Posts Tagged ‘Love tips’



جب بھی خا وند گھر سے رخصت ہو نے لگے اس کو ہمیشہ دعاکے ذریعے الود اع کہے ۔ فی امان اللہ کہے ۔ دعا دے۔ جیسے ہما ری بڑی عورتیں پہلے وقتوں میں اپنے میاں کو کہتی تھیں۔ یہ کتنی پیا ری بات ہے کہ میری امان اللہ کے حو الے ۔ جب آپ نے اپنی امانت اللہ کو حو الے کر دی تو اللہ تعالیٰ محا فظ ہے وہ آپ کی اما نت کی حفا ظت کر ے گا ۔ آج کتنی عورتیں ہیں جو خا وند کو گھر سے نکلتے ہو ئے یہ الفاظ کہتی ہیں ؟ بہت کم ۔ چو نکہ نہیں کہتی اس لئے ان کے خا وند وں کی حفا ظت بھی نہیں ہو تی ۔ پھر رو تی ہیں کہ خاوند با ہر جا تے ہیں تو ان کو با ہر زیادہ دلچسپی ہو تی ہے ۔ بھئی آپ نے تو اپنی اما نت اللہ کے حو الے ہی نہیں کی ، اب آپ اللہ سے کیا تو قع رکھتی ہیں ،کیوں وہ ان کی حفا طت کر ے ۔ تو نیک بیویاں ہمیشہ خا وند اور بچوں کو گھر سے رخصت ہو تے ہو ئے ان کو دعا دیتی ہیں ۔ اونچی آواز سے کہنے کی عادت ڈالیں بلکہ دروازے تک سا تھ آیا کر یں اور پھر کہا کریں ۔ فی امان اللہ ۔ فی حفظ اللہ ۔ فی جو ار اللہ ۔ کچھ نہ کچھ ایسے لفظ کہا کر یں ۔ یاویسے ہی کہہ دیا کر یں کہ میری امانت اللہ کے حو الے ۔ تو جب آپ اپنی امانت اللہ کے حوالے کر چکیں اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضا ئع نہیں ہو نے دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ اور یقین تو ہما ری زندگی کی بنیا د ہے۔تو ایک عادت یہ ہو کہ جب خاوند گھر سے رخصت ہو نے لگے تو دروازے تک جا کر اس کو الوداع کہیں دعا کے ذریعے اور جب خا وند گھر میں آئے جتنی بھی مصروف ہوں ایک منٹ کے لئے آپ کو فا رغ کر کے مسکرا کر اپنے خاوند کا استقبال کر یں ، جب بیو ی مسکر اکر خا وند کا استقبال کرے گی ہنستے مسکرا تے چہر ے کے ساتھ تو ظاہر ہے کہ خاوند کی نظر مسکرا تے چہرے پر پڑے گی تو اس کے دل میں بھی محبت اٹھے گی ۔ آج اس چیز پرعمل کم ہے اس لئے زند گی میں پر یشا نیاں زیا دہ ہیں۔

طلاق کے اس احسن طریقہ میں یوں تو بے شمار فوائد ہیں، چنداہم فائدے یہ ہیں:
(۱)… سب سے اہم فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ طلاق کے جتنے واقعات سامنے آتے ہیں ان میں ننانوے فیصد واقعات میں میاں بیوی اس واقعہ سے بہت پچھتاتے اور شرمندہ ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح دوبارہ ان کا رشتہ ازدواج بحال ہوجائے،لیکن چونکہ وہ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں اور رجوع کرنے یا بلاحلالہ دوبارہ نکاح کرنے کے تمام درجے عبور کرچکے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا شرمندہ ہونا اور صلح پر آمادہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔
مذکورہ طلاق کے احسن طریقہ پر عمل کرنے میں طلاق دینے کے بعد تین ماہواریاں گزرنے تک عدت ہے، بشرطیکہ حمل نہ ہو، ورنہ وضع حمل تک عدت ہے، اور عدت کے دوران دونوں میاں بیوی کو علیٰحدگی اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور و فکرکا اچھا خاصا وقت مل جاتا ہے، اور مستقبل کے سلسلہ میں صحیح فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے، اگر دوران عدت دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ طلاق دینا اچھا نہیں ہے اور اپنے کئے پرنادم ہوں، بیوی خاوند کی فرمانبرداری کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا عہد کرے، خاوند بھی گھر کی بربادی اور بچوں کی کفالت و پرورش کی دشواریوں کا اندازہ لگا کر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارنے میں سلامتی دیکھے توابھی کچھ نہیں بگڑا، دوبارہ میاں بیوی والے تعلقات خاص قائم کرلیں، بس رجوع ہوگیا۔ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔
بہتر یہ ہے کہ کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے خاوند کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹاتا ہوں۔“ یا یوں کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ رکھ لیتا ہوں۔“ یہ رجوع کا افضل طریقہ ہے تاکہ دوسروں کو تعلقات کی بحالی سے کوئی غلط فہمی نہ ہو اور رجوع کرنا بھی طلاق کی طرح سب کے علم میں آجائے ،اوراگر عدت کے دوران خاوندنے رجوع نہ کیا اور عدت گزر گئی تو اب مطلقہ اس کے نکاح سے پوری طرح آزاد ہوگئی، اب جہاں اس کا دل چاہے نکاح کرے، طلاق دینے والے سے اس کا کچھ تعلق نہیں رہا، دونوں بالکل اجنبی ہوگئے۔
(۲)… طلاق کے اس احسن طریقے میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر رشتہ ازدواج سے آزاد ہونے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کسی وجہ سے ایک دوسرے کی یاد ستانے لگے، کبیدگیوں اور رنجشوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے محاسن، خدمات اور احسانات پر غور کرنے کا ازسرنو موقع ملے، اور پھر دوبارہ ایک دوسرے سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں، تو طلاق اور عدت گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی حلالہ کے دوبارہ آپس میں نئے مہر کے ساتھ باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
بالفرض دوبارہ نکاح ہوگیا اور بدقسمتی سے دوبارہ بھی اس کو کامیابی کے ساتھ نہ نباہ سکے اور خدانخواستہ پھر طلاق کی نوبت آگئی تو دوبارہ طلاق دینے سے پہلے اس بار بھی ان تمام تفصیلات پر عمل کرنا چاہئے، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے (یعنی پہلے افہام و تفہیم سے کام لے، پھر زجر و تنبیہ کرے، پھر خاندان کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنائے) پھر بھی طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو پھر طلاق احسن دی جائے، (یعنی ماہواری سے پاک زمانے میں جس میں بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو، صاف الفاظ میں صرف ایک طلاق دے) جس میں دوبارہ خاوند کو اختیار ہے کہ وہ عدت کے دوران رجوع بھی کرسکتا ہے اور عدت کے بعد بغیر کسی حلالہ کے باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دوبارہ نکاح بھی کرسکتا ہے، لیکن اب طلاق دینے والا طلاق کے دو درجے عبور کرچکا ہے اور دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، رجوع کرنے یا نکاح ثانی کرنے سے یہ دی ہوئی دو طلاقیں ختم نہیں ہوتی وہ تو واقع ہوچکی ہیں، البتہ دو طلاقوں تک شریعت نے یہ سہولت رکھ دی ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقوں کے بعد دونوں شرمندہ ہوں اور ملاپ کرنا چاہیں تو دو طلاقوں تک ان کیلئے ا س کی گنجائش ہے ۔
اب اس کے بعد دونوں کے لئے بڑا اہم لمحہ فکریہ ہے اور اب انہیں مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے بہت زیادہ فکر و نظر کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ ازدواجی زندگی قائم کرنے کے دو درجے پہلے ہی عبور کرچکے ہیں، اب انہیں آئندہ کے لئے آخری مرتبہ پھر ایک حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ فیصلہ ایک آخری فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ اگر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسا کر زندگی بسر کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں، ورنہ عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی بغیر کسی حلالہ کے ہوسکتا ہے۔ پھر اگر ان دونوں نے یہ گرانقدر موقع بھی ضائع کردیا اور اپنی نادانی، نالائقی او ربداطواری سے اس دفعہ بھی طلاق کی نوبت آگئی اور خاوند طلاق دے بیٹھا تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، جس میں نہ رجوع ہوسکتا ہے او رنہ حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
احسن طریقہ سے طلاق دینے میں دو مرتبہ طویل عرصہ تک دونوں کو ایک دوسرے کی علیٰحدگی اور اس سے پیدا شدہ اثرات پر سنجیدگی سے غور و فکر کا موقع ملتا ہے اور دوبارہ رشتہ ازدواج کو بحال اور قائم کرنے کا راستہ بھی باقی رہتا ہے۔ دفعتاً تین طلاق دینے میں ایسا کوئی فائدہ نہیں ہے، میاں بیوی دونوں سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور سخت دشواری کا شکار ہوتے ہیں۔
طلاق کے اس احسن طریقے میں کہیں جلد بازی اور عجلت نہیں۔ جلد بازی شیطانی عمل ہے، جس کا انجام پشیمانی ہے۔ چنانچہ آپ اندازہ لگائیں کہ شریعت نے اول یہ حکم دیا کہ میاں بیوی خود ہی اپنے معاملہ کو سلجھائیں، خاوند افہام و تفہیم سے کام لے، اس سے کام نہ چلے تو بیوی کا بستر علیٰحدہ کردے، اس سے بھی بیوی اپنی اصلاح نہ کرے تو زجر و توبیخ اور معمولی مار سے اس کی اصلاح کرے۔ یہ بھی مفید نہ ہوتو کسی ثالت اور حکم کے ذریعے صلح و صفائی کرائی جائے۔ جب اس طرح بھی اصلاح حال کی امید نہ ہو اور کوئی صورت مل کر رہنے کی نہ رہے تو بیوی کو اگر ماہواری آرہی ہو تو اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے، ابھی طلاق نہ دے، جب حیض سے بالکل پاک ہوجائے تو طلاق کے احسن طریقے کے مطابق اس کو صرف ایک طلاق زبانی یا تحریری دے دے۔
دیکھئے! ہر جگہ دونوں کو بار بار غور و فکر کا موقع دیاجارہاہے اور سوچ بچار کا پورا پورا وقت دیا جارہا ہے، اور پھر شریعت اسلامیہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے ہر پہلو سے یہ نمایاں ہورہا ہے کہ حتی الامکان نکاح برقرار رہے اور طلاق کا استعمال نہ ہو، اور اگرسخت مجبوری میں طلاق دینا ہی پڑے تو بھی اس کا استعمال کم سے کم ہو، تاکہ آئندہ بھی اگر وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکیں۔

اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھئے ۔ کچھ عورتوں کی عادت ہو تی ہے کہ طبیعت میں سستی ہو تی ہے ۔ ہر وقت پھیلا ؤ ڈال دیتی ہیں ۔ گھر کے اند ر پھیلا ؤ کا ہونا ، چیزوں کا بے ترتیب پڑا ہو نا ، یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ حد یث پاک میں آ یا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿انَّ اللہ جمیل ویجب الجمال ﴾
اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہے اور خو بصورتی کو پسند کر تا ہے
تو جب نبی علیہ السلام نے گو اہی دے دی کہ اللہ تعالیٰ خو بصورتی کو پسند کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی بکھر ی پڑی چیز یں اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آتیں ۔ لہٰذا عورت اس نیت سے اپنے گھر کو صاف ستھرا ر کھے کہ میرے گھر کی چیزیں تر تیب سے پڑی ہوں گی اور گھر صاف ستھرا ہو گا تو میرے مالک کو یہ گھر اچھا لگے گا ۔ میری محنت قبول ہو جائے گی ۔ جب آپ گھر میں بیٹھی جھا ڑ ویا وائپیر چلا رہی ہوں تو یوں سمجھئے کہ گھر ہی صاف نہیں ہو رہا بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل کے گھر کو بھی صاف فرما رہے ہیں ۔ تو گھر کا جھا ڑو دینا یوں سمجھئے کہ میں بیٹھی اپنے دل کی ظلمت پر جھا ڑ و دے رہی ہوں ۔
گھر کو صاف ستھر ا رکھئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿ ان اللہ یحب التوا بین و یحب المتطھر ین ﴾
کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں اور پاکیزہ رہنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں ۔ اس لئے ہر چیز کا صاف ستھرا ہو نا ، پا کیزہ ہو نا اور گھر کی ہر وہ چیز کا سیٹ ہو نا اللہ تعالیٰ کی خو شنو دی کا سبب بنتا ہے ۔
چیزوں کو تر تیب سے رکھنے کاا جر
نبی علیہ السلام نے ایک حدیث پا ک میں فریا یا کہ عورت جب گھر میں پڑی ہو ئی کسی بے تر تیب چیز کو اٹھا کر تر تیب سے رکھ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرماتے ہیں اور ایک گنا ہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ اب دیکھئے ہر عورت گھر میں بر تن درست کر تی ہے تو اسے کتنی نیکیاں مل جا تی ہیں اور کتنے گنا ہ معاف ہو جا تے ہیں ۔ کپڑے سمیٹتی ہے ، چیزوں کو سمیٹتی ہے گھر میں روزانہ اپنے گھر کی چیزوں کو سیٹ کر دیتی ہے ۔ جتنی جتنی چیزوں کو اس نے اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہر ہر چیز کو رکھنے کے بدلے ایک گنا ہ معا ف ہو ا اور ایک نیکی اللہ نے عطا فر ما دی ۔ اس طر ح دیکھئے کہ ایک عورت گھرمیں کام کاج کے دوران کتنا ثواب حا صل کر سکتی ہے ۔ اگر اس نیت سے گھر کو صاف رکھیں گی کہ لو گ آئیں گے اور تعریف کر یں گے تو یہ آ پ کی ساری محنت صفر ہو گئی ۔ اس لئے کہ مخلوق نے کہہ بھی دیا کہ برا اچھا گھر ہے تو آپ کو کیا مل گیا ۔ اگر اتنی محنت کر کے پسینہ بہا کے فقط لوگوں کی زبان سے ہی آپ نے سننا ہے کہ بھئی بڑا اچھا گھر ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ﴿ فقد قیل ﴾ یہ کہا جا چکا ۔ تو یہ نیت مت کر یں ۔ نیت یہ کر یں کہ گھر کو سیٹ کروں کیو نکہ میں گھر والی ہوں اور یہ میری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ خوبصورت بھی ہیں اور خوبصورتی کو پسند بھی فر ماتے ہیں ، لہٰذا میں اپنے گھر کو سیٹ کر کے رکھوں گی ۔ سیٹ کر نے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ اس میں آپ کر سٹل سجا ئیں گی اور اس میں آپ سینکڑوں ڈالر کی چیزیں لا کے رکھیں گی ۔ یہ سیٹ کر نا نہیں بلکہ جتنے و سائل ہوں جیسے بھی ہوں مگر چیز کے اند ر صفا ئی ہو اور سلیقہ مند ی ہو ۔ صفا ئی کے لئے کو ئی ڈالر وں کی ضرورت نہیں بلکہ انسان نے اپنے کپڑے تو دھو نے ہی ہو تے ہیں تو ذرا صاف ستھر ے کپڑے رکھنے کی عادت رکھ لے ۔ اسی طرح چیزوں کو تو سمیٹنا ہی ہو تا ہے تو سلیقہ مند ی سے چیزوں کو رکھ لے ۔ تو صفائی اور سلیقہ کا ہونا یہ گھر کے خوبصورت ہو نے کی دلیل ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ایسا چپس کا بنا ہو اہو ، ایسے پتھر ہوں کہ با ہر کے ملک سے آئے ہو ئے ہوں تب جا کے گھر خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کی کو شش کر یں ۔ 

مذکورہ تین طریقے تو وہ تھے کہ جن کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑلیتا ہے تو اس وجہ سے کہ بیوی کی طبیعت میں نافرمانی، سرکشی اور آزادی ہے یا اس بناء پر کہ خاوند کا قصور ہے اور اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہے۔ بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا گھر سے باہر نکلنا لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جانبین میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے او رپھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
قرآن کریم نے اس فساد عظیم کو بند کرنے اور باہم صلح و صفائی کرانے کیلئے ایک بہت ہی پاکیزہ طریقہ بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ برادری کے سربراہ اور معاملہ فہم حضرات یا ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء دوحَکَم (صلح کرانے والے) مقرر کریں۔ ایک مرد کے خاندان سے، دوسرا عورت کے خاندان سے اور دونوں حکم میں یہ اوصاف موجود ہوں ۔
(۱)… دونوں ذی علم ہوں۔
(
۲) …دیانت دار ہوں۔
(
۳)… نیک نیت ہوں اور دل سے چاہتے ہوں کہ ان میں صلح ہوجائے۔
اور پھر صلح و صفائی کی پوری کوشش کریں، جب ایسے حکم ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی اور یہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوں گے، اور ان کے ذریعے دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پید افرمائیں گے۔
(از معارف القرآن جلد
۲ بتصرف)
نکاح کا مقصد طلاق دینا نہیں
اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کیلئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ نکاح ختم ہونے کا اثر صرف میاں بیوی پرنہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پور امعاشرہ اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کاپورا انتظام کیا ہے۔
زوجین کے ہر معاملہ اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے ، نااتفاقی ہونے کی صورت میں جیسا کہ تفصیل سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں ہیں اور اگر بات زیادہ بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں اور زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کاش ہم بھی ان پاکیزہ تعلیمات پر صحیح طریقہ سے عمل پیر اہوں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے خوب سوچ سمجھ کر اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں۔

جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔
(۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …
(
۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…
(
۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

خاوند کو پریشانی کے وقت میں تسلی دیا کرے ۔ یہ صحا بیا ت کی سنت ہے ۔ جیسے نبی علیہ السلام پہلی وحی کے بعد﴿ زملونی زملو نی ﴾کہتے ہو ئے گھر تشریف لائے تھے تو خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ان کو تسلی دی تھی۔بلکہ آپ فرماتے تھے کہ ﴿خشیت علی نفسی ﴾ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ تو انہوں نے فرما یا کلا ہر گز نہیں ۔ ﴿انک لتصل الرحم﴾ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ ﴿وتحمل الکل ﴾اور دوسروں کا بو جھ اٹھانے والے ہیں ۔﴿ تکسب المعدوم﴾ اور آپ تو جن کے پا س کچھ نہیں ان کو کما کر دینے والے ہیں ۔ ﴿وتکری الضیف﴾۔ مہمان نو ازی کر نے والے ہیں ۔ جب آپ میں اتنے اچھے اخلاق ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضا ئع نہیں فرمائیں گے ۔ چنانچہ اہلیہ کی ان با توں سے اللہ کے محبوب کو تسلی مل گئی تھی ۔ خا وند کبھی کا روبار سے یا کسی اور بات سے پر یشان ہو تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر میں آئے تو تسلی کے بول بولے ۔ یہ نہ ہو کہ اس کی پر یشانی کو اور بڑ ھا نے کے لئے پہلے سے تیا ر ہو ۔

خاوند کاا عتماد حاصل کر نے کی نصیحت
خوشگوار ازدواجی زند گی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میاں بیوی کو با ہم ایک دوسرے پر اعتماد ہو ۔ اعتماد کا فقدان بسا اوقات دونوں کی زندگیوں میں بہت سی تلخیوں کا باعث بن جا تا ہے ۔ اس لئے بیوی کو چا ہیے کہ وہ کبھی کو ئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے خاوند کی نظروں سے گر جا ئے ۔ چاہے وہ مال سے متعلق ہو یا چا ہے وہ اخلاق سے متعلق ہو ۔ کوئی ایسا کا م نہ کر یں جس کی وجہ سے آپ خاوند کی نظروں سے گر جائیں ۔ گر کر انسان دوبارہ وہ مقام نہیں پا سکتا جو پہلے ہو ا کر تا ہے ۔ بیوی کو چا ہیے کہ وہ اپنے میاں کے مزاج کو پہچا نے تا کہ گھر کے ماحول کو اچھا رکھ سکے ۔ اپنے میاں کے سامنے سچ کی زندگی گزارے۔ 
بات چھپا نے سے غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں 
عام طور پر رنجش کہاں سے پیدا ہو تی ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں کچھ با تیں چھپا نا چا ہتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہو کر رہنے والی زند گی گزاریں ۔خا وند بیوی کے ساتھ مخلص ہو اور بیوی خاوند کے ساتھ مخلص ہو تو اللہ تعالیٰ ان کو پر مسرت بنادیں گے۔ پھر ایک دوسرے پر اعتماد ہوگا اور اچھی زندگی گزر جا ئے گی ۔ بات بتا نے سے گر یز کر نے سے غلط فہمی پڑ جا تی ہے ۔ اور با ت کو چھپا کر آدمی کب تک چھپا ئے گا ۔ دوسرا ٹوہ میں لگا رہے تو بات کا پتہ تو چل ہی جا تا ہے ۔ لہٰذا ایک دوسرے کے ساتھ دل کو صاف رکھنا چاہیے اور دلوں کو کھول دینا چا ہیے ۔ ایسا نہ ہو آدھی بات بتا ئی آدھی رکھ لی۔
ایک لطیفہ مشہو ر ہے کہ کسی عورت نے آواز دھم سی سنی ۔ اس نے دور سے پو چھا کہ کیا ہو ا ؟ خاوند نے جواب دیا ، کر تہ پا جامہ گر گیا ہے ۔ اس نے کہا ، کر تہ پا جا مہ گر نے کی تواتنی آواز نہیں ہو تی ۔ کہنے لگا ، ہاں میں بھی کرتے پا جا مے کے اندر تھا ۔ تواس طرح آدھی بات بتائی اور جب دوسرے نے تھوڑی ٹوہ لگا نی ہے ، تب اگلی با ت بتانی ہے تو پھر اس سے غلط فہمیاں بڑھ جا تی ہیں ۔ پہلے ہی پو ری بات بتا دینی چا ہیے ۔با ت کو بدل کر کر نا یا بات کو چھپا لینا ،یہ حقیقت میں جھوٹ ہوتا ہے ۔ خاوند کے سامنے جب عورت نے خود ہی جھوٹ بولنے کی عادت ڈال لی تو پھر اس کی بے بر کتی پو ری زندگی میں پڑے گی ۔ تکلیف اٹھا لینا ذلت کے اٹھا لینے سے بہتر ہے ۔ یاد رکھیں انسان جتنی محنت اپنے خامی کو چھپا نے کے لئے کر تا ہے ، اس سے آدھی محنت کے ساتھ وہ خامی دور ہو سکتی ہے۔آپ کبھی کو ئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے میاں کے دل میں آپ کے با رے میں کوئی شک پیدا ہو۔مثلاً خا وند کو یہ شک ہو کہ یہ جھو ٹ بو لتی ہے ، خا وند کو شک ہو کہ یہ پیسے چھپا لیتی ہے ، خا وند کو یہ شک ہو کہ جن لو گو ں سے تعلق کو میں نا پسند کر تا ہو ں یہ ان سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس قسم کا کو ئی بھی شک خا وند کے دل میں پید ا مت ہو نے دیجئے۔اس لئے کہ جس دل میں شک جگہ بنا لے اس دل سے محبت رخصت ہو جا تی ہے۔


