فروری, 2012 کے لیے آرکائیو

ناشکرگزار بیوی

Posted: فروری 28, 2012 by EtoPk in مضامین

شوہر کی حددرجہ خدمت

Posted: فروری 27, 2012 by EtoPk in مضامین

شوہر کی حددرجہ خدمت
شوہر کی حددرجہ اطاعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ اس کی خدمت گزار بیوی بن کر رہیں۔ شادی کے بعد مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی خدمت گزاربن جائے ۔ اس کے کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے کا شیڈول اس کی بیوی کے پاس ہو۔ باوقت اسے لباس ملے ، وقت پرکھانا اس کے سامنے حاضر ہو، اسے خود جو تے پالش کرنے ، اور لباس استری کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ ظاہر ہے جو بیوی خدمت گزار ی کا جذبہ لے کر ا س کے گھر آئی ہو وہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے گی، اس کے بغیر خاوند کا ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا اور یہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ اس کا خاوند اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنے سے عاجز ہو جائے اور یہ درجہ خدمت گزاری کے بغیر نہیں مل سکتا۔
صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں ، اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہاکا درج ذیل بیان قابل غور ہے، وہ فرماتی ہیں کہ
زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سواروئے زمین پر کو ئی مال، کو ئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی ۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی ، اسے پانی پلاتی ، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی ، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں ، میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی ، اس زمین سے میں کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لایا کر تی تھی جبکہ یہ زمین گھر سے دومیل دور تھی ۔۔۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ )نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کا م کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی ۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر )مجھ کو آزاد کر دیا۔
(
صحیح بخاری : کتاب النکاح :باب الغیرة۔۔۔(حدیث۵۲۲۴)صحیح مسلم : کتاب السلام (حدیث ۲۱۸۲)احمد (ج۴ص۵۲۲)
شوہر کا حددرجہ احترام
شوہر کو خوش رکھنے اور اس کا دل جیتنے کے لیے ایک یہ بات بھی بڑی ضروری ہے کہ آپ شوہر کا حد سے بڑھ کر احترام کریں ۔ اسے اچھے سے اچھے لقب سے مخاطب کیا کریں۔ اس کے ساتھ ادب واحترام سے گفتگو کریں۔ اس کے سامنے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں ۔ کبھی اسے’تو‘کہہ کر مخاطب نہ کریں ۔کبھی اس کے سامنے بداخلاقی کا مظاہرہ نہ کریں ۔ کبھی بھول کر بھی اسے گالی نہ دیں ۔ تنہائی میں بھی اس کا ادب واحترام کریں۔ اس کے اہل خانہ وغیرہ کی موجودگی میں بھی اس کا احترام بجالائیں۔
ہر شخص کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے احترام کر نے والے کو پسند کرتا اور بے ادبی کرنے والے سے نفرت کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات کی روسے ہر چھوٹے کو چاہیے کہ وہ بڑے کا ادب واحترام کرے اور بڑوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں سے پیار اور شفقت کریں۔ اسی طرح بیوی کو چاہیے کہ شوہر کا ادب واحترام کرے اور شوہر کوچاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے مشفقانہ برتاوٴ کرے۔

زبان کو قا بو میں رکھنے کی نصیحت
حدیث نبوی میں ارشاد ہے:
وعن ابی امامة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الحیاء والعی شعبتان من الایمان والبذاء والبیان شعبتان من النفاق۔(جامع التر مذی، کتاب البروالصلہ، باب ماجاء فی العی، ح ۲۷۔۲)
صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں ، اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہاکا درج ذیل بیان قابل غور ہے، وہ فرماتی ہیں کہ
زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سواروئے زمین پر کو ئی مال، کو ئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی ۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی ، اسے پانی پلاتی ، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی ، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں ، میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی ، اس زمین سے میں کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لایا کر تی تھی جبکہ یہ زمین گھر سے دومیل دور تھی ۔۔۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ )نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کا م کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی ۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر )مجھ کو آزاد کر دیا۔
(
صحیح بخاری : کتاب النکاح :باب الغیرة۔۔۔(حدیث۵۲۲۴)صحیح مسلم : کتاب السلام (حدیث ۲۱۸۲)احمد (ج۴ص۵۲۲)
اما م غزالی رحمةاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ انسا ن اپنی زبان سے جو با ت نکالتا ہے اور جو کلام کرتا ہے اس کی چار قسمیں ہو تی ہیں ۔ ایک تو محض نقصا ن ، دوسرے محض نفع ، تیسرے وہ با ت اور کلام جس میں نہ نفع ہو تا ہو اور نہ نقصان ہو تا ہو ا ور چوتھے وہ با ت وکلام جس میں نفع بھی ہو ا ور نقصا ن بھی اس سے بھی خاموشی ہی اختیا ر کر نا چاہیے کیونکہ نقصان سے بچنا فائدہ حا صل کر نے سے زیاد ہ اہم ہو تا ہے اور وہ کلام کہ جس میں نفع ہو نہ نقصا ن تو ظاہر ہے کہ اس میں زبان کو مشغول کر نا محض وقت ضا ئع کر نا ہے اور یہ چیز بھی خالص ٹوٹا ہے رہی دوسری قسم یعنی وہ کلا م کہ جس میں نفع ہی نفع ہو تو اگرچہ ایسی بات و کلا م میں زبان کو مشغول کرنا برائی کی با ت نہیں ہے ۔
لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے کہ اس میں بھی ابتلا ئے آفت کا خطرہ ضرور ہوتا ہے با یں طور کہ ایسے کلام میں بسا اوقات ریاء و تصنع ، خو شنودی نفس اور فضول با توں کی آ میزش ہو جاتی ہے اور اس صورت میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جا تا ہے کہ کہا ں لغزش ہو گئی ہے ۔ حاصل یہ کہ ہر حالت اور ہر صورت میں خاموشی اختیا ر کر نا بہتر اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں ان گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل الا یہ کہ زبا ن کو بند ہی رکھا جائے کسی نے خوب کہا ہے۔
﴿اللسا ن جسمہ صغیر وجرمہ کبیر وکثیر﴾
زبان کاجثہ (سائز ) تو چھو ٹا ہے ، مگر اسکے پاپ بڑے اور بہت ہیں ۔
﴿و عن عقبة بن عا مرقال لقیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت ما النجا ة فقال املک علیک لسا نک ولیسعک بیتک و ابک علیٰ خطیئتک
(
رواہ احمد والترمذی ) ( احمدبن حنبل ، المسند)
اور حضرت عقبہ بن عا مر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اورعرض کیا کہ ( مجھے بتا ئیے کہ دنیا اور آ خر ت میں )نجات کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو تمہا را گھر تمہا ری کفا یت کرے اور اپنے گناہوں پرروؤ“ ۔ ( احمد ترمذی )
وعن ابی سعید قال اذا اصبح ابن ادم فان الاعضاء کلھا تکفر اللسان فتقول اتق اللہ فینا فانا نحن بک فان استقمت استقمنا وان اعو جحت اعو ججنا ۔(رواہ الترمذی )(جامع الترمذی، کتاب الذھد، باب فی حفظ اللسان، ح۷۔ ۲)
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ابن آدم صبح کر تا ہے تو سارے اعضاء جسم زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہمارا تعلق تجھ ہی سے ہے۔ اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
تمام اعضاء جسم ، زبان سے عاجزی کرتے ہیں
یوں تو سارے جسمانی نظام کا ظاہری و روحانی دارومدار دل پر ہے کہ اگر دل درست وصالح ہے تو تمام اعضاء جسم بھی درست وصالح رہتے ہیں اور اگر دل فاسدو ناکارہ ہو جائے تو سارے اعضاء بھی فاسدو نا کارہ ہو جاتے ہیں جب کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:
ان فی الجسد مضغة ان صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ ۔
جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے (جس کو دل کہا جاتا ہے)اگر وہ درست ہوتو سارا جسم درست ہے اور اگر وہ بگڑگیا تو سارا جسم بگڑ گیا ۔
اس حدیث میں یہ ظاہرہے گویا زبان ہی سارے اعضاء جسم کی سردارہے اس اعتبار سے ہے کہ حقیقت میں ”دل “ ہی جسم کا بادشاہ ہے مگر دل کا ترجمان اور خلیفہ زبان ہی ہے دل جو کچھ سوچتا ہے زبان اس کو بیان کرتی ہے اور دیگر اعضاء جسم اس پر عمل کرتے ہیں ۔ لہٰذا جو حکم دل کا ہے وہی زبان کا ہے کہ جس طرح دل کے صالح و فاسد ہو نے کا اثر سارے اعضاء جسم پر پڑتا ہے اس طرح زبان کا بناوٴبگاڑ بھی تمام اعضائے جسم کو بناتا اور بگاڑتا ہے۔
وعن عمار قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کان ذاو جھین فی الدنیا کان لہ یوم القیٰمة لسانان من نار ۔
(
ابو داوٴد، کتاب الادب، باب فی ذی الوجھین ، ح ۸۸۳)
اورحضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوشخص دنیا میں دورویہ ہوگا قیامت کے دن اس کے (منہ میں) آگ کی دو زبانیں ہوں گی ۔“(دارمی)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

ٹیڑھ پن

Posted: فروری 26, 2012 by EtoPk in مضامین


کسی دانشور نے کہا ہے:
اے میرے بیٹے !شادی ضرور کرنا ، کیونکہ اگر تمہیں نیک بیوی مل گئی تو تم روئے زمین پر موجود لوگو ں میں سب سے زیادہ خوش نصیب ہوگے ، لیکن اگر برُی بیوی مل گئی تو وہ تمہیں دانشور ضرور بنا دے گی ۔
کسی شخص نے اشعار میں کہا ہے:۔
اری صاھب النسوان یحسب انھا سواء وبون بینھن بعید
فمنھن جنا ت تفی ء ظلا لھا ومنھن نیران لھن وقود
ترجمہ :…”میں نے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے والے شوہر کو دیکھا ہے جو یہ سمجھتا تھا کہ اس کی تمام بیویاں برابر ہیں حالانکہ ان کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ بعض تو گھنے باغ کی طرح سایہ دار ہوتی ہیں ۔ اور بعض بڑھکتی ہوئی آگ کی طرح شعلہ زن ہوتی ہیں
ایک شاعر بری عورت سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے:۔
فکیف نظن بالا بناء خیرا اذا نشوٴا بحضن الجاھلات
وھل یر جی لا طفا ل کمال اذاارتضعواثدی الناقصات
لاخلاق الصبی بک انعکاس کماانعکس الخیال علی المراة
ترجمہ:…ہم بچوں کے متعلق بھلائی کا گمان کیسے قائم کرسکتے ہیں۔۔۔ جب کہ اُن کی پرورش ہی جاہل عورتوں کی گود میں ہوئی ہو۔۔۔ جب کہ وہ کم عقل عورتوں کا دودھ پی کر جوان ہوئے ہوں ۔۔۔ تیرے اخلاق کا پر تو بچوں میں بھی نظر آتا ہے۔۔۔ جیسا کہ شیشے میں عکس واضح دکھا ئی دیتا ہے۔
جمیل زھادی کا شعر ہے:
لیس یرقی الابناء فی امة مالم تکن قد ترقت الامھات
ترجمہ :…اس قوم کے بچے ترقی نہیں کرسکتے جن کی مائیں مہذب اور ترقی پسند نہ ہوں ۔
بُری عورت کے متعلق کسی نے کہا ہے:
واول خبث الماء خبث ترابہ واول خبث القوم خبث المنا کح
ترجمہ : …مٹی کی ناپاکی کی وجہ سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔۔۔ اسی طرح منکوحہ کی ناپاکی ایک نسل کو ناپاک کردیتی ہے۔
اور شاعر کہتا ہے:
من کان فی حبر الافاعی ناشئا غلبت علیہ طبائع الثعبان
ترجمہ … جوسانپ کی بل میں پرورش پائے ۔۔۔ اس پر سانپوں کا مزاج غالب آجاتا ہے۔
شوقی کہتے ہیں :
واذا لنساء نشأن فی امیة رصنع الرجال جھالةً وخمولًا
ترجمہ : …جب عورتیں خودان پڑھ ہونے کی حالت میں بڑی ہوں ۔۔۔ تو وہ مردوں کو بھی جہالت وسستی اور غفلت و کاہلی کی خوراک دے دیتی ہیں ۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
جمال الوجہ مع قبح النفوس کقندیل علی قبر المجوس
ترجمہ :…بداخلاق ہونے کے ساتھ ظاہری خوبصورتی ۔۔۔ مجوس کی قبر پر دیا جلانے کی مثل ہے۔
منقول ہے: کہ ایک کاشتکاراپنی بیو ی سے کہنے لگا جب میں مرجاوٴں تو تو پڑوسی سے شادی کر لینا عورت نے سوال کیا وہ کیوں؟شوہر نے جواب دیا کہ ایک دفعہ اس نے مجھے گائے بیچی تھی اور مجھے دھوکہ دیا تھا ، اب میں تیرے ذریعے اسے دھوکہ دینا چاہتا ہوں۔
ایک اعرابی سے کہا گیا ، بتاوٴ کونسی عورت سب سے بُری ہے اس نے کہا سب سے برُی عورت وہ ہے جو لاغراندام اور کمزور جسم والی ہو، جسے بکثرت حیض آتا ہو،جو اکثر بیمار رہتی ہو، جس کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہو۔ جو بلاوجہ رونے بیٹھ جائے اور بغیر کسی سبب کے ہنستی رہے، جس کے جسم کے پٹھے اور اعضاء انتہائی سخت ہوں ، رگیں پھولی ہوئی ہوں ، جو کر خت آواز کے ساتھ دھمکی دے کر بات کرے ، نیکیوں کو دفن کرے اور برائیوں کو پھیلائے ، اپنے شوہر کے خلاف حوادثِ زمانہ کی مددگار ہو، پریشانیوں میں شوہر کا بالکل ساتھ نہ دے ، جب شوہر گھر میں داخل ہو تو وہ روئے اور شوہر کی پر یشانی دیکھ کر خوش ہو جائے ، جو ظالم بن کر روئے اور بن دیکھے گواہی دیتی پھرے ، جس نے اپنی زبان کو جھوٹ سے ناپاک بنا رکھا ہو اور فسق و فجور کے ساتھ اس کے آنسو ٹپکیں ، جسے خدا نے تباہی وبربادی کے بڑے کاموں کی آزمائش میں ڈال دیا ہو، اس قسم کی عورت انتہائی برُی ہے۔


عروہ بن زبیر کہتے ہیں :
خدافلاں عورت پر لعنت کرے جس نے بنی فلاں کو سفید رنگ اور لمبے قد پایا لیکن انہیں سیاہ رنگ اور پستہ قد بنادیا۔
کسی نے کہا ہے:
عقلمند عورت اپنا گھر بناتی ہے اور بیوقوف عورت اسے ڈھاتی ہے۔
ایک شخص نے اپنی بداخلاق بیوی کے متعلق مذکورہ اشعار کہے ہیں:
لقد کنت محتاجا الی موت زوجتی ولکن قرین السوء باق معمر
فیالیتھا صارت الیٰ القبر عاجلا وعذبھا فیہ نکیر ومنکر
ترجمہ:… یقینا میں اپنی بیوی کی موت کا ضرورت مند ہوں۔۔۔ لیکن برُے ساتھی کی زندگی دراز ہوتی ہے۔۔۔ اے کاش کہ ! جلد قبر میں چلی جائے۔۔۔ اور قبر میں اسے منکر و نکیر سزادیں 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

