حلالہ کی تین صورتیں: پہلی صورت
حلال کی تین صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئیں وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔ پھر خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے۔ اب عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہوجائے، گویا یہاں حلالہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہوجاتا ہے۔
حلالے کی اس صورت کا قرآن پاک میں ذکر ہے (جیسے آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں) اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ صورت بلاکراہت جائز ہے۔ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی صحیح ہے اور جب وہ خاوند طلاق دے دے تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔
یہ صورت چونکہ عقلاً نقلاً صحیح ہے، اور قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے، لہٰذا اسے بھی ناجائز یا بے حیائی کا باعث قرار دینا نہ صرف جہالت ہے بلکہ کھلم کھلا قرآن کی مخالفت ہے۔
دوسری صورت
جب خاوند نے طلاق دے دی اور عورت کی عدت بھی گزر گئی، اب کوئی شخص اپنی مرضی سے اس سے نکاح کرتا ہے اور نکاح کے وقت حلالہ کی شرط بھی نہیں رکھی گئی۔ یعنی یوں نہیں کہا گیا کہ تم حقوق زوجیت ادا کرکے اسے طلاق دے دینا کہ پہلے خاوندسے اس کا نکاح کیا جائے۔ البتہ دوسرے آدمی نے دل میں یہ نیت کی کہ چونکہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اچھے تھے ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،لہٰذا اگر میں اس عورت سے نکاح کرلوں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے اور یوں وہ اجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہوجائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
#…مالکی فقہ کے مطابق اس نیت سے کیا گیا نکاح فاسد ہوگا۔ جماع کیا گیا یا نہیں، دونوں صورتوں میں تفریق ضروری ہے۔
#… شافعی فقہ کے مطابق یہ نکاح صحیح ہوگا، اگرچہ کچھ دوسری شرائط کا خیال رکھنا ہوگا، لیکن محض اس نیت کی وجہ سے یہ نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
#… حنبلی فقہ کے مطابق یہ نکاح باطل ہے۔ ان کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط اور نیت دونوں برابرہیں۔
#… جبکہ فقہ حنفی کے مطابق یہ نکاح صحیح قرار پاتا ہے ، اگر کچھ دیگر شرائط کا خیال رکھاجائے:
والحاصل ان التحلیل اذا سلم من ھذہ المحظورات وکان مقصوداً بہ الصلح بین الرجل ومطلقتہ فانہ جائز، ولصاحبہ اجرن الذی یصلح بین الزوجین، واما اذا کان لغرض من الاغراض السابقة فانہ یکون مکروھا تحریما ویکون اثمہ علی کل من اشترک فیہ سوآء کان الزوج الثانی اوالمطلِّق اوالمرأة (عبدالرحمن الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸)
خلاصہ یہ ہے کہ جب حلالہ ان ممنوعات سے محفوظ ہو اور اس کا مقصود اس مرد (پہلے خاوند) اور اس کی مطلقہ بیوی کے درمیان صلح کرانا ہو تو یہ جائز ہے اور ایسے شخص کو اس آدمی کی طرح اجر ملے جو میاں بیوی میں صلح کراتا ہے۔لیکن جب کوئی دوسری غرض ہو (جو اغراض کتاب الفقہ میں اس عبارت سے پہلے سے بیان ہوئی ہیں) تو مکروہ تحریمی ہے اور اس عمل میں جو لوگ شریک ہوں گے وہ گنہگار ہوں گے،وہ دوسرا خاوندہو یا طلاق دینے والا مرد یا عورت۔
اگر دوسرے شخص نے صرف اس نیت سے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی کہ ان کا گھر بس جائے تو یقینا یہ کام باعث ثواب ہے، گویا وہ شخص میاں بیوی میں صلح کرانا چاہتا ہے لیکن چونکہ قرآنی تعلیم کے مطابق جب تک دوسری جگہ نکاح نہ ہوجائے وہ عورت دوبارہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں آسکتی، اس لئے اسے مجبوراً نکاح کرنا پڑا۔
البتہ اگر وہ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ اپنی شہوت کو پورا کرے اور پھر طلاق دے دے تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اگرچہ نکاح بھی ہوجائے گا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال بھی ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں اگر وہ شخص لوگوں میں حلالہ کرنے والا مشہور ہے تو اگرچہ اب اس کی نیت صحیح بھی ہو اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگرچہ نکاح ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ اس نکاح پر اجرت مقرر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی حرام ہے اور حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ (جامع ترمذی باب ماجاء فی المحلل والمحل لہ ص ۱۸۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اگرچہ نکاح اس صور ت میں بھی ہوجائے گا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نر جانور اس مقصد کے لئے رکھتا ہے اور مادہ جانور کے مالک سے اس عمل کی اجرت وصول کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے۔ اسی طرح انسان جماع پر اجرت لے تو یہ بھی حرام ہے۔ (عبدالرحمن حریری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۷۹)