گھروں میں معمولی نوعیت کے جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات کوئی بڑا جھگڑ ابھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر خاوند بیوی دونوں برداشت سے کام لیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی قابل تعریف کردار ادا کریں تو طلاق کی نوبت نہیں آتی۔ اگر عورت خاوند کی نافرمانی پر اتر آئے تو بھی فوری طور پر طلاق دینے سے منع کیا گیا، بلکہ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو راستہ بتایاہے وہ اس طرح ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن (سورہ نساء، آیت ۳۴)
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو تو انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ اور پھر خواب گاہوں سے انہیں الگ کردو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو۔
اس آیت میں اصلاح کا طریقہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن سے نافرمانی کا ڈر ہو پہلے انہیں زبان سے سمجھایا جائے، ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ورنہ گھر کے اندر ان کا سوشل (سماجی)بائیکاٹ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے۔ اب وہ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی باز نہ آئیں تو ہلکی پھلکی سزا دو، یعنی ایسی سزا دی جائے جو اصلاح کا باعث بنے، اذیت ناک نہ ہو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا :
فاتقوا اللہ عزوجل فی النساء (مسند امام احمد جلد
۵ صفحہ ۷۳)
عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے، آپ نے فرمایا:
ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت
(سنن ابی داوٴد ص
۲۹۱)
”نہ تو عورت کے چہرے پر مار، اور نہ ناشائستہ کلام کر اور بائیکاٹ بھی گھر کے اندر کر۔“
اگر ان مندرجہ بالا صورتوں کو اپنانے کے بعد عورت راہ راست پر آجاتی ہے تو اب طلاق دینے جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً (سورہٴ نساء، آیت
۳۴)
پس اگر وہ عورتیں تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
مقصد یہ ہے کہ جب عورت خاوند سے بغاوت نہیں کرتی اور اب اطاعت گزار ہوچکی ہے اور گھر کا سکون بحال ہوچکا ہے تو اب طلاق دے کر اسے پریشان نہ کیا جائے۔
مصالحتی کمیٹی
اگر مندرجہ بالا تین طریقے بھی مفید ثابت نہ رہوں اور اتفاق و اتحاد کی کوئی راہ نہ نکلے بلکہ میاں بیوی کے درمیان عداوت اور اختلاف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو اب ذمہ دار حضرات مثلاً حکومتی افراد یا علاقے کے کونسلر یا محلہ دار اور گاؤں کے قابل اعتماد بزرگ حضرات کا فرض ہے کہ وہ دو آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جس میں ایک عورت کے خاندان سے ہو اور دوسرا مرد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ رشتہ داری کی بنیاد پر یہ لوگ اندرونی حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، یہ حضرات مصالحت کی کوشش کریں۔
نوٹ:۔ مصالحتی کمیٹی میں حسب ضرورت دوسرے مناسب افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ نیز کمیٹی دو سے زیادہ آدمیوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔
اگر ان لوگوں نے خلوص نیت سے کام لیا تو انشاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوجائیں گے
ارشاد خداوندی ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکمًا من اھلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیمًا خبیرًا
(سورہ نساء، آیت
۳۵)
اگر تمہیں ان کے درمیان ناچاکی کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے خاندان سے اور ایک پنچ عورت کے خاندان سے مقرر کرو اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بیوی) کے درمیان موافقت پیدا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
طلاق کی نوبت
اگر ان تمام طریقوں کو اپنانے کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکیں اور خاوند بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت پیدا نہ ہو بلکہ انکا اکٹھا رہنا ناممکن ہوجائے تو سخت مجبوری کے تحت طلاق دی جائے۔
لیکن طلاق دیتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر کسی وقت حالات بدل جائیں، ان دونوں کے درمیان صلح ہوجائے اور اب دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کرنا چاہیں تو کسی قسم کی پریشانی اٹھانا نہ پڑے۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم طلاق کی اقسام، طلاق دینے کے طریقوں اور طلاق کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ طلاق دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے!


طلاق کی دھمکی نہ دینے کی نصیحت
﴿الذی بیدہ عقدة النکا ح﴾ ( البقرہ ۲۳۷)
” وہ (مرد) جس کے ہا تھ میں نکا ح کی گرہ ہے “
قانو نی طور پر مرد کو طلاق دینے اور نکاح کی گرہ کھولنے کا کا مل اختیا ر ہے ۔ تجدید اگر ہے تو وہ اخلا قی ہے ۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایسا کر تا ہے تو بہت بڑا ظلم کر تا ہے جس کی اسے اللہ کے ہاں جو اب دہی کرنا ہو گی ۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ﴾ ( رواہ ابوداؤد ، کتا ب النکاح )
” اللہ کے نزدیک حلا ل چیزوں میں سب سے بر ی چیز طلا ق ہے “
لفظ طلاق ایک اصطلا ح ہے جس سے شوہروں کو بچنا چا ہئے ۔ اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لینا چا ہئے ۔ آج کل بہت سے خاوند کم علمی عقلی اور غصہ میں اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ۔ کچھ شوہر اپنی بیویوں کے سا تھ گرم سرد بحث میں اور غصہ سے بے قابو ہو کر یہ فعل کر گزرتے ہیں ۔ غصہ میں اندھے ہو کر ایک سا تھ تین طلاق دے دیتے ہیں ۔ شادی کی عمارت اسی وقت ڈھیر ہو جا تی ہے اور ان کے درمیان زن و شو کا رشتہ ختم ۔ جب غصہ ذرا ٹھنڈا پڑ تا ہے تو وہ اپنی اس حر کت پر پشیمان ہو تے ہیں۔
ہا ئے اس زود پشیمان کا پشیمان ہو نا
اب آنسو بہا نے سے فا ئدہ ! نا قا بل تلا فی نقصا ن تو ہو چکا ۔ اب کوئی راستہ با قی نہیں رہا جس سے تین طلاق دینے کے بعد میاں بیوی دوبارہ اکھٹے ہو سکیں ۔ جس شخص نے بھی غصہ کی حالت میں طلاق دی بعد میں ضرور پچھتا یا اور اب پچھتا ئے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔
پچھتا نے پر ہی کیا موقوف ، پڑا روتا رہے ، ٹسوئے بہا تا رہے ، کسی کا اس میں کیا دوش ، اس نے تو خود ہی تلا فی کے سارے راستے مسدود کر دیئے ۔ محبت کر نے والی بیوی گئی ،بچے اس گھر سے محروم ہو گئے جس میں انہیں حفا ظت اور رہنما ئی ملتی تھی ، جہا ں ماں کی محبت تھی اور با پ کی شفقت ۔ آناً فا ناً سب ختم ہو گیا ۔
ایک سا تھ تین طلاق دینے سے مو ثر تو ہو جا تی ہے لیکن یہ طر یقہ بہت نا معقول ہے اور بہت بڑا گناہ ۔ نسا ئی شریف میں درج ذیل حدیث اس بر ائی کی طرف اشارہ کرتی ہے :
﴿عن رجل طلق امرا تہ ثلث تطلیقات جمیعاً مقام غضبان ثم قال: ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظھر کم ؟ حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ ! الا اقتلہ ؟﴾ ( سنن النسا ئی ، کتاب الطلا ق ، بہ رو ایت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ )
” محمود بن لیبد رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ ایک شخص نے بیک وقت بیوی کو تین طلاق دیدی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فر ما یا ” کیا کتاب اللہ عزوجل کو کھلو نا سمجھ لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تم لوگوں میں موجود ہو ں“ایک شخص نے اٹھ کر کہا ” اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا میں اس شخص کو قتل کر دوں ؟“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کو دیکھتے ہو ئے ایک صحا بی نے بلا تو قف اس شخص کو جس نے بیک وقت تین طلاق دی تھیں قتل کر نے کی اجا زت ما نگی ۔ اس حقیقت کے باوجود آج کل کے شوہروں نے قرآن اور شریعت کے قوانین کو مذاق بنا لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ احمقانہ تیز گفتگو کے دوران انتہا ئی غصہ میں آکر تین طلاق دینے کی حما قت کر بیٹھتے ہیں ۔ وہ مرد ، عورتوں سے بڑھ کر عقل کی نا پختگی اور کم ظرفی کا اظہار کر تے ہیں ۔ شوہروں میں کچھ تعداد ایسے شوہروں کی بھی ہو گی جنہیں شریعت کے قوانین کا علم نہیں ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو تی ہی تین ہیں جو بیک وقت دی جائیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو نا قص العقل پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق دینے کا اختیا ر صرف مرد کو حا صل ہے ۔ اگر کہیں یہ حق عورتوں کو تفویض کر دیا گیا ہو تا تو طلاق روزانہ کا معمول ہوجاتا ۔ اپنی کم عقلی کی وجہ سے وہ اپنے کا موں کے نتائج کو محسوس نہ کر سکتی ۔ لیکن آج کل بہت سے مرد حضرات بھی کم عقلی اور ذود رنجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ایک شخص جب غصہ میں اندھا ہو کر تین طلاق دیتا ہے تو وہ عقلمند ی کے اعتبا ر سے عورت سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ طلا ق ایک تباہ کن فعل ہے ۔ اس پر عمل درآمد بڑی سوچ بچا ر کے بعد کیا جا نا چا ہئے ۔ حالات جب حد سے گزر جا ئیں اور ان کے سدھر نے کی کوئی صورت با قی نہ رہے تو مرد بڑے تحمل اور بردباری سے ہر پہلو پر غور کر کے یہ قد م اٹھا ئے تاکہ اسے بعد میں پچھتا نا نہ پڑے ۔
اگر شوہر طلاق دینے کا ارادہ کر لے تو اسے چائیے کہ بیوی کوطہر (جب وہ حیض سے نہ ہو) میں صرف ایک طلاق دے ۔نکاح کے بندھن کہ توڑنے کے لیے ایک طلاق کا فی ہے لیکن مصالحت کی صورت میں پھر زن و شوہر کی صورت میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
آجکل شر یعت کے قوانین سے لا علمی کی بنا پر بعض شوہر طلاق کے لفظ کو غیر اہم تصور کرتے ہیں۔ بیوی سے بات چیت میں ذرا سی تلخی آ جانے پر طلاق داغ دیتے ہیں ۔ شوہر وقتاََ فوقتاََ طلاق دیتا رہتا ہے اور بیوی سے ازواجی تعلقات بھی بدستور قائم رکھتا ہے ۔ یہ حرام کاری اور زنا ہے۔ اس لئے یہا ں طلا ق کے مو ضو ع کو اختصا ر سے در ج کیا جاتا ہے ۔

Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:

Delivered by FeedBurner


بیوی کے اقارب سے بے اعتنا ئی نہ کرنے کی نصیحت 
ایک بڑی غلطی عام طور پر جو خاوند لوگ کر لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو کہتے ہیں کہ تم سے تو مجھے پیا ر ہے مگر تمہا رے ابو اچھے نہیں لگتے ، امی اچھی نہیں لگتی ، مجھے تمہا رے بھا ئی اچھے نہیں لگتے ۔ عورت کو اگر یہ کہہ دیا جا ئے کہ اس کے قر یب کے محرم مر دوں سے مجھے نفرت ہے تو سو چئے کہ پھر اس بچی کے دل پر کیا بیتے گی ۔ اس لئے کہ بیوی کا اپنے والدین کے ساتھ تعلق جذبا تی لگا ؤ میں داخل ہے اور فطری چیز ہے ۔وہ کبھی بر داشت نہیں کر سکتی کہ اس کے والدین کے بارے میں کوئی الٹی سیدھی با ت کر ے ۔ اگر وہ کسی مجبو ری کی وجہ سے خاموش بھی ہو جائے گی تو دل تو اس کا ضرور دکھے گا ۔ اس کی مثال ایسی سمجھیں کہ خاوند کے اپنے والدین کے با رے میں بیوی کچھ ایسی با تیں کر دے تو خاوند کے دل پر کیا گزرے گی ۔ اسی طرح جب خاوند بیوی کے والدین کے با رے میں بات کر تا ہے تو اس کے دل پر بھی وہی کچھ گزرتا ہے ۔
کبھی یہ با ت بھی ایک لڑائی کا ذریعہ بنتی ہے کہ خاوند چا ہتا ہے کہ میرے رشتے دار مطمئن رہیں اور بیوی چا ہتی ہے کہ میرے رشتہ دار مطمئن رہیں۔ اس کے لئے ایک بہترین نصیحت یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کا ایک با پ اور ایک ماں تھی اب شادی کے بعد دوباپ اور دومائیں ہیں ۔ کیونکہ شریعت نے ساس اور سسر کو ماں اور باپ کا درجہ دیا ۔ توجب بیوی ساس اور سسر کو ماں اورباپ کی نظر سے دیکھے گی تو جھگڑاہی نہیں رہے گا۔اسی طرح جب خا وند بھی ساس اور سسر کو ماں اور باپ کی نظر سے دیکھے گا تو لڑائی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔ خاوند کے جتنے رشتے دار ہیں ان سب کے ساتھ شر عی طریقے پر اچھا تعلق رکھنا اور ان کو مطمئن رکھنا بیوی کی ذمہ داری ہو نی چا ہیے اور خاوند کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ بیوی کے رشتے داروں کو خوش رکھے ۔ جب گھر میں یہ ذمہ داریاں اس طرح تقسیم ہو جائیں کہ بیوی ہر وقت یہ سو چے کہ میں اپنے میاں کے رشتے داروں کو ہر وقت کیسے خوش رکھ سکتی ہوں ، اس کی امی کو کیسے خوش رکھوں ، اس کی بہنوں کو کیسے خوش رکھوں ، اس کے دوسرے رشتے داروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھوں تو پھر دونوں کے درمیان جھگڑے کا کو ئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔
لیکن آج کل نو جو ان تو عام طور پر یہ غلطی کر لیتے ہیں ۔وہ نہیں سمجھتے کہ اس کی کتنی اہمیت ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ خبردار ! تم نے اپنے گھر نہیں جا نا ۔ خبر دار تم نے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر نی ۔ اور یہ معاملہ بڑا عجیب ہو جا تا ہے ۔

بعض مردوں کو اپنی بیویوں کے زبان دراز ہو نے کا شکوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلہ میں اپنی بیویوں کو قصو روار اور بد اخلاق قرار دیتے ہیں حالانکہ مرداگر سمجھدار ہو تو بیوی کے بد زبان اور بد اخلاق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بیویوں پر بے جا ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور اوپر سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ زبان نہ کھولیں ۔ اگر وہ اپنی صفائی بھی پیش کرنا چاہیں تو ہم انہیں فوراً زبان دراز اور بد اخلاق ہونے کی ڈگری جاری کر دیتے ہیں۔
سمجھدار شوہر وہ ہے جو بیوی کے زبان دراز ہونے کی وجوہات تلاش کرکے ان کا سد باب کرتا ہے نہ کہ وہ جو سید ھا بیوی کی زبان کا ٹنے کو لپکتا ہے ۔ آپ اپنی بیوی کو زبان چلانے کا موقع ہی نہ دیں تو پھر وہ کیسے زبان چلائے گی۔ اگر آپ کے جائز شکووں کو زبان درازی خیال کرتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اپنے دل کی بھڑاس آپ کے سامنے نکال لے تو اس میں فائدہ ہے ، بجائے اس کے کہ وہ گھر کی باتیں سارے محلے میں سناتی پھرے اور آپ کے سامنے خاموش رہے۔
بعض اوقات عورت کی گفتگو کا انداز ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اسے بد اخلاقی اور زبان درازی خیال کر لیتے ہیں حالانکہ وہ دل سے آپ کو چاہنے والی ہوتی ہے ۔ سمجھدار شوہر وہی ہے جو ان نزاکتوں کو خوب سمجھتااور بیوی کے لیے مہربان ہو۔ اس کے جائز شکوے خوشی سے سنے ۔ اس کو اجازت دے کہ دوسروں کی بجائے مجھ (شوہر ) پر اپناغصہ جیسے چاہو نکالا کرو۔ اس کے سامنے خود زبان درازی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہو۔ کبھی کبھار ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی غصے میں آکر آپ کو واقعی ناز یبا جملے کہہ بیٹھے ۔ ایسے موقع پر اس پر کوئی حکم صادر کرنے سے پہلے آپ خود یہ سوچ لیں کہ اس نے اگر آج آپ کو کچھ سخت الفاظ کہہ دیئے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اسے سخت الفاظ نہیں کہے ۔ کبھی اسے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی اسے گندی گالیاں نہیں دیں ۔ کبھی اس پر غصے کا اظہار نہیں کیا۔ آپ تو اپنا ماضی بھول جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ کے ایسے بے شمار غلط رویوں پر کبھی اس بیوی نے اُف تک نہ کہا اور آج ایک مرتبہ اس کی زبان سے کچھ سخت جملے نکلے ہیں تو آپ اسے جان سے ماردینے پر تلے بیٹھے ہیں ……!
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی بیوی واقعی بڑی بدزبان اور بد اخلاق ہو ۔ ایسی صورت میں بہادری یہ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر گھر سے باہر جا پھینکیں اور ہمیشہ کے لیے اپنا دروازہ اس پر بند کردیں بلکہ بہادری یہ ہے کہ آپ اسے خوش اَ خلاق اور خوش گفتار بنادیں ۔ اس کا رویہ اور طرزِ زندگی درست کردیں ۔ اس کا کردار اور گفتار بااخلاق بنادیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بے شمار بد اخلاقوں کو بااخلاق بنادیں مگر آپ ایک عورت کو نہ بدل سکیں۔ آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو دنیا میں اور کوئی اہم کام کی آپ توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات عورت کا اپنے شو ہر کی پہلی بیوی سے اولا د کے ساتھ سلوک بہت خراب اوردلوں کو لرزا دینے والا ہوتا ہے ۔ ایک عورت جب وہ ایسے مرد سے شادی کر تی ہے جس کی پہلے سے اولاد ہو تی ہے کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا چا ہیے ۔ آج کل کے جہا لت کے دور میں شروع شروع میں اکثر بچے اپنی نئی ماں سے خائف رہتے ہیں اور اسے بن بلا یا مہمان تصور کر تے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے لا علمی اور اسلامی اقدار اور تر بیت میں کمی کے با عث وہ اپنی نئی ماں کے صحیح مقام اور رتبہ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں ۔ عام طور پر وہ اپنی سوتیلی ماں کے سا تھ گستا خانہ ، نا روا ، نا فرما نبرداری اورغیر اسلامی رویہ اپنا تے ہیں جسے وہ اپنے ذہن میں ایک نا مہر بان ، ظالم اور ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھنے والی تصور کر تے ہیں ۔ 
سو تیلی اولاد کے ذہنوں سے اس تصور کو دور کر نے کی کو شش کرنا عورت کا پہلا کام ہو نا چاہیے۔ یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ یقینا اس کے لئے وقت اور صبر درکار ہو گا ۔ عورت کو ہر حال میں بچوں کے اعتماد کو جیتنا اوربحال کرنا ہو گا ۔ اسے ایسے راستے اختیا ر کر نا ہوں گے جن سے وہ ان کے دلوں کو جیت سکے ۔ اس کے لئے انتہا ئی درجے کی سوجھ بوجھ اور صبر کی ضرورت ہو گی ۔
عورت ہر گز ان کے باپ کے پاس ان کی غلطی یا نا فرما نی کی شکایت نہ کر ے۔ اس سے ان کے دل اور سخت ہو جا ئیں گے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ دشمنی میں بہت آگے بڑھ جا ئیں گے ۔ اگر کبھی کبھا ر اس کی اشد ضرورت پیش آبھی جا ئے بچوں کے نا رواسلوک اور غلطیوں پر سر زنش کے لیے ان کے باپ کو بتا ئے بغیر چارہ نہ ہو تو وہ ایسا تنہا ئی میں کر ے تاکہ بچے اس سے آگا ہی نہ پا سکیں ۔ نیز وہ اپنے شو ہر سے وعدہ لے لے کہ وہ بچوں کو اس امر سے آگاہ نہیں کر ے گا کہ شکایت ان کی ماں نے کی ہے ۔ اب یہ باپ پر مو قوف ہے کہ بیوی کو شریک کیے بغیر وہ خود ان سے کس طرح نپٹتا ہے ۔
شوہر جب اپنے بچوں کو سر زنش کر رہا ہو تو کبھی کبھار وہ خود بچوں کی طرفداری کرے اور شوہر کے آگے ان کے لیے ڈھا ل بن کر کھڑی ہو جا ئے ۔ شوہر بیوی کے اس رویے کا ہر گز برا نہیں منا ئے گا بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ بچوں کی طرفداری کے اظہار سے بچے اپنی نئی ماں کے ساتھ جلد مانو س ہو جا ئیں گے اور اسے اپنا ہمدرد اورمحافظ سمجھیں گے ۔اس قسم کے دوسرے طریقوں سے اسے بچوں کے دلوں کو جیتنا ہو گا ۔
سو تیلے بچوں کے ساتھ سلوک کے لیے عورت کو تھوڑی سی سمجھ داری اورصبر کی ضرورت ہو گی ۔ عقلمند ی کے طریقے اپنا کر وہ بچوں کے دل جیت لے گی اور یوں خود کو اور اپنے شوہر کو بہت سے مصائب سے بچا لے گی جن کا سامنا ایسے بہت سے گھروں کو کرنا پڑتا ہے جہاں سو تیلی ماں اور بچے ہو تے ہیں ۔
بعض عورتیں بہت غیر معقول رویہ اختیار کر تی ہیں اور کو شش کر تی ہیں کہ سو تیلے بچوں اور اس کے شوہر کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی ہو جائے ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ خاوند کے دل سے بچوں کی محبت کھرچ کر نکال دیں ۔ یہ بہت ظالمانہ فعل ہے اور گنا ہ عظیم۔ وہ یہ کیوں بھول جا تی ہیں کہ ایسے نا رواطرز عمل سے اپنی خوشیوں کی منز ل کو خود سے دور کر رہی ہیں۔
سو تیلے بچے اس کے پاس امانت ہیں ۔ اسے ان سے محبت کر نی چا ہیے ۔ ان کے مسائل کو سمجھنا چا ہیے اور ان کے حل کرنے میں ان کی مدد کر نی چا ہیے ۔ عورت کو چا ہیے کہ سو تیلے بچوں کو ان کاصحیح مقام دے اور ان کو تحفظ فراہم کر ے ۔ وہ ان کے ساتھ دشمنی مول نہ لے۔ہمسری اور رقابت نہ کر ے ۔ بعض اوقات سو تیلی ماں اپنی نو جوان سو تیلی بچیوں کی ہمسری کرنے لگتی ہے ۔ایسا رویہ ایک عورت کے لیے جب کہ وہ ماں کی حیثیت رکھتی ہو شایان شان نہیں بیوی کبھی بھی خاوند کو اس امتحان میں نہ ڈالے جہاں اسے مجبور ہو کر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر نا پڑے ، بیوی یا بچوں کا ۔ بعض اوقات بیوی محسوس کر تی ہے کہ اس کا خاوند اپنے بچوں کی بے جا طور پر طرفداری کر تا ہے اور کسی وقت اس کے ساتھ سلوک بہتر نہیں ہو تا۔ مگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنی نا پسند یدگی کا اظہار کسی طور شو ہر کو نہ ہونے پا ئے ۔ اگر وہ اپنے دل میں بھی ملال نہ لا ئے تو سب سے بہتر ہے ۔ ذہن کی پختگی اورصبر انسان کے مر تبے اور شان میں اضا فہ کرتا ہے ۔

