Posts Tagged ‘Marriage’



#… تیری ناپسندیدہ حالت تیرے شوہر کو غمگین نہ کرے ،نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظر پڑے یااچانک سامنے آجائے تو تیرے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوں۔
#… خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے اس کو خوب راضی اور خوش کرو، جتنی تم اس کی اطا عت کر و گی اور اس کو خوش رکھو گی اسی قدر وہ آپ کی محبت کو محسو س کر ے گا اور آپ کو بھی خوش رکھنے کی کو شش کر ے گا ۔
# … آپ کے شو ہر سے لغزش ہو جا ئے تو منا سب مو قع اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر و ۔
# … کشادہ دِل ہو جاؤ شوہر کی طرف سے ہو نے والی منفی با تیں فرامو ش کر دو۔
#… اپنی عقلمندی اور شو ہر کے ساتھ اپنی محبت و تعلق کے ذر یعہ اس کی غلطیوں کی اصلاح کر و ، شو ہر کے جذبا ت مجروح کر نے کی ہر گز کو شش نہ کرو۔
# … اپنے شوہر کے سا منے کسی اجنبی آدمی کی تعریف نہ کرو ، ہاں البتہ اگر کو ئی دینی صفت اس میں ہو تو کو ئی حر ج نہیں۔
# … شو ہر کے متعلق کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
# … شو ہر کے سا منے ہمیشہ وہی بات کرو ، جو اس کو پسند ہو اور وہی کام کر و جو اس کی نظر میں اچھا ہو ۔
#… اپنے خا وند کو یہ با ت سمجھا ؤ کہ جب بھی اس کی طرف سے شدت کا اظہار ہو وہ احترام کا دامن ہا تھ سے نہ جانے دے ، کیونکہ یہ شدت ، عارضی اور وقتی ہوتی ہے ۔
#… اپنے خا وند کو باور کر اؤ کہ جب اس (خاوند ) کے والدین یا اعزہ واقربا ء میں سے کوئی بیما ر ہو تو دونوں کو اس کی بیما ر پر سی کر نی چا ہیے ، نہ یہ کہ صرف خاوند ہی اس کی بیما ر پر سی کر ے ۔
#… جب مالی تنگی پیش آئے تو آزردہ خاطر نہ ہو ، اپنے شو ہر کو بتا ؤ کہ اس کو اللہ نے بہت سی خیریں عطا فرمائی ہیں ۔
# … کو شش کر و کہ جب وہ ہنسے تو تم بھی ہنسو اور جب وہ روئے یا غمگین ہو تو تم بھی غم و حزن کا اظہار کر و ۔
# … جب وہ بات کر ے تو پوری تو جہ سے سنو اور خاموش رہو۔
#… اس کے دِ ل میں نہ بٹھا وٴ کہ تم اس سے ہمیشہ فلا ں چیز ما نگتی ہو ، ہا ں اگر اس کے ذ کر کر نے سے وہ خو ش ہوتا ہوتو پھر کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
#… ایسی غلطیاں بار بار کر نے سے پر ہیز کر و جس کے متعلق تم جا نتی ہو کہ تمہارا شو ہر ان کو پسند نہیں کر تا یا ان کو دیکھنا نہیں چا ہتا ۔
#… جب آپ کا شوہر گھر میں نفل نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے کھڑی ہو جا یا کرو اور نماز پڑھا کرو اور جب کو ئی علم کی کتا ب پڑھے تو تمہیں بھی بیٹھ کر اس کو سننا چا ہیے ۔
#… شوہر کے سامنے اپنی ذاتی آرزوؤں کے با رے میں زیادہ با تیں نہ کیا کرو۔
#… ہر چھو ٹی بڑی بات میں خاوند کی رائے کو ترجیح دو ، آپ کی اس سے محبت ، اکثر مو قعوں پر اس چیز کو ظاہر کر تی ہو۔
#… شوہر جو راز بیا ن کر ے اس کی حفا ظت کر و، اس کا افشا ء نہ کرو، خواہ آپ کے ماں با پ کا کیوں نہ ہو ، کیونکہ اگر تم اس کے راز کو کھولو گی تو اس کے سینہ میں غصے کی آ گ بھڑک سکتی ہے اور کینہ و عداوت پیدا ہوسکتی ہے ۔
# … کسی پیرا یہ میں بھی اپنا تعلیم یا فتہ اور ڈگر ی ہو لڈر ہونا بیان نہ کر و ، کیونکہ یہ چیز نفرت کا سبب بنتی ہے ۔
# … اپنے شو ہر کے ساتھ نر م انداز میں پیش آؤ ، ورنہ گھر ، با زار والا نقشہ پیش کر ے گا ۔
# … جب گھر میں کشید گی یا نا چاکی پیدا ہو تو گھر چھو ڑ نے کا کبھی نہ کہو ، کیونکہ اس سے اس کے دِل میں آئے گا کہ تم اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتی ہو ۔
# … جب خاوند گھر سے جانے لگے تو اس کے سامنے اپنی آزردگی اور بے چینی کا اظہا ر کرو۔
#… جب کہیں جا نے کا کوئی پروگرام ہواور وہ کسی وجہ سے کینسل کر ے تو اس کے عذر کو قبول کر و ۔
# … اس کے سامنے غیرت کا اظہا ر نہ کرو ، کیونکہ یہ تبا ہی لا نے والا ہتھیار ہے ۔
# … اپنے خاوند سے یوں بات نہ کر و کہ جس سے تم بے قصور معلوم ہو اور وہ قصور والے ۔
# … خاوند کے جذبات کا خیال رکھو، اس کے سامنے اپنے رشتہ داروں کے فضا ئل زیادہ ذکر نہ کرو ۔
#… اپنے خا وند سے جھو ٹ با لکل نہ بولو ، کیونکہ اس سے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی ۔
#… اپنے کو یہ با ت ہمیشہ با ور کر اؤ کہ اگر وہ اس سے شادی نہ کر تا تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر تی ؟
#…کبھی ایسی حالت اختیا نہ کرو جو تیرے شوہر کو اچھی نہ لگے بہترین عورت وہ ہے جس پر اُس کے خا وند کی نظر پڑے تو اس کی سعادت ، اچھی حالت اس کی آنکھوں کے سا منے نمایاں ہو۔
#… جب بھی تیری طرف خا وند نظر کر ے تو تیر ے ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ نمایاں ہو ۔
#… اپنے شوہر کی نافرماں بردار ی سے اسے بہت زیادہ راضی کر تیری فرما نبرداری کے مطابق ہی تیرا شوہر تیری محبت کاا حسا س کرے گا اور تجھے راضی کر نے کی جلدی کوشش کریگا ۔
#… تیری جو غلطی تیرے شو ہر کے نو ٹس میں آ گئی ہو اس کے تکدر کو دور کر نے کے لیے منا سب وقت اور مناسب طر یقہ اختیا ر کر ۔
#…(بر داشت کے لئے) فراخ دل ہو ( شوہر کے سامنے ) اسکی ان غلطیوں کا زیاد ہ تذکر ہ نہ کر جو اس سے کسی غیر کی خا طر سر زد ہو گئی ہو ں ۔
#…اپنے شوہر کی محبت کی بنا ء پر ہر طرح کی ذہا نت اور عقلمند ی سے اسکی غلطیوں کا تدارک کر اور اس کے احساسات کو مجروح کر نے کی کو شش نہ کر ۔
#… اپنے خا وند کے خلاف غیروں کی با توں کو سچا نہ جان
#… ہمیشہ اپنے شو ہر کے سامنے ایسے کام کر جنہیں وہ پسند کر تا ہو۔اور ایسی با تیں کر جنہیں وہ ہمیشہ سننے کی رغبت رکھتا ہو ۔
#…اپنے شوہر کی طبیعت کو اچھی طر ح سمجھ لے تاکہ اس کے دل میں تیرا احترا م ہو ۔ کسی معاملے میں جب بھی کوئی سخت لہجہ اختیا ر کر تا ہے وہ وقتی ہو تا ہے ۔( یہ نہ سمجھ کہ اس کے دل میں تیرے خلاف کو ئی مستقل جذبہ ہے )
#…جب اس کے سا تھ با ت چیت کر ے تو اس کی کسی مالی تنگی پر کسی قسم کی تنگ دلی کا اظہار نہ کر اور اُس کی طرف سے جو تجھے بہت سی بھلائیاں حاصل ہو ئی ہیں ان کا اُس کے پا س ذکر کر ۔
#…جب بات کر ے تو پو ری طر ح خاموش رہ اور اس کی طرف کا ن دھر (پو ری توجہ دے )
#…بکثرت اُ سے یا د نہ دلا کہ تو نے اس سے ہمیشہ کو ئی طلب کی ہے ۔( مگر وہ حا صل نہیں ہو ئی ) البتہ اسے وہ چیز اُس وقت یا د دلا جب تو جان لے کہ وہ اس کے ذکر سے خوش ہو گا ۔
#…بار بار غلطیا ں کر نے اور ایسے مو قف میں واقع ہو نے سے اپنے آپ کو بچا جسے تیرا خا وند دیکھنا نہ چا ہتا ہو ۔
#…اپنے شو ہر کے سا منے اپنی ذا تی خوا ہشا ت کے با رے میں زیا دہ با تیں نہ کر ۔ بلکہ بکثرت اصرار کر کہ وہ تیرے سا منے اپنی ذاتی خو اہشات کا ذکر کر ے۔
#…ہر چھو ٹے بڑے معا ملے میں اس کی را ئے پر اپنی ر ائے کو مقدم نہ کر بلکہ بعض مواقع میں تو اُسی کی رائے کو اُس سے محبت کی بنا ء پر پیش کر نے میں پہل کر ے ۔
#…اس کی اجا زت کے بغیر کو ئی نفلی روزہ نہ رکھ اور اُس کے علم کے بغیر اُس کے گھر سے با ہر نہ نکل ۔
#…جو راز کی با ت وہ تیر ے سامنے بیان کر ے اسے یا د رکھ اس کی حفا ظت کر اور اسے اپنی ماں اور باپ کے پاس بھی ظا ہر نہ کر اس لئے کہ یہ بات اُس کے سینے کو غصے
سے تیرے خلاف بھڑکا دیگی ۔
#… اس انداز کے ساتھ اپنے شوہر سے بات نہ کر گویا تو معصوم ہے اور وہ گنہگار آدمی ہے۔
#… اپنی اولاد کو بات کرنے میں سچائی اور عمل میں اخلاص کا عادی بنا۔
# … تو اکیلی کھانا نہ کھا۔بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد کے درمیان بیٹھ کر کھاناکھا۔
# … اپنی اولاد کو صفائی پسند کرنے کا عادی بنا۔ اور انہیں یاد دلا کہ صفائی کے ساتھ ہی وہ ایمان کی صفت سے متصف ہوں گے۔
#… اپنی اولاد کے سامنے گالی گلوچ
لعن طعن یا حقارت آمیز کلمات نہ بول اس لئے کہ وہ تیرے تمام الفاظ اپنے ذھن میں جمع کر لیں گے یاد کر لیں گے۔
#… ایسی باتوں سے پرہیز کر جس کے بعد اس کی معذرت پیش کرنی پڑے اور انتہائی طور پر فضول اور بکثرت باتوں سے دور رہ ۔ اپنے پروردگار کے اس ارشاد کو یاد رکھ؛
﴿لاخیر فی کثیرمن نجو ھم الا من امر بصد قةاو معروف اواصلاح بین النا س﴾(النساء
۱۱۳)
”ان کی اکثر سر گو شیو ں میں کوئی بھلائی نہیں ہے البتہ جس شخص نے صدقے ،کسی نیکی یا لو گو ں کے درمیا ن اصلاح کا حکم دیا ۔(اس میں بھلائی ہے )
#…ہر سنی سنا ئی بات کو (بلا تحقیق )بیان کر دینا پر ہیز گا رموٴ من عو رتوں کی عا دت نہیں ہے ۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے :
”آد می کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنا ئی کو بیا ن کرتا پھر ے“۔
(مسلم۔ مقدمہ وابو داود حدیث نمبر
۹۹۲ ۴ )
#…اس بات کی حرص کر کہ تیرے منہ سے اچھے کلمات ہی نکلیں۔ اس لئے کہ جو تو کہنا چا ہتی ہے اس کا وزن کیا جائیگا ۔اسکی قدروقیمت متعین ہو گی۔
# … اپنی ذمہ داریو ں سے غافل جاہل عورتوں کی صحبت اختیارنہ کر ۔
#… موٴمن عورت اپنی بہنوں کے عذر قبول کر تی ہے ۔اور منا فق عورت اپنی بہنوں کی لغزشیں تلا ش کر تی ہے۔
#… ایسی عورت کی صحبت اختیار کر جس سے تو اپنے معاملے میں سلا متی پاتی ہے اسکی صحبت تجھے نیکی پر ابھا ر یگی۔ اور اس کا دید ار تجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلائیگا۔
# … جو عورت تجھ سے بات کر رہی ہو اُسے پور ے شوق کے ساتھ غور سے سن ۔ جب تو اس سے بات کر ے تو اس سے اپنی نظر نہ پھیر ۔ کسی سبب سے با ت بھی کر نے والی کی با ت کو قطع نہ کر ۔ اگر تو کسی معا ملے میں قطع کلا می پر مجبو ر ہو تو با ت کر نے والی کو نر می اور سکو ن کے سا تھ آگاہ کر دے۔
#… جھو ٹ ، غیبت ،چغل خور ی ، مز اح اور مسلمان عورتوں کے سا تھ ٹھٹھے مخول سے بچ ۔
# … بر ی با ت اور بے حیا ئی کی بات سے پر ہیز کر ۔
# … اپنے عمل اور اپنے نفس کے ساتھ تکبر اور گھمنڈاختیا ر نہ کر ۔
#… مسلمان عورتوں کے چھو ٹے بچوں کو اپنی اولاد سمجھ ۔ درمیا نی عمر کی بچیوں کو اپنی بہنیں اور بڑی عمر والی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھ ۔ اپنی اولاد پر رحم کر نا تجھ پر لازم ہے ۔ اپنی بہنوں سے صلہ رحمی کر اور اپنی ماؤں کے سا تھ احسا ن کر ۔
# … اپنی اولاد کو جنت کی تر غیب دے ۔ بیشک جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے نماز اور رو زے ادا کئے اپنے ماں با پ کی فرما ں بر داری کی جھو ٹ نہ بولا اور کسی پر حسدنہ کیا ۔
# … اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پرد ے اور شرم و حیا کی رغبت دلا ۔ انہیں چھو ٹے تنگ کپڑے اور اکیلی پینٹ یا شرٹ ( قمیص ) پہننے کی عا دی نہ بنا تا کہ وہ بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت اپنی خصو صیت کو پہچان لیں ۔
# … سا ت سال کی عمر میں ہی اپنی بیٹیوں کو اوڑھنی پہننے کی عادی بنا ۔
#… اپنی اولاد میں سے جس کو تو دیکھے کہ با ئیں ہا تھ سے کھا تا یا پیتا ہے اُسے اس سے روک دے ۔(اور دا ئیں ہا تھ سے کھا نے پینے کی تعلیم دے )
#… اپنی اولاد کوناخن ترا شنے اور کھا نے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہا تھوں کے دھو نے کی نصیحت کر نا نہ بھول۔
# … موٴ من عورت با تیں کم اور عمل زیادہ کر تی ہے ۔ منا فق عورت با تیں زیادہ عمل کم کر تی ہے ۔
# … چا ہئے کہ تو تین طر یقوں سے اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کا حق ادا کر ے ۔ اللہ تعالی کے احکا م پر عمل کر تے ہوئے ، ا س کی ڈانٹ سے اپنے آپ کو بچا تے ہو ئے ، لوگوں سے ان کی تکلیف دور کر تے ہو ئے ، اپنے نفس کی پا کدامنی اور اپنی تنہا ئی میں حفاظت کر تے ہو ئے ۔
#… دوسری عورتوں کے نزدیک قدروقیمت میں زیادہ کم وہ عورت ہے جو علم دین میں ان سب سے کم ہو ۔
#… تین خصلتوں کے بعد شر مندگی لا حق نہیں ہو تی ۔ دیانت داری ، پاکدامنی اور کام کر نے سے پہلے سوچ بچا ر۔
#… عو رت کی قدرو قیمت اس کی جسمانی خو بیوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی قدرو قیمت دینی خو بیوں میں ہے ۔
# … کسی بَد عادت عورت کے ساتھ بیٹھے سے تیرا تنہا بیٹھے رہنا بہتر ہے۔
#…سچی بات کرنا، لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی،امانت کی حفاظت، ہمسائی کے حق کی حفاظت، سوال کرنے والی کو عطا کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا ، ملاقات کے لئے آ نے والی کی عزت کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا، ملاقات کے لئے آنے والی کی عزت کرنا، عہد پورا کرنا اور شرم و حیا یہ سب عمدہ اور کریمانہ اخلاق و عادات ہیں۔
# …مسلمان عورت اپنے ماں باپ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
# …مسلمان عورت سچ بولتی ہے جھوٹ نہیں بولتی۔
#… مسلمان عورت اپنی بیمار بہن کی زیارت کرتی ہے اور اپنی محتاج بہن پر سخاوت کرتی ہے۔
بہت قیمتی نصیحتیں
#… اگر تو خشوع کی توفیق چا ہتی ہے تو فضو ل نظر با زی سے دور رہ ۔
#…ا گر تو دانائی کی تو فیق کو پسند کر تی ہے تو فضول با توں کو چھو ڑدے۔
#… اگر تو اپنے عیبوں سے باخبر ہو نے کی تو فیق چا ہتی ہے تو دوسرے کے عیبو ں کی ٹوہ لگا نا چھو ڑ دے ۔
#… جو تجھ پر زیا دتی کر ے اس پر بردبار ہو جا ۔
# … بہت سخی عورت وہ ہے جو کسی کو مال عطا کر کے صرف اللہ ہی سے اس کی جزا ء چاہتی ہے ۔
#… بد کر دار عو رتو ں کی ساتھی نہ بن ،وہ تجھے کھا نے کے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچ دے گی ۔
#… بخیل عورت کے ساتھ نہ بیٹھ جس ما ل کی تو محتاج ہے وہ اسے اپنے مال میں ملا لے گی ( تجھے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے رو ک دے گی )
# … جھو ٹی عو رت کی محبت میں نہ رہ وہ فر یب نظر کے در جہ میں ہے ۔وہ قریب کو تجھ سے دور کر دیگی اور بعید کو تجھ سے قریب کر دیگی ۔
#… احمق عورت کے پا س نہ بیٹھ اس لئے کہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کے ارادے کے باوجود نقصان پہنچادیگی ۔
#… احسان جتلا نے والی کی سا تھی نہ بن کہ وہ ہمیشہ اپنی مالی بر تر ی سے تجھے تنگ کرے گی ۔
# … کسی مکا ر عورت کے ساتھ نہ بیٹھ اس لئے کہ اُس کے پیش نظر اپنا ہی نفع ہوتا ہے ۔
#… کسی بد دیانت عورت کی سا تھی نہ بن کہ جس طرح اُس نے تیرے غیر کے سا تھ خیا نت کی ہے اسی طر ح تیرے سا تھ بھی خیا نت کرے گی۔
# … دورخے پن اور دو زبا ن والی عورت کی سا تھی نہ بن ۔
# … ایسی عورت سے بھی صحبت نہ رکھ جو تیرے راز کو نہ چھپا ئے ۔
#… مصیبت زدہ مسلما ن عورتوں سے ان کی تکلیف کو دور کر نا ۔
# … محتاج مسلمان عورتوں کے قرض ادا کر نا ۔
# … کھانا کھلا نا اور بھو کی عورتوں سے ان کی بھو ک دور کر نا ۔
#… اپنی ایما ندار بہنوں کی حا جتیں پو ری کر نے میں جلد ی کر نا ۔
# … راستوں سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا نے میں سستی نہ کر ۔
# … علم حا صل کر اور دوسری مسلمان عورتوں کو تعلیم دے ۔
# … تجھ پر بھلا ئی کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا لا زم ہے ۔
#… سنتیں اور نو افل ادا کر نے پر ہمیشگی اختیا ر کر ۔
# … اپنے رشتہ دا روں سے ملا قات تجھ پر وا جب ہے اگر چہ وہ تجھ سے قطع تعلق کریں ۔
#… اپنے فو ت شدہ افرادا ہل خانہ کو اپنی دعا میں یاد رکھ۔
# … دو سروں کے سا تھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کر ۔
# … جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں انہیں پوری دیا نت داری اور عمدگی سے ادا کر ۔
# … اپنی مسلمان بہن کے سا منے مسکرا کہ یہ صدقہ ہے۔
#… دنیا دار عو رتوں سے میل جو ل نہ رکھ ۔
#… اپنے رب کے عذاب و سزا سے ڈرنا تیری عادت ہونی چا ہےئے ۔
# … اپنے ماں باپ کے احسان کر نے والی بن ۔
#… دنیا میں عورت کی بد بختی کی چار علا متیں ہیں :
دل کی سختی ، آنسو ؤ ں کا خشک ہو جا نا ،(یعنی خوف الہیٰ سے آنکھو ں میں آنسو نہ آنا) لمبی آرزو اور دنیا کی حرص ۔
#… جان لے کہ ہر چیز میں سو چ بچار کے لئے ٹھہر اؤ بہتر ہے مگر آخرت کے معاملے میں تاخیر بہتر نہیں ہے (کہ ابھی وقت ہے پھر یہ عمل کر لو نگی)
# … یاد رکھ کہ بچے ،بو ڑھے ،بیو گان اور مسا کین صدقات کے سب لوگو ں سے زیادہ حق دار ہیں ۔
# … ہر عمل کو ختم کر نے پر اپنے رب سے دعا کر کہ وہ تیرا عمل قبول کر لے ۔
﴿ والحمد للہ رب العالمین ﴾ 

عورت کے اندر صبر و تحمل بہت ہو نا چا ہیے ۔ اس لئے عورت کو گھر والی کہا جا تا ہے کہ گھر کی بنیا د ہو تی ہی عورت کے اوپر ہے ۔ ہمارے بڑوں نے کہا کہ عورت اگرگھر آباد کر نا چا ہے تو گھر آ بادرہتا ہے اور بر باد کرنا چا ہے تو بر با د ہو جا تا ہے ۔ مرد اگر کلہاڑا لے کر بھی بنیا دیں گرانا چا ہے تو نہیں گرا پا تا ، عورت اگر سو ئی لے کر بھی بنیا دیں گر انا چا ہے تو مرد سے پہلے گھر کی بنیا د یں گر ادیتی ہے ۔ تو اس لئے اس کے اندر صبر و تحمل ہونا چاہیے ۔ اگر کبھی کوئی بات خلا ف طبیعت ہو بھی جا ئے تو یوں سو چے کہ صبر کر نے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کے مو ڈ میں آئے گا کہ عورت سمجھے گی کہ زیاد ہ محبت کرتے ہیں ۔﴿ولربک فاصبر﴾ اللہ کے لئے صبر کر لو۔ تو میں اس بات پر صبر کرتی ہوں ۔ اللہ سے اجر کی امیدوارہوں ۔ تھو ڑی دیر یہ صبر کر ے گی تو وہی خا وند جس نے کوئی نا گوار بات کر دی تھی وہ اتنی محبت کے مو ڈ میں آئے گا کہ عورت سمجھے گی کہ اس سے زیادہ محبت کر نے والا دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا ۔ آخر انسان ہے اور اس کے اند ر بھی احسا سات اور جذبات ہیں ۔ کسی وقت اگر غصے میں آگیا تو کیا ہوا۔اکٹھا رہنے سے اگر بے جان بر تن بج سکتے ہیں تو پھر جاندار انسانوں کا بجنا تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔ ممکن ہے ایک خوشی کے موڈ میں ہو اور دوسرا اس وقت کسی اور موڈ میں ہو ۔ ایک نے بات کسی انداز سے کہی اور دوسرے نے اس کو کسی اور انداز سے سمجھا ۔ تو غلط فہمیوں کا ہو جا نا کو ئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔ ایسے معاملے میں اگر صبرو تحمل ہو تو زندگی اچھی گزرتی ہے ۔ اور اگر صبرو تحمل نہ ہو اور انسان فو ری ردعمل ظاہر کر ے تو اس جیسا براانسان کوئی نہیں ہو تا ۔ بس ذراسی با ت ہو ئی غصے کی آگ فو راً بھڑک اٹھی ۔ دو سرے کی بات سمجھنے کی بجا ئے بس اپنی زبان سے کچھ بولنا شروع کر دیا ۔
غلطی کو مان لینے میں عظمت ہے اور خا مو شی میں عا فیت ہے
غلطی کو مان لینا عظمت ہے ۔ اگر ایسی بات ہے کہ خاوند کہہ رہا ہے کہ تمہا ری غلطی ہے تو اتنا ہی کہہ دیں کہ ہاں میری غلطی ہے ۔ اس سے کیا ہو جائے گا ۔غلطی کو تسلیم کر لینے میں عزت ہو تی ہے ۔ یہ ہتک نہیں ہو اکر تی ۔ خاوند ہی ہے نا ، خا وند کے سامنے ہی آپ کہہ رہی ہیں کہ جی غلطی ہو گئی ، تو کیا ہو ا۔ یا اگر خا وند نے کوئی بات کر دی تو آپ اس کے جواب میں فورًابولنے کی عادت نہ ڈالیں ، تر کی بہ ترکی جو اب دینا گھروں کے اجڑ نے کا ذریعہ بن جا تا ہے ۔ یا د رکھنا کہ چپ رہنا بھی ایک جواب ہے ۔ کئی مقامات پر خاوند کی با ت سن کے چپ رہنا ، اس سے خا وند کو اس کا جواب مل جا تا ہے ۔ بعض مر تبہ الفا ظ کی بجائے خا مو شی میں زیادہ وضا حت ہو تی ہے ۔ جب خاموشی اور اعتراف کی بجائے دفاع شروع ہو جا ئے تو یہ سمجھئے کہ جنگ کا بگل بج گیا ۔
ایک میاں بیوی میں اکثر جھگڑا ہو تا تھا اور ہوتا بھی اسی طرح کہ خا وند جب گھر آتا تو وہ آتے ہی کہتا یہ کیوں ہو ا اور وہ کیوں ہو ا۔ اور بیوی آگے سے جو اب دینے لگ جا تی اور اسی وقت سے جھگڑا شروع ہو جا تا ۔ چنانچہ بیوی کسی اللہ والے کے پاس گئی کہ جی گھر میں جھگڑا بہت ہوتا ہے ، کوئی تعویذ دے دیں ۔ انہوں نے پا نی دم کر کے دے دیا اور کہا کہ جب تمہا را میاں گھر میں داخل ہو اس پانی کو پا نچ دس منٹ تک منہ میں رکھنا ، ان شا ء اللہ جھگڑا نہیں ہو گا ۔ اب وہ جب بھی آتا بیوی پا نی کو گھو نٹ بھر کے منہ میں رکھ لیتی اور خا وند کا پا نچ دس منٹ میں غصہ اتر جا تا پھر خاوند پیا ر کے موڈ میں آجا تا اور میاں بیوی کی اچھی زندگی گزرتی۔چنانچہ دم شدہ پا نی نے گھر کے جھگڑوں کو ختم کر دیا ۔ 


حلالہ کے منکرین ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلالہ عورت پر ظلم ہے۔ لیکن یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ ہر اہل علم جانتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں یا ایک دو طلاقوں کی صورت میں عدت گزر جائے تواب عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا اور اب اس نے طلاق دے دی تو پہلے خاوند سے نکاح کے سلسلے میں بھی عور ت کی مرضی اور اجازت ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک عورت اجازت نہیں دے گی اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو کس طرح اس عمل کو عورت پر ظلم قرار دیا جائے گا۔ عورت کو کون مجبور کرتا ہے کہ حلالہ کرائے اور پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرے!
خلاصہ:
(۱)…جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں، چاہے تینوں اکٹھی ہوں یا الگ الگ دی گئی ہوں، دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ خاوند (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
(۲)… اگر اس عور ت نے دوسری جگہ نکاح کرلیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
(۳)… اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے اور اس کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے، لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
(۴)…اگر دوسرے خاوند سے نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے، تاکہ پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کرلے، تو حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور یہ عمل حرام ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔
(۵) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(۶)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(۷)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے، ہٹ دھرمی کی بجائے کھلے دل اور دیانت داری کے ساتھ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کا قانون خلع
اسی طرح کے نازک وقت کیلئے اسلام نے کشمکش کی آخری شکل میں ”خلع“ کی اجازت بخشی ہے، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے پیش بندی کے طور پر سختی کے ساتھ خلع سے روکا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر ماباس فحرام علیہ رائحة الجنة۔ (رواہ احمد، مشکوٰة باب الخلع)
جو عورت ذرا ذرا سی بات پر اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے اس پر جنت کی بوحرام ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (مشکوٰة باب الخلع)
شوہر سے علیٰحدہ ہونے والی اور خواہ مخواہ خلع کی طالب عورتیں منافق ہیں۔
ان حدیثوں کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنے شوہروں سے جدائی کی خواہش نہ کریں، تلذذ کی خاطر ایساکرنا اسلام کے ایک عظیم الشان قانون کو بازئچہ اطلاق بنالیتا ہے۔
لیکن اگر واقعی عورت دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیارنہ کی گئی تو رب العزت کے قائم کردہ حدود باقی نہ رہ سکیں گے، اور عورت کو ظن غالب ہے کہ موجودہ تعلقات دین و دنیا کے لئے مضر ہیں، توایسی مجبوری اور نزاکت کے وقت عورت خلع کے

قانون سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ (بقرہ۔ ۲۹)
سو اگر تم لوگوں کو احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خواندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلع
گو حدود اللہ کے عدم قیام کی شرط کے ساتھ خلع کی اسلام نے اجازت دی ہے، اس سے پہلے ہرگز اجاز ت نہیں ہے۔ خلع کی مثال عہد نبوی میں موجود ہے، حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما سے بیاہی گئی تھیں، ایک صبح کو سویرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لئے کاشانہ نبوی سے نکلے، دروازہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کپڑوں میں لپٹی سمٹی ہوئی کھڑی ہے۔ صبح کی تاریکی ابھی باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کون ہیں؟ آواز آئی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سہل کی بیٹی حبیبہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا بات ہے؟
حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ نہ تو میں ثابت بن قیس کے ساتھ ہوں اور نہ ثابت میرے ساتھ۔ یعنی ہم دونوں میاں بیوی میں اتفاق اور نباہ کی امید باقی نہیں رہی۔ آپ نے یہ قصہ سن لیا او رنماز کے لئے روانہ ہوگئے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ حبیبہ بن سہل انصاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اسے آکر انہوں نے یہاں بیان کیا۔ حضرت حبیبہ نے مہر کی واپسی پر بھی اپنی آمادگی ظاہر کردی اور درخواست کی کہ شوہر کا عطیہ موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے فرمایا اپنا عطیہ واپس لے لو، یہ سن کر حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے بیوی سے اپنا عطیہ واپس لے لیا اور اس طرح دونوں میں جدائی ہوگئی۔ (موطا امام مالک باب الخلع)
بخاری میں ہے، حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر بیان دیا:
یارسول اللہ ثابت بن قیس ما اعیب علیہ فی خلق ولا دین ولکن اکرہ الکفر فی الاسلام
یارسول اللہ (ﷺ) میں ثابت بن قیس کو ان کے اخلاق و دین میں عیب نہیں لگاتی، لیکن بات یہ ہے کہ میں اسلام میں کفر کی بات پسند نہیں کرتی۔
یہ سن کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم ان کا باغ واپس کرنے کو تیار ہو؟ ثابت کی بیوی نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ معلوم کرکے آپ نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا:

اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة واحدة (زاد المعاد ج ۴ ص ۳۴)
با غ لے لے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔
بخاری نے یہ واقعہ جو بیان کیا ہے یہ ہے تو حضرت ثابت ہی کی بیوی کا، مگر حبیبہ کا نہیں بلکہ ان کی دوسری بیوی جمیلہ بنت ابی سلول کا ہے۔ ابن ماجہ میں یہی واقعہ جمیلہ کے نام کے ساتھ مذکور ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کوتاہ قد، بدصورت اور تیز مزاج تھے۔ اس لئے کسی عورت کی نگاہ میں سماتے نہیں تھے۔ بعض روایت میں ان کی بیوی کا ان کے باب میں بڑا سخت جملہ ہے۔
حدیث کی کتابوں میں خلع کے اور واقعات بھی مذکور ہیں، یہاں تفصیل مقصود نہیں ہے۔

مشروط نکاح

Posted: دسمبر 12, 2012 by EtoPk in مضامین, دینی مسائل
ٹيگز:, ,

جب خاوند یا بیوی نکاح کرتے وقت کوئی شرط رکھیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
(۱)… وہ شرط عقد نکاح سے ملی ہوئی ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط کے ساتھ نکاح کررہا ہوں کہ تیرے پاس رات نہیں گزاروں گا۔
(۲)… نکاح ، شرط سے معلق ہے۔ یعنی شرط کے پائے جانے پر نکاح کے انعقاد کا دارومدار ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ اگر فلاں شخص آیاتو میں تجھ سے نکاح کروں گا۔
ان میں سے پہلی شرط عقد نکاح پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتی۔ پھر دیکھیں گے اگر وہ ان امورمیں سے ہے جن کو عقد چاہتا ہے تو وہ شرط بھی نافذ ہوجائے گی۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کررہا ہوں کہ تو کسی اور کی بیوی نہ ہو یا کسی اور کی عدت نہ گزار رہی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر اس شرط کو عقد نہیں چاہتا تو پھر یہ شرط لغو ہوجائے گا اور نکاح صحیح ہوجائے گا۔ اس کی مثال یہی زیر بحث مسئلہ ہے۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے نکاح کررہا ہوں تاکہ تو اس شخص کے لئے حلال ہوجائے، جس نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں۔
گویا شرط کسی قسم کی بھی ہونکاح کے انعقاد میں فر ق نہیں پڑتا، جبکہ کوئی دوسری رکاوٹ نہ ہو۔ اس لئے فقہ حنفی کے ضابطہ کے مطابق تحلیل (حلالہ) کی شرط کے باوجود نکاح صحیح ہوجائے گا، البتہ شرط باطل ہوجائے گی اور دوسرا خاوند طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔
چنانچہ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:
لان النکاح لایبطل بالشروط الفاسدة بل یبطل الشرط مع صحة العقد ومما لاشک ان شرط التحلیل لیس من مقتضی العقد فیجب بطلانہ وصحة العقد (عبدالرحمن حریری۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۰)
کیونکہ نکاح، فاسد شرائط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا بلکہ عقد صحیح ہوجاتا ہے اور شرط باطل ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حلالہ کی شرط ان امور میں سے نہیں ہے جن کو عقد نکاح چاہتا ہے۔ پس اس (شرط) کا باطل ہونا عقد کا صحیح ہونا ضروری ہے۔
حدیث کا مفہوم
اگر یوں کہا جائے کہ حدیث شریف میں حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے (جیسا کہ پہلے حدیث گزر چکی ہے) تو اس کے باوجود نکاح کیسے صحیح ہوگا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حلالہ کی شرط پرنکاح کا عمل حرام ٹھہرے گا، یعنی نکاح ہوجائے گا اور یہ لوگ حرام کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ انہوں نے ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ا س کی مثال یوں سمجھئے کہ جمعة المبارک کے دن اذان (پہلی اذان) کے بعد کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کے لئے تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
واذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع (سورہٴ جمعہ ۶۳/۹)
اور جب جمعة المبارک کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص دکان بند نہ کرے اور سودا بیچے تو خریدنے والا اس سودے کا مالک اور یہ اس رقم کا مالک ہوجائے گاجو بطور قیمت وصول کی ہے۔ گویا حرام ہونے کے باوجود سودا ہوجائے گا۔ 

مذکورہ تین طریقے تو وہ تھے کہ جن کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑلیتا ہے تو اس وجہ سے کہ بیوی کی طبیعت میں نافرمانی، سرکشی اور آزادی ہے یا اس بناء پر کہ خاوند کا قصور ہے اور اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہے۔ بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا گھر سے باہر نکلنا لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جانبین میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے او رپھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
قرآن کریم نے اس فساد عظیم کو بند کرنے اور باہم صلح و صفائی کرانے کیلئے ایک بہت ہی پاکیزہ طریقہ بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ برادری کے سربراہ اور معاملہ فہم حضرات یا ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء دوحَکَم (صلح کرانے والے) مقرر کریں۔ ایک مرد کے خاندان سے، دوسرا عورت کے خاندان سے اور دونوں حکم میں یہ اوصاف موجود ہوں ۔
(۱)… دونوں ذی علم ہوں۔
(
۲) …دیانت دار ہوں۔
(
۳)… نیک نیت ہوں اور دل سے چاہتے ہوں کہ ان میں صلح ہوجائے۔
اور پھر صلح و صفائی کی پوری کوشش کریں، جب ایسے حکم ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی اور یہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوں گے، اور ان کے ذریعے دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پید افرمائیں گے۔
(از معارف القرآن جلد
۲ بتصرف)
نکاح کا مقصد طلاق دینا نہیں
اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کیلئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ نکاح ختم ہونے کا اثر صرف میاں بیوی پرنہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پور امعاشرہ اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کاپورا انتظام کیا ہے۔
زوجین کے ہر معاملہ اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے ، نااتفاقی ہونے کی صورت میں جیسا کہ تفصیل سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں ہیں اور اگر بات زیادہ بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں اور زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کاش ہم بھی ان پاکیزہ تعلیمات پر صحیح طریقہ سے عمل پیر اہوں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے خوب سوچ سمجھ کر اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں۔

اپنے سسرال والوں کا احترام کر یں 
بعض لو گوں کی عادت ہوتی ہے کہ بیوی سے کوئی غلطی ہو تو اس کے سارے خاندان کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں ہاں ، تمہارا تو سارا خاندان ایسے ہے ، تمہا ری تو سات پشتیں گندی ہیں …وغیرہ وغیرہ ۔ اگر آپ اپنی بیوی سے ایسا رویہ بر تیں گے تو پھر آپ بھی یہ ذہن سے نکال دیں کہ وہ آپ اور آپ کے خاندان کی عزت کر ے گی ۔ 
بیوی اگر سا س کی خدمت نہ کرے تو ؟ 
یاد رہے کہ اسلا م کے قانونی نقطئہ نظر کے مطا بق عورت پر فر ض نہیں کہ وہ سسرال کی خدمت گزاری کر ے اگر وہ سسرال کی خدمت بجا لا تی ہے تو اس کی نیکی اور احسان ہے اور اگر وہ یہ خدمت نہیں کر تی تو اسلامی قانون کے مطا بق آپ اس کے خلا ف کو ئی اقدام نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ ان کی خدمت ان کے بیٹے پر فر ض ہے ۔ اس لیے اگر آپ کی بیوی آپ کے والدین کی خدمت نہیں کر تی تو اسے مار پیٹ کر اس کا م کے لیے ہر گزمجبور نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے پیا ر سے سمجھا ئیں کہ میرے والدین بو ڑھے ہیں ، خدمت کے مستحق ہیں ، میرے سا تھ تم بھی ان کی خدمت میں ہا تھ بٹا ؤ تو خوش ہو گے اور ہمارے حق میں دعائے خیر کر یں گے اور ان سے ہم نیکی کر یں گے تو کل کو ہمیں بھی نیک اولاد اور نیک بہوئیں ملیں گی ۔ 
سسرالی الجھنیں اور ان کا حل 
ہما رے ہاں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام چل رہا ہے ، جو آپس کی محبت اور خاندانی میل ملاپ کا اچھا ذریعہ خیال کیا جا تا ہے لیکن جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہمارے گھر وں میں 90فیصد ازدواجی نا چا قیاں میا ں بیوی کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے نہیں بلکہ فریقین کے سسرال کی بے جا اندورنی مداخلتوں اورخاندانی رقابتوں کی وجہ سے ہیں ، آپ جا نتے ہیں کہ ہما را معاشرتی طبقاتی معاشرہ ہے، نچلا طبقہ ، درمیا نی طبقہ اور با لا ئی طبقہ ، ہر طبقے میں اپنے اپنے انداز میں سسرالی جھمیلے اور رنجشیں پا ئی جا تی ہیں جو عمربھر بلکہ مر نے کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں ساری عمر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ذہنی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہو نے کا مو قع ہی نہیں ملتا جنسی نظام کے فطری تقا ضوں کے تحت مبا شرت بھی کر تے ہیں بچے بھی پیدا ہو جا تے ہیں لیکن دونوں کے درمیان ایک طر ح کی بیگا نگی کی دیوار ہمیشہ حا ئل رہتی ہے ایک دوسرے کا جیون ساتھی ہو نے کے با وجود اجنبی سا تھی ہو تے ہیں دونوں کو اپنے اپنے خا ندانو ں سے اپنی اپنی دلچسپیاں ، ہمدردیاں، اور وابستگیا ں قائم رہتی ہیں اور میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر بھی چھا ئی رہتی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے ماں با پ اپنی بیٹی کے ساتھ تو زیادہ تعلق اور اپنا ئیت کا اظہار کر تے ہیں لیکن داماد کو غیرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں لہٰذا داماد اپنے آپ کو بیوی اور اس کی ماں باپ کے درمیان ایک طرح کا غیر محسوس کر تا ہے ۔ غیریت کا یہ احساس اس کے دل میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور یوں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات بھی متاثر ہو کر رہ جا تے ہیں ۔ والدین کو چا ہیے کہ بیٹی تو ان کی بیٹی ہے ہی ، لہٰذا بیٹی کے بجا ئے داماد پر زیادہ تو جہ دیں تا کہ وہ بھی اپنے آپ کو نئے کنبے کا ایک فرد تصور کر ے بیوی بھی اپنے میاں کی اس الجھن کو ختم کر نے کے لئے مو ثر کردار ادا کر سکتی ہے کہ اپنے رویے سے احساس دلا دے کہ وہ اس کا میاں اصل میں دونوں ایک ہی ہیں اس طرح اس کے والدین دونوں میں تفر یق پیدا کر نے سے گریز کریں گے اور داماد کو بھی اپنی بیٹی کی طرح ہی قبول کر لیں گے اور دونوں کو اپنے فیصلے آپ کر نے کی اجا زت دے دیں گے بسا اوقات بیوی کا تعلق کسی کھا تے پیتے گھر انے سے ہوتا ہے اس کے والدین عمو ماً اسے طرح طرح کی تحا ئف وغیرہ سے نو ازتے رہتے ہیں لیکن بیٹی کے میاں کو عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات بیوی اگر ان تحا ئف میں سے کوئی چیز میاں کو دے دے تو وہ اس کو بھی برا مناتے ہیں اس قسم کے یک طرفہ حسن سلوک سے بھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہو نے لگتی ہیں جن کا اصل سبب بیوی کے ماں باپ ہو تے ہیں والدین کو چا ہیے کہ اگر انہوں نے یہ شوق پورا کر نا ہی ہے تو پھر بیٹی اور داماد دونوں ہی کو اپنے تحا ئف سے نوازیں بصورت دیگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنے والدین سے تحائف وصول کر نے سے گریز کر ے ۔
بعض اوقات لڑکی کی ساس اپنی بہو کی خرید و فروخت یا دوسری سر گرمیوں پر کڑی نکتہ چینی کر تی ہے جس سے بہو اور بیٹے کے آپس کے تعلقات متا ثر ہو نے کا خدشہ ہو تا ہے بہو کے لئے اس صورت حال سے بیٹے کے لئے ایک نسخہ تجویز ہے جو یہ ہے کہ وہ اپنی ساس کی خریدو فروخت اور ان کی پسند کے دیگر مشا غل کی بھر پور تعر یف کر ے ،……وغیرہ وغیرہ یوں آپ کی ساس انشاء اللہ عزوجل آپ پر نقطہ چینی کر نا چھوڑے دے گی ۔

Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]

Allah Almighty also says what means:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]

It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:

  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.

Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:

There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]

Thank you again for your question.
Salam.