تیسری صورت
حلالہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب اس مطلقہ سے نکاح کیا جائے تویہ شرط رکھی جائے کہ دوسرا خاوند جماع کے بعد اسے طلاق دے گا تاکہ وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکے۔ یہ طریقہ اختیار کرنا تمام آئمہ کرام کے نزدیک حرام ہے، کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لہذا اس سے قطع نظر کہ یہ نکاح ہوگیا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جولوگ اس میں شریک ہیں وہ سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ا س سے بچنا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کرلیتا ہے تو کیا نکاح ہوجائے گا؟… کیا اب دوسرے خاوند پر اس شرط کی پابندی ضروری ہے؟… اور کیا دوسرے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی؟
ہم اس سلسلے میں چاروں آئمہ کا مسلک مع دلائل نقل کرکے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے موقف کا ترجیحاً ذکر کریں گے۔
فقہ مالکی
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے مقلدین کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط سے نکاح کیا جائے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کا مقصد ان دونوں کا ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے اور یہی نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ چونکہ حلال کی شرط رکھنے سے یہ بنیادی شرط ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور نہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ (عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸۱۔۸۰)۔
فقہ شافعی
حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جب نکاح کرتے وقت تحلیل کی شرط رکھی جائے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے فلاں عورت سے اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ طلاق دینے والے (پہلے خاوند) کے لئے حلال ہوجائے یا یوں کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق ہوجائے گی یا جدا ہوجائے گی تو یہ نکاح باطل ہے۔ لہٰذ ا اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک اس قسم کی شرط سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ضروری ہے۔لہٰذا یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔
فقہ حنبلی
حنبلی فقہ کے مطابق دوسرے نکاح میں حلالہ کی نیت شامل ہو یا واضح طور پر حلالہ کی شرط رکھی جائے، دونوں صورتوں میں نکاح باطل ہوجائے گا اور یہ عور ت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، ان کی دلیل سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بالتیس المستعار
کیا میں تمہیں ادھار لئے ہوئے سانڈھ کی خبر نہ دوں؟
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں (آپ ﷺہمیں بتائیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ محلل ہے اور اللہ تعالیٰ نے محلل (حلالہ کرنے والے) اور (محلل لہ‘) جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۱۔۸۰)
فقہ حنفی
تحلیل (حلالہ) کی شرط پر کیا گیا نکاح حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ لیکن فاسد نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔
واذا تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ لقولہ علیہ السلام لعن اللہ المحلل والمحلل لہ وھذا ھو محملہ فان طلقھا بعد وطیھا حلت للاول لوجود الدخول فی نکاح صحیح یا یبطل بالشرط (ہدایہ، فصل فیما تحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
اور جب اس عورت سے تحلیل (حلالہ) کی شرط پر نکاح کرے تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حدیث کا یہی مطلب ہے کہ (نکاح مکروہ ہو نہ یہ کہ سرے سے منعقد ہی نہ ہو) پھر جب وہ اس کو جماع کے بعد طلاق دے تو اب وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوگئی، کیونکہ نکاح صحیح میں جماع پایا گیا جو کسی شرط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا (لہٰذا حلالہ کی شرط سے بھی باطل نہیں ہوگا)۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ نکاح موقت نکاح کی طرح ہے۔ لہٰذا فاسد ہے اور اس فساد کی وجہ سے یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ جبکہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا ہے، کیونکہ نکاح کسی شرط سے باطل نہیں ہوتا، البتہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کو شریعت نے موخر کیاتھا ، اس نے اس میں جلدی کی۔ لہٰذا مقصود نکاح میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے یہ سزا دی جائے گی، جیسے کوئی شخص اپنے مورث (جس کا یہ وارث ہے) کو قتل کردے تو وہ وراثت سے محروم ہوجاتاہے (کیونکہ وراثت حاصل کرنے میں اس نے جلدی کی ہے)۔ (ہدایہ۔ فصل فیماتحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
حضرت امام محمد رحمہ اللہ اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے متفق ہیں کہ یہ نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شرائط، نکاح کے انعقاد پر اثر انداز نہیں ہوتیں، لیکن چونکہ نکاح ایک ایسا عمل ہے جو خاوند کی موت تک برقرار رہنا چاہئے اور یہاں پہلے ہی ختم کردیا گیا، لہذا پہلے خاوند کو یہ سزا دی جائے کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے دلائل
چونکہ تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں ہوسکتا لہٰذا:
(۱)… اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں اور جب پہلے خاوند کے لئے فی الحال حلال نہیں توکسی دوسری جگہ اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔
(۲) …دوسرا آدمی جو اس عورت سے نکاح کررہا ہے وہ اس کے محارم میں سے بھی نہیں ہے اور عاقل و بالغ آدمی ہے جسے اپنی ذات پر ولایت حاصل ہے۔
(۳) …نیز عورت خود اپنے نفس پرولایت رکھتی ہے اب جب وہ خود نکاح کرے یا اس کا ولی نکاح کرکے دے دونوں صورتوں میں اسے اس نکاح کا حق حاصل ہے۔
(۴) …فقہ حنفی کے مطابق نکاح میں کوئی شرط رکھی جائے تو اس شرط کا صحیح یا غلط ہونا اپنی جگہ پر ہے، لیکن نکاح بہرحال صحیح قرار پاتا ہے۔
اب جب دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ حقوق زوجیت ادا کرچکا ہے، تو قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہے۔
فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدوداللہ وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون (سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے تو ان دونوں (پہلے خاوند اور عورت) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ رجوع کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جنہیں وہ علم والی قوم کے لئے بیان کرتا ہے۔
حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اما قولہ (فان طلقھا) فالمعنی ان طلقھا الزوج الثانی الذی تزوجھا بعد الطلقة الثالثة لانہ تعالیٰ قد ذکرہ بقولہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (فان طلقھا) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوسرا خاوند جس نے تیسری طلاق کے بعد نکاح کیا تھا اسے طلاق دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔“
مطلب یہ ہے کہ یہاں طلاق دینے والے مرد کا رجوع مراد نہیں بلکہ رجوع سے نکاح جدید مراد ہے اور رجوع اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی ہے۔ امام رازی علیہ الرحمة نے فرمایا:
فذکر لفظ النکاح بلفظ التراجع لان الزوجیة کانت حاصلة بینھما قبل ذلک فاذاتنا کحا فقد تراجعا الیٰ ماکانا علیہ من النکاح فھذا تراجع لغوی (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کا ذکر لفظ تراجع (رجوع) کے ساتھ کیا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان زوجیت پہلے سے حاصل ہے۔ پس جب وہ نکاح کریں گے تو پہلے والی حالت یعنی نکاح کی طرف لوٹ آئیں گے، لہٰذا یہ لغوی رجوع ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تحلیل کی شرط باوجود یہ نکاح اس لئے صحیح قرار پاتا ہے کہ آپ کے نزدیک کسی بھی شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اورنکاح کے ارکان ایجاب و قبول اور شرط یعنی گواہوں کا حاضر ہونا دونوں باتیں پائی گئیں، لہٰذا یہ نکاح صحیح قرار پایا۔
0.000000
0.000000