 


ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیوی کا مزاج شکایتی ہو اور آئے دن وہ آپ کو اپنے دکھڑے سناتی رہتی ہو۔ آپ سارے دن کے تھکے ماندہ گھر لوٹیں اور آگے سے وہ شکایتوں کا رجسڑ کھول کر بیٹھ جائے ۔ ایسی صورت میں اچھا اور سمجھدار شوہر وہ ہے جو یہ جانتا ہوکہ میں نے برداشت سے کام لینا ہے ، میرے علاوہ اور کون ہے جو اس کے دکھڑے سنے گا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے شکوے توجہ سے سنیں ۔ اس کی شکایتوں پر اسے برابھلا نہ کہیں آپ کا یہ عمل آ پ کے لیے بڑا خوشگوار ثابت ہوگا اور اس کا بوجھ ہلکاہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ غصے کا رویہ ظاہر کریں گے تو اس کے کئی نقصانات پیدا ہوں گے مثلاً:
(
۱)…اگر وہ آپ کو اپنے شکوے نہیں سنائے گی تو دل ہی دل میں کڑھتی اور جلتی بجھتی رہے گی اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی ۔
(
۲)…اگر وہ آپ کے سامنے شکوے رکھ کر دل کا غبار ہلکا نہیں کرے گی تو پھر بچوں پر غصہ نکالے گی ۔ ان کی تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں دے گی ۔
(
۳)…بچوں پر نہیں تو آپ کے گھر کے دوسرے افراد مثلاً ساس، سسر اور نندوں وغیرہ کے ساتھ بدتمیزی کرے گی۔ گھر میں توڑ پھوڑاور نقصان کرے گی۔
(
۴)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں کو جاکر آپ کی شکایتیں کرے ، انہیں آپ کے خلاف بھڑکائے اور آپ کو ظالم اور خود کو مظلوم ظاہر کرے ، ظاہر ہے اس سے دو گھرانوں میں نفرت کی آگ بھڑکے گی ۔
(
۵)… یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سہیلیوں اور گھر میں آنے والی محلے کی دوسری عورتوں کے سامنے شکوے کرے۔ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ سارے محلے اور رشتہ داروں میں آپ اور آپ کے گھروالوں کو ظالم سمجھاجائے گا۔
ان تمام نقصانات کا حل یہی ہے کہ آپ کی بیوی اپنے سارے دکھڑے آپ کے سامنے ہی پیش کرے ۔اس طرح گھر کی بات گھر کی چار دیواری بلکہ صرف میاں بیوی کے اندر ہی رہے گی اور وہیں حل ہو جایا کرے گی۔ نہ گھر میں شور وغوغا ہو گا نہ محلے میں ڈھنڈ ورا پیٹا جائے گا اور نہ خاندانوں کی باہمی لڑائیوں کو سرا ٹھانے کا موقع ملے گا۔

اگر ایسا اتفاق ہو جائے کہ مرد دوسری شادی رچالے تو پہلی بیوی کو نہ تو ایسا سوچنا چاہیے اور نہ ہی ایسا بر تاؤ کرنا چا ہیے جیسا کہ غیر مسلم عورتیں کرتی ہیں۔
وہ تو شوہر کی دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ ان کے معاشرہ میں یہ قا بل قبو ل نہیں۔
یاد رکھو!اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک سے زا ٰئد شا دیو ں کی اجا زت دی ہے ، اسلا م کی رو سے ایک مر د کو حق حا صل کہ وہ ایک سے زائد عورتوں سے شاد ی کرے۔
دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی نہ اس طرح برتاوکرے جیسے اس کی دنیا اندھیرا ہو گئی ہو اور اس کی زندگی سے رو شنی مفقود ہو گئی ہو ۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ذہنی طو ر پراسے جھٹکاضرور لگے گااور وہ غمزدہ بھی ہو گی مگر اسے حالا ت کا مقابلہ سو جھ بو جھ ، عقلمندی، ذہن کی پختگی اور صبر سے کرنا ہو گا ۔ اسے اپنی نفسا نی خواہشات جن کو شیطان ابھا رتا ہے کو دبا نا ہو گا اور احسا سات کو بے لگا م ہو نے سے روکنا ہو گا ۔
اگر ان حالات کا مقابلہ وہ حسد ، نفرت ، بغض ، کینہ اور عداوت سے کر ے گی تو اس کو یہ امر یا درکھنا چا ہیے کہ اس کی حا لت مزید خراب ہو جائے گی ۔ شوہر کو دوسری بیوی سے بد ظن اور علیٰحدہ کر نے کی اسکی کو ششیں بار آ ور نہیں ہو ں گی ۔ اپنے نا رواسلوک سے اس کا خاوند اس طرف سے بر گشتہ ہو جائے گا اور اسے وہ کٹنی نظر آنے لگے گی ۔ عورت اپنے برے روئیے سے کچھ اپنا ہی نقصان کر ے گی اور فا ئدہ کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
پہلی بیوی کو اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لینا چا ہیے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتی ۔ اسے ایسی کوشش سے احتراز کر نا ہو گا جس سے وہ اپنے خاوند کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے حق سے دستبر دار ہونے کے لیے مجبور کر ے ۔
عورت کو چا ہیے کہ اپنے خاوند کے دوسری شادی کے فیصلے کو پر وقاررویئے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے لیے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مزید ہو گی ۔ یقینا نقصا ن میں نہ رہے گی ۔ اپنے نفس پر قابو پا کر نئے حالا ت سے سمجھوتہ کر نا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں اپنے نفس سے جنگ کر نے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ۔
نفس کے خلاف مجاہد ہ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے اور جب تک وہ اس زمین پر مقیم ہے اسے نفس اما رہ کے خلاف نبرد آزما ہو نا پڑے گا ۔ ایک مسلمان کو اس امر کی اجازت نہیں کہ ایسی خواہشات کی پیروی کر ے جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ پہلی بیوی کو یہ جان لینا چا ہیے کہ ردّعمل حسد کی بنا پر ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خا طر حسد کو ترک کر دے۔
یاد رکھو ! ایک مسلمان اس دنیا میں آزاد نہیں کہ جو مر ضی میںآ ئے کہے اور کرے ۔ ہماری رہا ئش ، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات و کردار پر لا تعداد بندشیں اللہ کی طرف سے عائد ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ﴿الدنیا سجن المو من و جنة الکافر
(
بہ روایت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ ، مسلم کتاب الزہد۔ ترمذی کتاب الزھد ۔ ابن ماجہ ۔ ابواب الزہد)
دنیا موٴمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے “۔
اچھی اور سچی مسلمان عورت اپنے خاوند کی دوسری بیوی کی عزت کر یگی ۔ اپنے مجروح جذبات پر قابو پا ئے گی ۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ سوت کے ساتھ مہر بانی اور شا ئستگی سے پیش آئیگی ۔ اسلامی طور طریقے اپنانے سے اس کے شو ہر کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات صحت مندانہ ماحول میں ترقی کر یں گے اور ان دونوں میں آپس میں پیا ر و محبت بڑھے گا ۔
عورت کو اپنے شوہر سے دوسری بیوی کے متعلق حقارت آمیز ، طعن آمیز اور تمسخر آمیز گفتگو نہیں کرنی چا ہیے ۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہے ایسا کر نے سے خاوند کو دوسری بیوی سے بر گشتہ کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ اس کے بر عکس اس کا یہ طرز عمل خاوند اور دوسری بیوی کے تعلقا ت کو مزید استوار کر نے کا با عث ہو گا ۔وہ اپنی پہلی بیوی کی نا جائز غیبت پر نالاں ہو کر دوسری بیوی کی طرف زیادہ رجوع کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ دوسری بیوی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جس وجہ سے وہ اس کی زیادہ تو جہ اور ہمدردی کی مستحق ہو گی ۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو عقد ہ کھلے گا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوئی ہے ۔ اسے ایک سچی مسلمان عورت ہونے کے نا طے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجا نا چا ہیے اور صبر کرنا چا ہیے ۔ ایسا با عزت رویہ اپنا کر وہ یقینا فا ئدہ میں رہے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ایک عورت ، جب اس کا شوہر دوسری عورت سے شادی کر تا ہے ، اس پر صبر کرتی ہے ، ایک شہید کا ثواب پائیگی “۔
عورت اپنے صبر کی بدولت اور دوسری شادی کی حقیقت کو پر وقار اور حوصلہ مندی سے قبول کرنے کی صورت میں بہت بڑا ثواب کما ئیگی اور اللہ کے ہاں بڑا رتبہ پا ئے گی پھر وہ کیوں غمزدہ اور مایوسی کا شکار ہو ؟ بہتر ہے کہ وہ جان لے کہ اس کا برا طرز عمل اس کی اپنی شادی کو تباہی کے غار میں دھکیل دینے میں معاون ثا بت ہو گا ۔
دنیوی زندگی ، بہر حال مصیبتوں ، کو ششوں اور سختیوں سے عبا رت ہے جس سے ہر ایک مسلمان کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ مکمل خوشی کا ملنا اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔ اس کے لیے جنت ہے اور اس میں پہنچنے کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ۔ اگر وہ یہ خیال کر تا ہے کہ سختیاں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس پر برداشت و صبر کی روش اختیار کر تا ہے تو اسے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہو تا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ عارضی ہے اور اس دنیا کا رنج و غم بھی عارضی ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جو مستقل جائے قرار ہے ۔ اس دنیا میں اگر انسان نے نیک اعمال کئے ہو ں گے تکلیف میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہر کیا ہو گا تو اسے اس دنیا میں بھی رنج و تکلیف محسوس نہ ہو گی اور آخرت میں اس کے لئے جنت کا وعدہ اللہ نے کیا ہو ا ہے ۔

بے جا تنقید نہ کرنے کی نصیحت
بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی بیویوں کے کاموں پر تنقید ی نگاہ رکھتے ہیں۔ ہرکام میں سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ؟ یہ کیا کیا؟ یہ کیوں کیا؟ یہ کیسے کیا؟ وہ کیو ں نہ کیا؟ یہ پہلے کیوں کیا؟ وہ بعد میں کیوں کیا؟ اس طرح کی تنقیداور بے جا سوالات سے عورت چڑ چڑاتی ہے اور ظاہر ہے اگر وہ بھی آگے سے ترکی بہ ترکی جواب دے تو آپ کو غصہ آئے گا اور بات بڑھے گی ۔ اور اگر وہ آپ پر غصہ نہ کرے گی تو دل ہی دل میں کڑھے گی یا گھر کے سامان یا بچوں پر اپنا غصہ نکالے گی۔
بیوی کو طعنہ نہ دینے کی نصیحت
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو مندمل ہو جاتا ہے مگر زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا ۔ یہی حال طعنوں کا ہے ۔ کسی کو طعنہ دینے سے بظاہر کو ئی نقصان ہوتا نظر نہیں آتا مگر اندر ہی اندر وہ طعنہ اپنا اثر دکھاتا ہے بعض ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کئی عورتیں پیچیدہ امراض کا شکار اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں زندگی بھر دوسروں سے طعنے سننا پڑتے ہیں ۔ کبھی خاوند اسے طعنے دے رہا ہے ، کبھی ساس طعنے دے رہی ہے، کبھی نندوں کی باری ہے اور کبھی جیٹھانیاں اور دیورانیاں اس پر برس رہی ہیں ۔اگر آپ سمجھدار شوہر ہیں تو آپ کبھی اپنی بیوی کو طعنے نہ دیں ۔ اس پر طنز یہ جملے نہ کسیں ۔ اس سے یا تو وہ نفسیاتی مریض بن جائے گی یا پھر برداشت سے باہر ہوجائے گی اور آپ پر زبان درازی شروع کردے گی ۔ اور ظاہر ہے یہ دونوں صورتیں خود آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی اور آپ کی اِ زدواجی زندگی خوشیوں کی بجائے اُ لجھنوں کا شکار ہوجائے گی۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]

Allah Almighty also says what means:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]

It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:

  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.

Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:

There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]

Thank you again for your question.
Salam.


بیوی خوبصورت یا ” معیاری “ نہ ہو نے پر نصیحت
شادی سے پہلے ہر مرد نے اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں بڑا اونچا معیار قائم کر رکھا ہوتا ہے مگر جب شادی ہوتی ہے تو عورت اس معیار پر پورا نہیں اترتی ۔ چنانچہ شوہر کا دل بجھنے لگتا ہے اور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے بے شمار طلاقو ں کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ ” بیوی معیاری اور خوبصورت نہیں تھی۔
دراصل یہ بھی شیطان کاایک دھوکا ہے جس کے ذریعے وہ خاندانوں کو اجاڑتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس شیطانی دھوکے سے بچیں اور یہ یاد رکھیے کہ جو معیا ر آپ چاہتے ہیں ، اس پر اس دنیا میں کوئی عورت پورا نہیں اترے گی ۔ آپ لاکھ سمجھتے رہیں کہ اگر فلاں لڑکی میری بیوی بنتی تو وہ میرے معیار پر پوری اترتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر اسی لڑکی سے آپ کی شادی ہوجاتی تو آپ اس میں بھی سونقص نکال دیتے اور کسی اور خاتون کے بارے میں یہ کہتے سنائی دیتے کہ ”وہ میرے معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔
اگر آپ ذہنی معیار کو کچھ نیچے لے آئیں گے تو آپ یہ حسرت کرنا چھوڑ دیں گے ورنہ اس حسرت میں ہمیشہ جلتے رہیں گے اور بیسیوں عورتیں بدلنے کے باوجود آپ کی یہ حسرت کبھی پوری نہ ہو گی ۔ ایک چیز آپ سے دور کسی ” شوکیس “ میں بڑے سلیقے سے رکھی ہو تو وہ جاذبِ نظر معلوم ہوگی مگر جب وہی چیز آپ کے ہاتھ میں آجائے تو آپ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں اس سے دل بہلانے کے بعد اسے چھوڑ دیں گے ۔ اب اُسے دوبارہ اُسی شوکیس میں رکھ بھی دیں تو آپ کے لیے وہ جاذبِ نظر نہیں رہے گی کیونکہ آپ اس سے کھیل چکے ہیں ، اب اس جگہ کو ئی نئی چیز آپ کے لیے جاذب ِ نظر ہوگی ، خواہ وہ اس سے بھی کمترہی کیوں نہ ہو۔ یہی مثال عورت کی بھی ہے ۔ پہلے چار دن آپ کوایک عورت جاذبِ نظرمعلوم ہوگی ، بعد میں وہی آپ کے معیا ر ِ حسن پر فیل ہوجائے گی اور اس کی جگہ کوئی نئی عورت جو آپ کی دسترس سے دور ہے ، وہ آپ کو بھلی لگے گی خواہ ماہرین ِ حسن کے نزدیک اُس کاحسن پہلی سے سودرجہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اس لیے یاد رکھیے کہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے ، بدلتی خواہشات کی پیروی کانام نہیں۔ عورت سے آپ نے شادی کی ہے وہ اب آپ کی بیوی ۔ آپ کی عز ت، آپ کے بچوں کی ماں ہے ۔ اب آپ اسی کو حسینئہ عالم سمجھیں ، اسی کے ناز ونخرے برداشت کریں اور اس کے علاوہ دوسری عورتوں کی طرف للچائی نظروں سے نہ دیکھیں ۔ اگر آپ میں استطاعت ہے تو ایک اور شادی کرلیں ۔ اگر دوبیویوں کے اخراجات پورے کرنے کی استطاعت نہیں تو ایک ہی پر قناعت کریں ۔ اگر اس میں کوئی کمی ہے تو یادرکھیے کہ دنیا کی ہر عورت میں کوئی نہ کوئی کمی ضرورہوتی ہے اور جس چیز میں سب برابر ہیں وہ ایک ہی چیز ہے اور اس ایک چیز کی خاطر بیوی بدلنا کوئی دانشمندی نہیں ۔
اسی طرح حسن کاجو معیا ر آپ نے قائم کیاہے ذرا اس پر اپنی بہنوں کو تو ل کر دیکھ لیں ۔ اگر آپ کی بہنیں اس معیار پر پورانہ اتریں اور یقینا وہ بھی ا س معیار پر پورانہ اتریں گی تو کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کے بہنوئی آپ یاآپ کے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے یہ کہتے دکھائی دیں کہ فلاں صاحب کی بہن تو ہمارے معیار پر پوری نہیں اتری ۔ کیا اس بنیاد پر اگر وہ آپ کی بہنوں کو طلاق دینا چاہیں تو آپ کوان کا یہ طرزِ عمل پسند آئے گایا آپ اس پر آگ بگولہ ہوجائیں گے ۔ غور کیجیے کہ دوسروں کے لیے تو ایک چیز آپ پسند نہ کریں مگر خود آپ اسی کا ارتکاب کریں ، تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟
علاوہ ازیں آپ ذرایہ بھی سوچیے کہ جس طرح کے حسن کا معیار آپ نے قائم کیاہے ، کیا آپ خود اس پر پورا اترتے ہیں ؟ جتنی خوبیاں آپ مانگتے ہیں کیا آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو واقعی اتنی خوبیوں والی بیوی ملے ؟ جتنی حسین پری عورت آپ چاہتے ہیں ، کیا اس کے مقابلے میں آپ کاحسن بھی ویسا ہے؟ جس طرح کا پیما نہ لے کر آپ شریک حیات تلاش کرنے نکلے ہیں وہی پیمانہ لے کر اگر کوئی دُلہا تلاش کرنے نکلاہو تو سچ سچ بتایئے کیا آپ اس پیمانے پر پورااتریں گے ؟
آپ خود تو اس معیار کے مقابلہ میں صفر ہوں اور اپنے لیے وہ عورت چاہیں جو سوفیصد اس معیار پر پوری اترے، یہ بے وقوفی اور حماقت نہیں تو بتایئے حماقت پھر کس بلا کانام ہے؟
اگر آپ قناعت کی اہمیت جانتے ہیں اور تقدیر پر راضی رہنے کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں تو یقین کیجیے آپ کی وہی بیوی جسے آپ اپنے معیار سے کمتر سمجھتے تھے ، آپ کی نظر میں اتنی بلند یوں پر فائز ہو جائے گی کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اور پھر اس کے مشورے کے بغیر آپ ایک قدم بھی نہ اٹھائیں گے ۔ حتیٰ کہ اس کا دیدار کیے بغیر آپ کادن نہ کٹے گا۔

