Posts Tagged ‘Welcome’



خاوند کا استقبال باہر کی پر یشانیوں کو ختم کر دیتا ہے ۔ یہ استقبا ل اور الوداع یوں سمجھئے کہ عورت کی ازدواجی زندگی پر تو واجب کی ما نند ہے۔
عرب عورتوں سے ایک مر تبہ سوال پو چھا گیا کہ تم اپنے خا وند کو الو داع کر تے ہوئے کیا کہتی ہو ۔ تو مختلف عورتوں نے اپنے مختلف الفاظ بیان کئے ۔
ایک کہنے لگی۔ کہ ﴿فی امان اللہ فی جوار اللہ ﴾ میں یو ں کہتی ہوں ۔
دوسری نے کہا کہ میں کہتی ہوں ۔﴿یا رب اعدہ لی سریعا و سلیما﴾
اے اللہ !ان کو جلد ی سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا دینا ۔
ایک نے کہا نے میں تو یوں کہتی ہوں :
﴿یا رب احفظہ لی انہ زوج مثالی واب لا یعود اطفا لی﴾
اے اللہ ان کی حفا ظت کر نا ۔ یہ میرے مثا لی خا وند ہیں ۔ اور میرے بچوں کے ایسے باپ ہیں کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔
ایک نے کہا کہ میں تو اپنے خاوند کو الوادع ہو تے ہو ئے کہتی ہوں :
﴿ھل سیعو د لی ثا نیة﴾
ایسا مکھڑا دوبا رہ دیکھنے کی مجھے کب سعادت ملے گی“۔
ایک نے کہا کہ میں تو کہتی ہوں :
﴿اتق اللہ فینا ولا تطعمنا الا حلا لا ﴾
آپ اللہ سے ڈریے گا اور ہمیں وہی لا کر دیجئے گا جو حلا ل ہو ۔
تو کیا ہماری عورتیں بھی اس قسم کا کو ئی پیغام اپنے خا وند کو دیتی ہیں ۔ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ خاوند تیا رہوکر کب چلاگیا اور کب گھر میں آگیا ۔ یا د رکھنا جب اپنوں سے کوئی قصور ہو تا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا بھی قصور ہو تا ہے۔ اگر خاوند آپ کی طرف توجہ نہیں کر تا تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ قصور تو آپ کا بھی ہے ۔ مانا کی خاوند کا قصور زیادہ ہے مگر تھوڑا سہی، ہے تو آپ کا بھی ۔
استقبا ل کا ایک انو کھا واقعہ
اے میری مسلمان بہن!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے واقعات میں سے ایک واقعہ پڑ ھ لیجئے۔ کہ جب ان کے خاوند گھر لو ٹتے تھے تو وہ ان کاکس قدر اچھا استقبال کر تی تھیں ۔
یہ ایک جلیل القدر اور عظیم المر تبت صحا بیہ ہیں جس کانام ہے: ام سلیم رضی اللہ عنہا ۔ یہ معروف صحا بی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں ۔ انکا بچہ بیماری کی حالت میں فوت ہو گیا تھا جب کہ ان کے خاوند گھر سے باہر تھے ۔ جب ان کے خاوند ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے اور بیوی سے پو چھا کہ بچے کا کیا حال ہے ، تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے خود ان کو اس بچے کی مو ت کی خبر نہ دی ، بلکہ پہلے اپنے خاوند کو کھانا کھلا یا پھر رات کے وقت انہوں نے حق زوجیت بھی اداکیا اور اس کے بعد بڑی حکمت سے انہیں یہ غمناک خبر سنائی۔
کتب احادیث میں یہ واقعہ اس طرح مذکو رہے :
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اسی حالت میں سفر پر نکل پڑے ۔ بعد میں بچہ فوت ہو گیا ۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر واپس تشریف لائے تو پو چھا کہ میرے بچے کا کیا حال ہے بچے کی ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اپنے خاوند کی خدمت میں شام کاکھا نا پیش کیا تو انہوں نے کھا نا کھالیا ۔ پھر رات کے وقت انہوں نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے ۔ جب فا رغ ہو گئے تو نیک بیوی خود اپنے خا وند کو مخا طب ہو کر سوال کر تی ہے کہ اگر کسی نے کسی سے کوئی چیز ادھار مانگی ہو اور جب تک اللہ نے چا ہا وہ ان کے پاس رہی ہو تو پھر جب چیز کے مالک نے اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو تو کیا اس کو حق حا صل ہے کہ وہ اس چیز کو واپس کر نے سے انکار کر ے ؟ یا جب وہ مالک اپنی چیز اپنے قبضے میں کر لے تو کیا اس کی امانت کو واپس کر نے والے کے لیے یہ منا سب ہے کہ وہ اس پر رونا پیٹنا شروع کر دے ؟
اس سوال پر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جو اب دیا: نہیں
پھر نیک بیوی نے کہا کہ آپ کا بیٹابھی دنیا سے چلا گیا ہے (یعنی اللہ نے اپنی یہ امانت ہم سے واپس لے لی ہے۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ کدھر ہے ؟ ام سیلم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ اس کو ٹھر ی میں ہے ۔ ابو طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور ﴿انا للہ وانا الیہ راجعون ﴾ پڑھا ۔ جب صبح ہو ئی تو ابو طلحہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جاکر اپنی بیوی کی یہ با ت سنا ئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس عورت کے اپنے بچے پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ پیدا کر دیا ہے ۔ سفیان رحمة اللہ علیہ (اس حدیث کے ایک راوی ) بیان کر تے ہیں کہ ایک انصاری شخص سے میں نے سنا، وہ کہتا تھا کہ میں نے ان کے ہاں نو بچے پیدا ہو تے دیکھے اور وہ سب کے سب قرآن مجیدکے قاری تھے “۔ (صحیح بخاری)
اللہ اکبر ! حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کس قدر دانا عورت تھی ۔ کیا کسی مرد کے لیے بھی اس خبر سے بڑھ کر کوئی پر یشان کن خبر ہو گی کہ اس کو اس کے لخت جگر کی موت کی خبر دی جا ئے اور وہ اس پر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرح حکمت و دانائی کا اظہا ر کر ے ۔ ایسی خبر سے ایک باپ پر کیا گزرتا ہے اور اسے کتنا بڑا صدمہ پہنچتا ہے ۔ لیکن ام سلیم رضی اللہ عنہا کی عظمت کو سلام !کہ وہ خوف و گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے والی ایسی خبر میں بھی اللہ کی تقدیر پر رضاو التسلیم کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال کر رہی ہیں ۔
اس واقعہ پر ہر نیک خاتون کو غور کر نا چا ہیے کہ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے خاوند نے پہلا سوال اپنے بیمار بیٹے کے بارے میں کیا کہ اس کا کیا حال ہے تو ان کی بیوی نے فوراً یہ نہیں کہہ دیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ، بلکہ اس سمجھدار بیوی نے اپنے خاوند کو غم میں ڈالنے والی خبر ہر گز نہیں دی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ میرا خاوند تھکا وٹ اور پر یشانی کے عالم میں گھر آیا ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اس وقت غلط بیانی سے بھی کام نہیں لیا بلکہ اس نے خا وند کے سوال کے جو اب میں یہ کہا تھا کہ ” وہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے “۔
یعنی ام سلیم رضی اللہ عنہا نے سوال کے جواب میں ” تور یہ“ کیا(توریہ ، یہ ہے کہ ایسی بات کہی جا ئے جس کے دو مفہوم ہوں ) کیونکہ وہ بچہ موت کی وجہ سے واقعتا سکون میں پہنچ چکا تھا…!
پھر وہ سمجھدار بیوی اپنے خاوند کو بچے کی موت کی خبر دینے سے پہلے شام کا کھانا کھلا تی ہے کیونکہ اگر وہ اسے کھا نے سے پہلے خبر دے دیتی تو عین ممکن تھا کہ پر یشانی کے عالم میں وہ کھانا بھی نہ کھا تے …!
پھر وہ اپنے خاوند کو حقوق زوجیت اداکر لینے کا بھی مو قع دیتی ہے ۔ پھر اسکے بعد جب وہ سمجھتی ہے کہ میرا خاوند اب اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ غم اوررنج والی خبر سن سکے تو پھر بھی وہ نیک بیوی بچے کی خبر دینے کے لیے ایک عجیب مقد مہ با ند ھتی ہے جسے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی قضا و قدر کو تسلیم کر نے کی ایک تمہید تھی چنا نچہ وہ خود اپنے خاوند پر ایک سوال ڈال دیتی ہے ، وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیز امانت کے طور پر رکھی ہو اور صا حب ِامانت جب اُس سے امانت کی واپسی کا مطالبہ کر ے تو کیا جس کے پا س امانت رکھی ہو ، اسے یہ حق حاصل ہے کہ اما نت واپس کر تے وقت واویلا شروع کر دے ؟
تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں ، ا س کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ امانت واپس کرتے وقت واویلا کر ے ۔ پھر ا س جواب کے بعد اس نیک صالح بیوی نے خاوند کو بتا یا کہ آپ کا بیٹا بھی جس کی اما نت تھا، اس نے طلب کر لیا ہے…! 

Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]

Allah Almighty also says what means:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]

It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:

  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.

Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:

There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]

Thank you again for your question.
Salam.