جنتی خاوند اور بیوی

Posted: فروری 24, 2012 by EtoPk in مضامین


خاوند کی حددرجہ خدمت گزاری اور فرمانبرداری
خواتین کی اصلاح اور تربیت کے لیے میں یہاں ایک بہترین اور سبق آموز واقعہ تحریر کررہاہوں ۔ میرے علم کے مطابق اس دور میں کم ہی کوئی عورت ایسی ہو گی جس میں اپنے خاوند کی اطاعت وخدمت کا جذبہ اس قدروافر پایا جاتا ہو جس طرح اس واقعہ میں مذکور عورت میں پایا جاتا ہے ۔اور یہ واقعہ میں اسی لیے تحریر کر رہا ہوں کہ خواتین اس سے سبق اور نصیحت حاصل کریں:
ایک دن قاضی شریح رحمة اللہ علیہ کی جب امام شعبی رحمةاللہ علیہ سے ملا قات ہوئی تو امام شعبی رحمة اللہ علیہ نے ان سے گھر یلو حالات کے بارے میں سوال کیا ۔ قاضی شریح نے انہیں بتایا کہ شادی ہوئے بیس سال گزر چکے ہیں لیکن میں نے اپنی بیوی سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوتے نہیں دیکھی جس پر میں اسے غصے ہوا ہو ں ۔ امام شعبی رحمة اللہ علیہ نے کہا یہ کیسے ؟
قاضی شریح نے کہا کہ جب میری شادی ہوئی اور پہلی رات میں بیوی کے پاس گیا تو میں نے اسے نہایت حسین و جمیل پایا۔ میں نے دل میں کہا کہ مجھے وضو کر کے دو نفل شکرانے کے پڑھنے چاہییں ۔ چنانچہ جب میں نے دوگانے سے سلام پھیرا تو دیکھا کہ میری بیوی بھی میری اقتداء میں نماز پڑھ کر سلام پھیر رہی ہے۔ جب میرا گھر مہمانوں اور دوستوں سے خالی ہوا تو میں اپنی بیو ی کی طرف گیا اور جب خلوت میں میں نے اپناہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ کہنے لگی :
ذرا ٹھہر جایئے پھر اس نے خطبہ پڑھا اور بات شروع کی کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنے وطن سے دور ہوں ۔ مجھے آپ کے اخلاق اور آپ کی عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ لہٰذا آپ مجھے وہ تمام کام بتادیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں تاکہ میں وہی کروں اور جو کا م آپ ناپسند کرتے ہیں ، وہ بھی بتادیں تاکہ میں وہ نہ کروں ۔پھر اس نے کہا کہ آپ کی قوم میں کئی عورتیں تھیں جن سے آپ شادی کر سکتے تھے اور میری قوم میں بھی کئی مرد میرے ہم پلہ تھے جن سے میں شادی کرسکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ جب کو ئی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔ اب آپ میرے مالک ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ کر یں۔ اگر میں آپ کو پسند ہوں تو اچھے طریقے سے مجھے رکھیے ورنہ مجھے اچھے طریقے سے رخصت کر دیجیے ۔ اسی کے ساتھ میں اپنی بات ختم کر تی ہوں اور اپنے اللہ سے اپنے اور آپ کے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔
قاضی شریح رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے شعبی (رحمة اللہ علیہ) !اللہ کی قسم اس نے مجھے اس مقام پر خطبہ پڑھنے پر مجبور کر دیا چنانچہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثنا کا خطبہ پڑھا اور پھر میں نے کہا کہ ”اے میری بیوی!بلاشبہ تو نے بہت اچھی بات کہی ہے، اگر تو اس پر ثابت قدم رہیگی تو یقیناً تو خوش نصیب رہے گی اور اگر تو ایسا نہیں کرے گی تو یہ تیرا خطبہ پڑھنا تیرے خلاف دلیل بن جائے گا۔ سنو، فلاں فلاں کا م پسند ہیں اور فلاں فلاں کام ناپسند ہیں ۔اگر تو میری کوئی خوبی دیکھے تو اس کو بیان کر دے اور اگر کوئی عیب دیکھے تو اس پر پردہ ڈال دے۔
پھر اس عورت نے کہا کہ آپ کس حد تک پسند کرتے ہیں کہ میرے گھر والے آپ کے ہاں آیا کریں؟ تو میں نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے سسرال والے مجھے اکتاہٹ میں ڈالیں ۔
پھر اس نے کہا کہ آپ اپنے پڑوسیوں میں سے کس کے بارے میں پسند کر تے ہیں کہ وہ آپ کے گھر آئیں تاکہ میں انہیں آنے کی اجازت دوں اور کن کا آپ کے گھر آنا آپ کو ناپسند ہے تاکہ میں بھی ان سے احتیاط کروں ۔ تو میں نے اسے بتایا کہ فلاں قبیلے کے لوگ نیک ہیں اور فلاں قبیلے کے لوگ اچھے نہیں ہیں۔
قاضی شر یح رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس عورت کے ساتھ وہ پہلی رات بہت اچھی گزاری ۔ اس طرح اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے مجھے ایک سال گزر گیا ، اور اس دور ان میں میں نے اس میں کوئی ناپسندیدہ بات نہ دیکھی ۔ شادی سے ٹھیک ایک سال بعد کی بات ہے کہ ایک روز میں اپنے عدالتی کاموں سے فارغ ہو کر جب گھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھی عورت گھر میں ہے۔ میں نے پوچھا :یہ کون ہے؟ میری بیوی نے بتایا کہ یہ آپ کی ساس ہے ۔ میری ساس نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:
اے شریح! تونے اپنی بیوی کو کیساپایا؟
میں نے کہا کہ میں نے اسے بہت اچھاپایاہے۔ تو اس نے کہا:
شریح! دوحالتوں کے علاوہ عورت کی حالت کبھی نہیں بگڑتی ،یعنی :
(
۱)…ایک یہ کہ جب عورت بچے کی ماں بن جائے۔
(
۲)…دوسری یہ کہ اس کا خاوند اس کے حد سے بڑھے ہو ئے نازونخرے دیکھتارہے اور اسے کچھ نہ کہے ۔اللہ کی قسم !ناز و نخرہ والی عورت جیسا بڑاشر کبھی بھی کسی نے اپنے گھر جمع نہیں کیا ۔ لہٰذا میری بیٹی کو جتنا چاہے موٴدب و مہذب بنا، تجھے کو ئی روک ٹوک نہیں۔
پھر قاضی شریح رحمة اللہ علیہ نے کہا:”یہ عورت میرے ساتھ بیس سال سے رہ رہی ہے میں نے کبھی بھی اس میں قابل اعتراض کو ئی بات نہیں دیکھی ۔ ہاں اتنی زندگی میں صرف ایک دفعہ میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر بھی یہ بے قصور تھی اور غلطی میری تھی۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ خاوند قاضی شریح جیسا ہونا چاہیے اور بیوی بھی ان کی بیوی جیسی ہونی چاہیے اور ساس بھی قاضی شریح کی ساس جیسی ہونی چاہیے۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بُری عورت کی خصلتیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تبارک وتعالیٰ اس عورت کی طرف نظرِ کرم نہیں فرماتے جو ضرورت مند ہونے کے باوجوداپنے شوہر کا شکرادا نہیں کرتی ۔(نسائی)
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
دوقسم کے لوگوں کی نماز ان کے سروں سے آگے نہیں بڑھتی ایک وہ غلام جواپنے مالکوں کے پاس سے بھاگ جائے اور دوسری وہ عورت جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے ، یہاں تک کہ وہ اپنی نافرمانی سے توبہ کرلے۔ (طبر انی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا عورت کی نحوست کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عورت بانجھ اور بداخلاق ہو۔
دلچسپی کے لیے ہم یہاں اہل عرب سے منقول برُی عورت کی بعض صفات ذکر کرتے ہیں ۔ حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! تین چیزیں مصیبت ہیں ایک وہ پڑوسی جو تمہاری اچھائی دیکھ کر چھپائے اور برُائی دیکھ کر پھیلائے اور دوسری وہ عورت جو تمہارے گھر میں آنے کے بعد زبان دراز ہوجائے ، اور تیسرا وہ بادشاہ جس کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو تو تمہاری تعریف نہ کرے لیکن اگر اسے برُا بھلاکہہ دوتو تمہیں مروادے ۔
ایک اعرابی نے کسی عورت سے شادی کی ۔عورت نے اسے سخت تکلیفیں پہنچائیں اعرابی نے ایک گدھا او ر جبہ دے کر اس سے جان چھڑائی ۔ ایک دن اعرابی کا چچا زاد بھائی اسے ملنے آیا اور اس نے عورت کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔
خطبت الی الشیطان للحین بنتہ فادخلھا من شقوتی فی حبالیا
فا نقذنی منھا حماری و جبتی جزی اللہ خیرا جبتی و حماریا
ترجمہ :میں نے کچھ وقت کے لیے شیطان سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔۔۔۔ اس نے میری بدبختی کے لیے اسے میرے عقد میں دے دیا ۔۔۔۔ میرے گدھے اور جبے نے میری جان اس سے چھڑائی ۔۔۔۔ خدا میرے گدھے اور جبے کو جزائے خیر عطافرمائے۔
روح بن زنباع نے نعمان بن بشیر کی بیٹی ام جعفر سے شادی کی اور یہ شادی عبد الملک بن مروان نے یہ کہہ کرکہ یہ خوبصورت لڑکی ہے زبان کی تھوڑی سی تیز ہے تم صبر کرنا ، روح ایک عرصہ تک اس کے ساتھ رہا، آخرکا ر نفرت شدت اختیار کرگئی تو اس نے اشعار کہے جن سے ایک شعر یہ تھا۔
ریح الکرائم معروف لھاارج وریحھاریح کلب مسہ مطر
ترجمہ : شریف و معزز عورتوں کی خوشبوں کی مہک معروف ہے۔۔۔ لیکن اس عورت سے بارش میں بھیگے کتے جیسی بو آتی ہے۔
ایک اعرابی کہتا ہے:
من منزلی قد اخر جتنی زوجتی تھر فی وجھی ھریرالکلب
ترجمہ: میری بیوی نے مجھے میرے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔ وہ میرے سامنے کتیا کی طرح بھونکتی ہے۔ 
اہل عرب کہتے ہیں:
شادی کرنے والے کو مذکورہ چھ قسم کی عورتوں سے دور رہنا چاہیے ۔
ہر وقت شکوہ کر نے والی ، پریشان رہنے والی، احسان جتلانے والی، لالچی ، شوخ مزاج اور منہ پھٹ عورت سے بچنا چاہیے۔
انانة: وہ عورت ہے جوہر وقت بلاوجہ شکوہ شکایت کرتی رہے ۔
حّنانة: وہ عورت ہے جو کسی دوسرے کی زوجیت میں جانے کا خیا ل رکھتی ہو یا اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہ ہو بلکہ اپنے شوہر اور دوسرے مردوں کے درمیان موازنہ کرتی رہے۔
منانة: وہ عورت ہے جو شوہر پر احسان جتلاتے ہوئے اسے یوں کہے کہ میں نے فلاں فلاں کام تیری وجہ سے کیا تھا۔ 

حدَاقة:وہ عورت ہے جوہر چیز کو دیکھ کرآنکھیں کھول لے اور اسے خرید نے پر شوہر کو مجبورکرے ۔ 

برّاقة: وہ عورت ہے جو چہرے کے بناوٴ ، سنگھار اور زیب و زینت میں سارا وقت گزاردے۔ 
بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ چار قسم کی عورتوں سے شادی نہیں کرنی چاہیے
خلع کا مطالبہ کرنے والی، دوسروں پر فخر کرنے والی ، گناہگار اور نافرمان عورت سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ 
مختلعہ :وہ عورت ہے جو بلاوجہ خلع کا مطالبہ کرتی ہے۔ 

مباریہ :وہ عورت ہے جو دوسروں کے سامنے شیخی بکھارے اور فخر کرے۔ 

عاھرہ:وہ بدکار عورت جس نے خفیہ دوست بنارکھے ہوں۔ 
ناشز: جوکام کرنے اور بولنے میں شوہر سے بڑھنے کی کوشش کرے۔ 
کہا جاتا ہے دینا میں پانچ طرح کے مزاج والی عورتیں ہیں۔ 

عصبیہ :جو ایک مسکراہٹ پر خوش ہو جائے اور تھوڑی سی بات پر روٹھ جائے ۔ 

خیالیہ :جو اپنی خیالی دینا کے افق میں تیرتی رہے اور خیا لات ہی میں خوش ہو جایا کرے لیکن مسائل کے سہنے اور برداشت کرنے سے گھبرائے۔ 
عنیدہ :جو کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ضد پر عمل کرے اورمارکھا ئے ۔ 
ساذجہ :جس کا ذہن اوہام کا گھر ہو اور اپنے جی ہی میں خواہشات کو سوچ کر خوش ہوجایا کرے ، ہر کہنے والی کی بات کو سچا سمجھے اور لوگوں کی باتوں میں آکر دھوکہ میں مبتلا ہوجایا کرے۔ 
ذکیہ : جو پھونک پھو نک کر قدم رکھے اور اس کا دل ہر وقت کسی نا گہانی خوف میں مبتلا رہے اور وہ جذبات محبت اور خوف وڈر کے درمیان راہ اطمینان کی تلاش میں سرگرداں رہے، ۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

لعنت کانقصان

Posted: فروری 21, 2012 by EtoPk in مضامین


بیٹی کو باپ کی چند قیمتی نصیحتیں
حضرت اسماء بن خارجہ رحمةاللہ علیہ نے اپنی بیٹی کی شادی کی ، شادی کے بعد اپنی بیٹی کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے میری بیٹی !عورتیں اصلاح وفہمائش کی حق دار ہو تی ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ میں کچھ باتیں اصلاح و تہذیب کی تم سے بھی بیان کروں:تم اپنے شوہر کی باندی بن جاوٴ وہ تمہاراغلام بن جائے گا، اتنا قریب بھی نہ جاوٴ کہ وہ تجھ سے اکتا جائے یا تم اس سے اکتا جاوٴ اور اتنا دور بھی نہ ہونا کہ تم اس کے لیے بارِ گراں بن جاوٴ بس ایسی بن جاوٴ جیسے میں نے تمہاری والدہ کو ان اشعار میں نصیحت کی تھی:
خذ ا لعفو منی تستد یمی مو د تی ولاتنطقی فی سورتی حین أغضب
ولا تنقر ینی نقر ة الدف مر ة فا نک لا تدرین کیف المغیب
فا نی رأیت الحب فی القلب والأ ذی اذا اجمتعالم یلبث الحب یذھب
میری غلطیوں سے درگزر کر تے رہنا ، اس طر ح محبت قائم رہے گی اور میرے غصہ کے وقت خاموش رہنا ، مجھے اس طرح نہ بجا نا جس طرح تم ڈھول بجا تی ہو ، تمہیں کیا معلوم کہ اِس میں سے کیسی آوز نکلتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب ایک دِل محبت اور دوسرے میں تکلیف جمع ہو جائے تو پھر محبت با قی نہیں رہا کرتی بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مرد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی حد تک پہنچ جا تا ہے لیکن عورت اگر صبر کرے اور اپنی طرف سے بغض و نفرت کا اظہا ر نہ کرے تو بہت جلد خاوند شرمندہ ہو جا تا ہے اور اسے اس بات کا احسا س ہو جا تا ہے کہ وہ کس نقصا ن اور مصیبت میں مبتلا ہو نے والا تھا ۔

نیک بیو ی کی ایک نما یا ں اور قابل قدر خوبی
ایک اور واقعہ سنئے ! اور اس میں غور کیجئے !
حضرت عبداللہ بن العجلان رحمة اللہ علیہ نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دیدی ، بیوی لڑائی جھگڑے میں شریک نہ ہو ئی ، طلاق ملنے کے بعد خاموشی کے ساتھ جا نے لگی تو حضرت عبداللہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا، ان کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی ، اپنے کیے پر نا دم اور غمگین ہو ئے اور چند اشعارکہے :
فا ر قت ہندا طا ئعا قند مت عند فر اقھا
فا لعین تذری دمعة کا لد رمن آما قھا
ہندہ ، جو میری بڑی فرما ں بردار تھی ، مجھ سے جدا ہو گئی ، مجھے اس کے فراق پر بڑی ندامت ہو ئی میری آنکھیں مو تیوں کی طرح آنسو بہا تی ہیں
بہت سے شوہر ایسے بھی ہیں جو جذبا ت اور طیش میں آکر یا کسی نئی خواہش کی خاطر اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ، عہد شکنی کر تے ہیں اور وعدے کا پا س نہیں کر تے ، یہ بات اسلا م کے بلکہ مر وت کے بھی خلاف ہے ۔ گھر کے اندر جب بھی کوئی مسئلہ یا نزاع پیدا ہو عورت کو چا ہیے کہ حکمت و دانائی سے اس کو نمٹا ئے ، تاکہ اس کا گھر آباد رہے ،بر باد نہ ہو ۔

شر یعت کا حکم ! بیوی شوہر کی فرما ں بردار رہے
کچھ حلقوں میں یہ غلط خیال عام ہے کہ بیوی کو شو ہر کی ایسی خواہشات کی تکمیل نہیں کرنی چا ہیے جس کے لیے شر یعت نے اس کو واضح ہدایا ت نہیں دی ہیں یا شر یعت نے وہ اس پر لا زم نہیں کیں ہیں ۔ بہکے ہو ئے اور گمراہ پڑھے لکھے لوگ جوعورتوں کی آزادی اور ان کے لئے انصاف کے دعویدار ہیں ، ان خیا لا ت کو عام کر نے میں مصروف ہیں کہ کھا نا پکا نا اور گھر کے دیگر کا م کر نا شریعت کی طرف سے عورت پر عائد اور لازم فرائض میں نہیں ہیں ۔ عورت کے لئے قطعاً ضروری نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لئے وہ شوہر کا حکم مانے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ شوہر کو صاف انکار کر سکتی ہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کی نظر میں اس کو انکار ہی کردینا چا ہیے ۔ یہ تو خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کے لیے خادمہ کا بندوبست کرے۔ بیوی گھر کی مالکہ ہی نہیں بلکہ ملکہ ہے اور وہ اس شان سے رہے جو ملکہ کی شایان شان ہے ۔ شوہر کی ایسی خواہشات اور احکام کو خا طر میں نہ لائے جو اس کو اس عالی مر تبہ سے گر اتے ہیں بر تن ما نجنے سے اس کے ہا تھوں میں خراشیں ، پیا ز کا ٹنے سے آنکھوں میں پا نی ، روٹی پکانے سے ہا تھوں میں جلن … بھلا وہ کو ئی لو نڈی ہے یا با ندی جو ایسے کام کر ے ۔
جو لو گ عورتوں کو بہکا تے ہیں ، انتہا ئی کم ظرف کو تا ہ بین اور نا عا قبت اندیش ہیں ۔ ان کی سوچ بچگانہ اور نا معقول ہے کہ کامیاب اور خو شیوں سے بھر پو ر شادی کی عمارت اپنے حقوق کے حصول اور صرف ضروری فرائض کی بجا آوری پر استوار ہے ۔ یہ سچ ہے کہ شر یعت نے بعض گھر یلو کا موں کی بجا آوری بیو ی پرلا زم نہیں کی ہے۔مگر وہ یہ حقیقت کیوں بھول جا تی ہے کہ شو ہر بھی اس کی خوشی اور آرام کی خا طر بعض ایسے کام کر تا ہے جو اس پر فرض نہیں ہیں۔ وہ بیوی کو آرام پہنچاتا ہے ۔ عیش و عشرت کا سامان مہیا کر تا ہے ایسا وہ کسی فرض کے تحت نہیں کرتا بلکہ خالصتاً بیوی کے سا تھ محبت والفت کی وجہ سے کرتا ہے ۔
مسلما ن بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول پر بے جا زور نہ دے اور گھر کے کام کاج کر نے سے اس وجہ سے دریغ نہ کرے کہ یہ کام اس کے فرائض میں شامل نہیں ہیں ۔
شو ہر کے جا ئز حکم کی تعمیل کر نا عورت کے لئے لازم ہے ، خواہ شر یعت نے ایسے کا موں کی بجا آ وری اس پر فرض نہ بھی کی ہو ۔ جب شوہر اس کو یہ کا م کرنے کاحکم دیتا ہے تو وہ خود بخود اس پر لازم ہو جاتے ہیں ،کیونکہ اسلام نے بیوی کو حکم دیا ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کا حکم مانے ۔ اسے خاوند کے تمام جا ئز احکام کو ما ننا ہو گا اگر چہ ابتدا میں وہ احکام شریعت نے اس پر فرض نہ بھی کئے ہوں ۔
یہ با ت ہما رے علم میں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت نفل عبادت بھی نہیں کر سکتی ۔ عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ وہ شو ہر کو اپنی ذات اور اپنی دولت سے خوش رکھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تا کید فرما ئی ہے کہ بیوی خا وند کا ہر جا ئز حکم مانے ، اگر چہ ان میں سے بعض شر یعت نے شروع میں اس پر فر ض نہ بھی کئے ہو ں ۔ بیوی کو اپنے گھر میں بیٹھ کر یا دوسری جگہ جہاں پر دے کے قوانین کی خلا ف ورزی نہ ہو تی ہے ،تجا رت کر نے کی اجازت ہے ۔ اگر اس کا شو ہر منع کر دے تو یہ اجازت ختم ہو جاتی ہے۔
بیوی کو اجا ز ت ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب کو کسی بھی و قت اور کتنی ہی بار ملے بشر طیکہ شر عی حجاب کی پا سداری رہے ۔ لیکن اگر اس کا شو ہر مخالفت کر تا ہے تو شر یعت کا حکم ہے کہ وہ شو ہر کا حکم مانے ۔
اما م غزالی رحمة اللہ علیہ کی کتاب احیاء العلوم با ب نکاح میں مذکو ر ہے کہ ایک شخص سفر پر گیا ۔ روانگی سے قبل اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ وہ خانہ سے نہ اترے ۔ نچلے حصے میں اس عورت کا باپ رہتا تھا ۔ اتفاقاً وہ بیمار ہو ا تو اس عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا کہ وہ نیچے اتر کر اپنے والد کی عیادت کر سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی اطاعت کر ۔ اس کا باپ فوت ہو گیا ۔ اس نے پھر اترنے کی اجازت چا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو کہلا بھیجاکہ تو نے جو اپنے شوہر کی اطاعت کی اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے تیرے باپ کی مغفرت فرمادی۔
(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

قیمتی نصیحتیں

Posted: فروری 19, 2012 by EtoPk in مضامین


مہرکم ہو 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بیویاں وہ ہیں جن کی صورتیں اچھی ہوں اور مہر تھوڑے ہوں ۔ (ابن حبان بروایت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)”مہر کو حد سے زیادہ بڑھانے سے منع فرمایا “(اصحاب سنن اربعہ موقوفا)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ مہر کو زیادہ مقرر کرنے سے منع کرتے اور فرماتے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نکاح چار سودرہم سے زیادہ مہر پر کیا اور نہ اپنی بیٹیوں کا نکاح اس مقدار سے زائد پرکیا ۔ اگر مہر کے زیادہ کر دینے میں کچھ بزرگی ہو تی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ضرور مبادرت فرماتے۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا مبارک ہونا یہ ہے کہ جلد نکاح ہو ، جلد اولاد ہو اور مہر کم ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں میں زیادہ برکت والی وہ ہے جس کا مہر سب سے کم ہو۔ (احمد بیہقی )

جس طرح عورت کی جانب سے مہر میں زیادتی کا ہونا مکروہ ہے اسی طرح مرد کی جانب سے عورت کے مال کا حال دریافت کرنا مکروہ ہے۔ مال کی طمع سے عورت کے ساتھ نکاح نہ کرنا چاہیے۔ حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی نکاح کا ارادہ کرے اور یہ پوچھے کہ عورت کے پاس کیا کیا چیز ہے تو جان لو کہ وہ چور ہے۔اگرمرد سسرال میں کچھ تحفے بھیجے تو یہ نیت نہ کرے کہ ان کے ہاں سے اس کے بدلے میں مجھے زیادہ ملے گا اور اسی طرح بیٹی والے شوہر کو کچھ بھیجیں وہ بھی یہ نیت نہ کریں کیونکہ زیادہ طلبی کی نیت خراب ہوتی ہے۔ باقی رہا ہدیہ تو وہ بھیجنا مستحب ہے اور دوستی کا سبب بھی ۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ 

(تھادواوتحابوا) (بخاری اور کتاب لمغرورو بیہقی روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ )

آپس میں ہدیہ بھیجواور دوستی پیدا کرو“۔ 

اور زیادہ طلبی اللہ تعالیٰ کے اس قول میں داخل ہے (ولا تمنن تستکثر)یعنی اس نیت سے نہ دو کہ بہت سالو ۔ نکاح میں اس طرح کی صورت مکروہ اور بدعت ہے ۔ تجارت اور قمار کی طرح ہے جو نکاح کے مقصد کے منافی ہے۔

عورت بانجھ نہ ہو 

نکاح ایسی عورت سے کرنا چاہیے جس سے اولاد کی توقع ہو۔ اگر اس کا بانجھ ہونا معلوم ہوجائے تو اس سے نکاح نہ کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور کی پرانی چٹائی جو گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوئی ہو اس عورت سے بہتر ہے جو بچے پیدا نہیں کر سکتی ۔ اگر دوشیزہ ہو اور یہ نہ معلوم ہو کہ اولاد ہوگی یا نہیں تو تندرست اور جوان ہونے کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس میں یہ دونوں باتیں ہوں گی تو غالباً اس سے اولاد ہو گی ۔ 
کنواری ہو
اگر نکاح دوشیزہ سے ہو تو اس سے لامحالہ محبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو عورت پہلے کسی اور کے نکاح میں رہ چکی ہو وہ عموماً اسی پہلے خاوند کے خیال میں کھوئی رہتی ہے اور دل سے اس کی آنکھیں اسی کی متلاشی رہتی ہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی ہی عورت سے نکاح کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ کسی کنواری سے عقد باندھ لیا کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے ۔
دوشیزہ کے ولی کا فرض
لڑکی کے سرپرست پر واجب ہے کہ جب اس کا رشتہ طے کرنے لگے تو ہونے والے شوہر کی عادات کو دیکھ بھال لے اور اپنی لڑکی پر شفقت کرے ۔ اس کا نکاح ایسے شخص سے نہ کرے جس میں پیدائشی کو ئی نقص ہو یااس کی عادات پسند یدہ نہ ہوں یا دین میں کمزور ہو یا عورت کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو یا حسب ونسب عورت کے ہم پلہ نہ ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرنا عورت کو کنیز کردینا ہے ۔ دیکھ لیا کرو کہ اپنی لڑکی کو کہاں دے رہے ہو۔ عورت کے حق میں احتیاط بہت ضروری ہے کیونکہ نکاح کے بعد وہ ایسی قید میں پڑتی ہے کہ اس سے چھٹکا رہ بہت مشکل بخلاف مرد کے کہ وہ ہر حال میں طلاق دینے پر قادر ہے۔ جب کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح ظالم یا فاسق یا بدعتی یا شراب خور سے کرے گا تو وہ دین میں بٹہ لگائے گا اور اللہ تعالیٰ کے غصہ کا مستحق ہوگا کہ اس نے حق قرابت کو منقطع کیا اور اس کے لیے شوہر تجویز کیا ۔
ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ چند لوگوں نے میری لڑکی کے لیے پیام نسب دیا ہے ۔میں اس کا نکاح کس سے کروں۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص ان میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اس سے شادی کرنا اس لیے کہ اگر وہ تیری لڑکی کو چاہے گا تو اس کی خاطر ومدارات کرے گا اور اگر ناپسند کرے گا تو اس پر ظلم نہ کرے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی لڑکی کو فاسق سے بیاہ دیا اس نے اس کی قرابت قطع کردی ۔ 
Enter your email address:
Delivered by FeedBurner

عمل کرنے والی بیوی

Posted: فروری 17, 2012 by EtoPk in مضامین


اے میری مسلمان بہن !
ہر شوہر کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گھر خوشیوں کا مر کز ہو اور اس کے خاندان کے افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں ، لیکن جو بات اس سعادت وفرحت کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے اور ان خوشیوں کو احزان میں تبدیل کر دیتی ہے، وہ بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ ناروا سلوک ہے، جو اپنے شوہر کے ہم پلہ اور ہم رتبہ بننا چاہتی ہے، ہر وقت اپنی ہی رائے کو اہمیت دیتی ہے اور اپنی ہی خواہش کو مدِ نظر رکھتی ہے، ہمیشہ یہ خواہش ہو تی ہے کہ اس کا خاوند اس کی ہر خواہش پر لبیک کہے، ورنہ وہ ناراض اور غمگین ہو جاتی ہے، وہ عام طور پر یہ چاہتی ہے کہ اسکا شوہر اس بات کو نہ بھولے کہ اسے چند ایسی چیزوں کی عادت ہے جو بے تو جہی یا فراموش کر دینے کے قابل نہیں ہیں۔
ایسی بیوی جو اس طرح کی سوچ رکھتی ہو ، اپنا گھر تباہ کر دیتی ہے، آباد گھر کو ویرانے میں تبدیل کر دیتی ہے، محبت کو عداوت میں اور سکون ومودت کو بغض و نفرت اور شوروہنگامہ میں بدل دیتی ہے۔ پھر اگر وہ صاحبِ اولادہو تو وہ اولاد بھی آوارہ ہو جاتی ہے۔
نیک بیوی وہ ہے جو اس موقع اور محل کو بھانپ لیتی ہے جہاں سے اختلاف کا معاملہ اس کے گھر میں پید ا ہوا ہے، پس وہ فوراً اختلاف اس بات کی طرف متوجہ ہو تی ہے جس کی وجہ سے اس کا خاوند ناراض ہوا ہو تا ہے ، پھر اس کی تلافی کرتی ہے ۔ شاید اس شادی خانہ آبادی کو بربادی میں بدلنے میں عورت کے شعور کو بڑا دخل ہوتا ہے، وہ خود کو اپنے شوہر کے ہم پلہ خیال کرتی ہے۔

شادی کا اصل مقصد اسلام کی نظرمیں
میری مسلمان بہن !
یہ شادی ایک عظیم حکمت اور اعلیٰ مقصد پر مبنی ہے اور یہ ان عبادات میں سے ایک عبادت ہے جن کے ذریعہ مسلمان مر د اور عورت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔
بناء بریں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شادی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو اس نے مرد اور عورت دونوں کو عطافرمائی ہے ۔اسلام کی نظر میں شادی کا اصل مقصد جانبین میں مودّت والفت اور جذبہٴ ایثار پیدا کرنا ہے۔ لیجئے ! اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ذی شان کو توجہ سے سنیئے اور پڑھیے:
﴿ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازوجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ط ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون﴾(الروم :۲۱)
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس کی بی بیاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کردی اس میں ان لوگو ں کے لیے نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں۔
نیز تاکہ دونوں کی محبت وعشرت میں دوام و استمرارر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زوجین میں سے ہر ایک کے ذمہ دوسرے کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ولھن مثل الذی علیھن با لمعروف وللرجال علیھن درجة(البقرة :۲۲۸)
اور عورتوں کے لیے بھی حقوق ہیں جو کہ مثل ان ہی حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں قاعدہ (شرعی) کے مطابق۔
پس اے میری مسلمان بہن!
اس سے معلوم ہوا کہ تمہارے خاوند پر بہت سے حقوق ہیں ، جن کی ادائیگی اس پر بہت ضروری ہے، بلکہ عدم ادائیگی کی صورت میں وہ عند اللہ عاصی اور گنہگار شمار ہوگا ۔ اسی طرح بیوی پر بھی اس کے خاوند کے کچھ حقوق ہیں اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیوی اپنے رب کی جنت میں اسی صورت میں داخل ہو سکتی ہے کہ جب وہ ان حقوق کو اداکرے اور دونوں جہاں کی سعادتیں اور خوشیاں بھی اسی صورت میں حاصل کر سکتی ہے جب اپنے خاوند کے حقوق کی پاس داری کرے ۔
شوہر کا یہ حق کہ عورت اس کی فرماں بردار ہو، اس بات کو وہ بیوی کی طرف سے دیکھنا چاہتا ہے ، لہٰذا عورت کو چاہیے کہ اس کا شوہر اس کی زباں سے اچھی اورعمدہ گفتگو ہی سماعت کرے اور اس کو بیوی کی طرف سے اپنی خواہش اور ضرورت کی موافقت ہی نظر آئے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی بشرکے لائق نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے ، اگر بشر کو سجدہ کرے ، اگر کسی بشر کے لائق ہوتا (بالفرض) کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم کر دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اس لیے کہ خاوند کے اس پر بہت حقوق ہیں ۔مسند احمد : ۳/۱۵۸۔ سنن النسائی :۲۷۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی:
میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے “اس لیے کہ شوہر کے حقوق اس کی بیوی پر بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کی ادائیگی سے عاجزہے۔
اس حدیث میں دراصل شوہر کی اطاعت کے وجوب کو ازراہِ مبالغہ بیان کیا گیا ہے ورنہ غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعتِ زوج کوان اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے جن پر عورت کا جنت میں داخل ہونا موقوف ہے۔
خاوند کی فرماں برداری ، اخلاق حسنہ میں سے ہے جو زوجہء صالحہ کی زندگی کی بنیاد ہے اور اسی پر اس کی دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح کا دارومدار ہے ۔
جب ایک مسلمان بیوی اپنے شوہر کی فرماں بردار ہوگی ، اس کی مرضیات پر عمل پیرا ہو گی اور ایذ ارسانی سے اجتناب کرے گی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس سے راضی ہوں گے۔
اے میری مسلمان بہن !
جس قدر تم اپنے شوہر کی اطاعت کروگی اسی قدر تم اپنی زوجیت والی زندگی میں کامیاب اور کامران قرار پاوٴگی اور جس قدر تمہارا خاوند تمہاری حق شناسی اور حق کی ادائیگی کو مشعور اور محسوس کرے گا اسی قدر تمہاری شان اور محبت اس کے دِ ل میں بڑھے گی ۔

خاوند کا مقام و مرتبہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موٴمن عورتوں کو یہ بات سکھائی ہے کہ جو راستہ جنت کی طرف جاتا ہے وہ خدااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد خاوند کے اطاعت سے حاصل ہو تا ہے۔ آیئے! درجِ ذیل حدیثِ مبارک میں غور کریں :
حضرت حصین بن محصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”کہ ان کی پھوپھی ، نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمتِ اقدس میں اپنی کسی ضرورت کے لیے حاضر ہوئیں ، جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :” اذات زوج انت“؟یعنی کیا تو شوہر والی ہے؟ تو کسی کی بیوی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اپنے خاوند کی کتنی خدمت کرتی ہے اور کس قدر حقوق ادا کرتی ہے؟ اس نے کہا کہ میں ان کے حق کی ادائیگی میں حتی المقدور کوتاہی نہیں کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”پس تو دیکھ لے کہ تواس کے حقوق کہاں تک ادا کرتی ہے؟کیونکہ وہ تیری جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔“ (مسند احمد :/۱:۳،سنن النسائی۷۶)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:” وہ تیری جنت بھی ہے اور جہنم بھی “ میں خوب غور کر لیجئے!
اگر اس کی اطاعت کروگی تو وہ تیرے لیے جنت ہے یعنی جنت میں پہنچانے کا سبب ہے، جیسے دیگر اسباب ہوتے ہیں جن کو لوگ اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت حاصل کرتے ہیں۔
نیز اس عورت کے اس قول :”میں حق کی ادائیگی میں حتی المقدور کو ئی کوتاہی نہیں کرتی ۔“ میں بھی غور کیجئے! نیک بیوی ایسی ہوتی ہے ! وہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول ِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور دارِ آخرت کو اپنا مقصد ِ زندگی بناتی ہے۔
اے میری مسلمان بہن!
آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اپنے خاوند کو راضی اور خوش رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا اور اسکے دِل کو سُرورو فرحت سے لبریز کرنا ایک ایسا امر ہے جس کو مرد اپنی شریکِ حیات کی طرف سے دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی امید و توقع رکھتا ہے۔ بسااوقات میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور نزاع بھی پیدا ہو جاتا ہے، ایسے موقع پر آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نزاع کو کسی طرح سمیٹیں اور اس کو ختم کر نے کے لیے انتہائی مختصر راستہ تلاش کریں۔ ایسا ممکن ہے کہ بجائے شوہر کے آپ اس مسئلہ میں حق بجانب ہوں ، لیکن ان حالات میں صرف آپ پر لازم ہے کہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ بسااوقات خاوند کی نظر اس بات پر نہیں جاتی جس پر آپ کی نظر پہنچتی ہے کہ آپ ہی کو اس کی حکمت معلوم ہواور وہ اس کی نظر سے اوجھل ہو، لہٰذا ایسے موقع پر آپ ہی کو سمجھداری سے کا م لینا چاہیے، اور یہ وہ موقع ہے جہاں پر آپ کا رول اورکردار آشکار ہوگا کہ آپ کیا کرتی ہیں؟ اس طرح کے موقع پر آپ کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی تکلیف اور پریشانی کو کم کریں اور کوشش کریں کہ معاملہ بجائے سنگین ہونے کے خفیف اور سہل ہوجائے ، آپ دیکھیں گی کہ تھوڑے ہی وقت میں اس کاجی خوش ہو جائے گا اور دِل مطمئن اور پرسکون ہو جائے گا، آپ کو چاہیے کہ اپنی بات کی اس کے سامنے وضاحت کریں ، اس کو باور کرائیں کہ وہ اپنے لیے اور اپنے شوہر کے لیے خیر ہی کی خواہش مند ہے، وہ اس کی شریک حیات ہے، اپنے شوہر سے بے نیاز نہیں ہے۔ ذیل میں ہم ایک نادر اور انوکھا واقعہ نقل کررہے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ دِلوں کے قرار اور سکون کا ذریعہ ثابت ہو اور اصلاحِ حال کا موجب بنے: بسااوقات معمولی بات بھی بڑاا ثر چھوڑتی ہے ۔
مروی ہے کہ عر ب کا ایک امیر تھا، اس کی کنیت ابو حمزہ تھی ، اس نے ایک عورت سے شادی کی ، اس کی خواہش یہ تھی کہ اس کے ہاں لڑکا ہو، لیکن اس کی بیوی نے لڑکی کو جنم دیا، جیسا کہ زمانہٴ جاہلیت میں بعض عرب قبائل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ لڑکیوں کو کراہت کی نظر سے دیکھتے تھے اور لڑکوں کو پسند کر تے تھے ، حتیٰ کہ بعض لوگ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے پر اظہار فخر کرتے تھے اور جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی اس کو عاردلاتے تھے کہ اب تم دامادوالے بنو گے، بہرکیف !ابو حمزہ کے ہاں بھی جب لڑکی پیدا ہوئی تو اس پر وہ بہت برافروختہ ہوااور اپنی بیوی کے گھر کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا کسی اور گھر جاکر رہنے لگا، ایک سال کے بعد ابوحمزہ کا گزر اپنی بیوی کے خیمہ کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھیل رہی ہے اور یہ اشعار گنگنارہی ہے:
مالابی حمزة لایا تینا یظل بالبیت الذی یلینا
غضبان الانلدالبنینا لیس لنامن امرناماشینا
وانمانأخذماأعطینا ونحن کالارض لزارعینا
تبت ماقدزرعوہ فینا

ابو حمزہ کو کیا ہوا کہ وہ ہمارے پاس آتا نہیں، پاس والے گھر میں رہنے لگاہے، ہم سے ناراض ہیں کہ ہم بیٹوں کو نہیں جنتیں، حالانکہ یہ چیز ہمارے اختیار میں تو ہے نہیں، ہم تو بس اس نعمت کو جو ہمیں عطاکی جاتی ہے، لینے والے ہیں، ہم تو زمین کی مانند ہیں، کاشتکار جو کچھ اس میں بیجتا ہے ہم اُسی کو اُگاتی ہیں۔
ابو حمزہ نے جب اس کی یہ بات سنی تو شفقتِ پدری غالب آگئی اور بیوی کی حُسن معاشرت کا خیال آگیا ، فوراً گھر میں داخل ہوا اور اپنی بیوی اور بیٹی کے سر کو بھوسہ دیا ۔
معلوم ہوا کہ بسااوقات معمولی سی بات بھی اتنا اثر چھوڑتی ہے کہ میاں بیوی کا گھرانہ دوبارہ محبت واتفاق اور خوشیوں اور فرحتوں میں تبدیل ہو جا تا ہے۔
ایسے موقع پر کہ جب نزاع کا خدشہ پیداہو، یہ بات آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ اس نزاع سے یوں نکل جائیں کہ شوہر کے دِل میں آپ کی محبت پہلے سے زیادہ ہو جائے، اس لیے کہ یہ کام آپ کر سکتی ہیں کہ آپ اپنے خاوند کے سامنے بشاشت اور تبسم کا اظہار کر یں اور اس کے دِل کو موہ لیں ۔ جب خاوند دیکھے گا کہ آپ اس کی بات کو غور سے سنتی ہواور اس کے حکم کی تعمیل کر تی ہو تو پھر آپ بھی کوئی خواہش اس سے پوری کرواسکوگی۔
آپ ضرور فکر مند ہوں گی کہ آپ کا شوہر آپ کو خوش حال اور شادمان رکھے اور آپ کی زندگی نعمت و سُرور سے بھر پور ہو! لیکن یہ تمنا اور مقصد کیسے حاصل ہو سکتا ہے حالانکہ آپ اس کی توجہ کا مرکز نہیں بنیں اور اس کی نظر میں دل کش نہیں بنیں؟!!
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ و ہ ہے جو اپنے شوہر کو اپنے دِل میں عظیم المرتبت خیال کرتی ہو اور اپنے آپ کو ایسی حاجت مند سمجھتی ہو جیسے کھانے پینے کی اسے احتیاج ہو تی ہے۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ وہ ہے جواپنے شوہر کے حق کو پہچانتی ہو، اسے حق شناسی یا حق کی تو ضیح کی ضرورت نہیں ہوتی ۔”نیک بیوی “ وہ ہے جو اس بات کا ادراک رکھتی ہو کہ مرد سے بھی بعض اوقات غلطی ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ معصوم تو ہے نہیں، لیکن وہ اپنی ذہانت اور عقل مندی سے اپنے شوہر کو سنبھالنا جانتی ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے جو اس کے گھر میں مو ضوعِ بحث بناہوا ہے؟
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ وہ ہے جو مناسب وقت اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اپنے شوہر کی اصلاح کا راستہ ڈھونڈ تی ہے۔ ”نیک بیوی“ وہ ہے جو وسیع الظرف ہو ، اپنے شوہر کی بہت سی منفی باتوں کو درگزر کر دیتی ہو، جب کہ معاملہ سنگین نوعیت کی حد تک نہ پہنچا ہو۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی“ وہ ہے جو اس کو بخوبی جانتی ہو کہ اس کے شوہر نے اس سے شادی اسی لیے کی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اسی لیے اختلاف رائے پیداہونے کے باوجود وہ اس بات کو فراموش نہیں کرتی کہ اس کے خاوند نے اس کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس سے شادی کی ہے۔ ”نیک بیوی وہ ہے جو ایسے امور کی انجام دہی کی بھر پور کوشش کرتی ہو جن کو اس کا خاوند پسند کرتا ہو، یہاں تک کہ اگر بعض باتیں ایسی ہوں کہ جن کو عورت پسند نہ کرتی ہو لیکن وہ اپنے شوہر سے محبت کے اظہارمیں ان کو بھی بجالاتی ہو۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ وہ ہے جو ہر نزاع اور تکرار کے موقع پر اپنے پر کنٹرول کرتی ہو اور اپنے آپ سے سوال کر تی ہو کہ آخر اس کے شوہر نے یہ بات کیوں کہی ہے اور یہ کام اس نے کس وجہ سے کیا ہے؟ آخر خود اس سے (عورت سے) ایسا کون سا فعل سرزدہوا ہے جس کے سبب معاملہ یہاں تک پہنچاہے؟ وہ دوسروں کے بتانے سے پہلے ہی اپنے عیوب ڈھونڈتی ہے، اپنی غلطیوں پر پڑے ہوئے پردے اٹھاتی ہے، وہ ایک بارپھر اپنے آپ سے پوچھتی ہے اور دِل میں کہتی ہے کہ ” کیا خاموشی اختیار کر لیناہی بہتر نہیں ہے؟ ایسے موقع پر شوہر کے سامنے منہ نہ کھولناہی زیا دہ بہتر نہیں ہے؟ کیا اس طریقہ سے بات کر نا زیادہ مناسب نہیں ہے؟
ایسی ہوتی ہے ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایسا رویہ رکھتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے کسی صورت میں بھی مستغنی او ربے نیاز نہیں ہے۔
 (دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

سمجھدار بیوی

Posted: فروری 15, 2012 by EtoPk in مضامین

خوش خلق ہو(برائے شوہر)۔۔

Posted: فروری 14, 2012 by EtoPk in مضامین

خوش خلق ہو
جو شخص فارغ البا ل رہنے کا طالب اور دین پر مدد کا خواہاں ہو اس کے لیے خوش خلق عورت کا ہونا بڑی غنیمت ہے۔ بد خو عورت ناشکر گزار اور زبان دراز ہوتی ہے اور بے جا تحکم کی عادی بھی ۔ ایسی عورت دنیوی عیش و سکون کو تباہ کرنے کے علاوہ دین کی خرابی کا باعث بھی ہوتی ہے۔ 

کہتے ہیں کہ سیاح ازدی نے اپنی سیاحت میں حضرت الیاس علیہ السلام کی زیارت کی آپ نے ازدی کو نکاح کے لیے ارشاد فرمایا اور مجرد رہنے سے ممانعت کی ۔ نیز فرمایا کہ چار قسم کی عورتوں سے نکاح مت کرنا ۔ اول طالب خلع کہ ہر گھڑی بلاسبب خلع کی درخواست کرتی رہے ۔ دوسری عورتوں پر دنیا کے لوازم سے فخر کرے ۔ تیسری فاسقہ جو خفیہ آشنا رکھتی ہے اور اس بات کی شہرت عام ہو۔ ایسی ہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے
(ولامتخذات اخدان ) ”اور نہ در پردہ آشنارکھنے والی “ چوتھی زبردست کہ خاوند پر قول و فعل میں بڑھ چڑھ کر رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو عادتیں مردوں میں بری ہیں وہ عورتوں میں اچھی ہوتی ہیں اور وہ بخل ، تکبر اور بزدلی ہیں ۔ عورت اگر بخیل ہوگی تو اپنا مال اور شوہر کا مال بچائے گی ۔ اگر متکبر ہوگی تو ہر شخص سے نرم اور فریفتہ کرنے والے کلام سے نفرت کرے گی اور اگر بزدل ہو گی تو ہر چیز سے ڈرے گی ۔اپنے گھر سے نہ نکلنے اور شوہر کے خوف سے تہمت کی جگہوں سے اجتناب کرے گی ۔ یہ حکائتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نکاح میں کون سے اخلاق مطلوب ہوتے ہیں۔
خوبصورت ہو
اگر بیوی حسین و جمیل ہوگی تو شوہر کی نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی اور وہ زنا سے محفوظ رہے گا۔ اگر عورت بد صورت ہوگی دوسری خوبصور ت عورتوں کو حریص نگاہوں سے دیکھے گا۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ خوبصورتی سے متاثر ہوتا ہے اور بدصورتی سے کراہت کرتا ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صورت و سیرت کا اچھا ہو نا لازم و ملزوم ہے۔ جس کی صورت اچھی ہوگی غالباً سیرت بھی اچھی ہوگی ۔
ہم نے عورت کی اولین خوبی کے تحت لکھا ہے کہ عورت سے نکاح اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی پارسائی کی وجہ سے کرنا چاہیے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ خوبصورتی کا لحاظ بالکل ممنوع ہے بلکہ یہ غرض ہے کہ اگر عورت پارسا نہیں تو صرف اس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر نکاح نہ کرنا چاہیے ۔ خوبصورت ہونا نکاح کی ترغیب ضرور دیتا ہے مگر دین کے امر میں کمزور کردیتا ہے۔
اچھی صورت و سیرت زن و شومیں الفت و محبت کا باعث ہوتی ہے۔ شریعت بھی اس امر کی خواہاں ہے کہ میاں بیوی میں محبت و دلبستگی کا رشتہ استوار ہو۔ اسی وجہ سے نکاح سے قبل عورت کو دیکھ لینا مستحب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے دل میں عورت سے نکاح کرنے کا خیا ل ڈال دے تو چاہیے کہ اس کو دیکھ لے۔ دیکھ لینا الفت طرفین کے لیے شایاں تر ہے اور ایسے زن و شومالوف رہیں گے۔
سلف کے کچھ پرہیز گار ایسے تھے جو شریف زادیوں سے بھی نکاح سے قبل ان کو دیکھ لیا کرتے تھے تاکہ دھوکے سے محفوظ رہیں ۔ایک نظر دیکھ لینے سے سیرت اور پارسائی تو معلوم نہیں ہوتی صرف ظاہری جمال ہی پہچانا جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جمال کا لحاظ بھی شریعت کے عین مطابق ہے۔
دھوکا ظاہری شکل و شباہت اور باطنی سیرت دونوں میں ہو سکتا ہے۔ خوبصورتی کا دھوکا تو دیکھ لینے سے دور کرنا مستحب ہے اور اخلاق کا دھوکا وصف سننے سے رفع ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ان دونوں باتوں کو نکاح سے قبل پر کھ لینا چاہیے۔ عورت کے اخلاق اور پارسائی کے متعلق ایسے شخص سے دریافت کرنا چاہیے جو عاقل ، راست گو اور عورت کے ظاہر وباطن کے حال سے واقف ہو۔ نہ تو عورت کا طرفد ار ہو کہ اس کی تعریف میں مبالغہ کرے اور نہ اس سے بغض رکھتا ہوکہ گٹا کربیان کرے کیونکہ اب لوگوں کی طبیعتیں نکاحوں سے پیشتر امور میں اور منکوحات کے وصف بیان کرنے میں افراط و تفریط کی طرف مائل ہیں ۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس باب میں سچ بولتے ہوں بلکہ فریب اور مغالطہ دینے کا رواج بہت ہو رہاہے ۔ اس شخص کے لیے جسے یہ خوف ہو کہ وہ خوبصورت غیر محرم عورتوں کو تاکنے سے باز نہ رہ سکے گا یہ بہت ضروری ہے کہ نکاح سے قبل عورت کو دیکھ لے تاکہ اس کے حسن سے وہ مرعوب ہو جائے اور غیر عورتوں کو دیکھنے سے باز رہے۔ اگر کسی شخص کو ایسی خوبصورت عورت جو خو ش شکل ، سیاہ چشم و سیاہ موبڑی بڑی آنکھوں والی ، گوری رنگت ، خوش خلق اور شوہر دوست کہ اپنی نظر شوہر پر ہی منحصر رکھے ، میسر ہو تو اس کو گویا دنیا میں ہی حور مل گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی بیویوں کی صفت انہیں صفات کے ساتھ فرمائی ہے۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

P سیلز گرل

Posted: فروری 14, 2012 by EtoPk in مضامین

عیب گیری نہ کر نے کی نصیحت

Posted: فروری 13, 2012 by EtoPk in مضامین

عیب گیری نہ کر نے کی نصیحت
عورت کے ناقابل برداشت افعال میں سے اس کی ہر وقت عیب گیری یا جھڑ کتے رہنے کی عادت ہے، عیب گیری حقیقت میں ناشکر گزاری کا اظہار ہے۔ عورت کی یہ بری عادت گھر کی خوشی کے لئے سم قاتل ہے۔ اس سے شوہر کادل عورت کی طرف سے پھر جاتا ہے اور اس کے رویے میں درشتگی کا باعث بنتا ہے۔ بیوی کو کسی موقع اور حال میں بھی اس بری عادت کو نہیں اپنانا چاہئے ۔ بیویاں نہیں جان سکتیں کہ عیب گیری سے ان کے گھریلو تعلقات پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بیوی کو حکم دیا ہے کہ تسکین اور آسودگی کو اپنا ئے جوخاوند کے پژمردہ چہرے کو بھی مسرت سے ہمکنار کردے گا۔
خاوند کے حقیر تحفے پر بھی وہ یوں کھل اٹھے جیسے اسے سارے جہان کی دولت مل گئی ہو۔ اس سے خاوند اپنی کم ما نگی پر افسردہ نہیں ہوگا اور نہ ہی احساس کمتری میں مبتلا ہوگا کہ وہ بیوی کی ویسی خدمت نہیں کر سکا اور اس کو ایسے تحفے نہیں پیش کر سکا جیسا کہ اس کا حق تھا یا جیسی اس کی اپنے والدین کے گھر حیثیت تھی۔
ای النساء خیر قال التی تسرہ اذانظرو تطیعہ اذا امرولا تخالفہ فی نفسھا ولا مالھا بمایکرہ )
(بہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نسائی
عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش کرے جب وہ اس کی طرف دیکھے ۔
بیوی کی مسحور کن نظر ہی شوہر کو نہال کر دے ۔ صرف ایسی عورت جو اللہ تعالیٰ کی رضاکی طالب ہو، آخرت کا خوف اسے دامنگیر ہو، اپنی زندگی کو شریعت اور سنت پر استوار کر نے کی خواہش رکھتی ہو اس عبادت سے سر فراز ہو گی ۔ شوہر کی خوشی کو بر قرار رکھنا عبادت ہی تو ہے۔ عبادت بھی ایسی کہ جس کا ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والے شخص کے ثواب سے زیادہ ۔ عورت کی پہلی اور سب سے اچھی اللہ کی راہ اور اس کا سب سے بڑا جہاد اس میں ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اور بڑی محبت سے بچوں کی پرورش کرے ۔ سلیقے اور احتیاط سے اس کے گھر بار اور مال اسباب کی حفاظت کرے۔
ذیل میں ایک حدیث درج ہے جس سے عورت کی گھریلوذمہ داریوں سے عمدہ طور پر ادائیگی کی قدرو منزلت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسماء بنت زید انصاریہ آئی اور اس نے کہا:
اے رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے عورتوں نے آپ کے پاس سفیر بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے مردوں پر جہاد فرض کیا ہے۔ اگر وہ کا میاب لوٹتے ہیں تو انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں ۔ اگر وہ شہید ہو جاتے ہیں تو وہ زندہ رہتے ہیں اور پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ لیکن ہم عورتیں پیچھے ان کی خدمت میں رہتی ہیں۔ اجر میں ہمارے لئے کیا ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:”ہر عورت کو جو تمہیں ملے بتادو کہ شوہر کی اطاعت کرنا اور اس کے حقوق کو تسلیم کرنا جہاد کے برابر ہے۔ لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں ہونگی جو ایسا کرتی ہیں۔
حضرت اسماء نے صرف اپنے زمانے ہی کی خواتین کی نمائندگی نہیں فرمائی بلکہ بعض پہلووٴں سے ہمارے زمانے کی خواتین کی بھی پوری پوری نمائندگی کردی ہے ۔ اس زمانہ میں آزادی نسو ا ں کی علمبردار عورتیں جو کچھ کہتی ہیں اس کی ایک بڑی اہم وجہ تو یہی ہے کہ وہ فرائض ان کو حقیر نظر آتے ہیں جو قدرت نے ان کے سر ڈالے ہیں اور وہ فرائض ان کو معزز ومحترم نظرآتے ہیں جو مردوں سے متعلق ہیں ۔ اس وجہ سے وہ کہتی ہیں کہ یہ کیا ناانصاف ہے کہ ہم عورتیں تو زندگی بھر بچے لادے لادے پھریں اور چولہے چکی کی نظر ہو کر رہ جائیں اور مرد ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کر تے پھریں! اور پھر وہ مطالبہ کر تی ہیں کہ ان کو بھی مردوں کے دوش بدوش ہر میدان میں جدوجہد کر نے کا موقع ملنا چاہیے ۔ حالانکہ وہ غور کریں تو اس بات کے سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہے کہ ایک مرد مجاہد جو میدان جنگ میں جہاد کر رہا ہے اس کا یہ جہاد ہو نہیں سکتا جب تک اس کے پیچھے ایک مجاہدہ بچوں کے سنبھالنے اور گھر کی دیکھ بھال میں اپنی پوری قوتیں صرف نہ کرے! میدان جنگ کا یہ جہاد گھر کے جہاد ہی کا ایک پر تو اور مر د کی یہ یکسوئی عورت کی قربانیوں کا ایک ثمر ہے۔ اس لیے مرد اگر خدا کی راہ میں لڑ رہا ہے تو تنہا مرد ہی نہیں لڑ رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خدا کی وہ بندی بھی مصروف پیکار ہے جس نے مرد کو زندگی کے دوسرے محاذوں پر لڑنے سے سبکدوش کر کے اس میدان جنگ کے لیے فارغ کیا ہے اور گھر کے مورچہ کو اس نے سنبھا ل رکھا ہے جذبات سے بے لا گ ہو کر صحیح صحیح موازنہ کر کے اگر دیکھا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں جہادوں میں سے کوئی بھی کم ضروری ہے یا غیر ضروری ہے ؟ انصاف یہ کہ دونوں یکساں ضروری ہیں ، اس لیے خدا کی نگاہوں میں دونوں کا اجرو ثواب بھی یکساں ہے “۔
جو خواتین و حضرات غزوات میں صحابیا ت کی شرکت کی بعض استشنائی نظیر وں سے عورتوں کو مردوں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کام کر نے کے لیے استد لال کرتی ہیں وہ اگر نیک نیتی سے کسی مغا لطے میں مبتلا ہیں تو صرف یہی حدیث انکا مغالطہ دور کر نے کے لیے کافی ہے ۔
مسلمان بیوی کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے ۔ اپنے بچوں کی صحیح نگہداشت ، خاوند کی طرف الفت و محبت کا طرز عمل درحقیقت ایسے اعمال ہیں جو مردوں کی طرف سے جہاد فی سبیل اللہ سے اگر بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور ہیں ۔ گھر کی نگہبا نی اور امور خانہ داری کی صحیح طور پر بجا آوری نیکی کے بڑے کاموں میں سے ہیں جن کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خو شنو دی حاصل ہو تی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فا طمة الزہرہ رضی اللہ عنہا کی زندگی سے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہا تھوں سے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے دھوتیں اور سر مبارک میں تیل لگا تی تھیں گھر کا تمام کا م کاج خو د کرتی تھیں ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ گھر کا تمام اندرونی کام کاج کھانا پکانا ، چکی پیسنا ، کپڑے دھونا ، گھر میں جھاڑو دینا وغیرہ سب ہماری والدہ محترمہ خود اپنے ہا تھوں سے سر انجام دیتی تھیں اور انہیں کا موں کے درمیان ہماری ضرورتیں دوا پلا نا ، نہلانا، کپڑے بد لوانا ، وقت پر پوری کر تی جاتی تھیں ۔ پھر خاتون جنت کا یہ بھی اصول تھا کہ خواہ دو وقت کا فا قہ ہو جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں خود ایک دانہ نوش نہ فرماتی تھیں ۔
ازدواجی زندگی میں نا مسا عد حالا ت کا مقابلہ کر نے کے لئے مسلمان عورت کو اپنے نفس سے جنگ کرنی پڑتی ہے ۔ اور نفس کے خلا ف جنگ کو مجا ہدہ کہتے ہیں ۔عورت کے مجاہدہ کا دائرہ اس کے گھر ، خاوند اور بچوں کے گر د گھومتا ہے ۔ عورت اپنی روحانیت کی تکمیل اپنے نفس کے ساتھ جنگ سے کرتی ہے جو اسے اپنے فرائض سے عہد ہ براء ہو نے کے لئے لڑنی پڑتی ہے۔
عو رت کو اس امر کا خیال رکھنا چا ہیے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے اپنے خاوند کو ہر صورت میں خوش رکھنا ہوگا ۔ اگر اس حقیقت کو اپنے ذہن میں بٹھا لے گی تو اس کے لیے شوہر کی ناانصافیوں اور زیادیتوں کو برداشت کر نا آسان ہو جائے گا ۔خاوند کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ بلاوجہ اپنی بیوی کے ساتھ بد سلو کی رو ارکھے ، لیکن بیوی کو چا ہیے کہ اپنی اور اپنے گھر کی خوشنودی کی خا طر وہ اپنے حقوق کو پس پشت ڈال دے ۔ اپنے حقوق کا تقاضا کرنا تو کجا ان کی طرف سے اپنی آنکھیں موندلے۔ شادی کے بعد اس سے جن فرائض کی بجا آوری کا تقا ضا ہے وہ کچھ اس سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کو بخوشی قبول کرلے ۔ اپنے شوہر کی محبت جیتنے کے لیے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر طر ح کی قر با نی سے دریغ نہ کرے۔
(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

چار شادیوں پر پابندی

Posted: فروری 12, 2012 by EtoPk in مضامین

چار شادیوں پر پابندی اور مساوات کا مطالبہ
س… گزشتہ دنوں کراچی میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے تقاریب منعقد ہوئیں، جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ: “ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کی جائے اور عورتوں کو مردوں کے مساوی وراثت کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ اسی طرح شادی اور طلاق میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
       ۱:… اسلامی نقطہٴ نگاہ سے ان مطالبات کی کیا اہمیت ہے؟
          ۲:… ایسے مطالبے کرنے والے شرعی نقطہٴ نگاہ سے کیا اب تک دائرہٴ اسلام میں داخل ہیں؟
          ۳:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کا مذاق اُڑانے والوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کی اسلام میں کیا سزا ہے؟
ج… ان بے چاری خواتین نے جن کے مطالبات آپ نے نقل کئے ہیں، یہ دعویٰ کب کیا ہے کہ وہ اسلام کی ترجمانی کر رہی ہیں، تاکہ آپ یہ سوال کریں کہ وہ دائرہٴ اسلام میں رہیں یا نہیں؟ رہا یہ کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے ان مطالبات کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مرد کو بشرطِ عدل چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے، عورت کو چار شوہر کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے تو کجا؟ کسی ادنیٰ عقل و فہم کے شخص نے بھی نہیں دی۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے وراثت اور شہادت میں عورت کا حصہ مرد سے نصف رکھا ہے، اور طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے، جبکہ عورت کو طلاق مانگنے کا اختیار دیا ہے، طلاق دینے کا نہیں۔ اب فرمانِ الٰہی سے بڑھ کر اسلامی نقطہٴ نظر کی وضاحت کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلم معاشرے میں بڑی بھاری اکثریت ایسی باعفت، سلیقہ مند اور اطاعت شعار خواتین کی رہی ہے جنھوں نے اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے، واقعتا حورانِ بہشتی کو بھی ان کی جنت پر رشک آتا ہے، اور یہ پاکباز خواتین اپنے گھر کی جنت کی حکمران ہیں، اور اپنی اولاد اور شوہروں کے دِلوں پر حکومت کر رہی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض گھروں میں مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں اور ان کی خواتین ان سے بڑھ کر بے سلیقہ اور آدابِ زندگی سے ناآشنا۔ ایسے گھروں میں میاں بیوی کی “جنگِ اَنا” ہمیشہ برپا رہتی ہے اور اس کے شور شرابے سے ان کے آس پڑوس کے ہمسایوں کی زندگی بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ “عورتوں کے عالمی دن” کے موقع پر جن بیگمات نے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی ہے، ان کا تعلق بھی خواتین کے اسی طبقے سے ہے جن کا گھر جہنم کا نمونہ پیش کر رہا ہے، اور اس کے جگر شگاف شعلے اخبارات کی سطح تک بلند ہو رہے ہیں، اور وہ غالباً اپنے ظالم شوہروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں، اور چونکہ یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ وہ دُوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھتا کرتا ہے اس لئے اپنے گھروں کو جہنم کی آگ میں جلتے ہوئے دیکھ کر یہ بیگمات سمجھتی ہوں گی کہ جس طرح وہ خود مظلوم و مقہور ہیں، اور اپنے ظالم شوہروں کے ظلم سے تنگ آچکی ہیں، کچھ یہی کیفیت مسلمانوں کے دُوسرے گھروں میں بھی ہوگی، اس لئے وہ بزعمِ خود تمام مسلم خواتین کی طرف سے مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی “آپ بیتی” ہے، “جگ بیتی” نہیں۔ سو ایسی خواتین واقعی لائقِ رحم ہیں، ہر نیک دِل انسان کو ان سے ہمدردی ہونی چاہئے، اور حکومت سے مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ ان مظلوم بیگمات کو ان کے درندہ صفت شوہروں کے چنگل سے فوراً نجات دِلائے۔
          میں ایسے مطالبے کرنے والی خواتین کو مشورہ دُوں گا کہ وہ اپنی برادری کی خواتین میں یہ تحریک چلائیں کہ جس شخص کی ایک بیوی موجود ہو اس کے حبالہ عقد میں آنے کو کسی قیمت پر بھی منظور نہ کیا کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں مردوں کی ایک سے زیادہ شادی پر خودبخود پابندی لگ جائے گی اور ان محترم بیگمات کو حکومت سے مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
          رہا طلاق کا اختیار تو اس کا حل پہلے سے موجود ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان اَن بن ہو فوراً خلع کا مطالبہ کردیا جائے، ظالم شوہر خلع نہ دے تو عدالت خلع دِلوادے گی، بہرحال اس کے لئے حکومت سے مطالبے کی ضرورت نہیں۔ رہا مرد و عورت کی برابری کا مسئلہ! تو آج کل امریکہ بہادر اس مساوات کا سب سے بڑا علمبردار بھی ہے اور ساری دُنیا کا اکیلا چودھری بھی، یہ مطالبہ کرنے والی خواتین امریکی ایوانِ صدر کا گھیراوٴ کریں اور مطالبہ کریں کہ جب سے امریکہ مہذب دُنیا کی برادری میں شامل ہوا ہے آج تک اس نے ایک خاتونِ خانہ کو بھی امریکی صدارت کا منصب مرحمت نہیں فرمایا، لہٰذا فی الفور امریکہ کے صدر کلنٹن صدارت کے منصب سے اپنی اہلیہ محترمہ کے حق میں دستبردار ہوجائیں، اسی طرح امریکی حکومت کے وزراء اور ارکانِ دولت بھی اپنی اپنی بیگمات کے حق میں دستبردار ہوکر گھروں میں جابیٹھیں، پھر یہ خواتین فوراً یہ قانون وضع کریں کہ جتنا عرصہ مردوں نے امریکہ پر راج کیا ہے اتنے عرصے کے لئے خواتین حکومت کریں گی، اور اتنے عرصہ تک کسی مرد کو امریکی حکومت کے کسی منصب پر نہیں لیا جائے گا، تاکہ مرد و زن کی مساوات کی ابتدا امریکہ بہادر سے ہو۔ اگر ان معزّز خواتین نے اس معرکے کو سر کرلیا تو دُنیا میں عورت اور مرد کی برابری کی ایسی ہوا چلے گی کہ ان خواتین کو اخبارات کے اوراق سیاہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اللہ تعالیٰ ان خواتین کے حالِ زار پر رحم فرمائیں۔
 (مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ،متفرق مسائل)


حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
من ولدلہ والد فلیحسن اسمہ وادبہ فاذا بلغ فلیز وجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثماً فانما اثمہ علی ابیہ۔(رواہ بیہقی فی شعب الایمان )
جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے ، تو چاہئے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے اور سلیقہ سکھائے ، پھر جب وہ سن بلوغت کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے ۔ اگر (اس نے اس میں کوتاہی کی اور ) اس کی شادی کا بندوست نہیں کیا اور وہ اس وجہ سے حرام میں مبتلاہوگیا تو اس کا باپ اس گناہ کا ذمہ دار ہوگا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ جب سن بلوغت کو پہنچے تو اس کا بیاہ کردو۔ تب اس کا ہاتھ پکڑ کر کہو کہ لو بیٹا میں نے تجھے (پالا پوسا اور ) ادب تہذیب سے آراستہ کیا۔ جن چیزوں کی تعلیم لازمی تھی وہ تجھے دلوائی اور اب تیرا نکاح بھی کردیا ۔ اب دنیا میں تیرے فتنہ سے اور آخرت میں تیرے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں ۔
ان احادیث میں اولاد کے شادی کے قابل ہوجانے پر ان کے نکاح اور شادی کے بندوبست کو بھی باپ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ وقت گزر گئے جب والدین اپنی مرضی سے جہاں چاہااور جس جگہ مناسب سمجھاوہاں لڑکے کی شادی کر دی ۔ کچھ گھرانے ابھی ایسے ہوں گے جہاں اولاد کے لیے شریک زندگی کا انتخاب کلی طور پر والدین کے اختیار میں ہو گا مگر آج نوجوانوں کی اکثریت کی اپنی پسند اور ناپسند کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے۔ اس میں چند اں برائی بھی نہیں ۔
شریک حیات کا اگر صحیح چناوٴ ہو جائے تو زندگی بڑے آرام سے گزریگی اور اگر اس معاملہ میں غلطی ہوگئی تو یہی زندگی عذاب ۔ اگر آپ کو ریل یا ہوائی جہاز میں سفر کا اتفاق ہو، ساتھ کی نشست کا مسافر آپ کے خیالات اور ذوق کا حامل ہو گا تو سفر اچھا کٹ جائے گا ۔آ پس میں باہمی دلچسپی کے معاملات اور موضوعات پر گفتگو ہو گی خور دو نوش میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور عین ممکن ہے کہ سفر کے اختتام پر ایک دوسرے سے تعارفی کا رڈوں کا بھی تبادلہ ہوجائے اور پھر ملنے کی آرزو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔اگر ساتھی اس کے برعکس ہوتو آپ یہ سوچ کرکہ سفر چند گھنٹوں کا ہے خاموش رہنے میں عافیت جانیں گے ۔ لیکن جہاں معاملہ تمام زندگی شب و روز ایک ساتھ گزارنے کا ہو ، تمام زندگی تو خاموش نہیں رہا جا سکتا ۔اس لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کا چناوٴ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ اس کی عمر ، شکل و صورت ، تعلیم ، مشاغل اور اس کے والدین کارہن سہن ، سب مدنظر ہونے چاہئیں ۔
آپ کی شریک حیات کیسی ہو؟ اس میں کن خوبیوں کا ہو نا ضروری ہے ۔ہم آپ کی رہنمائی کے لیے احادیث اور بزرگوں کے اقوال پر مبنی چند باتیں اس امید پر تحریر کررہے ہیں کہ آپ ان سے فائدہ اٹھا کر بہتر ساتھی منتخب کرسکیں ۔
عورت نیک سیرت ، باحیا اور پارساہو
ان خوبیوں کی غیر موجودگی میں عورت اپنے شوہر کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو سکتی ہے جس سے شوہر کو تشویش لاحق ہو گی ۔ اگر اس کی حرکات پر خاموش رہے گا اور منع نہ کرے گا تو خود بھی اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔ قوا انفسکم واھلیکم نارا
اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچاوٴ
اس آیت کے بموجب ناشائستہ حرکات سے منع کرنا ضروری ہے ورنہ حکم عدولی ہوگی اور اگر منع کرے گا تو بات بڑھے گی اور گھر کا سکون برباد ہوگا۔اگر عورت اپنے جسم میں خیانت کرے اور مرد کو خاموش رہنا پڑے تو اس کی غیرت کو دھکا لگے گا اور دین الگ تباہ ہوگا۔ روسیاہی ، جگ ہنسائی اور خجالت اس پر مستزاد ۔ اگر خاموش نہ رہ سکے اور یقینا نہ رہ سکے گا تو اس کا آرام و سکون برباد ہوگا۔ طلاق دینا شائد اس لیے مشکل ہو کہ ممکن ہے اس عورت کی کج ادائیوں کے باوجود وہ دل کی گہراہیوں سے اس پر فریفتہ ہو اور اس کی جدائی کا رنج برداشت کرنا اس کے لیے محال ہو۔ ناپارسا عورت اگر خوبصورت اور حسین ہو تو ایک آفت وبلا سے کم نہیں کہ عادات قابل نفرت لیکن صورت دلفریب ۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت حال سے دوچار ہو تو اس کے لیے بہتریہی ہے کہ اس دلفریب فتنے سے جان چھڑالے ۔ طلاق دے کر اسے من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دے اور خود اس کے افعال سے بری الذمہ ہوجائے ۔ لیکن اگر اس پر دل و جان سے فریفتہ ہو چکاہے تو مجبوری ہے کیونکہ اس صورت میں اگر طلاق دے گا تواس کے بعد خود بھی فساد میں مبتلا ہوجائے گا۔

حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کسی عورت کے ساتھ محض اس کے حسن و جمال یا مال و دولت کی غرض سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ بالآخر ان ہردوسے محروم رہتا ہے اور جو دین کی متابعت کی نیت سے نکاح کرتا ہے اسے مال و جمال دونوں حاصل ہو جاتے ہیں۔ (بہ روایت انس رضی اللہ عنہ، طبرانی )

نیز ارشاد فرمایا کہ عورت سے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے مت نکاح کرو۔ شائد اس کی خوبصورتی اس کو تباہ کردے اور نہ مال کے لحاظ سے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیے ، شاید اس کا مال اس کو سرکش کردے بلکہ عورت سے نکاح اس کی دیانت اور پارسائی کے لحاظ سے کرنا چاہیے ۔ وہ دین کی مددگار ثابت ہوگی ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کے ہاں رشتہ ہو رہا ہے وہ لوگ آپ کے لیے اجنبی ہیں تو یہ کیونکر معلوم ہو گا کہ لڑکی باحیا اور پارسا ہے۔ اس کا حسب نسب تو معلوم ہو سکتا ہے اگر لڑکی کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جس میں دیانت ، پاکیزگی اور نیک بختی پائی جاتی ہے تو غالباً یہ صفات اس لڑکی میں بھی ہوں گی ۔ اچھے حسب نسب کی حامل لڑکی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت بھی اچھے طریقے سے کرتی ہے۔ اگر وہ خود مودب نہیں ہوگی تو نہ اس شوہر کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوں گے اور نہ ہی اس سے اولاد کی صحیح تربیت اور تادیب بن پڑے گی ۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(
ایاکم وخضرء الد من ) ”گھورے اوپر کی سبزی سے علیٰحدہ رہو“۔
لوگوں نے عرض کی خضراء دمن کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوبصورت عورت جو بری جگہ پیدا ہوئی ہو۔ (دار قطنی درافراد براویت ابو سعید خدری ) نیز فرمایا کہ اپنی اولاد کے حصول کے لیے اچھی عورتیں پسند کرو کیونکہ رگ قرابت اصول کے اخلاق کو اولاد میں کھینچ لاتی ہے۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

خاوند تیری جنت بھی جہنم بھی

Posted: فروری 10, 2012 by EtoPk in مضامین


شوہر سے ناراض نہ رہنے کی نصیحت
مسلمان بیوی کو اس امر کا علم ہو نا چاہیے کہ اس کا شوہر سے خفا رہنا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا موجب ہوتا ہے ۔ بیوی اگر شوہر کے کسی کام کو پسند یدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تب بھی وہ اپنی ناخوشی کا اظہار شوہر کے سامنے نہ کرے ۔ عاجزی اور صبر کے ساتھ شوہر کی کمزوریوں اور ناانصافیوں کو برداشت کرے۔ شوہر کی زیادتیوں پر اس کا سر تسلیم خم کر نا اور صبر سے برداشت کر نا اس کے لئے اللہ کے ہاں درجات کی بلندی کا باعث ہوگا۔
صبر کو اپنا وطیرہ اپنا کر عورت بہت فائدہ میں رہے گی۔ اس کا بات بات پر بگڑنا اور غم وغصہ کا اظہار کر نا قطعاً اسکے لئے سود مند نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس ایسے طرز عمل سے وہ اپنے شوہر کے دل سے دور ہو تی چلی جائے گی ۔ محبت کی شمع جو اس کے شوہر کے دل میں روشن ہے بجھ جائے گی۔
خفگی اور ناراضگی تو دور کی بات ہے وہ اپنے چہرے پر ایسے تاثرات بھی ظاہر نہ ہونے دے جس سے شوہر کی خوشیوں میں کھنڈت پڑے ۔ زود رنج ہونا ایک سچی مسلمان عورت کے شایان شان نہیں ہے ۔ بیوی پر لازم ہے کہ وہ ہر وقت اپنے خاوند کو خوش رکھے ۔ جس وقت شوہر گھر آئے مسکرا کر اسے خوش آمدید کہے اور جتنی دیر وہ گھر پر رہے اس پر تفکرات کے آثار غالب نہ رہیں ۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اسے خوش رکھے کیونکہ اس کے خاوند کی خوشی میں اس کی اپنی خوشی پنہاں ہے۔ اس کی خوشی کی اس کے خاوند کی خوشی سے علیٰحدہ کوئی حیثیت نہیں ۔ اس کا یہ طرز عمل اس کی نیکی کی بنیاد اور اللہ تعالیٰ کی رضاکا ذریعہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
﴿ ای النساء خیر؟قال التی تسرہ اذانظر﴾ (بہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ۔نسائی
وہ بیو ی سب سے بہتر ہے جو اپنے شوہر کو خوش کرے جب کہ وہ اس کی طرف دیکھے ۔
یہ بد قسمتی کا مقام ہے کہ شریعت سے لاعلمی اور مغربی تہذیب کی آزاد روش کو اپنانے سے مسلمان عورت دن بدن اپنی نسوانیت اسی طور پر کھورہی ہے جس طرح مغربی عورت اور یوں شوہر کو خوشیاں دینے کی بجائے اس کی مسرت و انبساط کو تباہ کرتی ہے ، اس کے امن و سکون کو غارت کرتی ہے اور اس کو محرومیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ کیا عورت یہ خیال کر تی ہے کہ اس کا ناروا سلوک خود اس پر اثر انداز نہ ہوگا؟ اپنے گھر کو قعر ظلمات میں گرانے کے علاوہ نہ تو اس کی نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو گی اور نہ دوسرے اچھے اور نیک کا م ۔ جو عورت اپنے شوہر کو ناراض رکھتی ہے اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے اور اس کے نیک اور بھلے کام بھی آسمان تک راہ نہیں پاتے ۔ نمازکی نامقبولیت کے معنی ثواب سے محرومی ہے۔ اس کا اپنے شوہر کے ساتھ برا رویہ اس کے اچھے کاموں کے ثواب کو بھی لے بیٹھتا ہے نماز کی نامقبولیت کا مطلب یہ نہیں کہ جیسے وہ پڑھی ہی نہیں گئی اور اس کا لوٹانا واجب ہو گیا ۔ نماز تو ادا ہو گئی مگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور ثواب کے بغیر ۔اس کی روحانی کامیابی کا انحصار اس کی ان کوششوں پر ہے جو وہ خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتی ہے اس کا خاوند در حقیقت دین ودنیا میں اس کی کا میابی کی منزل ہے۔
(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

شوہر کو خوش کرنے کی نصیحت

Posted: فروری 8, 2012 by EtoPk in مضامین

شوہر کو خوش کرنے کی نصیحت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین عورت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ جب شوہر کی اس پرنظر پڑے تو وہ اس کو خوش کر دے ، یہ ایسی خوبی ہے جس کے ذریعہ ایک ایمان دار پرہیز گار عورت خوش حال اور خوش گوار ازدواجی زندگی حاصل کر سکتی ہے اور اپنے شوہر کی محبّ اور محبوب بن سکتی ہے۔
اے میری مسلمان بہن !
عقل مند انسان ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، یہ تمنا اور خواہش رکھتا ہے کہ اسے اخلاق میں کمال اور برتری حاصل ہو، اسلام آیا ہی اس لیے ہے تاکہ انسان ، روحانی ، عقلی ، جسمانی اور اخلاقی ہر اعتبار سے درجہٴ کمال کو حاصل کرے، بناء بریں آپ کو بھی چاہیے کہ ہر ایسی چیز تلاش کریں جو آپ کے مظہر کی تکمیل کا سبب ہو او ر اس کو حدود خداوندی میں رہتے ہوئے استعمال کریں ، جیسے مہندی لگانا، سرمہ لگانا، سونے چاندی کے زیورات پہننا ، عمدہ لباس زیب تن کرنا وغیرہ، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ بس نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظرپڑتے ہی اس کو خوش کردے اور اس کے دِل کو باغ و بہار کر دے۔
غور کیجئے ! مرددنیا کے کام کاج کے لیے گھر سے نکلتا ہے ، اپنے جسم اور ذہن کو تعب اور مشقت میں ڈالتا ہے ، اس سلسلہ میں اس کو طرح طرح کی پریشانیاں اٹھانا پڑتی ہیں اور بے چینی سے منتظر ہوتا ہے کہ کب گھر واپس آکرسُکھ کا سانس لے اور آرام کرے ، پھر وہ ان مشقتوں کو جھیلنے کے بعد گھر آئے اور گھر آکر اپنی بیوی کی طرف سے کوئی خوش کن بات نہ دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تعلق زو جیت کے پہلے مرحلہ ہی میں ناکام ہو گئیں۔ اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس نا کامی کاآخر سبب کیا ہے ؟ حقیقت امر یہ ہے کہ خاوند بسا اوقات کسی پریشانی کا شکار ہوتا ہے ، وہ اپنے قول یا عمل سے کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈتا ہے کہ اس پر غضبنا ک ہو، لیکن جب وہ گھر واپس آتا ہے اور اپنی بیو ی کی طرف سے کوئی ایسی بات پاتا ہے جس سے اس کو فرحت وسُروراور شرح صدر(دل کوسکون )حاصل ہو تو وہ بہت جلد اپنی ذہنی پر یشانی اور جسمانی تھکا ن کو بھول جاتاہے۔
معلوم ہو اکہ خاوند کے دِ ل میں بیوی کی محبت کا قوی ترین سبب یہ ہے کہ بیوی خاوند کی نظر پڑتے ہی اس کو خوش کر دے ، محبوب کو اچھی اور عمدہ ہیئت وشکل میں دیکھنا دل میں محبت کے جم جا نے کا قوی سبب ہے ۔ لہٰذا ایک مسلمان عورت کے لائق یہ ہے کہ وہ اس بات کی بھر پوراحتیاط کرے کہ کہیں شوہر کی نظر ایسی چیز پر نہ پڑے جس کو وہ نا پسند کر تا ہو، خواہ وہ نفرت آمیز منظر ہو یا قابلِ کراہت کوئی اور چیز ہو۔ اس سلسلہ میں اسلاف کے عمل سے رہنمائی لینی چاہیے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :”میں اپنی بیوی کے لیے اسی طرح آراستہ ہو تا ہوں جس طرح وہ میرے لیے آراستہ ہو تی ہے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے تمام حقوق اپنی بیوی سے وصول کروں کیونکہ پھر وہ بھی اس بات کی مستحق ہوگی کہ مجھ سے اپنے تمام حقوق وصول کرے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف﴾(البقرة ۲۲۸)
یعنی عورتو ں کے لئے بھی حقو ق ہیں جو کہ مثل ان ہی حقو ق کے ہے جو ان عورتوں پر ہیں قاعدہ (شرعی ) کے موافق۔ “ آپ رضی اللہ عنہ کی مراد ایسی زینت وزیبائش ہے جوگناہ سے خالی ہو ۔ (تعلیق القرطبی فی تفسیر۳۵/ ۸۲)

شوہر بھی اپنی ہیئت کو درست رکھے
مورخین نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک مر تبہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ کر دیا ، جب عدالتِ فاروقی میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ حاضر ہو ئی تو شوہر کی ظاہری حالت اچھی نہ تھی ، پراگندہ بال ، غبار آلو د چہرہ ، ہیئت وشکل نفرت آمیز، عورت نے کہا: اے امیر الموٴمنین!میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، میں اس کی بیوی نہیں، یہ میرا شوہر نہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُس کی گفتگو سے بھانپ گئے کہ عورت کو اپنے شوہر کی ظاہری شکل و صورت سے کراہت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو حکم دیا کہ جاوٴ! خو ب صاف ستھر اہو کر اور آراستہ وپیراستہ ہو کرآوٴ ، چنانچہ وہ گیا، اس نے سر کے بال درست کیے ، ناخن تراشے ، اپنی ہیئت وصورت کو اچھا بنایا ، پھر آپ رضی اللہ عنہ کی خد مت میں حاضر ہو گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا، وہ گیا تو عورت نے اس کو اجنبی سمجھا اور اس سے پہلو تہی کرنے لگی ، پھر جب پہچان ہوئی تو اس کو قبول کر لیا اور اپنے دعویٰ سے رجوع کر لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تم بھی ان عورتوں کے لیے زینت اختیار کرو، کیونکہ خدا کی قسم! وہ بھی چاہتی ہیں کہ تم ان کی خاطر زیبائش کرو، جس طرح تم چاہتے ہوکہ وہ تمہارے لیے زینت وآرائش اختیار کریں۔
معلوم ہوا کہ زیب وزینت شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے۔
اے میری مسلمان بہن !شوہر کے آنے سے پہلے اپنے کپڑوں کو دیکھ لیا کرو، اپنے آپ سے یہ سوال کیا کرو کہ میرا شوہر جب مجھے اس ہیئت وشکل میں دیکھے گاتو خوش ہو گا؟
اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہر عورت اس کا جواب یقینی طور پر جانتی ہے۔ ہر خوبصورت چیز ہر مرد کی فطرت اور سرشت میں رکھی گئی ہے ہاں ! جس کی فطرت ہی بدل چکی ہو اور ہر قبیح چیز کے پیچھے دوڑتاہو، وہ مستثنیٰ ہے۔
جس وقت مرد اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو شان دار اور دِل کش صورت میں دیکھتا ہے تو عورت کو اس کی محبت و میلان کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اس کی تھکان کا اندازہ کر لیتی ہے۔بعض عورتیں اس سلسلہ میں گھر کے کام کاج کا عذر کر تی ہیں کہ کھانا پکا نا ہو تا ہے، کپڑے دھونے ہوتے ہیں اور کئی کام سر پر سوار ہو تے ہیں، لہٰذا ہم کیسے اپنے شوہروں کا استقبال کریں اور ان کو خوش آمد ید کہیں؟
ایسی عورتوں کو چاہیے کہ اپنے تمام کام شوہر کے آنے سے پہلے نمٹادیا کریں ، اگر چہ اس کے لیے مشقت اٹھانا پڑے ، کیونکہ اس کا جو ثمر ہ حاصل ہو تا ہے وہ اس مشقت سے عظیم تر ہے، اس میں قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن جب وہ گھر میں پہنچ کر ایسی کوئی بات ، جس سے اس کا دِل شادو آباد ہو، نہیں پاتا تو بڑی تیزی سے پریشان کن شیطانی وساوس اور خیالات اس کو گھیر لیتے ہیں، فوراً اس کی نگاہ دوسری آوارہ عورتوں کی طرف اٹھنے لگتی ہے اور ان میں حسن و جمال کو تلاش کرتی ہے، اور بیوی اس کی نظر میں اچھی نہیں رہتی ۔
یہ مسکراہٹ بڑی عجیب چیز ہے
اے میری مسلمان بہن!
تیرے لبوں پر مسکراہٹ ہمیشہ کھیلتی رہے ، جب بھی تیرا شوہر تجھے دیکھے تو مسکرا رہی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکراہٹ کی یاد مرد کے ذہن میں ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ یہ مسکراہٹ ایسی عجیب چیز ہے کہ بسا اوقات سارے گھر میں سعادت وخوشیوں کے پھول بکھیر دیتی ہے، یہ ایسی خوبصورت چیز ہے کہ سارے دن کی تھکان اور مشقت کے بعد مرد اسے اپنی بیوی میں دیکھناچاہتا ہے۔
اے میری مسلمان بہن!
یاد رکھیے ! چہرے کے اچھے یا بُرے آثار ونقوش کو لباس اور زیورات سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے، خاوند جب اپنی بیوی کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھتا ہے تو زبان سے زیادہ اس کا گہرا اثر پڑتا ہے، اس کے ذہن میں فوراً یہ خیا ل آتاہے کہ اس کی بیوی اس پُر خلوص مسکراہٹ کے ذریعہ مجھے کہتی ہے کہ میں آپ کے آنے پر بے حد خوشی محسوس کر رہی ہوں ، آپ کے دیدار سے مجھے مسرت و فرحت حاصل ہو رہی ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ اظہارِ تبسم آخرت میں بھی نیکی کا ذریعہ بنے، اس لیے کہ تبسم (مسکرانا ) کو بھی صدقات میں شمار کیا گیا ہے جس کا ثواب تمہارے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر مان عالی شان غور سے سنو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقة
یعنی آپ کا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا بھی آپ کے لیے صدقہ ہے.البخاری :۱۲۸
حکماء نے بھی یہی لکھا ہے کہ عورت اِسی پُر خلوص اور صاف ستھری اور سچی مسکراہٹ کے ذریعہ ہر دل عزیز بن سکتی ہے۔
حضرت عروة بن الز بیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکمت کی باتو ں میں سے یہ بھی مرقوم ہے“ کہ ”اے میرے بیٹے! ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آوٴ اور لوگوں سے اچھی باتیں کرو، لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہو جاوٴ گے اور یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو کوئی عطیہ و ہدیہ دو۔
حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آدمی کے حُسن ِ اخلاق میں سے ہے کہ وہ اپنے صاحب سے مسکراتا ہوا بات کر ے۔
اے میری مسلمان بہن !
تیری زندگی بشاشت سے معمور ہو، تیری خندہ روئی تیرے خاوند کے دِل کو مسرور کر دے اور گھر کے اندر فرحت و سُرور کا سامان پید ا کر دے۔
خوب جان لے کہ اس ابتسام اور بشاشت کا سب سے زیادہ حق دار تیر ا شو ہر ہے۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

شادی کا حقیقی معیا ر

Posted: فروری 6, 2012 by EtoPk in مضامین

شادی کا حقیقی معیا ر
عن أ بی ھر یرة رضی اللہ عنہ أن رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: تنکح المرأة لأربع : لما لھا ولحسبھا ولجمالھا ، ولدینھا ، فا ظفر بذات الدین تر بت یداک ) رواہ البخاری ومسلم(
حضرت ابو ہریر ة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عورت سے چار باتوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے : اس کے مال کی وجہ سے ،اور حسب ونسب کی وجہ سے ،اور خوبصورتی و جما ل کی وجہ سے ، اور دین کی وجہ سے ، اس لئے تم دنیدار عورت کو حاصل کر لو اللہ تمہیں خوش رکھے ۔
عورتوں کے انتخاب کے سلسلہ میں مردوں کا نقطہٴ نظر الگ الگ ہو تا ہے ،اورہر چیز کا کوئی نہ کوئی چا ہنے والا ہو تا ہے اورہر شخص اپنے جیسے کو پسند کر تا ہے ۔ اس کی تمنّا و رغبت کر تا ہے۔
روحیں جمع کئے ہوئے لشکر کی طرح ہیں ،جن کا وہا ں تعارف ہو گیا وہ ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں ،اور جن کا وہا ں تعارف نہیں ہو ا وہ ایک دوسرے سے اختلا ف کر تے اور بد کتے ہیں ، عورت سے محبت اور شادی چارچیزوں میں سے کسی ایک چیز کی وجہ سے کی جاتی ہے جو عزّت وشرافت کی اصل اور بنیا داور کرامت کا نقطہٴ کمال ہیں اور وہ یہ ہیں : مال ودولت ، حسن وجمال ، حسب ونسب، اور دینداری وپر ہیزگاری۔
مال ودولت کی وجہ سے شادی
آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ کسی ایسی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں جو ہر گز ان کی بیوی بننے کے لا ئق نہیں ہو تی ، نہ اس سے خیر وبھلا ئی اور دین وآخرت حاصل کرنے میں کوئی مدد حاصل ہو سکتی ہے بلکہ اس سے شادی صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ مالدار ہوتی ہے، وہ اس مال کی وجہ سے اسی لالچی کمینہ شخص کے نفس کی مالک بن جا تی ہے جو دوسرے کے حق پر ہا تھ ڈالتا اور اس چیز پر اعتماد کر لیتا ہے جو اس کی نہیں ہوتی ، وہ شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر اس نے اس جیسی مالدارلڑکی سے نکاح کرلیا تو ایسی بڑی جائداد اور دولت کا مالک بن جائے گا، جس کے کمانے اور اسے ا کٹھا کر نے کے لئے اسے کسی محنت ومشقّت کی ضرورت نہیں پڑی ، اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے مال ودولت سے یہ مزے اڑائے گا اور جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے گا ، لیکن اس کے بر خلا ف کبھی بیوی کے مال میں سے اسے ایک پیسہ بھی ہاتھ نہیں لگتا، اور اس کی دولت میں سے ایک کوڑی بھی اس کو نہیں ملتی ، بلکہ وہ مالدار لڑکی اس پر اپنا حکم چلا تی ہے، اور اپنے مال ودولت سے اس کو اپنا محکوم بناتی ہے اور اگر اسے کچھ تھوڑا بہت دیتی ہے تو اس پر احسان جتلاتی ہے۔
اگر ایسی مالدار لڑکی اپنے شو ہر سے کبھی کو ئی فرمائش کرے اور وہ اس کی فرمائش پوری نہ کر سکے تو وہ اسے فقروفاقہ کا عار دلاتی اور مفلس وغریب اور تنگ دست ہو نے کا طنعہ دیتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرد اس عورت کو خوش کرنے اور اس کے سامنے اپنی شان ظاہر کرنے کے لئے قر ض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے تاکہ اس کی فرمائش پوری کرکے اسے خوش کردے اور جب وہ مرے تو یہ اس کا وارث بن جائے یا اس سے اولاد ہو جائے جو اس کی میراث کی وارث بن جائے اور اس کے مال ودولت وجائیداد کی مالک ہو جائے ، لیکن ایسے شخص کے لئے ہلاکت ہو اسے کیا پتہ کہ پہلے اس دنیا سے کون رخصت ہو گا ؟ اور دونوں میں سے پہلے کو ن مرے گا ؟ اس جیسی عورت کی بد زبانی ، درشتگی ، بد با طنی اور شوہر کی آمد پر چہرے پر بَل ڈالنا ، اور گھر سے نکلتے وقت ناک بھو ل چڑھانا جیسی تکالیف جو مرد برداشت کرتا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ، ایسی عورت سے اگر مرد کوئی بات کرے تو وہ اس سے کہتی ہے غریب ومسکین بھی ہے اور بدزبان بھی ، اور اگر وہ خاموشی رہے اور صبر سے کا م لے تو اسے ہل جوتنے اور پانی سینچنے والا بیل بنالیتی ہے اور اسے بیک وقت شوہر بھی سمجھتی ہے اور خادم بھی ۔
بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ مرد کے پا س اتنا روپیہ پیسہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اس طرح کی بد زبان مالدار عورت کے ساتھ رہنے اور اس کے ساتھ ذلّت کی زندگی گزارنے سے اسے بچا لے ، اور وہ مرد یہ کر سکتا ہے کہ وہ ایسی عورت سے شادی کرے جو اس کی آمد پر اسے خوش کر دے اور جب یہ اسے دیکھے تو وہ اپنے اخلا ق وخوش منظر سے اس کا دل موہ لے ، لیکن یہ شخص غریب لڑکی سے شادی کرنا پسند نہیں کرتا ، اسے شان کے خلاف سمجھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے اس کی توہین ہو گی ، اور اس با ت سے بچتا ہے کہ کوئی اسے بخیل نہ کہہ دے اور اسے غریبوں کیسا تھ رشتہ داری وشادی کرنے کا طعنہ نہ دے حقیقت یہ ہے کہ کتنی ہی ایسی غریب لڑکیا ں ہیں جو مال ودولت سے بالکل خالی ہا تھ تھیں ان سے شادی کی گئی اور ان کے طفیل مرد خوشحا ل ومالدار ہوگیا اور اس کے لئے رزقِ حلال اور آمدنی کے دروازے کھل گئے۔
یاد رکھےئے انسان کے لئے ہر طرح کی چیز آسان ہوتی ہے ، اور ہرمصیبت برداشت ہوجا تی ہے سوائے اس مصیبت کے جو اس عورت کی شکل میں پیش آئے جو اپنے مال و دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو شوہر سے بڑا سمجھتی ہو، اور اس عورت سے جوتکلیف بھی اس مرد کو پہو نچے وہ کم ہے خواہ وہ اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں نہ مارے اور اس کی آنکھ میں دھول اور گرم ریت کیوں نہ جھونک دے ، شاعر نے کیا خوب کہا ہے #

وماالمال الا فتنتہ لذوی الغنی
فکیف بمحتاج الی الما ل محروم
مال تو مالداروں کے لئے بھی فتنہ و آزمائش ہے
تو پھر بھلا ایسے شخص کے لئے فتنہ کیوں نہ ہو گا جو محروم اور محتاج ہو

حسن وجمال کی وجہ سے شادی
خوبصورت اور حسین وجمیل عورت اپنے آپ کو یہ سمجھتی ہے کہ گویا وہ سورج کا ٹکڑا ہے یا اسے چاند سے پگھلا کر بنا یا گیا ہے ، وہ مردوں پر اپنی مر ضی ٹھو نسنا چاہتی ہے اور شادی کے پیغا م دینے والوں کے منہ کو اپنی جوتی بناتی ہے، اور اپنے اوپر فریفتہ ہونے والے کا مذاق اڑاتی ہے ، اور عابد وزاہد کو یہ کہنے والا بنا دیتی ہے #
مالی فتنت بلحظک الفتاک
مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہا ری قتل کر نیوالی آنکھوں کے دام میں پھنس گیا ہوں
یسراک قد ملکت زمام صبابتی
تمہارا بایاں ہاتھ میرے عشق کی لگام کا مالک ہے
ایسی عورت اگر کسی سے شادی کر لے تو حاکمِ مطلق اور اپنا حکم چلانے والی بن کر رہتی ہے ،یہ کہتی ہے کہ میں یہ چیز چاہتی ہو ں ، اور یہ چیز نہیں چاہتی ، اور اس کا بیوقوف شو ہر یہ کہتا ہے کہ جناب آپ تو ہماری سر دار اور مالکہ و ملکہ ہیں ہم سب کے سب آپ کے غلام ہیں ،وہ اگر ہنس دے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ جنّت کے داروغہ رضوان نے جنّت میں اس کے داخلہ کے لئے جنّت کا دروازہ کھول دیا ہے، اور اگر وہ ناراض ہو جائے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی کسی غلطی یا زیادتی کی وجہ سے سورج کوگر ہن ہو گیا ہے ، حالانکہ بے وقوف یہ نہیں سمجھتا کہ سورج و چاند کو گرہن اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں ۔
وہ حسین وجمیل عورت اپنے حسن و جمال کے نشہ میں اس کے ساتھ نازو نخرے سے پیش آتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو وہ نعمتِ عظیمہ عطا کردی جس کے آپ مستحق نہ تھے تم جیسے مرد تو بہت مل جاتے ہیں لیکن مجھ جیسی عورتیں کم ملتی ہیں ، لہٰذا اس مرد سے نہ عورت کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور نہ اس کا نفس اس پر قناعت کر تا ہے ، بلکہ وہ دُوسرے مرد کی تلاش میں رہتی ہے اور اپنے آپ کودوسروں کے سامنے پیش کرتی ہے ، اور اگر اس میں دین نہ ہو تو پھر تو وہ آگ کو دہکانے والی اور آگ کاتنور اور فتنہ کی بانسری اور ستار بنتی ہے ، ہر دروازے سے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور ہر کھڑکی سے جھانکتی ہے اورہر آنے جانے والے کے سامنے اپنا چہرہ کھول دیتی ہے، اور اسے اس بات سے خوشی ہوتی ہے کہ بے وقوف و چھچورے لڑکے اس کے لئے یہ شعر پڑھیں #
لقد ظھرت حوریة فی جمالھا
حور اپنی پوری خوبصورتی اور حسُن و جمال کے
وفی حسنھا لکن من اللٴو لٴو الرطب)
ساتھ سامنے آگئی ہے لیکن یہ حور آبدار مو تی سے بنی ہے اور ہلاکت وتباہی ہو اس جیسی عورت کے شوہر کے لئے اگر وہ بد صورت ‘ غریب و مسکین ہو‘یا ایسا کمزور ہو جس سے کوئی ڈرتا نہ ہو‘ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہو کہ اس بارے میں کیا کہا جا رہا ہے،اور اسے اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں کہ اس کی بیوی اس سے راضی اور اس پرصابر وقانع رہے خواہ کتنی ہی بری حرکات ، گندی باتوں اور بڑے سے بڑے گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔
یہ بات سن کراس کے جذبات میں کوئی تلاطم نہیں آتا اور وہ کسی چیز سے متاثرنہیں ہوتا، بلکہ اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس پر اللہ کی حمدوثناء بیان کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اسے دنیا کی تمام اچھائیا ں دی گئی ہیں، اس لئے اس کی عزت وآبرو اس عورت کے لئے مباح رہے ، اور اس کا مال اس پر فداء ہے، اور اس کے پاس جو بھی چیز ہے خواہ وہ سستی ہو یا مہنگی وہ سب اس عورت کی ہے ،اوراس عورت کا اس پر اس کے شوہر پر اس کے ماں باپ اور اس کے خاندان سے زیاد ہ حق ہے جس میں یہ رہتا بستا ہے ،اوراگر وہ عورت اسے کسی بات کا حکم دے یا اس کی طاقت سے باہر چیز کا مطالبہ کر ے تو اس سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ یوں گویا ہو۔
تہ دلا لاً فا نت اھل لذاک
تم نازو نخرے میں جو سر کشی چاہو کر دکھاؤ
وتحکم فالحسن قدآعطاکا
اور جیساچا ہوحکم چلاؤ اس لیے کہ حسن نے تمہیں یہ حق دیا ہے
حسب ونسب کی وجہ سے شادی
حسب ونسب کی مالک لڑکی اپنے آباؤ اجداد پر فخر اور اپنی قوم وخاندان پرناز کرتی ہے وہ اس شخص کی تحقیر کر تی ہے جو اس کا ہم پلّہ نہ ہو ،اور جو اس کے برابر کا نہ ہو ا س پر اپنی شان جتلاتی ہے،اور سب سے معمولی بات اس سے یہ سنی جائیگی وہ بات بات پر اپنی بڑائی جتائے گی اور یہ کہے گی کہ میرے باپ نے یہ کارنامہ انجام دیا اور میرے دادا نے یہ کیا ،اور فلاں شخص نے مجھے پیغامِ نکاح بھیجا تھا اسے واپس کر دیا ،اورکتنے ہی حکم ،بادشاہ ،عالم تاجراور بڑے بڑے شیخ مجھ سے شادی کے خواہشمند تھے لیکن میرے والد نے قبول نہیں کیا لیکن کیا کریں جو قسمت میں لکھا تھا وہ ہو گیا ، وہ اگر اپنے شوہر سے خوش ہوگی تو اپنے گھر والوں کا ذکر نہیں کرے گی اور جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تم کس سے تعلق رکھتی ہو؟تو وہ کہے گی میں اپنے شوہر کے خاندان سے ہوں ،لیکن جب وہ ناراض ہوجائے تو کہے گی ۔
وما ھند الا مھرہ عربیتہ
ہندتو عربی النسل گھو ڑی ہے
سلالتہ افراس تحللھا بغل
اصلی گھوڑوں کی ذات سے ہے جس پر خچرنے چڑھائی کردی ہے
فان ولدت فحلا فن طیب اصلھا
لہذااگر اس سے گھوڑا پیدا ہو تو یہ اس کی اصل کی اچھائی کی وجہ سے ہے
وان ولدت بغلا فمن ذلک البغل
اور اگر وہ خچر جنے گی تو یہ خچر اس جفتی کرنے والے خچر کا اثر ہے
ایسی حسب ونسب والی عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے تو اپنے آپ کو قیدی سمجھتی ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر وہ سمندر کی طر ح ہوتا ہے اور کشتی کی طرح۔

دینداری کی وجہ سے شادی
دیندار لڑکی ہی نیک صالح بیوی بنتی ہے ،اور ایسی لڑکی کا ملنا ہی نفع بخش سودا ہے، اور جب آپ نے یہ جان لیا کہ نکاح و شادی مستحب ہے اور اس کی رغبت دلائی گئی ہے، اور وہ مطلوب چیز ہے توآ پ کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ خوش بختی ، سعادت اور مقصدو مطلوب اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دیندار ، پاکباز ،باحیاء لڑکی سے شادی نہ کی جائے ، جو اپنے حق کو پہچانتی ہو اورشوہر سے عمدگی سے اس کا مطالبہ کرے ، اپنے حق سے نہ تجاوز کرے اور نہ حد سے آگے بڑھے ، بلکہ اگر کبھی شوہر اس کے حقوق کی ادائیگی میں تقصیر و کو تاہی بھی کرے تو یہ چشم پوشی کرے اور شوہر کی لغزشوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کرے ، اور ہر بات پر اس کا محاسبہ نہ کرے ، شوہر کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں پہچانے ، وہ جب آئے توکوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اسے دکھ ہو، وہ جب موجود نہ ہو تواس کے حق کے سلسلے میں کسی قسم کی خیانت نہ کرے ، اسے زندگی میں بھی شوہر کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر رہنا چاہیے اور مرنے کے بعد بھی ،اس کے گھر کو ٹھیک ٹھاک ترتیب سے رکھے ،اس کے کپڑے دھوئے،کھانا پکائے، اور اپنے جسم کی ایسی دیکھ بھال رکھے جس سے وہ اپنے دائرے سے خارج نہ ہو ،اور ایسا رکھ رکھاؤ اور اپنے سنگھار کا خیال کرے جو شرعاً ناجائزاور قوم وملک کی عادت کے خلاف نہ ہو،شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے ،اور بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال میں تقصیر و کوتاہی نہ کرے ،اسے شفیق ماں ، نیک صالح بیوی ،حکیم و مدبراستاذااور ایسا نگہبان بن کر رہنا چاہیے جودیکھ بھال کے اپنے فریضہ کوصحیح صحیح ادا کر سکے۔
اور اس کے سوا وہ اور کون سی بیوی ہو سکتی ہے جس کے حاصل کرنے اور جس پر خوش و مطمئن ہونے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں ،اور اگر اسکے علاوہ کسی اور قسم کی بیوی کوئی چاہتا ہے تو آپ اس کو بد عادے رہے ہیں؟ یہ وہی نیک دیندار نیک صالح بیوی ہے ، ایسی بیوی سے جو شخص اعراض کرے اور ایسی بیوی کو بیوی بناناپسندنہ کرے اور اسے اپنے لائق نہ سمجھے تو ایسے شخص میں اللہ تعالیٰ قطعاً برکت نہ دے ،وہ شخص جسے اپنی بیوی کا فتنہ انگیز حسن و جمال ہی مقصود ہو اور اپنے سالے اور سُسر کی حسب ونسب ہی مطلوب ہو،اور اس کا مطمع نظر بیوی کا مال ودولت ہو جو اس پر شیطان کوغالب کرانے کا ذریعہ بنے،کتنی ہی ایسی حسین و جمیل خو برو لڑکیاں ہیں جو اپنے اور اپنے شوہر اور خا ندان والوں کے لیے اپنے حسن وجمال کی وجہ سے بڑی بڑی آزما ئشوں اور عظیم فتنوں اور شرکاذریعہ بنی ہیں اور کتنی ہی ایسی اعلیٰ نسب کی لڑکیاں ہیں جو نسب وفخرکی وجہ سے متکبر نہیں ،اور انہوں نے اپنے ایسے شوہر کی تحقیر کی جس جیسا شوہرممکن ہے کہ انہیں بعد میں نہ ملے ، اگر وہ شوہر ناراض ہو جائے اور اس سے تنگدل ہو کر غصّے میں انجام سے بے خبرو بے فکر ہو کر اسے تین طلاقیں دیدے تو اسے اس جیسا شوہر نہ ملے۔
دین ِاسلام انسان کو ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ بد شکل وبد صورت گری پڑی فقیر و مسکین عورت سے شادی کرے بلکہ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ اصل مداردین کو بنائے ،اور ساتھ ہی ساتھ لڑکی خاندانی بھی ہواور حسن وجمال سے بھی آراستہ ہو، اسلام تو ایسی غیر شادی شدہ لڑکی سے شادی کی ترغیب دیتا ہے جو خوب بچے دینے والی بھی ہو اور بے پناہ محبت کرنے والی ہواس لیے کہ عورت شوہر کی محبوبہ بنتی ہے ا ور اس کی نگاہ کو نا محرموں سے بچانے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے اور پر آگندہ خیال سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے ایک شادی شدہ عورت سے نکا ح کیا تھا فرمایا :تم نے ایسی غیر شادی لڑکی سے شادی کیوں نہ کی جو تم سے دل لگی کرتی اور تم اس سے دل بہلاتے،اور تم اس سے ہنسی مذاق کرتے اور وہ تم سے ہنسی مذاق کرتی ، نیز آپ نے فرمایا : اپنے نطفہ کے لیے اچھی عورتوں کا انتخاب کرو ، اوراپنے نطفہ کو اپنی ہم پلہ عورتوں کے رحم ہی میں رکھو ، اس لیے کہ رگ کہیں نہ کہیں ضرور اثر دکھاتی ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تین چیزیں سعادت و نیک بختی کا ذریعہ ہیں،ایسی بیو ی جسے تم دیکھو تو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور جب تم اس کے پاس موجود نہ ہو تو تم اسے اس کی نفس اور اپنے مال کے بارے میں امین سمجھو ، اور ایسا فرمانبردار و تیز رفتار جانور جو تمہیں تمہا رے ساتھیوں تک پہو نچادے اور وسیع و کشادہ گھر جس میں ضروریات وافر مقدار میں موجود ہوں ،اور تین چیزیں بد بختی و پریشانی کا سبب بنتی ہیں:ایسی بیوی جسے دیکھ کرانسان کادل دکھے،اور وہ ا س کے ساتھ بدزبانی کرے،اوراگروہ اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس کے نفس اور اپنے مال کے بارے میں تمہیں اس پر اطمینان نہ ہو ،اور جانور جو سُست رفتار ہو اگر تم اسے مارو تو وہ (اڑیل بن کر) تمہیں تھکادے ،اور اگر تم اسے اس کی حالت پر چھوڑ دو تو تم اپنے ساتھیوں تک نہ پہونچ سکو ، اور وہ مکان جو تنگ وتاریک ہو ضروریات اس سے پوری نہ ہوتی ہوں۔
برادر متحرم ! آپ اپنے منہ سے ایسی بات ہر گز نہ نکا لیں جیسی بات بعض لوگ اپنے منہ سے اس وقت نکال دیتے ہیں جب ان سے یہ کہا جائے کہ فلاں لڑکی بہت دیندار پاکباز ،حسب نسب والی ہے اور اللہ نے اسے حسن وجمال عطا کیا ہے ، تو یہ سن کربعض بے وقوف لوگ یہ کہتے ہیں : مجھے قاضی یا مسجد کے امام کی ضرورت تھوڑی ہے، مجھے ایسی سیدھی سادھی پر دہ نشین لڑکی نہیں چاہیے جسے دنیا کی کسی چیز کی خبر ہی نہ ہوجو اپنی ہم عمر لڑکیوں کا مقابلہ نہ کر سکے ، میں تو ایسی حسین وجمیل شوخ وچنچل لڑکی چاہتا ہوں جو بے باک ہو، بے پردہ ہو ،چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ،مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ،ایسی بات قطعًا نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ حضر ت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی عودت سے محض اس کی دنیا وی وجا ہت اور عزّت کی وجہ سے شادی کرے گا تواللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ ذلیل کردیگا، اور جو شخص کسی عورت کی مالداری کی وجہ سے اس سے شادی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے فقروفاقہ کو اور بڑھادے گا ،اور جو شخص حسب نسب کی وجہ سے شادی کرے گااللہ تعالیٰ اس کو اور گٹھیا اور معمولی کر دے گا، اور جوشخص کسی عورت سے صرف اس لیے شادی کرتا ہے تاکہ ا سکی نگاہ حرام جگہ دیکھنے سے محفوظ رہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہو یا صلہ رحمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس عورت میں برکت عطا کر دیتے ہیں اور اس کے لیے اس مرد میں برکت دے دیتے ہیں۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

تر غیب نکاح کے ساتھ وعدہ غنا

Posted: فروری 4, 2012 by EtoPk in مضامین

تر غیب نکاح کے ساتھ وعدہ غنا
فقہائے اسلام کا یہ اتفاقی مسئلہ ہے ، مسئلہ کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ معاشی خطرات کو خواہ مخواہ محسوس کر کے نکاح سے جو کترانا چاہتے تھے ‘ قرآن میں انہی کو حکم دیا گیا ہے کہ:
ان یکونوافقراء یعنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم۔(نور۔۴(
اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کردے گا‘ اور اللہ کشائش والا ہے۔
معاشی مسائل کے متعلق صرف عقلی مشوروں پر جینے والے جن اوہام اور وساوس میں تہ وبالا ہو تے رہتے ہیں‘ وہی اکثر سوچتے ہیں کہ ”شادی کیسے کریں“؟افلاس نے گھر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے‘بیوی اور پھر بال بچوں کی خوراک و پوشاک کا کیا نظم ہو گا؟
اس قسم کی تنگ خیالیوں کے معاملے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے دلاسا اور تسلی دی گئی ہے کہ ا س مسئلہ کو اتنا پریشان کن نہ بناؤ ‘رزق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہے ‘ بار بار قرآن میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ:
ویرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق(نحن نر ز قکم وایاھم۔)(الانعام)
اور وہ اس کو رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو خیال بھی نہیں گزرتا ہم تم کو اور ان کو رزق دیں گے۔
مطلب یہی ہے کہ حال پر مستقبل کو قیاس نہ کر نا چاہیے۔ ” الرزاق ذو القوة المتین “پر اعتماد کرکے چاہیے کہ نکاح کا زمانہ جب آجا ئے تو آدمی نکاح کرے، اور اس مسئلہ کو اللہ کے سپرد کر دے،بیو ی اورپھر بال بچوں کے نان نفقہ کا سامان من جانب اللہ ہو گا، ممکن ہے بیوی کی شر کت سے خیر و برکت بڑھ جائے بیوی کا خاندان امداد کر ے، یا کسی جائز ذریعہ معاش کابندوبست کردے ، خو د شادی کر نے والے میں شادی کے بعد مستعد ی اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، کبھی خود بیوی ہاتھ بٹا تی ہے اور کبھی اس طرح کا کوئی دوسرا سامان فر اہم ہو جاتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تاثر  قرآن پاک کی اس آیت (ان یکونوافقراء یغنیھماللہ من فضلہ)کوپڑھ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نکاح کی رغبت دلاتا ہے‘اور اس شخص کو شادی کا حکم دیتا ہے جس میں شادی کی صلاحیت پائی جائے اور ساتھ ہی غنا کا وعدہ فرماتاہے۔ (تفسیرابن کثیر۳ص۲۸۶)
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حکم فرمایا ہے اس پر عمل کرو اور رب العزت کی اسکے اس امر میں اطاعت کرو‘ اس سلسلہ میں اس نے تم سے جو کچھ وعدہ فرمایا ہے‘ پورا کرے گا۔(ایضا)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شادی کے ذریعہ غنا تلاش کرو ‘اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
التمسواالغنی فی النکا ح۔(ابن کثیر ج ۳ص۲۸۶)
غنا نکاح میں تلاش کرو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، عورتوں سے شادی کرو، تمہارے یہاں مال اور دولت لانے کا ذریعہ ثابت ہو ں گی یعنی اللہ تعالیٰ اس کی آمد کی وجہ سے روزی میں بر کت دے گا ۔ (جمع الفو ائد جلد اول ص ۲۱۶)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکر صلی اللہ و آلہوسلم فر ما تے ہیں : جو شخص اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرکے شادی کرے اور دل میں اس کی خو شنو دی کا جذبہ رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس شخص کی مدد کرے اور اس کو بر کت عطا کر ے ۔ ( مع الفوائد کتاب النکاح )
حالت فقر میں اجا زت نکاح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہوسلم سے ایک شخض نے فقر کا شکو ہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے اس کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا ( بیان ا لقر ان ج ہفتم ص۱۷)
ماحصل یہ ہے کہ فوری فقر اور تنگ دستی کا خود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے بالکل خیال نہیں فرمایا اور نہ اس کی وجہ سے کسی کو نکاح کی اجازت دینے میں پس وپیش فرمایا ، حد یث کی کتابوں میں واقعات مذکور ہیں کہ آپ نے فوری فقر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شادی کا حکم دیا ، کسی صحابی کی تعلیم قرآن پر شادی کردی جس کے پاس اس کے سوا کو ئی دولت نہ تھی ۔ کوئی خدمت نبوی میں آیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی اور اس کے پاس ا زار (لنگی )کے سوا کچھ نہ تھا ، آپ نے اسے شادی کی اجازت دے دی ،کسی نے اپنی بیوی کو صرف جو تی دی اور آپ نے شادی کی اجازت مرحمت فر مادی ، حد یہ ہے کہ ایک لپ ستواور کھجور پر شادی کی اجازت دی ۔
ان حدیثو ں کو پیش کرکے کہنا ہے کہ عہد نبوی میں خودذات برکت سراپا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کے سامنے اس طرح کے واقعات پیش آئے جو بتا تے ہیں کہ تنگ دستی اور فقر وفاقہ کے اس عالم میں شادی کی اور کرائی اور اللہ تعالیٰ نے خیر و برکت دی اور رزق کا سامان فرمایا۔
اسلام نے شادی کو اتنی اہمیت کیوں دی ؟ اور پیغمر اسلام نے لوگوں کی شادی ایسی تنگدستی میں کیوں کرائی ؟ سو چاجائے تو یہی معلوم ہو گا کہ سارا ہتمام اس لیے عمل میں آیا کہ عفت وعصمت کی پاکیزہ زندگی میسرّ آئے اور اس طر ح جائز طور پر بچے پیدا ہوں جس سے پاکبازی پھیلے اور پھر دنیا میں اخلاق اور عزت و آبرو کی مٹی پلیدنہ ہو سکے۔
(شادی کا شرعی معیار،مولانا روح اللہ)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

شادی سے شادیوں تک

Posted: فروری 4, 2012 by EtoPk in مضامین

دوامریکی خواتین کی عجیب کتاب
(شادی سے شادیوں تک)