 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


علیٰحدہ رہا ئش کا مطالبہ اور اہم نصیحت
اسلام نے بیوی کو ایک حق یہ بھی دیا ہے کہ اس کی رہا ئش کا کو ا رٹر علیحدہ ہو ۔ شوہر پر اس کا حق واجب ہی نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہا ئش کے لئے علیحدہ کو ارٹر مہیا کر ے ۔ ایک بڑے گھر میں اگر ایک سے زیادہ خا ندان آ باد ہیں تو علیحدہ ایک کمرہ ، جس میں کوئی دو سرا خلل انداز نہ ہو ۔
عور ت کے سونے کا کمرہ ، جس پر اس کا مکمل اختیار ہو نا چا ہئے ۔ یہ اس کے اسلامی حق کے دائرہ کا ر میں آتا ہے اور اس کا اسے قانونی حق بھی حا صل ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کے والدین کو بلکہ اپنے والدین کو اپنے ذاتی سونے کے کمرے میں آنے سے منع کر دے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیوی کا طے شدہ اور ماناگیا حق ہے ۔ مگر عورتوں کو اس امر کا بھی علم ہو نا چا ہئے کہ اکثر شوہر شر یعت کے قوانین سے نا بلد ہو تے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کو علم ہو تا بھی ہے تو ان کو پورا کر نے میں تساہل بر تتے ہیں ۔ دین سے دوری کے اس دور میں شو ہر حضرات اپنے دینی حقوق وفرائض کا بہت کم علم رکھتے ہیں وہ اپنی نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہونے کے سبب برداشت کے مادہ سے عاری ۔ اگر کسی نے اپنے حق کی با ت منوانے کی کو شش کی تو اس پر بھڑک اٹھتے ہیں ۔ عقل مند بیوی یہ سمجھ لے کہ اگر اس نے اپنے حقوق کے حصول پر اصرار کیا تو وہ گھر یلو خوشیاں حاصل کر نے میں کامیاب نہ ہو گی ۔ ایسا کرنے پر نہ صرف اس کا شوہر اس سے نفرت کرنے لگے گا بلکہ اس سے دوردور رہنے کی کوشش کرے گا۔
بعض اوقات شوہر نا مساعد حالا ت کی وجہ سے بیوی کے لئے فو ری طور پر علیٰحدہ گھر کو ا رٹر کا بندوبست نہیں کر سکتا ۔ بیوی کو شو ہر کی مجبو ری کا احساس ہو نا چا ہئے اور وہ صبر سے اچھے دنوں کا انتظار کر ے ۔ وہ عیب گیری کر کے شوہر کو اس امر پر مجبو ر نہ کر ے کہ ہر صورت میں اس کی اس ضرورت کو پورا کر ے ۔
جہاں بیوی سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہو تی ہے تو جان بو جھ کر ایسی سکیمیں تیا ر کر تی ہے جن سے سسرال والوں کے لئے مسائل پیدا ہو جائیں ۔ روزروز کے جھگڑوں سے خاوند کے تعلقا ت اپنے عزیزوں سے بگڑ جائیں جن کی وجہ سے صلہ رحمی سے باز آجا ئے اور ان کی امداد سے اپنا ہا تھ ر وک لے ۔ خاوند اپنے اس رویہ کی وجہ سے عذاب کا مستحق ٹھہر ے گا ۔
مسلما ن بیوی کو چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یاد رکھے کہ اسے آخرت میں اپنے اعمال کی جو ابدہی کر نا ہو گی ۔ وہ اپنے حقوق کے حصول کی خا طر اس قدر آگے نہ بڑ ھے کہ شوہر کی حکم عدولی کے گنا ہ کی مرتکب ہو ۔ اپنے حقوق کے حصول کی خواہش میں اسے چاہئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں عمل کرے ۔ اس کے ذہن میں رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
اے عورت ! دیکھ ۔ وہ (تمہا را شوہر ) تمہا ری جنت ہے یا دوزخ
عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش رکھے جب وہ اس کی طرف دیکھے۔ اطاعت کر ے جب وہ اسے حکم دے … اور اپنے اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ نہ اختیا ر کر ے جو شو ہر کو نا پسند ہو ۔
(
بہ روایت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ، نسائی)
کچھ عورتیں شادی کے پہلے دن ہی علیٰحدہ گھر کا تقاضا کر دیتی ہیں ۔ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کسی صورت میں بھی ہنسی خوشی رہنا گواراہ نہیں کر تیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ نئے نئے ڈھونگ رچا تی ہیں ۔ زبان درازی پر اتر آتی ہیں اور لڑائی جھگڑا کر تی ہیں ۔ یوں اپنے خاوند اور اس کے عزیزوں کا جینا حرام کر دیتی ہیں ۔ اپنے مقصد کے حصول کی خا طر وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں اٹھا ر کھتیں ۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کی خو شی اور احسا سات کا ذرہ برابر خیال نہیں کرتیں ۔ حالات کے ساز گار ہو نے کا انتظار نہیں کر تیں ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ بس ان کی خواہش اور ضرورت دم بھر میں پو ری ہو جائے ۔ ان کا یہ رویہ بجا نہیں ہے ۔ خاوندکے ساتھ انہیں اپنی پو ری زندگی بسر کر نی ہے لیکن وہ اپنی بے صبری اور حما قت سے شادی کے آغاز ہی میں اپنی راہ میں کا نٹے بچھا دیتی ہیں ۔
بیوی کو اچھے دنوں کا انتظار کر نا چاہئے ۔ وہ صبر اور دعا کو اپنا شعار بنائے ۔ یہ عورت کی کم عقلی اور اسلامی قوانین سے بے خبری کی دلیل ہو گی اگر وہ خا وند کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کے عزیز و اقارب سے بر گشتہ اور علیٰحدہ کر دے ۔ ایسے بر ے حالا ت پیدا کر دینا کہ خا وند کو دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے ، اپنے والدین کو چھوڑ ے یا بیوی کو ، ایک اچھی مسلما ن عورت کا طور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ 

نا فرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ
بعض اوقات عورت سے کوئی غلطی ہو جائے تو سمجھدار بیوی خود ہی معافی مانگ لیتی ہے اور آئندہ اس غلطی کو نہ کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہے مگر بعض عورتیں کچھ لا پر وا ہوتی ہیں۔ انہیں بار بار سمجھا نے کی ضرورت ہو تی ہے۔ اگر آپ کی بیوی کا شمار بھی انہی عورتوں میں ہوتا ہے تو پھر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ اپنی بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھا ئیں اور بار بار سمجھا ئیں ۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی بات سمجھ لے گی اور اپنی اصلا ح کر لے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ آپ اصلاح کے لیے حکیمانہ اُسلوب اختیار کریں ورنہ ممکن ہے کہ آپ کے غلط انداز سے سمجھانے کا الٹا نقصان ہو اور بیوی مزید بگڑ جائے۔ بیوی کو سمجھا نے کا طریقہ کچھ اختصار سے بتا تے ہیں۔ اسے مد نظر رکھیں:
(۱)…بعض اوقات بیوی آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے قصداً کو ئی ایسا نخرہ یا شرارت کرتی ہے جسے آپ اس کی نافرنانی ، گلہ شکوہ یا غلط رویہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے سنجیدہ ا ور خشک انداز میں وعظ و نصیحت شروع کر دیتے ہیں۔ بیوی سمجھ جاتی ہے کہ شوہر صاحب میرا مقصد انہیں سمجھے اور آپ کی نصیحتیں اس پر پتھر بن کر برس رہی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں غلطی دراصل شوہر کررہا ہوتا ہے جو اپنی بیوی کا مزاج نہیں سمجھ پاتا۔ لہٰذ ا بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی بیوی کا مزاج سمجھیں تاکہ اس کی غلطی اور نخرے میں فرق کر سکیں اس کی پیار طلب شرارت اور نافرمانی میں امتیاز کر سکیں۔
(
۲)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی موقع پر اصلاح ضروری ہوتی ہے لیکن ہر غلطی ایسی نہیں ہوتی کہ آپ فوراً اصلاح کے لیے لیکچر دینا شروع کردیں۔لہٰذا پہلے یہ دیکھیں کہ آپ اپنی بیوی میں جو غلطی محسوس کررہے ہیں ، وہ ایسی ہے کہ اس پر فوراً اصلاح کی جائے یا کسی اور مناسب وقت پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے بیوی کو سمجھانا مناسب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت ہو ، اس کے مطابق عمل کریں۔
(
۳)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے طنز یہ انداز اختیار نہ کریں ۔ جتنی غلطی ہے اس سے بڑھ کر الزام نہ دیں ۔ انتہائی شگفتہ انداز میں بیوی کو سمجھا نے کی کوشش کریں تاکہ وہ یہ سمجھے کہ آپ اس کے لیے مشفق و مہربان ہیں ، دشمن نہیں ۔
(
۴)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے مناظر انہ انداز بھی اختیار نہ کریں ۔ بحث و مباحثہ کی کیفیت پیدا نہ کریں ۔ بلکہ داعیانہ و مصلحانہ انداز اختیار کریں ۔ ایک وقت اگر بیوی اپنی ضد پر اصرار کرے تو مزید نہ اُلجھیں بلکہ کسی اور وقت میں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۵)…دوسروں کی موجودگی میں بیوی کی اصلاح کے لیے اس کی غلطیاں بیان نہ کریں ۔ اس میں اس کی ہتک ہے اور اس طرح وہ آپ کی بات کا برُا اثر لے گی ۔ اس لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ یا تو علیٰحدگی میں سمجھاتے یا پھر اس انداز میں سمجھاتے کہ صرف غلطی کرنے والے کو علم ہو تا کہ مجھے سمجھایا جارہا ہے اور دوسروں کو بالکل خبر نہ ہوتی کہ غلطی کس نے کی تھی۔
(
۶)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں منہ سے کچھ کہنے کی بجائے عمل سے سمجھانا پڑتا ہے اگر اس کی غلطی اس نو عیت کی ہوتو پھر زبانی تقریر کی بجائے خود عمل کرکے سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۷)…جب بیوی کواس کی کسی غلطی پر ٹوکنا اور سمجھانا چاہتے ہو ں تو اسکی پچھلی تمام غلطیوں کو پھر سے دہرانے کی کوشش نہ کریں اور یہ انداز اختیار کریں کہ تم تو ہمیشہ سے ایسی اور ایسی تھی۔ تمہیں تو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ اس طرح آپ کچھ اصلاح نہیں کر سکتے بلکہ اور بگاڑ ہی پیدا کریں گے ۔

