علیٰحدہ رہا ئش کا مطالبہ اور اہم نصیحت
اسلام نے بیوی کو ایک حق یہ بھی دیا ہے کہ اس کی رہا ئش کا کو ا رٹر علیحدہ ہو ۔ شوہر پر اس کا حق واجب ہی نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہا ئش کے لئے علیحدہ کو ارٹر مہیا کر ے ۔ ایک بڑے گھر میں اگر ایک سے زیادہ خا ندان آ باد ہیں تو علیحدہ ایک کمرہ ، جس میں کوئی دو سرا خلل انداز نہ ہو ۔
عور ت کے سونے کا کمرہ ، جس پر اس کا مکمل اختیار ہو نا چا ہئے ۔ یہ اس کے اسلامی حق کے دائرہ کا ر میں آتا ہے اور اس کا اسے قانونی حق بھی حا صل ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کے والدین کو بلکہ اپنے والدین کو اپنے ذاتی سونے کے کمرے میں آنے سے منع کر دے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیوی کا طے شدہ اور ماناگیا حق ہے ۔ مگر عورتوں کو اس امر کا بھی علم ہو نا چا ہئے کہ اکثر شوہر شر یعت کے قوانین سے نا بلد ہو تے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کو علم ہو تا بھی ہے تو ان کو پورا کر نے میں تساہل بر تتے ہیں ۔ دین سے دوری کے اس دور میں شو ہر حضرات اپنے دینی حقوق وفرائض کا بہت کم علم رکھتے ہیں وہ اپنی نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہونے کے سبب برداشت کے مادہ سے عاری ۔ اگر کسی نے اپنے حق کی با ت منوانے کی کو شش کی تو اس پر بھڑک اٹھتے ہیں ۔ عقل مند بیوی یہ سمجھ لے کہ اگر اس نے اپنے حقوق کے حصول پر اصرار کیا تو وہ گھر یلو خوشیاں حاصل کر نے میں کامیاب نہ ہو گی ۔ ایسا کرنے پر نہ صرف اس کا شوہر اس سے نفرت کرنے لگے گا بلکہ اس سے دوردور رہنے کی کوشش کرے گا۔
بعض اوقات شوہر نا مساعد حالا ت کی وجہ سے بیوی کے لئے فو ری طور پر علیٰحدہ گھر کو ا رٹر کا بندوبست نہیں کر سکتا ۔ بیوی کو شو ہر کی مجبو ری کا احساس ہو نا چا ہئے اور وہ صبر سے اچھے دنوں کا انتظار کر ے ۔ وہ عیب گیری کر کے شوہر کو اس امر پر مجبو ر نہ کر ے کہ ہر صورت میں اس کی اس ضرورت کو پورا کر ے ۔
جہاں بیوی سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہو تی ہے تو جان بو جھ کر ایسی سکیمیں تیا ر کر تی ہے جن سے سسرال والوں کے لئے مسائل پیدا ہو جائیں ۔ روزروز کے جھگڑوں سے خاوند کے تعلقا ت اپنے عزیزوں سے بگڑ جائیں جن کی وجہ سے صلہ رحمی سے باز آجا ئے اور ان کی امداد سے اپنا ہا تھ ر وک لے ۔ خاوند اپنے اس رویہ کی وجہ سے عذاب کا مستحق ٹھہر ے گا ۔
مسلما ن بیوی کو چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یاد رکھے کہ اسے آخرت میں اپنے اعمال کی جو ابدہی کر نا ہو گی ۔ وہ اپنے حقوق کے حصول کی خا طر اس قدر آگے نہ بڑ ھے کہ شوہر کی حکم عدولی کے گنا ہ کی مرتکب ہو ۔ اپنے حقوق کے حصول کی خواہش میں اسے چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں عمل کرے ۔ اس کے ذہن میں رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
” اے عورت ! دیکھ ۔ وہ (تمہا را شوہر ) تمہا ری جنت ہے یا دوزخ “
” عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش رکھے جب وہ اس کی طرف دیکھے۔ اطاعت کر ے جب وہ اسے حکم دے … اور اپنے اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ نہ اختیا ر کر ے جو شو ہر کو نا پسند ہو ۔“
( بہ روایت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ، نسائی)
کچھ عورتیں شادی کے پہلے دن ہی علیٰحدہ گھر کا تقاضا کر دیتی ہیں ۔ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کسی صورت میں بھی ہنسی خوشی رہنا گواراہ نہیں کر تیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ نئے نئے ڈھونگ رچا تی ہیں ۔ زبان درازی پر اتر آتی ہیں اور لڑائی جھگڑا کر تی ہیں ۔ یوں اپنے خاوند اور اس کے عزیزوں کا جینا حرام کر دیتی ہیں ۔ اپنے مقصد کے حصول کی خا طر وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں اٹھا ر کھتیں ۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کی خو شی اور احسا سات کا ذرہ برابر خیال نہیں کرتیں ۔ حالات کے ساز گار ہو نے کا انتظار نہیں کر تیں ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ بس ان کی خواہش اور ضرورت دم بھر میں پو ری ہو جائے ۔ ان کا یہ رویہ بجا نہیں ہے ۔ خاوندکے ساتھ انہیں اپنی پو ری زندگی بسر کر نی ہے لیکن وہ اپنی بے صبری اور حما قت سے شادی کے آغاز ہی میں اپنی راہ میں کا نٹے بچھا دیتی ہیں ۔
بیوی کو اچھے دنوں کا انتظار کر نا چاہئے ۔ وہ صبر اور دعا کو اپنا شعار بنائے ۔ یہ عورت کی کم عقلی اور اسلامی قوانین سے بے خبری کی دلیل ہو گی اگر وہ خا وند کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کے عزیز و اقارب سے بر گشتہ اور علیٰحدہ کر دے ۔ ایسے بر ے حالا ت پیدا کر دینا کہ خا وند کو دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے ، اپنے والدین کو چھوڑ ے یا بیوی کو ، ایک اچھی مسلما ن عورت کا طور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔
اسلام نے بیوی کو ایک حق یہ بھی دیا ہے کہ اس کی رہا ئش کا کو ا رٹر علیحدہ ہو ۔ شوہر پر اس کا حق واجب ہی نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہا ئش کے لئے علیحدہ کو ارٹر مہیا کر ے ۔ ایک بڑے گھر میں اگر ایک سے زیادہ خا ندان آ باد ہیں تو علیحدہ ایک کمرہ ، جس میں کوئی دو سرا خلل انداز نہ ہو ۔
عور ت کے سونے کا کمرہ ، جس پر اس کا مکمل اختیار ہو نا چا ہئے ۔ یہ اس کے اسلامی حق کے دائرہ کا ر میں آتا ہے اور اس کا اسے قانونی حق بھی حا صل ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کے والدین کو بلکہ اپنے والدین کو اپنے ذاتی سونے کے کمرے میں آنے سے منع کر دے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیوی کا طے شدہ اور ماناگیا حق ہے ۔ مگر عورتوں کو اس امر کا بھی علم ہو نا چا ہئے کہ اکثر شوہر شر یعت کے قوانین سے نا بلد ہو تے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کو علم ہو تا بھی ہے تو ان کو پورا کر نے میں تساہل بر تتے ہیں ۔ دین سے دوری کے اس دور میں شو ہر حضرات اپنے دینی حقوق وفرائض کا بہت کم علم رکھتے ہیں وہ اپنی نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہونے کے سبب برداشت کے مادہ سے عاری ۔ اگر کسی نے اپنے حق کی با ت منوانے کی کو شش کی تو اس پر بھڑک اٹھتے ہیں ۔ عقل مند بیوی یہ سمجھ لے کہ اگر اس نے اپنے حقوق کے حصول پر اصرار کیا تو وہ گھر یلو خوشیاں حاصل کر نے میں کامیاب نہ ہو گی ۔ ایسا کرنے پر نہ صرف اس کا شوہر اس سے نفرت کرنے لگے گا بلکہ اس سے دوردور رہنے کی کوشش کرے گا۔
بعض اوقات شوہر نا مساعد حالا ت کی وجہ سے بیوی کے لئے فو ری طور پر علیٰحدہ گھر کو ا رٹر کا بندوبست نہیں کر سکتا ۔ بیوی کو شو ہر کی مجبو ری کا احساس ہو نا چا ہئے اور وہ صبر سے اچھے دنوں کا انتظار کر ے ۔ وہ عیب گیری کر کے شوہر کو اس امر پر مجبو ر نہ کر ے کہ ہر صورت میں اس کی اس ضرورت کو پورا کر ے ۔
جہاں بیوی سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہو تی ہے تو جان بو جھ کر ایسی سکیمیں تیا ر کر تی ہے جن سے سسرال والوں کے لئے مسائل پیدا ہو جائیں ۔ روزروز کے جھگڑوں سے خاوند کے تعلقا ت اپنے عزیزوں سے بگڑ جائیں جن کی وجہ سے صلہ رحمی سے باز آجا ئے اور ان کی امداد سے اپنا ہا تھ ر وک لے ۔ خاوند اپنے اس رویہ کی وجہ سے عذاب کا مستحق ٹھہر ے گا ۔
مسلما ن بیوی کو چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یاد رکھے کہ اسے آخرت میں اپنے اعمال کی جو ابدہی کر نا ہو گی ۔ وہ اپنے حقوق کے حصول کی خا طر اس قدر آگے نہ بڑ ھے کہ شوہر کی حکم عدولی کے گنا ہ کی مرتکب ہو ۔ اپنے حقوق کے حصول کی خواہش میں اسے چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں عمل کرے ۔ اس کے ذہن میں رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
” اے عورت ! دیکھ ۔ وہ (تمہا را شوہر ) تمہا ری جنت ہے یا دوزخ “
” عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش رکھے جب وہ اس کی طرف دیکھے۔ اطاعت کر ے جب وہ اسے حکم دے … اور اپنے اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ نہ اختیا ر کر ے جو شو ہر کو نا پسند ہو ۔“
( بہ روایت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ، نسائی)
کچھ عورتیں شادی کے پہلے دن ہی علیٰحدہ گھر کا تقاضا کر دیتی ہیں ۔ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کسی صورت میں بھی ہنسی خوشی رہنا گواراہ نہیں کر تیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ نئے نئے ڈھونگ رچا تی ہیں ۔ زبان درازی پر اتر آتی ہیں اور لڑائی جھگڑا کر تی ہیں ۔ یوں اپنے خاوند اور اس کے عزیزوں کا جینا حرام کر دیتی ہیں ۔ اپنے مقصد کے حصول کی خا طر وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں اٹھا ر کھتیں ۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کی خو شی اور احسا سات کا ذرہ برابر خیال نہیں کرتیں ۔ حالات کے ساز گار ہو نے کا انتظار نہیں کر تیں ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ بس ان کی خواہش اور ضرورت دم بھر میں پو ری ہو جائے ۔ ان کا یہ رویہ بجا نہیں ہے ۔ خاوندکے ساتھ انہیں اپنی پو ری زندگی بسر کر نی ہے لیکن وہ اپنی بے صبری اور حما قت سے شادی کے آغاز ہی میں اپنی راہ میں کا نٹے بچھا دیتی ہیں ۔
بیوی کو اچھے دنوں کا انتظار کر نا چاہئے ۔ وہ صبر اور دعا کو اپنا شعار بنائے ۔ یہ عورت کی کم عقلی اور اسلامی قوانین سے بے خبری کی دلیل ہو گی اگر وہ خا وند کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کے عزیز و اقارب سے بر گشتہ اور علیٰحدہ کر دے ۔ ایسے بر ے حالا ت پیدا کر دینا کہ خا وند کو دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے ، اپنے والدین کو چھوڑ ے یا بیوی کو ، ایک اچھی مسلما ن عورت کا طور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