Posts Tagged ‘husband’



Read Online
Download
Version 1 [11]

Read Online
Download

جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔
(۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …
(
۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…
(
۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

گھروں میں معمولی نوعیت کے جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات کوئی بڑا جھگڑ ابھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر خاوند بیوی دونوں برداشت سے کام لیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی قابل تعریف کردار ادا کریں تو طلاق کی نوبت نہیں آتی۔ اگر عورت خاوند کی نافرمانی پر اتر آئے تو بھی فوری طور پر طلاق دینے سے منع کیا گیا، بلکہ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو راستہ بتایاہے وہ اس طرح ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن (سورہ نساء، آیت ۳۴)
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو تو انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ اور پھر خواب گاہوں سے انہیں الگ کردو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو۔
اس آیت میں اصلاح کا طریقہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن سے نافرمانی کا ڈر ہو پہلے انہیں زبان سے سمجھایا جائے، ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ورنہ گھر کے اندر ان کا سوشل (سماجی)بائیکاٹ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے۔ اب وہ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی باز نہ آئیں تو ہلکی پھلکی سزا دو، یعنی ایسی سزا دی جائے جو اصلاح کا باعث بنے، اذیت ناک نہ ہو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا :
فاتقوا اللہ عزوجل فی النساء (مسند امام احمد جلد
۵ صفحہ ۷۳)
عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے، آپ نے فرمایا:
ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت
(سنن ابی داوٴد ص
۲۹۱)
”نہ تو عورت کے چہرے پر مار، اور نہ ناشائستہ کلام کر اور بائیکاٹ بھی گھر کے اندر کر۔“
اگر ان مندرجہ بالا صورتوں کو اپنانے کے بعد عورت راہ راست پر آجاتی ہے تو اب طلاق دینے جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً (سورہٴ نساء، آیت
۳۴)
پس اگر وہ عورتیں تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
مقصد یہ ہے کہ جب عورت خاوند سے بغاوت نہیں کرتی اور اب اطاعت گزار ہوچکی ہے اور گھر کا سکون بحال ہوچکا ہے تو اب طلاق دے کر اسے پریشان نہ کیا جائے۔
مصالحتی کمیٹی
اگر مندرجہ بالا تین طریقے بھی مفید ثابت نہ رہوں اور اتفاق و اتحاد کی کوئی راہ نہ نکلے بلکہ میاں بیوی کے درمیان عداوت اور اختلاف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو اب ذمہ دار حضرات مثلاً حکومتی افراد یا علاقے کے کونسلر یا محلہ دار اور گاؤں کے قابل اعتماد بزرگ حضرات کا فرض ہے کہ وہ دو آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جس میں ایک عورت کے خاندان سے ہو اور دوسرا مرد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ رشتہ داری کی بنیاد پر یہ لوگ اندرونی حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، یہ حضرات مصالحت کی کوشش کریں۔
نوٹ:۔ مصالحتی کمیٹی میں حسب ضرورت دوسرے مناسب افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ نیز کمیٹی دو سے زیادہ آدمیوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔
اگر ان لوگوں نے خلوص نیت سے کام لیا تو انشاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوجائیں گے
ارشاد خداوندی ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکمًا من اھلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیمًا خبیرًا
(سورہ نساء، آیت
۳۵)
اگر تمہیں ان کے درمیان ناچاکی کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے خاندان سے اور ایک پنچ عورت کے خاندان سے مقرر کرو اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بیوی) کے درمیان موافقت پیدا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
طلاق کی نوبت
اگر ان تمام طریقوں کو اپنانے کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکیں اور خاوند بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت پیدا نہ ہو بلکہ انکا اکٹھا رہنا ناممکن ہوجائے تو سخت مجبوری کے تحت طلاق دی جائے۔
لیکن طلاق دیتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر کسی وقت حالات بدل جائیں، ان دونوں کے درمیان صلح ہوجائے اور اب دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کرنا چاہیں تو کسی قسم کی پریشانی اٹھانا نہ پڑے۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم طلاق کی اقسام، طلاق دینے کے طریقوں اور طلاق کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ طلاق دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے!


اپنی بیوی پر سب سے بڑا ظلم شوہر کا کہ کسی غیر محرم عورت سے نا جا ئز تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی عورت سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر عورت سے جنسی تعلقا ت قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہا نے گھڑ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کا ہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور کر نہیں رہتی ۔ نا فرمانبردار ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان بہا نوں کا کسی غیر عورت کے ساتھ نا جا ئز تعلقات قائم کر نے کا کوئی جواز نہیں۔

مردوں کو یہ جان لینا چا ہئے کہ اگر چہ ان کی بیویاں مکمل طور پر نافرنبردارہی کیوں نہ ہو ں یہ امرانہیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ خود کو حرام کا ری میں الجھا ئیں ۔ غیر مرد و زن کا با ہمی اختلاط کسی طور جا ئز نہیں ۔ ایسے مغربی افکا ر کی اسلام میں کو ئی جگہ نہیں ہے۔ اگر خاوند کو اپنی بیوی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نا جا ئز تعلقات کا علم ہو جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟
ایک شخص جو خود کو ایسی حرام کا ری میں ملوث کر تا ہے وہ اپنی بیوی ، اولاد اور اپنے دین سے غداری کا مر تکب ہوتا ہے ۔ وہ اپنے ذہن میں تصور کر ے بیوی گھر کی چار دیواری میں مقید اپنے ذہن میں شوہر کی محبت بسا ئے گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے ۔ ہر وقت اس کے آرام کے لئے متفکر رہتی ہے اور اشتیاق بھری نگا ہوں سے اس کی گھر میں واپسی کی منتظر رہتی ہے ۔ عورت کے لئے اس کا شوہر دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس کی بیما ری کی حالت میں اتنی لگن سے تیماداری اور خدمت کر تی ہے کہ اسے اپنی سدھ بدھ بھی نہیں رہتی ۔ وہ اپنے آرام اور خوشی کو تیا گ کر اس کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون پہنچا نے کی کو شش کر تی ہے ۔ اس کی خوراک اور لباس کا خاص خیا ل رکھتی ہے ۔ بیوی کی ان بے لوث خدمات کے بعد اگر شوہر غیر محرم عورت سے تعلقات بڑھا تا ہے تو اس سے بڑھ کر نا شکر گزار اور کون ہو گا ؟ وہ ایسی حما قت کر کے اپنی بیوی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے ۔ کیا یہ ایک معزز شوہر کے طور طریقے ہو سکتے ہیں ؟ کیا ایسی حرکتیں ایک پاکباز شوہر کو زیب دیتی ہیں ؟ شو ہر اپنے اس قبیح فعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ابدہ ہے ۔ بے وفا ئی کا ارتکاب کر کے وہ اپنی بیوی کے سامنے بھی جو ابدہ ہے۔ غلط مثال قائم کر کے وہ اپنے اس ظلم کے لئے اپنے بچوں کے سامنے بھی جوابدہ ہے۔ اسے چا ہئے کہ غیر عورت کے چنگل سے خود کو آزاد کر ائے اور اس کے لئے ہر تدبیر اختیا ر کر ے ۔ اگر وہ واقعی پشیما ن اور برائی سے بچنے کی خواہش میں مخلص ہے ۔ اللہ سے خلوص دل سے مدد چا ہے ۔ یقینا اس دلدل سے باہر نکل آئے گا ۔
کا ش وہ ایسی قبیح حرکت کرنے سے پیشتر ایک نظر اللہ تعالیٰ کی تعزیرات پر ڈال لے تو شاید وہ باز آئے ۔
﴿الزانیة والزانی فا جلد وا کل واحد منھما ما ئة جلدة ولا تاخذ کم بھما رافة فی دین اللہ ان کنتم تو منون باللہ والیوم الا خرو لیشھد عذابھما طا ئفة من الموٴمنین

 

(النور۲)
”زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھا نے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ مو جو درہے۔“
یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے قرآن مجید نہیں بتا تا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حا صل ہوتا ہے ۔ بکثرت معتبر روایات سے ثا بت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری ) بیان فرمائی ہے بلکہ عملاً آپ نے متعد د مقدمات میں یہی سزانا فذبھی کی ہے ۔