بیوی کو سمجھانے کے طریقے
(
۸)…”مسلم شریف “ کی ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور عورت تمہارے بتائے ہوئے راستہ پر کبھی سیدھی نہ ہوگی پس اگر تم عورت کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو اس حالت میں فائدہ اٹھا سکتے ہو کہ اس کا ٹیڑھاپن اس میں باقی رہے گا لیکن اگر تم یہ چاہو کہ اس کی کجی دور کر کے فائدہ اٹھا وٴ تو سیدھا کرتے کرتے اس کو تم تو ڑدو گے اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے ۔ یعنی اس کی حالت ضرور بدلتی رہے گی کبھی خوش ہوگی کبھی ناخوش، کبھی شکر گزار ہوگی کبھی نہیں ،کبھی تمہاری اطاعت کرے گی کبھی نہیں ،کبھی تھوڑے پر صبر کرے گی کبھی طمع اور حرص کرے گی اور بات بات پر طعنہ دے گی اور تمہاری نافرمانی کرے گی ۔
بہرحال عورت کے تمام عادات و اطوار و اخلاق برُے نہیں اگر کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں اس کی خوبیوں اور اس کی بھلائیوں پر نظر کرنی چاہیے اور اس خامیوں پر درگزر اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کی اذیتوں اور نقصان کو برداشت کرنا چاہیے۔
(
۹)…آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا آپ کے والدین یا آپ کی بہنیں وغیرہ آپ سے بیوی کی شکایت کریں تو فوری طور پر مشتعل ہونے یا کوئی قد م اٹھا نے سے گریز کریں اس وقت بیوی کوکچھ بھی نہ کہیں کم ازکم اتنا صبر کرلیں کہ دونمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی ظہر کے وقت بات پیش ہوئی تومغرب تک اور اگر مغرب کے وقت پیش آتی تو فجر تک ۔
اس کے بعد بیوی سے بات کریں اگر واقعتااس کی غلطی معلوم ہوتو اس کو سمجھا ئیں اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشاء اللہ عزوجل آپ کے گھر میں بہت ہی زیادہ مثبت تبدیلی رونما ہوگی آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی بیوی کی نگاہ میں آپ کی عزت رہے گی ۔ آپ کی سمجھداری اور بردباری کاسکہ بھی جمے گا اور وہ آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔
(
۱۰)…آپ کو آپ کی ہمشیر ہ نے بتایا کہ فلاں موقع پر بھابھی نے فلاں رشتہ دار سے فلاں فلاں بات کی جس سے ہماری شکایت کا پہلو نکلتا ہے توآپ اس پر فوری ردعمل ہر گز ظاہر نہ کریں اور نہ بیوی پر جرح شروع کردیں بلکہ حکمت سے کام لیں اول غور کریں کہ آیا بات واقعی اتنی اہم ہے جتنی بہن نے سمجھی ؟
اگر اہم نہ ہو تو ٹال دیں اور اگر اہم ہو تو بیوی کو سمجھا نے کیلئے عمومی انداز اختیار کریں۔
(
۱۱)…ایک تدبیر یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی بیوی کی چار شکایتیں پہنچی ہیں یا خود کو کچھ باتیں ناگوار محسوس ہوتی ہیں تو سب پر الگ الگ نہ سمجھا ئیں ، بلکہ ان سب کی وجہ پر غور کریں ۔ پھر اس وجہ کا سد باب کرنے کی کوشش کریں ۔
(۱۲)…اور کوئی بات سمجھا تے ہوئے گڑے مردے نہ اکھاڑیں ۔ کہ جو بات ہوگئی سو ہوگئی اس کو بھول جایئے ۔
یاد رکھیئے!اگر آپ پرانی باتوں کو نہیں بھولیں گے اور بیوی کی ہر چھوٹی بڑی کوتاہی اور غفلت یا ددلاکر اس کے ذہن کو کچوکے دیتے رہیں گے تو یہ بالکل نامناسب ہوگا۔
(
۱۳)…اور سمجھا نے میں موقع محل کا ضرور خیال رکھیں کہ جب آپ بیوی کو سمجھا رہے ہوں تو وقت اور جگہ بھی ایسی مناسب ہوکہ بات نہ بگڑے اورمقصد پورا ہوجائے بعض اوقات جب مناسب موقع پر اور مناسب وقت سے سمجھا یا جاتا ہے تو بیوی کی غلطی نہ ہو تو بھی وہ مان جاتی ہے اور بعض اوقات موقع کا خیال نہیں رکھا جاتا تو غلطی ہونے کے باوجود وہ ضد پر آجاتی ہے اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔
(
۱۴)… اس کا خاص خیا ل رکھیں کہ کبھی بھی کسی کے سامنے اس کو نہ سمجھا ئیں دوسرو ں کے سامنے اس کو ذلیل نہ کریں اس طرح اکیلے میں سمجھاتے ہوئے بھی اپنے رشتہ دارو ں کی عورتوں کی مثالیں دیکر نہ سمجھائیں ۔
اصلاح کیلئے نرمی ، محبت ، اپنا ئیت ، نصیحت ، برداشت ، ہمدردی ، خیر خواہی ، دل سوزی اور درمندی کے جذبات سے معمور اور تلخ کلامی سخت بیانی اور طعن و تشیع سے دور ہو نا چاہیے۔
ان سب تدبیر وں کے ساتھ استغفار بھی کرتے ر ہنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست سے بیوی نا فرمان ہو جاتی ہے اس طرح بیوی کی اصلاح کیلئے بھی خوب دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی بھی فکر کرتے رہنا چاہیے۔
اگر بیوی پر غصہ آجائے تو؟
جہاں محبت ہوتی ہے ، وہاں لڑائی بھی ہوتی ہے اور جہاں پیار آتا ہے، وہاں غصہ بھی آتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے بیوی پر سخت غصہ آجائے تو فوراً بیوی پر غصہ اتارنے کی بجائے اس غصے کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اپنا غصہ دور کریں کیونکہ غصے کی حالت میں انسان جذباتی ہو کر غلط قدم اٹھالیتا ہے اور اسے افسوس ہوتا ہے ۔ اکثر طلا قیں غصے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اور جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی بات پر طلاق دے دی ۔
غصہ دور کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کریں :
۱)…اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں ، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں ۔
۲)…غصہ آئے تو تعوذ پڑ ھیں اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔
۳)…اٹھ کر وضو یا غسل کریں تاکہ جسم نارمل ہوجائے ۔
۴)…اپنے آپ میں غصہ دبانے کی کوشش کریں کیونکہ پہلو ان وہ نہیں جو مد مقابل کو گرا لے بلکہ اصل پہلو ان تو وہ ہے جو اپنے غصے کو پچھاڑلے تاکہ غصہ اسے پچھاڑلے ۔
۵)…یہ طے کرلیں کہ غصہ کی حالت میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے بلکہ جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تب کوئی فیصلہ کریں گے۔
۶)…غصہ کے وقت گھر سے کچھ دیر کے لیے باہر چلے جائیں یا کسی اور اہم کام میں مصروف ہوجائیں ۔
۷)…اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پہلے نماز بڑھیں یا پھر نفل نماز پڑھنے میں مصروف ہوجائیں ،
۸)…یہ سوچیے کہ جس طرح آپ کو اپنی بیوی کی کسی غلطی یا نافرمانی پر اتنا غصہ آیا ہے خود اللہ تعالیٰ کو آ پ کی غلطیوں اور نافرمانیوں پر کتنا غصہ آتا ہوگا۔ اگر آپ اس غصے کے باوجود بھی اپنی بیوی کو معاف کردیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ پر اپنے غصے کو معاف کردیں گے ۔ ان شاء اللہ !
 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت
اے مسلما ن بہن !
اس حدیث مبارک کو تو جہ سے پڑھیے!
حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی عورتیں ، بہترین عورتیں ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو تی ہیں ، بچوں پر بڑی مہر با ن ہو تی ہیں اور تنگ دست شو ہر کے مال کی حفا ظت کر تی ہیں ۔“ ( البخاری ۳۳۳۳، مسلم ۱۶/۸۰)
حدیث مذکو رہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ” قریش کی عورتیں ، بہتر ین عورتیں ہیں ۔“ یہ قریش کی عورتوں کو عرب کی عورتوں پر خا ص طو ر پر فضیلت دینا ہے اس لیے کہ اہل عرب عمو ماً اونٹوں والے ہو تے تھے ۔ ( فتح الباری : ۶/۳۷۳)
پھر فرمایا کہ ” احناہ “ یعنی بچوں پر بہت شفقت کر نے والی ہو تی ہیں ، ” حا نیتہ “ اس عورت کو کہتے ہیں جو با پ کے مر نے کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کر تی ہو ، جیسا کہ کہا جا تا ہے :” حنت المرأة علی ولدھا “ یعنی عورت نے بچوں کے باپ کے مر نے کے بعد دوسری شادی نہیں کی ، کیونکہ جو شادی کر لیتی ہے اس کو ” حا نیتہ “ نہیں کہتے ۔ اس حدیث سے اولاد پر شفقت و مہر با نی اور ان کی اچھی تر بیت کر نے کی فضیلت معلوم ہو ئی کہ جب بچوں کا باپ فوت ہو جائے تو بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھا ل بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے ۔ ( شرح النووی : ۱۶ / ۸۰)
پھر فرمایا: ” وار عاہ علی زوج فی ذات ید “ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے مال کی خوب حفاظت رکھتی ہے اور فضو ل خر چی نہیں کر تی ۔ ” وذات ید “ کا معنی قلیل الما ل ہے ، یعنی تنگ دست ہو ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بناتی ہے، شو ہر کے ساتھ تنگ زندگی گزار تی ہے ، شو ہر کی تنگ دستی اور مادی حالت سے نہیں اکتاتی بلکہ صبر و احتساب سے کا م لیتی ہے اور جا نتی ہے کہ اصل لذت ایمان کی لذت ہے نہ کہ مال کی لذت ۔
لیجئے !سنیئے ! حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھا نجے حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے کیا فرماتی ہیں : حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھا نجے سے فرمایا: ” اے میر ے بھا نجے ! ہم مسلسل چاند پر چاند دیکھتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ نے پو چھا : خالہ جان پھر آپ کا گزر بسر کیسے ہو تا تھا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : دو سیاہ چیزیں ، یعنی کھجو ر اور پا نی پر گزر ہو تا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار سے کچھ پڑوسی ہو تے تھے ، وہ کبھی کبھا ر اپنی بکریوں کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا تے تھے۔“ ( البخاری : ۶۳۵۹

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner