Posts Tagged ‘Second marriage’


Read Online
Download
Version 1 [29]

#… تیری ناپسندیدہ حالت تیرے شوہر کو غمگین نہ کرے ،نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظر پڑے یااچانک سامنے آجائے تو تیرے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوں۔
#… خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے اس کو خوب راضی اور خوش کرو، جتنی تم اس کی اطا عت کر و گی اور اس کو خوش رکھو گی اسی قدر وہ آپ کی محبت کو محسو س کر ے گا اور آپ کو بھی خوش رکھنے کی کو شش کر ے گا ۔
# … آپ کے شو ہر سے لغزش ہو جا ئے تو منا سب مو قع اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر و ۔
# … کشادہ دِل ہو جاؤ شوہر کی طرف سے ہو نے والی منفی با تیں فرامو ش کر دو۔
#… اپنی عقلمندی اور شو ہر کے ساتھ اپنی محبت و تعلق کے ذر یعہ اس کی غلطیوں کی اصلاح کر و ، شو ہر کے جذبا ت مجروح کر نے کی ہر گز کو شش نہ کرو۔
# … اپنے شوہر کے سا منے کسی اجنبی آدمی کی تعریف نہ کرو ، ہاں البتہ اگر کو ئی دینی صفت اس میں ہو تو کو ئی حر ج نہیں۔
# … شو ہر کے متعلق کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
# … شو ہر کے سا منے ہمیشہ وہی بات کرو ، جو اس کو پسند ہو اور وہی کام کر و جو اس کی نظر میں اچھا ہو ۔
#… اپنے خا وند کو یہ با ت سمجھا ؤ کہ جب بھی اس کی طرف سے شدت کا اظہار ہو وہ احترام کا دامن ہا تھ سے نہ جانے دے ، کیونکہ یہ شدت ، عارضی اور وقتی ہوتی ہے ۔
#… اپنے خا وند کو باور کر اؤ کہ جب اس (خاوند ) کے والدین یا اعزہ واقربا ء میں سے کوئی بیما ر ہو تو دونوں کو اس کی بیما ر پر سی کر نی چا ہیے ، نہ یہ کہ صرف خاوند ہی اس کی بیما ر پر سی کر ے ۔
#… جب مالی تنگی پیش آئے تو آزردہ خاطر نہ ہو ، اپنے شو ہر کو بتا ؤ کہ اس کو اللہ نے بہت سی خیریں عطا فرمائی ہیں ۔
# … کو شش کر و کہ جب وہ ہنسے تو تم بھی ہنسو اور جب وہ روئے یا غمگین ہو تو تم بھی غم و حزن کا اظہار کر و ۔
# … جب وہ بات کر ے تو پوری تو جہ سے سنو اور خاموش رہو۔
#… اس کے دِ ل میں نہ بٹھا وٴ کہ تم اس سے ہمیشہ فلا ں چیز ما نگتی ہو ، ہا ں اگر اس کے ذ کر کر نے سے وہ خو ش ہوتا ہوتو پھر کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
#… ایسی غلطیاں بار بار کر نے سے پر ہیز کر و جس کے متعلق تم جا نتی ہو کہ تمہارا شو ہر ان کو پسند نہیں کر تا یا ان کو دیکھنا نہیں چا ہتا ۔
#… جب آپ کا شوہر گھر میں نفل نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے کھڑی ہو جا یا کرو اور نماز پڑھا کرو اور جب کو ئی علم کی کتا ب پڑھے تو تمہیں بھی بیٹھ کر اس کو سننا چا ہیے ۔
#… شوہر کے سامنے اپنی ذاتی آرزوؤں کے با رے میں زیادہ با تیں نہ کیا کرو۔
#… ہر چھو ٹی بڑی بات میں خاوند کی رائے کو ترجیح دو ، آپ کی اس سے محبت ، اکثر مو قعوں پر اس چیز کو ظاہر کر تی ہو۔
#… شوہر جو راز بیا ن کر ے اس کی حفا ظت کر و، اس کا افشا ء نہ کرو، خواہ آپ کے ماں با پ کا کیوں نہ ہو ، کیونکہ اگر تم اس کے راز کو کھولو گی تو اس کے سینہ میں غصے کی آ گ بھڑک سکتی ہے اور کینہ و عداوت پیدا ہوسکتی ہے ۔
# … کسی پیرا یہ میں بھی اپنا تعلیم یا فتہ اور ڈگر ی ہو لڈر ہونا بیان نہ کر و ، کیونکہ یہ چیز نفرت کا سبب بنتی ہے ۔
# … اپنے شو ہر کے ساتھ نر م انداز میں پیش آؤ ، ورنہ گھر ، با زار والا نقشہ پیش کر ے گا ۔
# … جب گھر میں کشید گی یا نا چاکی پیدا ہو تو گھر چھو ڑ نے کا کبھی نہ کہو ، کیونکہ اس سے اس کے دِل میں آئے گا کہ تم اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتی ہو ۔
# … جب خاوند گھر سے جانے لگے تو اس کے سامنے اپنی آزردگی اور بے چینی کا اظہا ر کرو۔
#… جب کہیں جا نے کا کوئی پروگرام ہواور وہ کسی وجہ سے کینسل کر ے تو اس کے عذر کو قبول کر و ۔
# … اس کے سامنے غیرت کا اظہا ر نہ کرو ، کیونکہ یہ تبا ہی لا نے والا ہتھیار ہے ۔
# … اپنے خاوند سے یوں بات نہ کر و کہ جس سے تم بے قصور معلوم ہو اور وہ قصور والے ۔
# … خاوند کے جذبات کا خیال رکھو، اس کے سامنے اپنے رشتہ داروں کے فضا ئل زیادہ ذکر نہ کرو ۔
#… اپنے خا وند سے جھو ٹ با لکل نہ بولو ، کیونکہ اس سے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی ۔
#… اپنے کو یہ با ت ہمیشہ با ور کر اؤ کہ اگر وہ اس سے شادی نہ کر تا تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر تی ؟
#…کبھی ایسی حالت اختیا نہ کرو جو تیرے شوہر کو اچھی نہ لگے بہترین عورت وہ ہے جس پر اُس کے خا وند کی نظر پڑے تو اس کی سعادت ، اچھی حالت اس کی آنکھوں کے سا منے نمایاں ہو۔
#… جب بھی تیری طرف خا وند نظر کر ے تو تیر ے ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ نمایاں ہو ۔
#… اپنے شوہر کی نافرماں بردار ی سے اسے بہت زیادہ راضی کر تیری فرما نبرداری کے مطابق ہی تیرا شوہر تیری محبت کاا حسا س کرے گا اور تجھے راضی کر نے کی جلدی کوشش کریگا ۔
#… تیری جو غلطی تیرے شو ہر کے نو ٹس میں آ گئی ہو اس کے تکدر کو دور کر نے کے لیے منا سب وقت اور مناسب طر یقہ اختیا ر کر ۔
#…(بر داشت کے لئے) فراخ دل ہو ( شوہر کے سامنے ) اسکی ان غلطیوں کا زیاد ہ تذکر ہ نہ کر جو اس سے کسی غیر کی خا طر سر زد ہو گئی ہو ں ۔
#…اپنے شوہر کی محبت کی بنا ء پر ہر طرح کی ذہا نت اور عقلمند ی سے اسکی غلطیوں کا تدارک کر اور اس کے احساسات کو مجروح کر نے کی کو شش نہ کر ۔
#… اپنے خا وند کے خلاف غیروں کی با توں کو سچا نہ جان
#… ہمیشہ اپنے شو ہر کے سامنے ایسے کام کر جنہیں وہ پسند کر تا ہو۔اور ایسی با تیں کر جنہیں وہ ہمیشہ سننے کی رغبت رکھتا ہو ۔
#…اپنے شوہر کی طبیعت کو اچھی طر ح سمجھ لے تاکہ اس کے دل میں تیرا احترا م ہو ۔ کسی معاملے میں جب بھی کوئی سخت لہجہ اختیا ر کر تا ہے وہ وقتی ہو تا ہے ۔( یہ نہ سمجھ کہ اس کے دل میں تیرے خلاف کو ئی مستقل جذبہ ہے )
#…جب اس کے سا تھ با ت چیت کر ے تو اس کی کسی مالی تنگی پر کسی قسم کی تنگ دلی کا اظہار نہ کر اور اُس کی طرف سے جو تجھے بہت سی بھلائیاں حاصل ہو ئی ہیں ان کا اُس کے پا س ذکر کر ۔
#…جب بات کر ے تو پو ری طر ح خاموش رہ اور اس کی طرف کا ن دھر (پو ری توجہ دے )
#…بکثرت اُ سے یا د نہ دلا کہ تو نے اس سے ہمیشہ کو ئی طلب کی ہے ۔( مگر وہ حا صل نہیں ہو ئی ) البتہ اسے وہ چیز اُس وقت یا د دلا جب تو جان لے کہ وہ اس کے ذکر سے خوش ہو گا ۔
#…بار بار غلطیا ں کر نے اور ایسے مو قف میں واقع ہو نے سے اپنے آپ کو بچا جسے تیرا خا وند دیکھنا نہ چا ہتا ہو ۔
#…اپنے شو ہر کے سا منے اپنی ذا تی خوا ہشا ت کے با رے میں زیا دہ با تیں نہ کر ۔ بلکہ بکثرت اصرار کر کہ وہ تیرے سا منے اپنی ذاتی خو اہشات کا ذکر کر ے۔
#…ہر چھو ٹے بڑے معا ملے میں اس کی را ئے پر اپنی ر ائے کو مقدم نہ کر بلکہ بعض مواقع میں تو اُسی کی رائے کو اُس سے محبت کی بنا ء پر پیش کر نے میں پہل کر ے ۔
#…اس کی اجا زت کے بغیر کو ئی نفلی روزہ نہ رکھ اور اُس کے علم کے بغیر اُس کے گھر سے با ہر نہ نکل ۔
#…جو راز کی با ت وہ تیر ے سامنے بیان کر ے اسے یا د رکھ اس کی حفا ظت کر اور اسے اپنی ماں اور باپ کے پاس بھی ظا ہر نہ کر اس لئے کہ یہ بات اُس کے سینے کو غصے
سے تیرے خلاف بھڑکا دیگی ۔
#… اس انداز کے ساتھ اپنے شوہر سے بات نہ کر گویا تو معصوم ہے اور وہ گنہگار آدمی ہے۔
#… اپنی اولاد کو بات کرنے میں سچائی اور عمل میں اخلاص کا عادی بنا۔
# … تو اکیلی کھانا نہ کھا۔بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد کے درمیان بیٹھ کر کھاناکھا۔
# … اپنی اولاد کو صفائی پسند کرنے کا عادی بنا۔ اور انہیں یاد دلا کہ صفائی کے ساتھ ہی وہ ایمان کی صفت سے متصف ہوں گے۔
#… اپنی اولاد کے سامنے گالی گلوچ
لعن طعن یا حقارت آمیز کلمات نہ بول اس لئے کہ وہ تیرے تمام الفاظ اپنے ذھن میں جمع کر لیں گے یاد کر لیں گے۔
#… ایسی باتوں سے پرہیز کر جس کے بعد اس کی معذرت پیش کرنی پڑے اور انتہائی طور پر فضول اور بکثرت باتوں سے دور رہ ۔ اپنے پروردگار کے اس ارشاد کو یاد رکھ؛
﴿لاخیر فی کثیرمن نجو ھم الا من امر بصد قةاو معروف اواصلاح بین النا س﴾(النساء
۱۱۳)
”ان کی اکثر سر گو شیو ں میں کوئی بھلائی نہیں ہے البتہ جس شخص نے صدقے ،کسی نیکی یا لو گو ں کے درمیا ن اصلاح کا حکم دیا ۔(اس میں بھلائی ہے )
#…ہر سنی سنا ئی بات کو (بلا تحقیق )بیان کر دینا پر ہیز گا رموٴ من عو رتوں کی عا دت نہیں ہے ۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے :
”آد می کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنا ئی کو بیا ن کرتا پھر ے“۔
(مسلم۔ مقدمہ وابو داود حدیث نمبر
۹۹۲ ۴ )
#…اس بات کی حرص کر کہ تیرے منہ سے اچھے کلمات ہی نکلیں۔ اس لئے کہ جو تو کہنا چا ہتی ہے اس کا وزن کیا جائیگا ۔اسکی قدروقیمت متعین ہو گی۔
# … اپنی ذمہ داریو ں سے غافل جاہل عورتوں کی صحبت اختیارنہ کر ۔
#… موٴمن عورت اپنی بہنوں کے عذر قبول کر تی ہے ۔اور منا فق عورت اپنی بہنوں کی لغزشیں تلا ش کر تی ہے۔
#… ایسی عورت کی صحبت اختیار کر جس سے تو اپنے معاملے میں سلا متی پاتی ہے اسکی صحبت تجھے نیکی پر ابھا ر یگی۔ اور اس کا دید ار تجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلائیگا۔
# … جو عورت تجھ سے بات کر رہی ہو اُسے پور ے شوق کے ساتھ غور سے سن ۔ جب تو اس سے بات کر ے تو اس سے اپنی نظر نہ پھیر ۔ کسی سبب سے با ت بھی کر نے والی کی با ت کو قطع نہ کر ۔ اگر تو کسی معا ملے میں قطع کلا می پر مجبو ر ہو تو با ت کر نے والی کو نر می اور سکو ن کے سا تھ آگاہ کر دے۔
#… جھو ٹ ، غیبت ،چغل خور ی ، مز اح اور مسلمان عورتوں کے سا تھ ٹھٹھے مخول سے بچ ۔
# … بر ی با ت اور بے حیا ئی کی بات سے پر ہیز کر ۔
# … اپنے عمل اور اپنے نفس کے ساتھ تکبر اور گھمنڈاختیا ر نہ کر ۔
#… مسلمان عورتوں کے چھو ٹے بچوں کو اپنی اولاد سمجھ ۔ درمیا نی عمر کی بچیوں کو اپنی بہنیں اور بڑی عمر والی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھ ۔ اپنی اولاد پر رحم کر نا تجھ پر لازم ہے ۔ اپنی بہنوں سے صلہ رحمی کر اور اپنی ماؤں کے سا تھ احسا ن کر ۔
# … اپنی اولاد کو جنت کی تر غیب دے ۔ بیشک جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے نماز اور رو زے ادا کئے اپنے ماں با پ کی فرما ں بر داری کی جھو ٹ نہ بولا اور کسی پر حسدنہ کیا ۔
# … اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پرد ے اور شرم و حیا کی رغبت دلا ۔ انہیں چھو ٹے تنگ کپڑے اور اکیلی پینٹ یا شرٹ ( قمیص ) پہننے کی عا دی نہ بنا تا کہ وہ بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت اپنی خصو صیت کو پہچان لیں ۔
# … سا ت سال کی عمر میں ہی اپنی بیٹیوں کو اوڑھنی پہننے کی عادی بنا ۔
#… اپنی اولاد میں سے جس کو تو دیکھے کہ با ئیں ہا تھ سے کھا تا یا پیتا ہے اُسے اس سے روک دے ۔(اور دا ئیں ہا تھ سے کھا نے پینے کی تعلیم دے )
#… اپنی اولاد کوناخن ترا شنے اور کھا نے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہا تھوں کے دھو نے کی نصیحت کر نا نہ بھول۔
# … موٴ من عورت با تیں کم اور عمل زیادہ کر تی ہے ۔ منا فق عورت با تیں زیادہ عمل کم کر تی ہے ۔
# … چا ہئے کہ تو تین طر یقوں سے اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کا حق ادا کر ے ۔ اللہ تعالی کے احکا م پر عمل کر تے ہوئے ، ا س کی ڈانٹ سے اپنے آپ کو بچا تے ہو ئے ، لوگوں سے ان کی تکلیف دور کر تے ہو ئے ، اپنے نفس کی پا کدامنی اور اپنی تنہا ئی میں حفاظت کر تے ہو ئے ۔
#… دوسری عورتوں کے نزدیک قدروقیمت میں زیادہ کم وہ عورت ہے جو علم دین میں ان سب سے کم ہو ۔
#… تین خصلتوں کے بعد شر مندگی لا حق نہیں ہو تی ۔ دیانت داری ، پاکدامنی اور کام کر نے سے پہلے سوچ بچا ر۔
#… عو رت کی قدرو قیمت اس کی جسمانی خو بیوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی قدرو قیمت دینی خو بیوں میں ہے ۔
# … کسی بَد عادت عورت کے ساتھ بیٹھے سے تیرا تنہا بیٹھے رہنا بہتر ہے۔
#…سچی بات کرنا، لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی،امانت کی حفاظت، ہمسائی کے حق کی حفاظت، سوال کرنے والی کو عطا کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا ، ملاقات کے لئے آ نے والی کی عزت کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا، ملاقات کے لئے آنے والی کی عزت کرنا، عہد پورا کرنا اور شرم و حیا یہ سب عمدہ اور کریمانہ اخلاق و عادات ہیں۔
# …مسلمان عورت اپنے ماں باپ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
# …مسلمان عورت سچ بولتی ہے جھوٹ نہیں بولتی۔
#… مسلمان عورت اپنی بیمار بہن کی زیارت کرتی ہے اور اپنی محتاج بہن پر سخاوت کرتی ہے۔
بہت قیمتی نصیحتیں
#… اگر تو خشوع کی توفیق چا ہتی ہے تو فضو ل نظر با زی سے دور رہ ۔
#…ا گر تو دانائی کی تو فیق کو پسند کر تی ہے تو فضول با توں کو چھو ڑدے۔
#… اگر تو اپنے عیبوں سے باخبر ہو نے کی تو فیق چا ہتی ہے تو دوسرے کے عیبو ں کی ٹوہ لگا نا چھو ڑ دے ۔
#… جو تجھ پر زیا دتی کر ے اس پر بردبار ہو جا ۔
# … بہت سخی عورت وہ ہے جو کسی کو مال عطا کر کے صرف اللہ ہی سے اس کی جزا ء چاہتی ہے ۔
#… بد کر دار عو رتو ں کی ساتھی نہ بن ،وہ تجھے کھا نے کے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچ دے گی ۔
#… بخیل عورت کے ساتھ نہ بیٹھ جس ما ل کی تو محتاج ہے وہ اسے اپنے مال میں ملا لے گی ( تجھے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے رو ک دے گی )
# … جھو ٹی عو رت کی محبت میں نہ رہ وہ فر یب نظر کے در جہ میں ہے ۔وہ قریب کو تجھ سے دور کر دیگی اور بعید کو تجھ سے قریب کر دیگی ۔
#… احمق عورت کے پا س نہ بیٹھ اس لئے کہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کے ارادے کے باوجود نقصان پہنچادیگی ۔
#… احسان جتلا نے والی کی سا تھی نہ بن کہ وہ ہمیشہ اپنی مالی بر تر ی سے تجھے تنگ کرے گی ۔
# … کسی مکا ر عورت کے ساتھ نہ بیٹھ اس لئے کہ اُس کے پیش نظر اپنا ہی نفع ہوتا ہے ۔
#… کسی بد دیانت عورت کی سا تھی نہ بن کہ جس طرح اُس نے تیرے غیر کے سا تھ خیا نت کی ہے اسی طر ح تیرے سا تھ بھی خیا نت کرے گی۔
# … دورخے پن اور دو زبا ن والی عورت کی سا تھی نہ بن ۔
# … ایسی عورت سے بھی صحبت نہ رکھ جو تیرے راز کو نہ چھپا ئے ۔
#… مصیبت زدہ مسلما ن عورتوں سے ان کی تکلیف کو دور کر نا ۔
# … محتاج مسلمان عورتوں کے قرض ادا کر نا ۔
# … کھانا کھلا نا اور بھو کی عورتوں سے ان کی بھو ک دور کر نا ۔
#… اپنی ایما ندار بہنوں کی حا جتیں پو ری کر نے میں جلد ی کر نا ۔
# … راستوں سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا نے میں سستی نہ کر ۔
# … علم حا صل کر اور دوسری مسلمان عورتوں کو تعلیم دے ۔
# … تجھ پر بھلا ئی کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا لا زم ہے ۔
#… سنتیں اور نو افل ادا کر نے پر ہمیشگی اختیا ر کر ۔
# … اپنے رشتہ دا روں سے ملا قات تجھ پر وا جب ہے اگر چہ وہ تجھ سے قطع تعلق کریں ۔
#… اپنے فو ت شدہ افرادا ہل خانہ کو اپنی دعا میں یاد رکھ۔
# … دو سروں کے سا تھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کر ۔
# … جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں انہیں پوری دیا نت داری اور عمدگی سے ادا کر ۔
# … اپنی مسلمان بہن کے سا منے مسکرا کہ یہ صدقہ ہے۔
#… دنیا دار عو رتوں سے میل جو ل نہ رکھ ۔
#… اپنے رب کے عذاب و سزا سے ڈرنا تیری عادت ہونی چا ہےئے ۔
# … اپنے ماں باپ کے احسان کر نے والی بن ۔
#… دنیا میں عورت کی بد بختی کی چار علا متیں ہیں :
دل کی سختی ، آنسو ؤ ں کا خشک ہو جا نا ،(یعنی خوف الہیٰ سے آنکھو ں میں آنسو نہ آنا) لمبی آرزو اور دنیا کی حرص ۔
#… جان لے کہ ہر چیز میں سو چ بچار کے لئے ٹھہر اؤ بہتر ہے مگر آخرت کے معاملے میں تاخیر بہتر نہیں ہے (کہ ابھی وقت ہے پھر یہ عمل کر لو نگی)
# … یاد رکھ کہ بچے ،بو ڑھے ،بیو گان اور مسا کین صدقات کے سب لوگو ں سے زیادہ حق دار ہیں ۔
# … ہر عمل کو ختم کر نے پر اپنے رب سے دعا کر کہ وہ تیرا عمل قبول کر لے ۔
﴿ والحمد للہ رب العالمین ﴾ 

حلالہ کی تین صورتیں: پہلی صورت
حلال کی تین صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئیں وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔ پھر خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے۔ اب عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہوجائے، گویا یہاں حلالہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہوجاتا ہے۔
حلالے کی اس صورت کا قرآن پاک میں ذکر ہے (جیسے آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں) اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ صورت بلاکراہت جائز ہے۔ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی صحیح ہے اور جب وہ خاوند طلاق دے دے تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔
یہ صورت چونکہ عقلاً نقلاً صحیح ہے، اور قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے، لہٰذا اسے بھی ناجائز یا بے حیائی کا باعث قرار دینا نہ صرف جہالت ہے بلکہ کھلم کھلا قرآن کی مخالفت ہے۔
دوسری صورت
جب خاوند نے طلاق دے دی اور عورت کی عدت بھی گزر گئی، اب کوئی شخص اپنی مرضی سے اس سے نکاح کرتا ہے اور نکاح کے وقت حلالہ کی شرط بھی نہیں رکھی گئی۔ یعنی یوں نہیں کہا گیا کہ تم حقوق زوجیت ادا کرکے اسے طلاق دے دینا کہ پہلے خاوندسے اس کا نکاح کیا جائے۔ البتہ دوسرے آدمی نے دل میں یہ نیت کی کہ چونکہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اچھے تھے ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،لہٰذا اگر میں اس عورت سے نکاح کرلوں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے اور یوں وہ اجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہوجائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
#…مالکی فقہ کے مطابق اس نیت سے کیا گیا نکاح فاسد ہوگا۔ جماع کیا گیا یا نہیں، دونوں صورتوں میں تفریق ضروری ہے۔
#… شافعی فقہ کے مطابق یہ نکاح صحیح ہوگا، اگرچہ کچھ دوسری شرائط کا خیال رکھنا ہوگا، لیکن محض اس نیت کی وجہ سے یہ نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
#… حنبلی فقہ کے مطابق یہ نکاح باطل ہے۔ ان کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط اور نیت دونوں برابرہیں۔
#… جبکہ فقہ حنفی کے مطابق یہ نکاح صحیح قرار پاتا ہے ، اگر کچھ دیگر شرائط کا خیال رکھاجائے:
والحاصل ان التحلیل اذا سلم من ھذہ المحظورات وکان مقصوداً بہ الصلح بین الرجل ومطلقتہ فانہ جائز، ولصاحبہ اجرن الذی یصلح بین الزوجین، واما اذا کان لغرض من الاغراض السابقة فانہ یکون مکروھا تحریما ویکون اثمہ علی کل من اشترک فیہ سوآء کان الزوج الثانی اوالمطلِّق اوالمرأة (عبدالرحمن الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸)
خلاصہ یہ ہے کہ جب حلالہ ان ممنوعات سے محفوظ ہو اور اس کا مقصود اس مرد (پہلے خاوند) اور اس کی مطلقہ بیوی کے درمیان صلح کرانا ہو تو یہ جائز ہے اور ایسے شخص کو اس آدمی کی طرح اجر ملے جو میاں بیوی میں صلح کراتا ہے۔لیکن جب کوئی دوسری غرض ہو (جو اغراض کتاب الفقہ میں اس عبارت سے پہلے سے بیان ہوئی ہیں) تو مکروہ تحریمی ہے اور اس عمل میں جو لوگ شریک ہوں گے وہ گنہگار ہوں گے،وہ دوسرا خاوندہو یا طلاق دینے والا مرد یا عورت۔
اگر دوسرے شخص نے صرف اس نیت سے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی کہ ان کا گھر بس جائے تو یقینا یہ کام باعث ثواب ہے، گویا وہ شخص میاں بیوی میں صلح کرانا چاہتا ہے لیکن چونکہ قرآنی تعلیم کے مطابق جب تک دوسری جگہ نکاح نہ ہوجائے وہ عورت دوبارہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں آسکتی، اس لئے اسے مجبوراً نکاح کرنا پڑا۔
البتہ اگر وہ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ اپنی شہوت کو پورا کرے اور پھر طلاق دے دے تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اگرچہ نکاح بھی ہوجائے گا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال بھی ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں اگر وہ شخص لوگوں میں حلالہ کرنے والا مشہور ہے تو اگرچہ اب اس کی نیت صحیح بھی ہو اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگرچہ نکاح ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ اس نکاح پر اجرت مقرر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی حرام ہے اور حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ (جامع ترمذی باب ماجاء فی المحلل والمحل لہ ص ۱۸۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اگرچہ نکاح اس صور ت میں بھی ہوجائے گا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نر جانور اس مقصد کے لئے رکھتا ہے اور مادہ جانور کے مالک سے اس عمل کی اجرت وصول کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے۔ اسی طرح انسان جماع پر اجرت لے تو یہ بھی حرام ہے۔ (عبدالرحمن حریری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۷۹)
تیسری صورت
حلالہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب اس مطلقہ سے نکاح کیا جائے تویہ شرط رکھی جائے کہ دوسرا خاوند جماع کے بعد اسے طلاق دے گا تاکہ وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکے۔ یہ طریقہ اختیار کرنا تمام آئمہ کرام کے نزدیک حرام ہے، کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لہذا اس سے قطع نظر کہ یہ نکاح ہوگیا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جولوگ اس میں شریک ہیں وہ سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ا س سے بچنا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کرلیتا ہے تو کیا نکاح ہوجائے گا؟… کیا اب دوسرے خاوند پر اس شرط کی پابندی ضروری ہے؟… اور کیا دوسرے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی؟
ہم اس سلسلے میں چاروں آئمہ کا مسلک مع دلائل نقل کرکے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے موقف کا ترجیحاً ذکر کریں گے۔
فقہ مالکی
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے مقلدین کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط سے نکاح کیا جائے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کا مقصد ان دونوں کا ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے اور یہی نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ چونکہ حلال کی شرط رکھنے سے یہ بنیادی شرط ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور نہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ (عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸۱۔۸۰)۔
فقہ شافعی
حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جب نکاح کرتے وقت تحلیل کی شرط رکھی جائے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے فلاں عورت سے اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ طلاق دینے والے (پہلے خاوند) کے لئے حلال ہوجائے یا یوں کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق ہوجائے گی یا جدا ہوجائے گی تو یہ نکاح باطل ہے۔ لہٰذ ا اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک اس قسم کی شرط سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ضروری ہے۔لہٰذا یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔
فقہ حنبلی
حنبلی فقہ کے مطابق دوسرے نکاح میں حلالہ کی نیت شامل ہو یا واضح طور پر حلالہ کی شرط رکھی جائے، دونوں صورتوں میں نکاح باطل ہوجائے گا اور یہ عور ت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، ان کی دلیل سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بالتیس المستعار
کیا میں تمہیں ادھار لئے ہوئے سانڈھ کی خبر نہ دوں؟
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں (آپ ﷺہمیں بتائیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ محلل ہے اور اللہ تعالیٰ نے محلل (حلالہ کرنے والے) اور (محلل لہ‘) جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۱۔۸۰)
فقہ حنفی
تحلیل (حلالہ) کی شرط پر کیا گیا نکاح حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ لیکن فاسد نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔
واذا تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ لقولہ علیہ السلام لعن اللہ المحلل والمحلل لہ وھذا ھو محملہ فان طلقھا بعد وطیھا حلت للاول لوجود الدخول فی نکاح صحیح یا یبطل بالشرط (ہدایہ، فصل فیما تحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
اور جب اس عورت سے تحلیل (حلالہ) کی شرط پر نکاح کرے تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حدیث کا یہی مطلب ہے کہ (نکاح مکروہ ہو نہ یہ کہ سرے سے منعقد ہی نہ ہو) پھر جب وہ اس کو جماع کے بعد طلاق دے تو اب وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوگئی، کیونکہ نکاح صحیح میں جماع پایا گیا جو کسی شرط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا (لہٰذا حلالہ کی شرط سے بھی باطل نہیں ہوگا)۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ نکاح موقت نکاح کی طرح ہے۔ لہٰذا فاسد ہے اور اس فساد کی وجہ سے یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ جبکہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا ہے، کیونکہ نکاح کسی شرط سے باطل نہیں ہوتا، البتہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کو شریعت نے موخر کیاتھا ، اس نے اس میں جلدی کی۔ لہٰذا مقصود نکاح میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے یہ سزا دی جائے گی، جیسے کوئی شخص اپنے مورث (جس کا یہ وارث ہے) کو قتل کردے تو وہ وراثت سے محروم ہوجاتاہے (کیونکہ وراثت حاصل کرنے میں اس نے جلدی کی ہے)۔ (ہدایہ۔ فصل فیماتحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
حضرت امام محمد رحمہ اللہ اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے متفق ہیں کہ یہ نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شرائط، نکاح کے انعقاد پر اثر انداز نہیں ہوتیں، لیکن چونکہ نکاح ایک ایسا عمل ہے جو خاوند کی موت تک برقرار رہنا چاہئے اور یہاں پہلے ہی ختم کردیا گیا، لہذا پہلے خاوند کو یہ سزا دی جائے کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے دلائل
چونکہ تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں ہوسکتا لہٰذا:
(۱)… اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں اور جب پہلے خاوند کے لئے فی الحال حلال نہیں توکسی دوسری جگہ اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔
(۲) …دوسرا آدمی جو اس عورت سے نکاح کررہا ہے وہ اس کے محارم میں سے بھی نہیں ہے اور عاقل و بالغ آدمی ہے جسے اپنی ذات پر ولایت حاصل ہے۔
(۳) …نیز عورت خود اپنے نفس پرولایت رکھتی ہے اب جب وہ خود نکاح کرے یا اس کا ولی نکاح کرکے دے دونوں صورتوں میں اسے اس نکاح کا حق حاصل ہے۔
(۴) …فقہ حنفی کے مطابق نکاح میں کوئی شرط رکھی جائے تو اس شرط کا صحیح یا غلط ہونا اپنی جگہ پر ہے، لیکن نکاح بہرحال صحیح قرار پاتا ہے۔
اب جب دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ حقوق زوجیت ادا کرچکا ہے، تو قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہے۔
فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدوداللہ وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون (سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے تو ان دونوں (پہلے خاوند اور عورت) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ رجوع کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جنہیں وہ علم والی قوم کے لئے بیان کرتا ہے۔
حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اما قولہ (فان طلقھا) فالمعنی ان طلقھا الزوج الثانی الذی تزوجھا بعد الطلقة الثالثة لانہ تعالیٰ قد ذکرہ بقولہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (فان طلقھا) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوسرا خاوند جس نے تیسری طلاق کے بعد نکاح کیا تھا اسے طلاق دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔“
مطلب یہ ہے کہ یہاں طلاق دینے والے مرد کا رجوع مراد نہیں بلکہ رجوع سے نکاح جدید مراد ہے اور رجوع اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی ہے۔ امام رازی علیہ الرحمة نے فرمایا:
فذکر لفظ النکاح بلفظ التراجع لان الزوجیة کانت حاصلة بینھما قبل ذلک فاذاتنا کحا فقد تراجعا الیٰ ماکانا علیہ من النکاح فھذا تراجع لغوی (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کا ذکر لفظ تراجع (رجوع) کے ساتھ کیا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان زوجیت پہلے سے حاصل ہے۔ پس جب وہ نکاح کریں گے تو پہلے والی حالت یعنی نکاح کی طرف لوٹ آئیں گے، لہٰذا یہ لغوی رجوع ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تحلیل کی شرط باوجود یہ نکاح اس لئے صحیح قرار پاتا ہے کہ آپ کے نزدیک کسی بھی شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اورنکاح کے ارکان ایجاب و قبول اور شرط یعنی گواہوں کا حاضر ہونا دونوں باتیں پائی گئیں، لہٰذا یہ نکاح صحیح قرار پایا۔

 


اگر ایسا اتفاق ہو جائے کہ مرد دوسری شادی رچالے تو پہلی بیوی کو نہ تو ایسا سوچنا چاہیے اور نہ ہی ایسا بر تاؤ کرنا چا ہیے جیسا کہ غیر مسلم عورتیں کرتی ہیں۔
وہ تو شوہر کی دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ ان کے معاشرہ میں یہ قا بل قبو ل نہیں۔
یاد رکھو!اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک سے زا ٰئد شا دیو ں کی اجا زت دی ہے ، اسلا م کی رو سے ایک مر د کو حق حا صل کہ وہ ایک سے زائد عورتوں سے شاد ی کرے۔
دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی نہ اس طرح برتاوکرے جیسے اس کی دنیا اندھیرا ہو گئی ہو اور اس کی زندگی سے رو شنی مفقود ہو گئی ہو ۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ذہنی طو ر پراسے جھٹکاضرور لگے گااور وہ غمزدہ بھی ہو گی مگر اسے حالا ت کا مقابلہ سو جھ بو جھ ، عقلمندی، ذہن کی پختگی اور صبر سے کرنا ہو گا ۔ اسے اپنی نفسا نی خواہشات جن کو شیطان ابھا رتا ہے کو دبا نا ہو گا اور احسا سات کو بے لگا م ہو نے سے روکنا ہو گا ۔
اگر ان حالات کا مقابلہ وہ حسد ، نفرت ، بغض ، کینہ اور عداوت سے کر ے گی تو اس کو یہ امر یا درکھنا چا ہیے کہ اس کی حا لت مزید خراب ہو جائے گی ۔ شوہر کو دوسری بیوی سے بد ظن اور علیٰحدہ کر نے کی اسکی کو ششیں بار آ ور نہیں ہو ں گی ۔ اپنے نا رواسلوک سے اس کا خاوند اس طرف سے بر گشتہ ہو جائے گا اور اسے وہ کٹنی نظر آنے لگے گی ۔ عورت اپنے برے روئیے سے کچھ اپنا ہی نقصان کر ے گی اور فا ئدہ کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
پہلی بیوی کو اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لینا چا ہیے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتی ۔ اسے ایسی کوشش سے احتراز کر نا ہو گا جس سے وہ اپنے خاوند کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے حق سے دستبر دار ہونے کے لیے مجبور کر ے ۔
عورت کو چا ہیے کہ اپنے خاوند کے دوسری شادی کے فیصلے کو پر وقاررویئے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے لیے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مزید ہو گی ۔ یقینا نقصا ن میں نہ رہے گی ۔ اپنے نفس پر قابو پا کر نئے حالا ت سے سمجھوتہ کر نا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں اپنے نفس سے جنگ کر نے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ۔
نفس کے خلاف مجاہد ہ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے اور جب تک وہ اس زمین پر مقیم ہے اسے نفس اما رہ کے خلاف نبرد آزما ہو نا پڑے گا ۔ ایک مسلمان کو اس امر کی اجازت نہیں کہ ایسی خواہشات کی پیروی کر ے جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ پہلی بیوی کو یہ جان لینا چا ہیے کہ ردّعمل حسد کی بنا پر ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خا طر حسد کو ترک کر دے۔
یاد رکھو ! ایک مسلمان اس دنیا میں آزاد نہیں کہ جو مر ضی میںآ ئے کہے اور کرے ۔ ہماری رہا ئش ، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات و کردار پر لا تعداد بندشیں اللہ کی طرف سے عائد ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ﴿الدنیا سجن المو من و جنة الکافر
(
بہ روایت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ ، مسلم کتاب الزہد۔ ترمذی کتاب الزھد ۔ ابن ماجہ ۔ ابواب الزہد)
دنیا موٴمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے “۔
اچھی اور سچی مسلمان عورت اپنے خاوند کی دوسری بیوی کی عزت کر یگی ۔ اپنے مجروح جذبات پر قابو پا ئے گی ۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ سوت کے ساتھ مہر بانی اور شا ئستگی سے پیش آئیگی ۔ اسلامی طور طریقے اپنانے سے اس کے شو ہر کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات صحت مندانہ ماحول میں ترقی کر یں گے اور ان دونوں میں آپس میں پیا ر و محبت بڑھے گا ۔
عورت کو اپنے شوہر سے دوسری بیوی کے متعلق حقارت آمیز ، طعن آمیز اور تمسخر آمیز گفتگو نہیں کرنی چا ہیے ۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہے ایسا کر نے سے خاوند کو دوسری بیوی سے بر گشتہ کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ اس کے بر عکس اس کا یہ طرز عمل خاوند اور دوسری بیوی کے تعلقا ت کو مزید استوار کر نے کا با عث ہو گا ۔وہ اپنی پہلی بیوی کی نا جائز غیبت پر نالاں ہو کر دوسری بیوی کی طرف زیادہ رجوع کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ دوسری بیوی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جس وجہ سے وہ اس کی زیادہ تو جہ اور ہمدردی کی مستحق ہو گی ۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو عقد ہ کھلے گا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوئی ہے ۔ اسے ایک سچی مسلمان عورت ہونے کے نا طے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجا نا چا ہیے اور صبر کرنا چا ہیے ۔ ایسا با عزت رویہ اپنا کر وہ یقینا فا ئدہ میں رہے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ایک عورت ، جب اس کا شوہر دوسری عورت سے شادی کر تا ہے ، اس پر صبر کرتی ہے ، ایک شہید کا ثواب پائیگی “۔
عورت اپنے صبر کی بدولت اور دوسری شادی کی حقیقت کو پر وقار اور حوصلہ مندی سے قبول کرنے کی صورت میں بہت بڑا ثواب کما ئیگی اور اللہ کے ہاں بڑا رتبہ پا ئے گی پھر وہ کیوں غمزدہ اور مایوسی کا شکار ہو ؟ بہتر ہے کہ وہ جان لے کہ اس کا برا طرز عمل اس کی اپنی شادی کو تباہی کے غار میں دھکیل دینے میں معاون ثا بت ہو گا ۔
دنیوی زندگی ، بہر حال مصیبتوں ، کو ششوں اور سختیوں سے عبا رت ہے جس سے ہر ایک مسلمان کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ مکمل خوشی کا ملنا اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔ اس کے لیے جنت ہے اور اس میں پہنچنے کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ۔ اگر وہ یہ خیال کر تا ہے کہ سختیاں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس پر برداشت و صبر کی روش اختیار کر تا ہے تو اسے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہو تا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ عارضی ہے اور اس دنیا کا رنج و غم بھی عارضی ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جو مستقل جائے قرار ہے ۔ اس دنیا میں اگر انسان نے نیک اعمال کئے ہو ں گے تکلیف میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہر کیا ہو گا تو اسے اس دنیا میں بھی رنج و تکلیف محسوس نہ ہو گی اور آخرت میں اس کے لئے جنت کا وعدہ اللہ نے کیا ہو ا ہے ۔