 


آپس میں ناراضگی کی حالت میں کبھی نہ سونے کی نصیحت
یہ بھی نصیحت ہے نصیحت ما ننے والو ں کیلئے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے آپس میں بحث ہو جائے یاآپس میں کوئی بات ہو جائے ۔ اوّل تو ہونی ہی نہیں چاہیے۔ اگر فرض کرو ہو جائے تو اب میاں بیوی کو چا ہیئے کہ ناراض حالت میں کبھی نہ سوئیں ۔ یہ جو ہوتا ہے کہ پہلے آپس میں کوئی بات چل رہی تھی ، پھر ناراض ہو کر خاوند نے ادھر کروٹ لے لی ۔ بیوی نے ادھر رخ کرلیا اور سمجھتے ہیں کہ ہم سوگئے ،ہر گز نہیں یہ گھر بگڑنے کی ایک ابتداء ہوتی ہے۔ زندگی میں یہ فیصلہ کر لیجئے کہ ہم نے ہمیشہ کسی نہ کسی نتیجے پر متفق ہونے کے بعد سونا ہے ۔ اگر کوئی بات آپس میں اختلاف رائے کی ہوجائے تو اول تو اس محبت کے وقت میں اختلاف رائے کی باتیں ہی نہ کریں ۔ اگر کوئی بات نکل بھی آئی ، بیوی نے اعتراض کر دیا ، خاوند نے اعتراض کردیا اور آپس میں دلائل چل پڑے تو جب تک ایک دوسرے کو سمجھا نہ لیں ، جب تک ایک دوسرے کو منانہ لیں اس وقت تک ناراضگی کی حالت میں سونا اپنے اوپر آپ ایسے سمجھیں کہ جس طرح حرام ہو تا ہے
اس لئے کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جب کوئی بیوی اس حالت میں سوتی ہے کہ خاوند اس سے ناراض ہو، اللہ کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے خاوند کو منا نہیں لیتی تو بیوی کو چاہیے کہ وہ عقل کے ناخن لے کہ ایسی حالت میں کیوں سورہی ہے جبکہ خاوند اس سے ناراض ہے۔ اور آدمی سوچے کہ میری بیوی میری خادمہ ہے اس کے دل کو میں نے تکلیف پہنچادی ، اس کا دل دکھی ہے تبھی تو ناراض ہے۔ اگر اس دکھی دل کو میں نے اس وقت نہ خوش کیا ایسا نہ ہو کہ کہیں اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے کہ تو نے اپنی بیوی کو خوش کیوں نہ کیا جبکہ اس کو خوش کرنے کا حکم شر یعت میں دیا گیا۔ لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ خاوند کو منالے اور خاوند کو بھی چاہیے کہ بیوی کو منالے ۔ ناراضگی کی حالت میں کبھی نہیں سونا چاہیے ۔ بلکہ ایسے وقت میں بھی یہی سوچنا چاہیے کہ
# فرصت زندگی کم ہے محبتوں کے لئے
لاتے ہیں کہا ں سے وقت لوگ نفرتوں کے لئے
یہ تو زندگی اتنی چھوٹی ہے کہ اگر ساری زندگی محبت میں گزاردی جائے پھر بھی زندگی کا وقت تھوڑا ہے۔ پتہ نہیں لوگ نفرت کے لئے کہا ں سے وقت نکال لیتے ہیں ۔ نفرتوں کے لئے تو وقت ہے ہی نہیں ۔ اس وقت کو محبتوں میں گزار دیجئے۔
میاں بیوی میں فقط جیت ہوتی ہے
اگر کبھی بحث و تکرار ہو بھی جائے تو اس نصیحت کو تھام لیجئے کہ ہم نے ایک دوسرے سے ناراض ہو کر نہیں سونا۔ منا ہی لینا ہے، چاہے خاوند کو معذرت کرنی پڑے چاہے بیوی کو۔ موقع کے مناسب جو بھی ہو، دونوں کو ایک دوسرے سے معذرت کرلینی چاہیے ۔ احساس کر لینا چاہیے اور ناراضگی کی حالت میں کبھی نہیں سونا چاہیے ۔ اس لئے کہ جب ناراضگی کی حالت میں سوئیں گے تو شیطان کو دلوں میں نفرتیں ڈالنے کا بیج مل جائے ، اور بیج کو پانی دے گا اور پھر دلوں میں نفرتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ اس لئے جب ناراضگی ہو تو ایک دوسرے کو کوئی شعر سنادیں ۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ۔
# اتنے اچھے موسم میں روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں
تو یہ بات اگر انسان کر لے کہ بھئی ہار جیت تو ہم کل پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اس بحث کا فیصلہ کل کر لیں گے، آج دوستی کر لیں ۔ آج محبت سے وقت گزار لیتے ہیں۔ تو جب اس طرح آپس میں پیار محبت سے میاں بیوی وقت گزاریں گے تو نفرتیں ختم ہو جائیں گی۔ اور واقعی میاں بیوی میں تو ہار ہوتی نہیں میاں بیوی میں تو جیت ہی جیت ہوتی ہے ۔ یہ بیوی کی جیت ہے کہ اس نے خاوند کو قر یب کر لیا اور خاوند کی جیت ہے کہ اس نے بیوی کو قریب کرلیا ۔ لہٰذا میاں بیوی کے درمیان ہار نہیں ہوتی ، میاں بیوی کے درمیان فقط جیت ہوتی ہے، جس نے بھی معافی مانگ لی گویا اس نے جیت لیا، کیا جیت لیا؟ دوسر ے کا دل جیت لیا۔ تو معافی مانگنا ہار نہیں ، معافی مانگنا تو جیت ہے۔ اب بیوی جیتے یا خاوند جیتے اللہ کرے دونوں جیت جائیں اور محبت و پیار کی زندگی گزاریں ۔

بعض مردوں کو اپنی بیویوں کے زبان دراز ہو نے کا شکوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلہ میں اپنی بیویوں کو قصو روار اور بد اخلاق قرار دیتے ہیں حالانکہ مرداگر سمجھدار ہو تو بیوی کے بد زبان اور بد اخلاق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بیویوں پر بے جا ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور اوپر سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ زبان نہ کھولیں ۔ اگر وہ اپنی صفائی بھی پیش کرنا چاہیں تو ہم انہیں فوراً زبان دراز اور بد اخلاق ہونے کی ڈگری جاری کر دیتے ہیں۔
سمجھدار شوہر وہ ہے جو بیوی کے زبان دراز ہونے کی وجوہات تلاش کرکے ان کا سد باب کرتا ہے نہ کہ وہ جو سید ھا بیوی کی زبان کا ٹنے کو لپکتا ہے ۔ آپ اپنی بیوی کو زبان چلانے کا موقع ہی نہ دیں تو پھر وہ کیسے زبان چلائے گی۔ اگر آپ کے جائز شکووں کو زبان درازی خیال کرتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اپنے دل کی بھڑاس آپ کے سامنے نکال لے تو اس میں فائدہ ہے ، بجائے اس کے کہ وہ گھر کی باتیں سارے محلے میں سناتی پھرے اور آپ کے سامنے خاموش رہے۔
بعض اوقات عورت کی گفتگو کا انداز ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اسے بد اخلاقی اور زبان درازی خیال کر لیتے ہیں حالانکہ وہ دل سے آپ کو چاہنے والی ہوتی ہے ۔ سمجھدار شوہر وہی ہے جو ان نزاکتوں کو خوب سمجھتااور بیوی کے لیے مہربان ہو۔ اس کے جائز شکوے خوشی سے سنے ۔ اس کو اجازت دے کہ دوسروں کی بجائے مجھ (شوہر ) پر اپناغصہ جیسے چاہو نکالا کرو۔ اس کے سامنے خود زبان درازی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہو۔ کبھی کبھار ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی غصے میں آکر آپ کو واقعی ناز یبا جملے کہہ بیٹھے ۔ ایسے موقع پر اس پر کوئی حکم صادر کرنے سے پہلے آپ خود یہ سوچ لیں کہ اس نے اگر آج آپ کو کچھ سخت الفاظ کہہ دیئے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اسے سخت الفاظ نہیں کہے ۔ کبھی اسے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی اسے گندی گالیاں نہیں دیں ۔ کبھی اس پر غصے کا اظہار نہیں کیا۔ آپ تو اپنا ماضی بھول جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ کے ایسے بے شمار غلط رویوں پر کبھی اس بیوی نے اُف تک نہ کہا اور آج ایک مرتبہ اس کی زبان سے کچھ سخت جملے نکلے ہیں تو آپ اسے جان سے ماردینے پر تلے بیٹھے ہیں ……!
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی بیوی واقعی بڑی بدزبان اور بد اخلاق ہو ۔ ایسی صورت میں بہادری یہ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر گھر سے باہر جا پھینکیں اور ہمیشہ کے لیے اپنا دروازہ اس پر بند کردیں بلکہ بہادری یہ ہے کہ آپ اسے خوش اَ خلاق اور خوش گفتار بنادیں ۔ اس کا رویہ اور طرزِ زندگی درست کردیں ۔ اس کا کردار اور گفتار بااخلاق بنادیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بے شمار بد اخلاقوں کو بااخلاق بنادیں مگر آپ ایک عورت کو نہ بدل سکیں۔ آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو دنیا میں اور کوئی اہم کام کی آپ توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیوی کا مزاج شکایتی ہو اور آئے دن وہ آپ کو اپنے دکھڑے سناتی رہتی ہو۔ آپ سارے دن کے تھکے ماندہ گھر لوٹیں اور آگے سے وہ شکایتوں کا رجسڑ کھول کر بیٹھ جائے ۔ ایسی صورت میں اچھا اور سمجھدار شوہر وہ ہے جو یہ جانتا ہوکہ میں نے برداشت سے کام لینا ہے ، میرے علاوہ اور کون ہے جو اس کے دکھڑے سنے گا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے شکوے توجہ سے سنیں ۔ اس کی شکایتوں پر اسے برابھلا نہ کہیں آپ کا یہ عمل آ پ کے لیے بڑا خوشگوار ثابت ہوگا اور اس کا بوجھ ہلکاہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ غصے کا رویہ ظاہر کریں گے تو اس کے کئی نقصانات پیدا ہوں گے مثلاً:
(
۱)…اگر وہ آپ کو اپنے شکوے نہیں سنائے گی تو دل ہی دل میں کڑھتی اور جلتی بجھتی رہے گی اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی ۔
(
۲)…اگر وہ آپ کے سامنے شکوے رکھ کر دل کا غبار ہلکا نہیں کرے گی تو پھر بچوں پر غصہ نکالے گی ۔ ان کی تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں دے گی ۔
(
۳)…بچوں پر نہیں تو آپ کے گھر کے دوسرے افراد مثلاً ساس، سسر اور نندوں وغیرہ کے ساتھ بدتمیزی کرے گی۔ گھر میں توڑ پھوڑاور نقصان کرے گی۔
(
۴)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں کو جاکر آپ کی شکایتیں کرے ، انہیں آپ کے خلاف بھڑکائے اور آپ کو ظالم اور خود کو مظلوم ظاہر کرے ، ظاہر ہے اس سے دو گھرانوں میں نفرت کی آگ بھڑکے گی ۔
(
۵)… یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سہیلیوں اور گھر میں آنے والی محلے کی دوسری عورتوں کے سامنے شکوے کرے۔ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ سارے محلے اور رشتہ داروں میں آپ اور آپ کے گھروالوں کو ظالم سمجھاجائے گا۔
ان تمام نقصانات کا حل یہی ہے کہ آپ کی بیوی اپنے سارے دکھڑے آپ کے سامنے ہی پیش کرے ۔اس طرح گھر کی بات گھر کی چار دیواری بلکہ صرف میاں بیوی کے اندر ہی رہے گی اور وہیں حل ہو جایا کرے گی۔ نہ گھر میں شور وغوغا ہو گا نہ محلے میں ڈھنڈ ورا پیٹا جائے گا اور نہ خاندانوں کی باہمی لڑائیوں کو سرا ٹھانے کا موقع ملے گا۔

بے جا تنقید نہ کرنے کی نصیحت
بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی بیویوں کے کاموں پر تنقید ی نگاہ رکھتے ہیں۔ ہرکام میں سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ؟ یہ کیا کیا؟ یہ کیوں کیا؟ یہ کیسے کیا؟ وہ کیو ں نہ کیا؟ یہ پہلے کیوں کیا؟ وہ بعد میں کیوں کیا؟ اس طرح کی تنقیداور بے جا سوالات سے عورت چڑ چڑاتی ہے اور ظاہر ہے اگر وہ بھی آگے سے ترکی بہ ترکی جواب دے تو آپ کو غصہ آئے گا اور بات بڑھے گی ۔ اور اگر وہ آپ پر غصہ نہ کرے گی تو دل ہی دل میں کڑھے گی یا گھر کے سامان یا بچوں پر اپنا غصہ نکالے گی۔
بیوی کو طعنہ نہ دینے کی نصیحت
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو مندمل ہو جاتا ہے مگر زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا ۔ یہی حال طعنوں کا ہے ۔ کسی کو طعنہ دینے سے بظاہر کو ئی نقصان ہوتا نظر نہیں آتا مگر اندر ہی اندر وہ طعنہ اپنا اثر دکھاتا ہے بعض ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کئی عورتیں پیچیدہ امراض کا شکار اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں زندگی بھر دوسروں سے طعنے سننا پڑتے ہیں ۔ کبھی خاوند اسے طعنے دے رہا ہے ، کبھی ساس طعنے دے رہی ہے، کبھی نندوں کی باری ہے اور کبھی جیٹھانیاں اور دیورانیاں اس پر برس رہی ہیں ۔اگر آپ سمجھدار شوہر ہیں تو آپ کبھی اپنی بیوی کو طعنے نہ دیں ۔ اس پر طنز یہ جملے نہ کسیں ۔ اس سے یا تو وہ نفسیاتی مریض بن جائے گی یا پھر برداشت سے باہر ہوجائے گی اور آپ پر زبان درازی شروع کردے گی ۔ اور ظاہر ہے یہ دونوں صورتیں خود آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی اور آپ کی اِ زدواجی زندگی خوشیوں کی بجائے اُ لجھنوں کا شکار ہوجائے گی۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]

Allah Almighty also says what means:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]

It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:

  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.

Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:

There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]

Thank you again for your question.
Salam.


دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ غصہ کسی اور بات پر ہوتا ہے مگر اسے بیوی پر اتارا جاتا ہے۔ آپ ایسی غلطی کبھی نہ کریں ۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ غصہ تو باہر کسی شخص پر آیا مگر اس کی بجائے آپ نے آکر بیوی کو پیٹنا شروع کردیا۔ یہ تو نہایت احمقانہ بات ہے اور اس کا ارتکاب بھی احمق اور بے وقوف لوگ ہی کرتے ہیں۔ جب باہر سے گھر آئیں توباہر کی دنیا کو باہر ہی چھوڑ آئیں ، باہر کے کاموں کو اپنے دماغ میں بھی لے کرنہ آئیں ، باہر کسی سے اونچ نیچ ہوئی ، کوئی مصیبت یا پریشانی کا مسئلہ پیدا ہواتواسے باہر ہی چھوڑآئیں اور گھر کی دنیا میں ان باتوں کو یاد ہی نہ کیا کریں ۔ اس طرح آپ میں اتنی طاقت اور برداشت پیدا ہو جائے گی کہ آپ باہر کے غصے کو گھر والو ں پر نہیں اتاریں گے۔
آ پ سوچیے کہ سارادن باہر کے ججھٹ میں رہنے کے بعد شام کو گھر واپس آئیں اور ادھر آپ کی بیوی گھر کو صاف ستھرا کر کے ، کھانا بنا ئے اور بنے سنورے انداز میں آپ کا انتظار کر رہی ہو، پھو لوں کی طرح چہچہاتے بچے ابو کے انتظار میں اداس بیٹھے ہوں اور آپ کے آنے پر سب میں خوشی کی لہر دوڑ جائے مگر آ پ گھر میں داخل ہوتے ہی گالیاں بکنے لگیں ۔ چیزیں اُٹھا اٹھا کر پھینکناشروع کر دیں اور جنت بھر ے گھر کو آناً فا ناً جہنم کا گڑ ھا بنا دیں تو کیا فائدہ ؟ کیا اس سے آپ کا نقصان پورا ہوجائے گا؟
نہیں ، اس سے تو آپ کی پریشانی اور بڑھے گی ۔ پہلے آپ اکیلے پریشان تھے ، اب بیوی بچے بھی پریشان ہوں گے۔ سمجھدار شوہر وہ ہوتا ہے جو اس موقع پر گھر کے سکون سے فائدہ اٹھاتا ہے اور گھر کی خوشی میں باہر کے غصے کو بھلا دیتا ہے۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بیوی کی غلطی معاف کرنے کی نصیحت
یہ خیا ل دل سے نکال دیں کہ بیوی سے کبھی کوئی غلطی اور کمی کوتاہی نہ ہوگی ۔ وہ بھی ایک انسان ہے ۔ انسان ہونے کے ناطے کمی کو تا ہی کا صدور بھی اس سے ہوگا ۔ جہاں آپ کے بیسیوں حقوق اس نے پورے کرنے ہیں، گھر کے سب کام کاج سنبھالنے ہیں، بچوں کی تربیت کرنی ہے ، وہاں ان کاموں میں کبھی غفلت ، لاپروائی اور سستی بھی ہو سکتی ہے کبھی بیماری کی وجہ سے کوئی کام خراب بھی ہوسکتا ہے۔ کبھی تھکاوٹ سے کوئی کا م لیٹ بھی ہوسکتا ہے اگر بیوی سے کبھی لاپروائی ہوجائے،یا آپ کا کوئی نقصان ہو جائے ، یاوہ وقت پر کوئی چیز مہیا نہ کر سکے ، تو فوراً اس پر برسنا شروع نہ کردیں بلکہ حوصلے اور تحمل سے کام لیں۔ اس کی کوتاہی کو نظر انداز کردیں ۔ اس کی غلطی معاف کرنا سیکھیں ۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بیوی کی دوسر ی ذمہ داریاں اور نیکیاں یا د کیجیے ۔
یاد کریں کہ آپ کی بیوی سارا دن کس طرح کام کاج میں مصروف رہتی ہے ۔ پچھلے ایک عرصہ سے کبھی اس نے کوتاہی نہیں کی ۔آج اگر کو تاہی ہوگئی ہے تو پھر کیا ہوا۔کیا آپ سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ۔ کیا آپ اپنے عزیزواقارب اور والدین کے سارے حقوق ہمیشہ پورے کرتے رہے ہیں۔ کیا آپ اللہ کے حقوق بندگی میں کبھی سستی اور غفلت کا شکار نہیں ہوئے ، کیا آپ نے اپنے کاروبار میں اپنی غلطی سے کبھی نقصان نہیں اٹھایا ۔ ایک دودن گھر کے کام کاج ذرا آپ سنبھال کر دیکھیں تاکہ آپ کو انداز ہوسکے کہ یہ کام کتنے مشکل ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کتنا محنت طلب کام ہے ۔کپڑے دھونا کتنا مشقت کاکام ہے۔ امید ہے جب آپ ان چیزوں پر غور کریں گے تو آپ میں بیوی کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے گا۔
یہ کبھی نہ سوچیں کہ یہ بیوی تو ہے ہی ایسے، کو ئی اور ہوتی تو کبھی غلطی اور لاپروائی کا ارتکاب نہ کرتی ۔ نہیں ، یہ سوچ غلط ہے ۔ آپ اس کی جگہ کو ئی اور حور پر ی بھی ڈھونڈ لائیں گے تو وہ بھی کوتاہی کرے گی۔ممکن ہے وہ اس سے بڑھ کر لاپر واثابت ہو ،تو پھر آپ کیا کریں گے؟
آپ کا اطمینان اسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عورت سے کمی ، کوتاہی اور سستی ہوسکتی ہے اور پھر آپ یہ فیصلہ کرلیں کہ اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کروں گا۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner