انا انشانھن انشاء فجعلنھن ابکارا۔ ) (رواہ رزین وفی شرح السنة بلفظ المصابیح و الترمذی فی الشمائل ، باب ماجاء فی صفة مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ص۲۰)
اور انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے جنت میں جانے کی دعا فرمائیں تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ( انا انشأنھن انشاء فجعلنھن ابکارا)یعنی ہم جنت کی عورتوں کو پید اکریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے پس ہم ان کو کنواری بنا دیں گے اس اعتبار سے یہ خوش طبعی مبنی برحقیقت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا درست ہو اکہ یہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی کیونکہ واقعتا کوئی عورت اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی۔ اس روایت کو رزین نے مذکور ہ الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور بغوی نے اپنی دوسری کتاب شرح ٰالسنتہ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو مصابیح میں مذکور ہیں ۔
مصابیح میں روایت کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے وہ یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ بوڑھی جنت میں داخل نہیں ہو گی یہ سن کر وہ عورت واپس ہوئی اور روتی ہو ئی چلی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کو جاکر بتادو عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ 😦 اناانشانھن انشاء فجعلنھن ابکار)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


شوہر کے رشتہ داروں سے محبت کرنے کی نصیحت
اے میری مسلمان بہن !
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ وہ ہے جو اپنے شوہر کے ماں باپ سے اسی طرح محبت کرتی ہو جس طرح وہ اپنے ماں باپ سے محبت کرتی ہے اس طرح شوہر کے دِ ل میں اس کی محبت بڑھے گی ۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی“اپنے خاوند کو ہمیشہ یہ باور کراتی ہے ۔ کہ اس کی سہیلیا ں ، اس کے شوہر کے والد ین اور عزیز واقارب سے زیادہ اہم نہیں ہیں کہ ان کے ہاں جانے کو ترجیح دی جائے ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ خوشی کے موقعوں پر اپنے خاوند کے خاندان والوں کے ساتھ خوشگوار اندزمیں پیش آتی ہے اور غمی کے موقعوں پران کے ساتھ غم خواری اور ہمدری کرتی ہے۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ اپنے خاوند کے والدین کے ساتھ بھی انتہائی احتیاط سے گفتگو کرتی ہے کہ مبادا اس کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جائے جس کی وجہ سے ان کو کوئی پریشانی یا تکلیف ہو۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ شروع سے آخر تک (ہر وقت ) اپنے شوہر کے ذہن میں یہ امر مستحضر رکھتی ہے کہ وہ اس کے والدین کی فرماں بردار ہے ، اپنی ملاقات، خوش گفتاری اور تعاون مالی کے ذریعہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس ”زوجہٴ صالحہ “ پر اپنی بے پایاں رحمت فرمائے جو اپنے شوہر سے یوں کہتی ہے:
میں تمہیں قسم دیتی ہو ں کہ تم حلال روزگا رہی حاصل کروگے ۔
میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ تم میری وجہ سے جہنم میں داخل نہیں ہوگے۔
اپنی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آوٴ ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، ان سے قطع نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے تعلق قطع کرلے گا۔
اے وہ خاتون جو”زوجہ ٴصالحہ “ کا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے ! اپنے شوہر کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں سے نیک سلوک کرو، بہت ممکن ہے کہ تم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب اور بامُر اد ہوجاوٴ۔یہ نصیحت ہے نصیحت پر عمل کر نے والو ں کیلئے ۔
رشتہ داروں کے ہاں صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں
رشتہ داروں کے ہاں جاناپڑتا ہے ، کبھی تقریبات میں جانا پڑتا ہے ، تو صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں ۔ صلہ رحمی کہتے ہیں رشتے داریوں کو جو ڑنا ، رشتے ناطوں کو جوڑنا ۔
اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ رشتے داریاں جوڑیں اور محبت و پیار کے ساتھ ر ہیں۔ جب بھی آپ تقریبات میں جائیں تو صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں ۔یہ نیت نہ ہو کہ ہم نہیں جائیں گی تو وہ بھی نہیں آئیں گے ۔ اپنی طرف سے آپ صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں تاکہ آپ کا جانابھی عبادت بن جائے۔
سسرال کے ساتھ تعلقات اور نصیحت
عورت کو چاہئے کہ اپنی اور اپنے شوہر کی خوشی کی خاطر وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار رکھے ۔ شوہر کے عزیز و اقارب کے ساتھ ناروا سلوک کی وجہ سے بہت سی شادیوں کا انجام طلا ق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خطابیوی ہی کی ہو۔ بسااوقات شوہر کے عزیز وں کی زیادتی ہو تی ہے او ر ان کا سلوک اس کی بیوی کے ساتھ ظالمانہ ۔ ایسے مواقع پر چاہئے کہ عورت منکسر مزاجی سے کام لے۔ عاجزی اختیار کرے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو سارا گھر تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گا۔
شادی کے بعد بیوی کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ ایک نئے گھر میں آئی ہے اور اجنبی حالات میں گھر گئی ہے۔ یہاں زندگی کا ڈھنگ اس کے اپنے اس گھر سے جسے وہ پیچھے چھوڑ آئی ہے، الگ ہے۔ رہن سہن اور اطوار قدرے مختلف ۔ اسے ان نئے حالات میں اپنی زندگی کو ڈھالنا ہوگا۔ اس کے لئے یہ کسی طور پر صحیح نہیں ہوگا کہ وہ اپنے خاوند سے اپنی شرائط منوانی شروع کردے اور سسرال والوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرے ۔ کچھ بیویاں اس حد تک آگے نکل جاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے قریبی عزیزوں کے درمیان اختلافات کی وسیع خلیج حائل کردیتی ہیں ۔ عورت اپنے خاوند کو اس کے ماں باپ سے بدظن کرنے کے لئے نئی نئی سکیمیں سوچتی ہے اور جھوٹی کہانیاں گھڑتی ہے ۔ ایسی کوششوں سے وہ دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خفگی مول لیتی ہے۔
بیوی اگراپنی نامعقول اور بری کوششوں میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے اور اپنی بری خواہشات کمزور خاوند پر مسلط بھی کردیتی ہے تو اسے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اس نے شوہر پر فتح پالی ہے ۔ اس کے برعکس شوہر دل میں اس سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے لیکن اپنی کمزوری یا دیگر وجوہات کی بناء پر وہ آواز نہیں اٹھاتا۔
شوہر کی اصلاح پسندی کی خصلت عورت کے غلط اور توہین آمیز رویے کو خاموشی مگر نفرت سے برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ عورت اگر شوہر کو اس کے عزیز و اقارب سے برگشتہ اور دور کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اسے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ شوہر کے دل سے اس کے لئے جو عزت اور محبت تھی اس کا جنازہ نکل گیا ہے۔
اکثر عورتوں میں لالچ اور حسد کی وجہ سے یہ خواہش شدت سے پیدا ہوجاتی ہے کہ شوہروں کی دولت صرف ان کے تصرف کے لئے ہو اور ان کے قبضہٴ قدرت میں ۔ شوہر اسے خوش رکھنے کی خاطر عیش و عشرت کے بیش قیمت سامان پر بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ اس کی ذاتی کاوش اور دولت بیوی کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے اور خوشیاں دینے کے لئے ہوتی ہے۔ بیوی کی محبت شوہر کو اس کا بے دام غلام بنادیتی ہے ۔ اس کی ایک مسکراہٹ کی خاطر وہ ہر طرح کی تکلیف برداشت کر لیتا ہے۔۔۔ لیکن جب کبھی کبھار شوہر اپنے عزیزوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو عورت کا رویہ اور برتاوٴ اس امر کی غمازی کرتا ہے جیسے شوہر اس کے حقوق کی ادائیگی میں ناکام رہا ہو۔ خود غرضی اور ناانصافی پر مبنی اس کا ہتک آمیز رویہ خاوند کے سردرد کا باعث بنتا ہے۔ وہ بے جا طور پر اصرار کرتی ہے کہ شوہر صلہ رحمی کے کاموں سے باز رہے۔
عورت کی چالبازیوں اور عشوہ طرازیوں سے مرعوب ہو کر وہ اس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ گھر کے سکون اور چین کو برباد ہو نے سے بچانے کے لئے اس کی غلط روش کے آگے سپر ڈال دیتا ہے ۔عورت ایک کمزور شوہر پر بظاہر فتح پالیتی ہے مگر یہ فتح کمزور، عارضی اور کھوکھلی فتح ہوتی ہے جو شوہر کے دل سے اس کی محبت کھرچ کر نکال دیتی ہے اور شوہر کو الحاد اور بے وفائی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور وہ اپنی آخرت سے بھی لاپرواہ ہوجاتا ہے۔
عورت کو اپنے اس قابل نفرت عمل اور کردار پر فخر نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کی یہ جھوٹی فتح درحقیقت دونوں جہانوں میں اس کے لئے بہت بڑی مصیبت کا باعث ہوگی کیونکہ اس غیر اخلاقی فعل سے وہ اپنے شوہر کو ناخوش کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔ شوہر کی خوشی اس کی جنت کا راستہ ہے اور شوہر کی ناراضگی اس کو جہنم کے راستے پر ڈال دیتی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اے عورت! دیکھ ۔ وہ (تمہارا شوہر ) تمہاری جنت ہے یا تمہاری دوزخ۔
مسلمان عورت کو چاہئے کہ اپنی سفلی خواہشات کو اپنے مجاہدہ کے ذریعہ قابو میں رکھے ۔ نفس امارہ کی خواہشات کتنی ہی منہ زور کیوں نہ ہوں اسے چاہئے کہ کمال ہو شیاری اور عقل مندی سے ان کو قابو میں رکھے ۔ ایسا نہ ہو کہ نفس کی گٹیا خواہشات اس کو اپنے دام فریب میں گرفتار کر لیں ۔ وہ اپنے مجاہدہ سے انہیں کچل ڈالے ایمان کی روشنی میں اپنی عقل کا امتحان لے۔
نفس کے آگے ہتھیار ڈال دینے سے وقتی طور پر اسے خوشی نصیب ہوگی لیکن بعد میں بد نصیبی کا سایہ اس کے سر پر منڈلائے گا۔ وہ اپنے شوہر کی محبت سے محروم ہو چکی ہوگی ۔ پاکیزگی اور خدمت کے جذبہ سے یکسر خالی زندگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اور تاریک ہو جائے گی ۔
اچھی ،سچی اور عقل مند مسلمان بیوی خاوند کو خوش رکھنے کی ضرورت سے بخوبی واقف ہوتی ہے اس کی اپنی ذاتی خوشی کا انحصار اس کے شوہر کی خوشی پر ہے ۔ وہ ایسا رویہ کیونکر اختیار کرے گی جس سے خاوند کی خوشی دھند لاجائے ۔ بری بیوی یہ کیوں نہیں سوچتی کہ خاوند سے اس کے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے دور کرکے وہ خود کبھی لازوال خوشیاں حاصل نہیں کر سکتی ۔ اپنے عزیزو اقارب کی مدد اور ان کے ساتھ محبت اور مہربانی کا برتاوٴ پاک اور مقدس عمل ہے۔
خاندان میں تفرقہ ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث میں خاندان میں پھوٹ ڈالنے کے خلاف سخت تنبیہ آئی ہے۔ صلہ رحمی پارہ پارہ کرنے کی بہت سخت سزا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اللہ تعالیٰ نے اپنی شان و شوکت ، طاقت ، عزت اور نور کی قسم کھائی ہے کہ جو خاندان کو توڑنے اور برباد کرنے کا باعث بنے گا اللہ اسے تباہ برباد کردے گا۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر بیویاں اس بری عادت میں مبتلا ہیں ۔ اپنے دلوں اور دماغوں میں اس ندی کو راہ دے کر وہ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اپنی رذیل خواہشات کی آبیاری کرتی ہیں۔حسد نے انہیں اندھا کر رکھا ہوتا ہے۔شوہر کے قریبی رشتہ داروں سے اس کے تعلقات کو خراب اور منقطع کرنے میں وہ دن رات ایک کردیتی ہیں ۔ اپنے نارواطور واطوار سے وہ نہ صر ف اپنے خاوند کو آخرت کے بہت بڑے ثواب سے محروم کردیتی ہیں بلکہ اپنے گھر کو تباہی کی غار میں دھکیل دیتی ہیں اور اللہ کی پھٹکار کی مستحق ٹھہرتی ہیں اس کے علاوہ عورت یہ بھی جان رکھے کہ اس کا یہ فعل صرف براہی نہیں بلکہ حرام ہے اور انتہادرجے کا گناہ بھی۔
حسد اور جلاپاانسانی جبلت کا خاصہ ہے۔ جب تک ان بری خواہشات پر قابو رکھا جائے اور ان کے اظہار سے پرہیز ، تو عورت گناہ میں ملوث نہیں ہوتی ۔
حق تو یہ ہے کہ اگر اس کا شوہر اپنے عزیزوں کی کچھ امداد کرتا ہے تو اس پر اسے بھی خوش ہونا چا ہیئے، شوہر کی خوشی اس کی اپنی خوشی ہو۔ اس طور کو اپنانے سے وہ جنت کی حقدار ٹھہریگی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو زور دے کر عدل و احسان کرنے کے لئے کہاہے وہاں خاص طور پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔
(
ان اللہ یا مربا لعدل والاحسان وایتای ذی القربی ) (النحل۹۰)
بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک کرنے اور قر ابت داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے
جولوگ رشتہ داروں کے فطری تعلق کو منقطع کرتے ہیں اور ان سے برا سلوک کرتے ہیں ان پراللہ تعالیٰ نے اس حد تک ناراضگی کااظہار کیاہے کہ انہیں ”فاسق“ کہہ دیا ہے۔
ومایضل بہ الا الفسقین ْالذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ماامر اللہ بہ ان یوصل۔ (البقرہ ۲۶)
اس سے وہ انہی کو گمراہ کرتا ہے جو خدا کا حکم نہیں مانتے اور خدا کا عہد باندھ کر توڑتے ہیں اور خدا نے جس کو جوڑنے کو کہا ہے اس کو کاٹتے ہیں۔
من سر ہ ان یبسط لہ فی رزقہ اوینسألہ فی عمر ہ فلیصل رحمہ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت ہو اور عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔
اس حدیث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انسان اپنے عزیزوں کو مالی امداد دے گا تو اس کا اپنا رزق کشادہ ہوگا اور اگر وقت صرف کرکے خدمت کرے گا تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگا ۔ عورت کو چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے سسرالی رشتہ داروں کی ضرورتیں پوری کر سکتی ہے تو ایسا کرنے سے دریغ نہ کرے ورنہ اپنے شوہر سے تقاضا کرکے ا ن کی مدد کر وائے۔ شوہر صلہ رحمی کا ثواب پائے گا اور وہ اس کو ترغیب دینے کے ثواب کی مستحق ہوگی۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

p منی سی عائشہ

Posted: مئی 10, 2012 by EtoPk in عمدہ ھدایات

 


بیوی کو وقت دینے کی نصیحت
عام طور پر خاوند یہ غلطی کرتے ہیں کہ بیوی کو وقت نہیں دیتے بلکہ جب وقت ملا ۔اب امی کے پاس بیٹھے باتیں چل رہی ہیں ۔رات کے بارہ بج گئے نیند سے جب آنکھیں پر ہوگئیں اب کمرے میں آکر دھم سے لیٹ گئے اور بیوی سے بات بھی نہ کی۔ کچھ پوچھا بھی نہیں کہ تم جیتی ہو یا مرتی ہو، تمہاری طبیعت ٹھیک ہے یا بیمار ہو ۔ اب اگر خاوند وقت ہی نہ دے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بیوی کا شرعی تقاضا ہے کہ اسے خاوند کا وقت ملے۔ لہٰذا وقت دینا چاہیے۔ کچھ نو جوانوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ دوستوں کی محفل کی زینت بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور رات کو بارہ ایک بجے گھر آنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ لوگ دوستوں کی محفل کو سنوار بیٹھتے ہیں اور اپنے گھر کو اجاڑ بیٹھتے ہیں۔ بھلا کیا فائدہ اس کا، بیوی کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے۔ کئی گھر میں آتو جلدی جاتے ہیں لیکن بہن بھائیوں میں بیٹھے رہتے ہیں یا ماں یا باپ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ۔ دوسرے افراد خانہ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں مگر بیوی کو وقت نہیں دیتے ۔ یہ چیز بالآخر جھگڑے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ بیوی کا بنیادی حق ہے۔ کہ خاوند اس کو وقت دے۔
بعض نیکو کا ر مردوں کی غلطی
کئی مرتبہ نیکوکاربھی اپنی بیو ی کو وقت نہیں دیتے۔ اوریہ بہت بڑی غلطی کر لیتے ہیں۔ جب یہ بیوی کو وقت نہیں دیتے تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے کہ گھر کی زندگی بے مزہ ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ امیر الموٴمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک عورت آئی ۔
ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت تھی ۔ اس کے سامنے آکر اس نے اپنے خاوند کی تعریفیں شروع کردیں ۔ کہنے لگی کہ میر ا خاوند بڑا نیک ہے، بہت اچھا ہے، سارا دن روزہ رکھتا ہے ، ساری رات عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا قرآن پڑھنے میں وقت گزار دیتا ہے اور یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے حیران ہوئے کہ یہ عورت اپنے خاوند کی بڑی تعریفیں کررہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر پوچھا تو کیوں آئی اس نے پھر کہا میرا خاوند بڑانیک ہے سارا دن روزہ رکھتا ہے ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے ۔ یہ کہہ کر پھر چپ ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات نہ سمجھ سکے حیران تھے تو ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ، اے امیر الموٴمنین ! اس عورت نے بڑے پیارے لفظوں میں اپنے خاوند کی ایک کمزوری آپ کے سامنے پیش کردی اور یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہے تاکہ آپ اس کے خاوند کو سمجھا ئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، کونسی کمزوری ؟ اس کا خاوند تو بڑا نیک نظر آتا ہے۔ اس نے کہا، کہ یہی تو وہ کہنا چاہتی ہے کہ سارا دن روزہ رکھتا ہے اور ساری رات عبادت کرتا ہے لیکن بیوی کے پاس وقت گزارنے کے لئے فرصت ہی نہیں۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سوچنے لگے کہ کتنے پیارے انداز سے بیوی نے اپنے خاوند کی شکایت کی ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو بلایا ۔ وہ ایک صحابی تھے۔ بڑے نیک تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت سے سر شار تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کو دن میں بھی روزے سے رکھتی اور ساری رات مصلےٰ پہ کھڑا رکھتی ۔ قرآن کی تلاوت کے مزے لیتے تھے ،جب وہ آئے تو انہوں نے کہا جی ہاں ۔ میں اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اتنا مزہ پاتا ہوں میری بیوی کی طرف توجہ نہیں جاتی ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جب آپ نے مسئلے کو سمجھا اب مسئلے کا حل بھی آپ سمجھادیجئے۔ چنانچہ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے ان کو کہا کہ دیکھو شریعت نے حکم دیا ہے۔ اس لئے تم اپنی بیوی کو وقت دو۔ تمہیں چاہیے کہ اگر تم تین دن روزہ رکھنا بھی چاہتے ہو تو رکھو مگر چوتھا دن افطار کرو اور دن تم اپنی بیوی کے ساتھ گزارو ۔ یہ سن کر وہ تو چلے گئے اور بیوی بھی خوش تھی کہ ہر تین دن کے بعد خاوند سے وقت مل جائیگا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ تین دن کی شرط کیسے لگائی۔کہنے لگے کہ میں نے قرآن مجید کو دیکھ کر لگائی ۔ قرآن مجید میں ایک مرد کو زیادہ سے زیادہ چار عورتوں کے ساتھ شادی کی اجازت دی ۔اگر بالفرض کوئی چار شادیاں بھی کر لے تو ہر عورت کو تین دنوں کے بعد چوتھی رات مل جائے گی ۔ اس لئے میں نے شرط لگا دی کہ تم زیادہ سے زیادہ تین دن تک روزے رکھ سکتے ہو۔ چوتھے دن افطار کرکے تمہیں اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارنا پڑے گا۔ تو کئی مرتبہ نیک لوگ بھی اپنی نیکیوں میں لگ کے اپنی بیویوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بہت خطرناک غلطی ہے۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


شو ہر سے محبت ودوستی رکھنے کی نصیحت
اے میر ی مسلما ن بہن !
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ وہ ہے جو ہمیشہ اپنے شو ہر کے سا منے اپنی خو ش بختی کا اظہا ر کر تی ہے اور اس کو اپنے قریب تر ین لو گو ں میں مقد م رکھتی ہے ۔
حکما ء کہتے ہیں کہ ’ چار آ د می عورت کی آ نکھو ں کی ٹھنڈ ک ہیں ۔ اس کا با پ ، اس کا بھا ئی ، اس کی اولا د اور اس کا شو ہر ، اور بہتر ین عورت وہ ہے جو اپنے تما م رشتہ دارو ں پر اپنے شو ہر کر تر جیح دیتی ہو ، بلکہ اس کو اپنی ذات پر بھی تر جیح دیتی ہو ۔
پس ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ وہ ہے کہ جب کبھی شو ہر کے ساتھ کو ئی نز اع یا اختلا ف پید ا ہو تو معا ملہ اپنے یا اس کے خا ند ان تک نہیں پہنچا تی بلکہ اپنے گھر کے اندر ہی اس کو نمٹا تی ہے ۔
اے میر ی مسلما ن بہن !
جو عورتیں شو ہر کی عد م مو جو د گی میں اپنے خا و ند کی با تیں آ پس میں کر تی ہیں اپنے شو ہر کی شکو ة وشکایت ایسی بد مز اج عورتو ں سے کر تی ہیں جو اپنے شو ہر و ں کے ساتھ بد سلیقہ اور بد اطو ارہو تی ہیں تو اس و قت معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کو شو ہر سے کو ئی دِ لی محبت نہیں ہے ۔ لیکن ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ ایسی نہیں ہو تی ، وہ شو ہر کے ساتھ عد اوت ودشمنی کے اسبا ب کو اپنے گھر میں ہی دفن کر دیتی ہے ۔ ” نیک بیو ی “ اپنے شر یک حیا ت کی غلطیو ں کا مُسکر ا کر مقا بلہ کر تی ہے ، کیو نکہ وہ اپنے شو ہر سے دِ لی تعلق اورمحبت رکھتی ہے ، تاکہ رائی کا پہا ڑ نہ بنے ۔ نیک بیو ی کا اپنے شو ہر کو اپنے رشتے دار وں پر تر جیح دینا اوراس تعلق ومحبت کی بہتر ین مثا ل ہے ۔ ایک دیہا تی عورت نے اپنی بیٹی کو اسی با ت کی نصیحت کی تھی، اس نے اپنی بیٹی سے کہا : ” خو ب جا ن لے کہ تم اپنے شو ہر کی رضا مند ی کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ تم اس کی خو اہش کو اپنی خو اہش پر تر جیح نہ دو گی ۔
اس زما نے میں محبت وتعلق کی سب سے نما یاں صورت جو نیک بیو ی سے مطلو ب ہے ، وہ یہ ہے کہ اپنے خا وند کی طبیعت ومزا ج کا خیا ل رکھے ، اس کا طر یقہ یہ ہے کہ وہ خا وند کے را ز کا افشا ء نہ کر ے ، کیو نکہ یہ وہ چیز ہے کہ اگر اس کا خیا ل نہ رکھا جا ئے تو شو ہر کے سینہ میں غصہ کی آ گ بھڑ ک جا تی ہے ۔لہٰذا اس سے بچنا چا ہئے ۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

زوجہ صالحہp

Posted: مئی 5, 2012 by EtoPk in عمدہ ھدایات

 


تلاش معاش پر جانے والوں کی غلطی
بعض دفعہ لوگ تلاش معاش کے سلسلے میں لمبے عرصے کیلئے جاتے ہیں۔ لہٰذا بیوی کو وقت نہیں دے پاتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آرہے تھے ۔ رات کا وقت تھا ایک گھر سے ان کواشعار کی آواز سنائی دی جس سے پتہ چلا کہ ایک جوان بیوی اپنے خاوند کی محبت میں شعر پڑھ رہی تھی ۔ چنانچہ وہ گھر آئے اور ام الموٴمنین سید ہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ مجھے بتاوٴ کہ ایک عورت اپنے میاں کے بغیر کتنا وقت آرام سے گزارسکتی ہے۔ انہوں نے کہا، جتنی اللہ تعالیٰ نے عدت متعین کی ہے۔ یعنی چار مہینے دس دن کی بات ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قانون بنادیا کہ ہر مجاہد جو جہاد میں جائے گا چار مہینے کے بعد بالآخر گھر آئے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ کچھ وقت گزار ے گا۔ سوچئے کہ اگر ام الموٴمنین سید ہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاکیزہ شخصیت جو امت کی ماں ہیں وہ فرماتی ہیں کہ چار مہینے کی مدت زیادہ سے زیادہ ہے تو جو لوگ سالوں اپنی روزی کی خاطر دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں ۔ اور جی جوان بیٹا ہے مگر انگلینڈ چلاگیا اور اس کی بیوی ہمارے پاس رہتی ہے۔ اب ذراسوچئے کہ بیوی ایک سال دوسال خاوند کے بغیر رہے گی ۔ پھر گھر میں کیا معاملہ ہوگا ۔شیطان کو کتنا موقع ملے گا اس کی بیوی کو ورغلانے کا اور گنا ہ پر اکسانے کا۔ اِدھر بیوی گناہ کرے گی اُ دھر خا وند گناہ کرے گا ۔ اور اگر گناہ نہیں کریں گے تو گناہ کی حسرت تو ا ن کے ذہن میں رہے گی ہی سہی ۔ تو پھر بھی تو عبادت میں دل نہیں لگے گا۔ لہٰذا ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے چار مہینے سے زیادہ جدا نہ ہوں ۔ ہاں کبھی کوئی ایسی ضرورت ایک مرتبہ پڑجائے جیسے بالفرض کوئی نو مہینے کے لئے چلاگیا یا سال کے لئے چلا گیا ۔ بیوی بھی بخوشی اجازت دیتی ہے اور خاوند بھی راضی ہے تو پھر ایسی صورت حال میں یقینا بیوی اپنے وعدے کا پاس کرے گی ۔ اس لئے کہ اس کے مشورے سے یہ بات طے ہوئی ۔مگر عام حالات میں دیکھا جاتا ہیں کہ بچے دوسرے ملک میں کاروبار کرنے کے لئے کو ئی سعودی عرب گیا پانچ سال سے نہیں آیا ۔ کوئی فلاں وجہ سے گیا سات سال سے نہیں آیا ۔ یہ بہت معیوب بات ہے۔ بیوی کا حق ہے اور یہ وقت دیناخاوند کی ذمہ داری ہے ۔ روزی ملتی ہے نہیں ملتی گھر واپس آوٴ تم بھی بھوکے رہوگے بیوی بھی تمہارے ساتھ بھو ک برادشت کرلے گی ۔ اسے تمہاری ضرورت ہے، اسے مرغن غذاوٴ ں کی ضرورت نہیں ۔ لہٰذا اس نصیحت کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور یہ غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے کہ انسان اپنی بیوی کو وقت نہ دے۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


شو ہر کے سامنے اپنی آ و از کو پست رکھنے کی نصیحت
اے میر ی مسلما ن بہن !
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ گفتگو کے آ د اب وحد ود سے واقف ہو تی ہے ، وہ کبھی کبھا ر اپنے شوہر سے بحث ومبا حثہ بھی کر تی ہے لیکن اپنی آ واز کو بلند نہیں کر تی ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ جا نتی ہے کہ شو ہر کے سا منے بلند آ و از سے گفتگو کر نا بے حیا اورآوارہ عورتو ں کا شیو ہ ہے ، اسی لیے وہ ڈرتی ہے کہ کہیں وہ اس فعلِ شنیع میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔
اچھی بیو ی “ وہ ہے کہ اگر کبھی اس سے آ واز اونچی بھی نکل جا ئے تو وہ اپنے کیے پر نا دم و شر مند ہ ہو تی ہے اور رو تی ہے اور شو ہر کی رضا جو ئی کی طلبگا ر ہو تی ہے ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ پست آ و از ، خو ش گفتا ر اور پا ک دل ہو تی ہے ۔
لیجئے! حد یثِ نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھیے ! اور اس سے سبق حا صل کیجئے !
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ :” (ا یک مر تبہ ) حضر ت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ نے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے اند ر آ نے کی اجا زت ما نگی ، ( گھر آ ئے تو دیکھا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا با ٓ وازِ بلند یہ کہہ رہی ہیں کہ خد ا کی قسم ! حضرت علی رضی اللہ عنہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو میر ے والد سے زیا دہ محبو ب ہیں ، ( یہ سن کر ) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ طما نچہ ما ر نے کے لیے ان کی طر ف لپکے اور فر ما یا: اے فلا ں کی بیٹی ! میں تمہیں دیکھتا ہو ں کہ تم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا منے اپنی آ واز کو بلند کر رہی ہو ! رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غصے کی حا لت میں گھر سے نکل گئے، پھر آ نحضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” اے عائشہ ! تم نے دیکھا ! میں نے تجھے ایک آ د می سے کیسے چھڑ ایا ؟ اس کے بعد ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ دو بار ہ گھر میں داخل ہو ئے اور دیکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی صلح ہو چکی ہے ، فرمایا : مجھے بھی اپنی صلح میں شا مل کر لو ، جس طر ح تم نے مجھے اپنی لڑ ائی میں شا مل کیا تھا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ”ٹھیک ہے ! ہم نے آ پ کو بھی شا مل کر لیا ۔ “ ( ابو د واد : ۴۹۹۹)
اے میر ی مسلما ن بہن !
ایک دیہا ئی شخص سے کسی نے کہا کہ عورتو ں کی بُرا ئی بیا ن کر و تو وہ کہنے لگا : ” عورتو ں کی بُر ائی یہ ہے کہ عورتیں ، زبا ن دراز ، مغر ور ومتکبر ، نفر ت کر نے والی اور کو دکر د کر پڑ نے والی ہو تی ہیں ، ان کی زبا ن نیز ے کی ما نند ہو تی ہے ، نا ک آسما ن پر اور سر ین پا نی میں ہو تی ہے ، غصے میں رگیں پھو ل جا تی ہیں ، گفتگو ایسے جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار او رسخت ہو تی ہے ۔
غور کیجئے ! اس آ خر ی جملے میں : ” گفتگو ایسی جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار اور سخت ہو تی ہے ۔ “ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ایسی عورت ” زوجہ صا لحہ “ کے مر تبہ کو نہیں پہنچ سکتی ۔ یقینا ایسی عورت بد تر ین عورت ہے ۔
اسی طر ح ایک دیہا تی آ د می سے جب نیک بیو ی کے بار ے میں پو چھا گیا تو کہنے لگا : ” نیک عورت “ وہ ہے کہ با ت کر ے تو سب سے زیا دہ سچ بو لنے والی ہو ، جب غصے میں آ ئے تو بر دبا ر ہو جا ئے ، جب ہنسے تو مسکر ا ہٹ اس کے لبوں پر کھلنے لگے ، جب کوئی چیز بنا ئے تو عمد ہ بنا ئے ، اپنے خا و ند کی فر ماں بر دار ہو ، اپنے گھر میں قرار سے رہتی ہو ، اپنے قبیلہ وخا ند ان میں معز ز ومحتر م ہو ، اپنے آپ کو کم تر سمجھتی ہو ، اپنے خا وند سے بہت محبت کر نے والی ہو اور زیا دہ بچے جنتے والی ہو ، اس کا ہر کا م قا بلِ ستا ئش ہو ۔ “ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner