اکتوبر, 2012 کے لیے آرکائیو


ہر کا م کو اپنے وقت پر سمیٹنے کی عاد ت ڈال لیجئے ۔ آ ج کا کا م کل پر نہ چھو ڑ یے کہ یہ بھی کل کر لو ں گی ، یہ بھی کل کر لو ں گی ۔ کل کل کر تے اتنے کام جمع ہو جا تے ہیں کہ پھر انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں کر پا تا ۔ سیدہ فا طمة الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی زند گی کو دیکھئے وہ اپنا کا م خود سمیٹتی تھیں ۔ حتیٰ کی حد یث پا ک میں آیا ہے کہ ان کے ہا تھوں کے اند ر گٹے پڑ گئے تھے ۔ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کا م خود کر تی تھیں ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کام خود کر تی تھیں ۔ جس طرح مر د مصلے پر بیٹھ کر عباد ت کر ے تو آپ سمجھتی ہیں کہ اس کو اجر مل رہا ہے ، اس سے زیادہ آپ کو اجر اس وقت ملتا ہے جب آپ گھر کے کام کاج کو سمیٹ رہی ہو تی ہیں ۔
با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ نے ایک نو جوان کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں نوافل میں مصروف رہتا ۔ انہوں نے پو چھا ، تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میرا بڑا بھا ئی ہے ، اس نے میرے کا روبار کو سنبھا ل لیا ہے اور میری روزی کا ذمہ لے لیا ہے ، مجھے عبا دت کے لئے فا رغ کر دیا ہے ۔ با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے ، تیرا بھا ئی بڑا عقلمند ہے تیری سا ری عبا دت کا اجر تیرے بھا ئی کو بھی ملے گا اور تیرا بھا ئی تجھ سے افضل کا م میں لگا ہو ا ہے ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مصلے پہ ہی فقط عبا دت نہیں ہو تی بلکہ عورت جو گھر کے کام کاج کر رہی ہو تی ہے سب کچھ اس کا عبا دت میں لکھا جا تا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کا م کو عورتیں عباد ت سمجھ کر نہیں مصیبت سمجھ کر کر تی ہیں ۔ چنا نچہ ان کی ہر وقت یہ خو اہش ہوتی ہے کوئی کام کر نے والی مل جا ئے کہ میں صرف بتا ؤ ں اور وہ آگے کا م کر ے ۔ اب بتا کے کام کر والیا تو جو جسم نے کا م کر نے کی مشقت اٹھا نی تھیں اور اس پر آپ کے نامہ اعمال میں اجر لکھا جا نا تھا وہ اجر تو نہیں لکھا جا ئے گا ۔ آپ کے درجے پھر کیسے اللہ کے ہاں بڑ ھیں گے ۔ اس لئے گھر کے کام میں پسینہ بہانا ، مشقت اٹھا نا ایسا ہی ہے کہ جیسے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کی عبا دت کا اجر پا نا ۔ اس لئے عورت گھر کے کاموں کو خوشی سے قبول کر ے اور اپنے دل میں یہ سو چے کہ ان کا موں کی وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہو گا ۔ چنا نچہ ایک حد یث پا ک میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک عو رت وہ ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں مصروف ہو اور اس کے ہا تھ کام کاج میں مصروف ہوں ۔جب نبی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کام کاج کو خود کر نے کی عادت ڈالنی چا ہیے ۔ اس کے دو فا ئدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کا م سمٹیں گے اورا جر ملے گا اور دوسری با ت کہ اپنی صحت بھی ٹھیک رہے گی ۔ چو نکہ آج گھر کے کام کاج کر نے کی عادت نہیں اس لئے لڑکپن کی عمر ہو تی ہے اور بیما ریو ں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے میرے سر میں درد ہے ، ذرا سا بس کوئی با ت سو چتی ہو ں تو سر میں درد ہو جا تی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے ، مجھے کمر میں شروع ہو گئی ہے ۔ کسی کو آنکھوں میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سار ی مصیبتیں ہا تھ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے ہیں ۔
سیدہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک چکی تھی اور وہ چکی کے اوپر گندم خود پیستی تھیں جس سے رو ٹی بنا ئی جا تی تھی ۔ سو چنے کی بات ہے اگر ام الموٴ منین اپنے ہا تھوں سے چکی خود پیستی تھیں تو پھر آج کی عورت اپنے گھر کا کا م خود کیو ں نہیں کر تی ۔ جب گھر کا کا م نہیں کر یں گی تو پھر کہیں گی کہ جی اب ہمیں فلاں کلب میں جا نے کی ضرورت ہے ، چر بی چڑھ رہی ہے ۔ پھر ہمیں ٹر یڈ مل لا کر دیں تا کہ ہم اس پر چلا کر یں ۔ کیا ضرورت ہے ان کی ، گھر کے کام کاج میں ایک تو اجر ملے دوسرا خاوند کا دل جیت لو گی اور پھر تیسرا یہ کہ خود بخود آپ کے جسم کی شو گر توانا ئی میں بدل جا ئے گی اور آپ کی صحت بھی درست رہے گی ۔ تو گھر کے کام کاج کو اپنی عزت سمجھیں اور اپنا فرض منصبی سمجھیں ۔ اور اس کو سمجھیں کہ میں مصلے پہ بیٹھ کر جو عبا دت کر وں گی اس سے زیادہ گھر کے کا م کاج کر نے سے مجھے اللہ کا قرب نصیب ہو گا ۔ 

جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔
(۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …
(
۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…
(
۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

اپنے میا ں کو اللہ کے راستے میں خر چ کر نے کے لئے کہتی رہا کریں ۔ اس لئے کہ صد قہ بلا ؤ ں کو ٹا لتا ہے ۔ صد قے سے رزق میں بر کت ہو تی ہے ۔ حدیث پا ک میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے قسم کھا کر فر ما یا کہ صد قہ دینے سے انسا ن کے ما ل میں کمی نہیں ہو تی ۔ اب بتا ئیے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ویسے ہی کہہ دیتے تو کا فی تھا ۔ لیکن اللہ صادق و امین محبوب نے قسم کھا کر فرمایا کہ صدقہ دینے سے انسان کے مال کے اندر کمی نہیں آ تی ۔ اس لئے اپنے خا وند کو اس صد قہ کے با رے میں وقتاً فو قتاًکہتی رہیں ۔ کبھی پر یشان حال ہو تو مشورہ دیں کہ کچھ صد قہ اللہ کے راستے میں خر چ کر دیں ۔ صد قے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ جو کچھ ہے سا را کچھ دے کے فا رغ ہو جا ؤ ۔ بلکہ آپ نے اگر پیسہ بھی خرچ کیا تو اللہ کے ہاں وہ بھی صد قے میں شمار کر لیا جا ئے گا ۔
خو د بھی اللہ کے راستے میں خاوند کی اجا زت سے دینے کی عا دت ڈالیں ۔ اپنے بچوں کے ہا تھوں سے بھی دلوا یا کر یں ۔ کو ئی غر یب عورت آجائے ، پیسے دینا چا ہتی ہیں تو اپنی بیٹی کے ہا تھ پہ رکھ کر کہا کر یں کہ بیٹی جا ؤ دے کے آؤ تا کہ بچی کو سبق مل جا ئے کہ میں نے بھی اللہ کے راستے میں خر چ کر نا ہے ۔ یقین کر یں کہ جتنا ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے با لمقابل اللہ کے راستے میں ہم بہت کم خرچ کر تے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ۔
﴿ و فی امو الھم حق معلوم للسئا ئل والمحروم ﴾ ( المعارج : ۲۵)
” اور وہ جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے سا ئلوں اور مسکینوں کے لئے “
سخا وت کی قدر
یہ دل کی سخا وت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ نبی علیہ السلام کے پا س حا تم طائی کی بیٹی گر فتا ر ہو کر آئی تو اللہ کے محبوب کو بتا یا گیا ۔ اس کا والد بڑا سخی تھا ۔ اس با ت کو سن کر اللہ کے نبی نے اس بچی کو آزاد کر دیا ۔ کہنے لگی ، میں اکیلی کیسے جا ؤں ۔ چنا نچہ آپ نے دو صحا بہ کو اس کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کو بحفا ظت واپس گھر پہنچا ئیں ۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے اکیلی جا تے شر م آ تی ہے ۔ میں آزاد ہو گئی جب کہ میرے قبیلے کے سارے لو گ یہاں قید ہیں ۔ نبی علیہ السلام نے بچی کی بات پر قبیلے کے سارے لوگوں کو معاف فرما دیا ۔ سخا وت اللہ تعالیٰ کو اور اللہ کے محبوب کو اتنی پسند ہے۔ 

یوں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کے بے شمار غلط سلط طریقے رائج ہیں اور نئے نئے غلط طریقے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ غلط، ناجائز اور خلاف شرع طریقہ اور بے شمار آفات و مصائب سے بھرا ہو اوہ طریقہ ہے جو ہمارے یہاں بکثرت رائج ہے، اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ طریقہ سوفیصد رائج ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو، اور پھر اپنی جہالت سے اسی کو طلاق دینے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے، اس طریقہ سے ہٹ کر طلاق دینے کو طلاق دینا سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ نامراد طریقہ ایک دم تین طلاق دینے کا ہے۔ اسی بناء پر ہر خاص و عام، جاہل، پڑھا لکھا، امیر، غریب، غصہ میں یا غور و فکر کے بعد، زبانی یا تحریری جب طلاق دیں گے دفعتاً تین طلاقیں دیں گے، اس سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے، بلکہ اتفاق سے شوہر اگر ایک یا دو طلاقیں دینے پر اکتفا کر بھی لے تو اس کو تیسری طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھمکی دے کر یا کسی طرح مزید غصہ دلا کر تیسری طلاق بھی اسی وقت دلوائی جاتی ہے، اور جب تک خاوند تین طلاقیں نہ دے دے، نہ خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، نہ بیوی کا، نہ دیگر اہل خانہ کا اور نہ دیگر اقرباء کا، اور اس سے پہلے نہ بچوں کی بربادی کا خیال آتا ہے، نہ گھر اجڑنے کا، نہ دو خاندانوں میں عداوت و دشمنی کا، کوئی بھی اس وقت ہوش سے کام نہیں لیتا، اور جب خاوند بیوی کو طلاق کی تینوں گولیاں مار دیتا ہے تو سب کو سکون ہوجاتا ہے اور ہوش آجاتا ہے۔
پھر جب چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے اور ان کے کھوئے کھوئے معصوم چہرے سامنے آتے ہیں اور گھر اجڑتا نظر آتا ہے تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں اور ہر ایک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں اور معافی و شافی کرکے بہت جلد صلح و آشتی پر تیارہوجاتے ہیں، مگر سر سے پانی پھر جانے کے بعد یہ پشیمانی اور صلح و آشتی کچھ کام نہیں آتی اور نہ رونے دھونے سے کچھ کام چلتا ہے، تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی خاوندپر حرام ہوجاتی ہے۔ جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا اور حلالہ کے بغیر باہم دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،اور طلاق دینے میں ناجائز طریقہ اختیار کرنے کا گناہ عظیم علیٰحدہ ہوا، پھر اگرناحق طلاق دی ہو تو ناحق طلاق دینا ظلم ہے جو خود گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے۔
اس کے بعد علماء کرام اور مفتیان عظام کے دروازوں کو دستک دی جاتی ہے اور بڑی عاجزی کے ساتھ اپنی درد بھری داستان سنائی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی بربادی کا ذکر ہوتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہائے جاتے ہیں اور درخواست کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گنجائش نکال کر ان کے گھر کو تباہی سے بچایا جائے، کوئی کفارہ بتلایا جائے جس سے دی ہوئی تین طلاقیں کالعدم ہوجائیں او رہم دوبارہ میاں بیوی بن جائیں۔ مگر اب میاں بیوی کہاں بن سکتے ہیں، دوبارہ میاں بیوی بننے کے جتنے راستے اور جو جو گنجائشیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھی تھیں وہ سب اپنی نادانی سے یک لخت ختم کردیں۔ اس وقت لے دے کر صرف یہ طریقہ رہ جاتا ہے کہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر نکاح کے بعد یہ دوسرا شخص مطلقہ سے باقاعدہ جماع (ہمبستری) کرے اور جماع کے بعد اپنی خوشی سے اس کو طلاق دے اور پھر مطلقہ اس دوسرے شوہر کی بھی عدت طلاق گزارے، تب کہیں جاکر وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اس سے نکاح کرسکتی ہے، مگر مطلقہ کا نکاح ثانی کرتے وقت یہ شرط لگانا کہ دوسرا شوہر نکاح کے بعد اس کو ضرور ہی طلاق دے، خود موجب لعنت ہے۔حدیث پاک میں ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت آئی ہے۔
اور بعض دفعہ شوہر ثانی بغیر جماع کئے طلاق دے دیتا ہے، بلکہ اسی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تو مطلقہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی، کیونکہ پہلے شوہر پر حلال ہونے کے لئے دوسرے شوہر کا وطی (ہمبستری) کرنا شرط ہے، پھر یہ طریقہ بھی کوئی شخص اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہی کرسکتا ہے یا بہت ہی سخت مجبوری میں اس کو گوارا کرسکتا ہے۔ سلیم الطبع اور غیرت مند آدمی اس کو نہیں اپنا سکتا۔ اور بعض لوگ دوسرے طریقوں سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے یہ دوسرے طریقے بہت ہی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ مذکورہ طریقے میں صحیح طرز پر عمل کرنے سے مطلقہ بہرحال پہلے خاوند کے لئے حلال تو ہوجاتی ہے مگر دوسری صورت اختیار کرنے سے مطلقہ پہلے خاوند پر حلال ہی نہیں ہوتی، بدستور حرام رہتی ہے۔
رجوع کی ناجائز شکلیں
چنانچہ بعض جگہ تمام احکام کو پس پشت ڈال کر عذاب قبر، عذاب آخرت اور قہر خداوندی سے بے خوف ہوکر صراحةً تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر کسی حلالہ او رنکاح کے میاں بیوی میں رجوع کرادیا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے یا دیگر اہل محلہ یہ کہہ کر ان کی تسلی کردیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی، یا گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ،یا بالکل تنہائی میں طلاق نہیں ہوتی، یا دل میں طلاق دینے کاارادہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، یا بیوی کو طلاق کا علم نہ ہو توطلاق نہیں ہوتی، یا بیوی طلاق نامہ کی رجسٹری واپس کردے اور وصول نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی، یا جب تک وہ طلاق کی تحریر نہ پڑھے اور قبول نہ کرے طلاق نہیں ہوتی، یا محض لکھ کر دینے سے جبکہ خاوند نے زبانی طلاق نہ دی ہو طلاق نہیں ہوتی یا مطلقہ حمل سے ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ یہ سب جاہلوں کی اپنی خودساختہ اور من گھڑت دلیلیں ہیں جو بالکل لچر ہیں۔


ازروئے شروع ان سب صورتوں میں بلاشبہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کا رجوع محض حرام کاری کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس طرح ان کی ساری زندگی گناہ میں گزرتی ہے جس میں یہ دونوں مرد و عورت تو گناہگار ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں جنہوں نے ان دونوں کو اس حرام زندگی گزارنے پر آمادہ کیا۔
بعض لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد تین کا اقرار نہیں کرتے، یا طلاق سے ہی منکر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح طلاقیں واقع نہ ہوں گی یا پھر سفید جھوٹ بول کر بجائے تین طلاقوں کے دو لکھواتے ہیں اور بتلاتے ہیں اور مفتی کو دھوکہ دے کر رجو ع کا فتویٰ لے لیتے ہیں اور لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں کہ فلاں بڑے مفتی صاحب کا یا فلاں بڑے مدرسہ کا فتویٰ منگوالیا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا رجوع کرسکتا ہے۔
اس طرح عوام کو بھی دھوکا دیتے ہیں تاکہ کسی کے سامنے رسوائی نہ ہو اور پھر ان عیاریوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی حلال ہوگئی جو محض اور محض خود فریبی ہے۔مفتی غیب داں نہیں، وہ تحریر و بیان کا پابند ہے، جوکچھ اس کو بتایا جائے گا وہ اسی کے مطابق جواب لکھ کر دے گا، بیان و تحریر کی ذمہ داری صاحب واقعہ پر ہے، اصل حقیقت چھپا کر ایک یا دو طلاقوں کے حکم کو تین طلاقوں کے حکم پر فٹ کرنے سے بیوی حلال ہرگز نہ ہوگی، بدستور حرام رہے گی۔ ایسے لوگ مفتی اور عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اللہ جل شانہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ برابر حق تعالیٰ کے سامنے ہیں اور اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکتے۔
بعض لوگ تین طلاقوں سے بچنے کے لئے جب فقہ حنفی میں کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنا مسلک حنفی چھوڑ کر غیر مقلدوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے فتویٰ لے کر رجوع کرلیتے ہیں، ان کے مسلک میں ایک ہی مجلس کے اندر اگر کوئی شخص تین طلاقیں دفعتاً دے دے تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مسلک قرآن حکیم، احادیث صحیحہ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، چاروں اماموں حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور علمی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ (اس سلسلہ میں چند حدیثیں آخر میں آرہی ہیں) ان کے مسلک پر عمل کرکے لوگ حرام کاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دفعتاً تین مرتبہ طلاق دینے میں مصیبت ہی مصیبت اور گناہ ہی گناہ ہے۔
ہی طلاق کے مسائل سیکھ لئے جاتے (جب کہ مسائل کو سیکھنا اس وقت فرض بھی تھا) اور پھر ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ گھر اور بچے برباد نہ ہوتے۔ سکون غارت نہ ہوتا۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقیں دینے سے مکمل اجتناب کرنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو غصہ میں ہرگز ہرگز طلاق نہ دی جائے۔ اگر کبھی غصہ میں ایسی نوبت آنے لگے تو فوراً وہاں سے علیٰحدہ ہوجائیں اور جب غصہ ختم ہوجائے اور پھر بھی طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اس سلسلہ میں کم از کم پہلے قرآن و سنت کی ان مختصر مندرجہ ذیل تعلیمات کا ضرور مطالعہ کرلیں اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

خاوند کو پریشانی کے وقت میں تسلی دیا کرے ۔ یہ صحا بیا ت کی سنت ہے ۔ جیسے نبی علیہ السلام پہلی وحی کے بعد﴿ زملونی زملو نی ﴾کہتے ہو ئے گھر تشریف لائے تھے تو خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ان کو تسلی دی تھی۔بلکہ آپ فرماتے تھے کہ ﴿خشیت علی نفسی ﴾ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ تو انہوں نے فرما یا کلا ہر گز نہیں ۔ ﴿انک لتصل الرحم﴾ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ ﴿وتحمل الکل ﴾اور دوسروں کا بو جھ اٹھانے والے ہیں ۔﴿ تکسب المعدوم﴾ اور آپ تو جن کے پا س کچھ نہیں ان کو کما کر دینے والے ہیں ۔ ﴿وتکری الضیف﴾۔ مہمان نو ازی کر نے والے ہیں ۔ جب آپ میں اتنے اچھے اخلاق ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضا ئع نہیں فرمائیں گے ۔ چنانچہ اہلیہ کی ان با توں سے اللہ کے محبوب کو تسلی مل گئی تھی ۔ خا وند کبھی کا روبار سے یا کسی اور بات سے پر یشان ہو تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر میں آئے تو تسلی کے بول بولے ۔ یہ نہ ہو کہ اس کی پر یشانی کو اور بڑ ھا نے کے لئے پہلے سے تیا ر ہو ۔

خاوند کاا عتماد حاصل کر نے کی نصیحت
خوشگوار ازدواجی زند گی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میاں بیوی کو با ہم ایک دوسرے پر اعتماد ہو ۔ اعتماد کا فقدان بسا اوقات دونوں کی زندگیوں میں بہت سی تلخیوں کا باعث بن جا تا ہے ۔ اس لئے بیوی کو چا ہیے کہ وہ کبھی کو ئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے خاوند کی نظروں سے گر جا ئے ۔ چاہے وہ مال سے متعلق ہو یا چا ہے وہ اخلاق سے متعلق ہو ۔ کوئی ایسا کا م نہ کر یں جس کی وجہ سے آپ خاوند کی نظروں سے گر جائیں ۔ گر کر انسان دوبارہ وہ مقام نہیں پا سکتا جو پہلے ہو ا کر تا ہے ۔ بیوی کو چا ہیے کہ وہ اپنے میاں کے مزاج کو پہچا نے تا کہ گھر کے ماحول کو اچھا رکھ سکے ۔ اپنے میاں کے سامنے سچ کی زندگی گزارے۔ 
بات چھپا نے سے غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں 
عام طور پر رنجش کہاں سے پیدا ہو تی ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں کچھ با تیں چھپا نا چا ہتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہو کر رہنے والی زند گی گزاریں ۔خا وند بیوی کے ساتھ مخلص ہو اور بیوی خاوند کے ساتھ مخلص ہو تو اللہ تعالیٰ ان کو پر مسرت بنادیں گے۔ پھر ایک دوسرے پر اعتماد ہوگا اور اچھی زندگی گزر جا ئے گی ۔ بات بتا نے سے گر یز کر نے سے غلط فہمی پڑ جا تی ہے ۔ اور با ت کو چھپا کر آدمی کب تک چھپا ئے گا ۔ دوسرا ٹوہ میں لگا رہے تو بات کا پتہ تو چل ہی جا تا ہے ۔ لہٰذا ایک دوسرے کے ساتھ دل کو صاف رکھنا چاہیے اور دلوں کو کھول دینا چا ہیے ۔ ایسا نہ ہو آدھی بات بتا ئی آدھی رکھ لی۔
ایک لطیفہ مشہو ر ہے کہ کسی عورت نے آواز دھم سی سنی ۔ اس نے دور سے پو چھا کہ کیا ہو ا ؟ خاوند نے جواب دیا ، کر تہ پا جامہ گر گیا ہے ۔ اس نے کہا ، کر تہ پا جا مہ گر نے کی تواتنی آواز نہیں ہو تی ۔ کہنے لگا ، ہاں میں بھی کرتے پا جا مے کے اندر تھا ۔ تواس طرح آدھی بات بتائی اور جب دوسرے نے تھوڑی ٹوہ لگا نی ہے ، تب اگلی با ت بتانی ہے تو پھر اس سے غلط فہمیاں بڑھ جا تی ہیں ۔ پہلے ہی پو ری بات بتا دینی چا ہیے ۔با ت کو بدل کر کر نا یا بات کو چھپا لینا ،یہ حقیقت میں جھوٹ ہوتا ہے ۔ خاوند کے سامنے جب عورت نے خود ہی جھوٹ بولنے کی عادت ڈال لی تو پھر اس کی بے بر کتی پو ری زندگی میں پڑے گی ۔ تکلیف اٹھا لینا ذلت کے اٹھا لینے سے بہتر ہے ۔ یاد رکھیں انسان جتنی محنت اپنے خامی کو چھپا نے کے لئے کر تا ہے ، اس سے آدھی محنت کے ساتھ وہ خامی دور ہو سکتی ہے۔آپ کبھی کو ئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے میاں کے دل میں آپ کے با رے میں کوئی شک پیدا ہو۔مثلاً خا وند کو یہ شک ہو کہ یہ جھو ٹ بو لتی ہے ، خا وند کو شک ہو کہ یہ پیسے چھپا لیتی ہے ، خا وند کو یہ شک ہو کہ جن لو گو ں سے تعلق کو میں نا پسند کر تا ہو ں یہ ان سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس قسم کا کو ئی بھی شک خا وند کے دل میں پید ا مت ہو نے دیجئے۔اس لئے کہ جس دل میں شک جگہ بنا لے اس دل سے محبت رخصت ہو جا تی ہے۔


گھروں میں معمولی نوعیت کے جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات کوئی بڑا جھگڑ ابھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر خاوند بیوی دونوں برداشت سے کام لیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی قابل تعریف کردار ادا کریں تو طلاق کی نوبت نہیں آتی۔ اگر عورت خاوند کی نافرمانی پر اتر آئے تو بھی فوری طور پر طلاق دینے سے منع کیا گیا، بلکہ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو راستہ بتایاہے وہ اس طرح ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن (سورہ نساء، آیت ۳۴)
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو تو انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ اور پھر خواب گاہوں سے انہیں الگ کردو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو۔
اس آیت میں اصلاح کا طریقہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن سے نافرمانی کا ڈر ہو پہلے انہیں زبان سے سمجھایا جائے، ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ورنہ گھر کے اندر ان کا سوشل (سماجی)بائیکاٹ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے۔ اب وہ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی باز نہ آئیں تو ہلکی پھلکی سزا دو، یعنی ایسی سزا دی جائے جو اصلاح کا باعث بنے، اذیت ناک نہ ہو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا :
فاتقوا اللہ عزوجل فی النساء (مسند امام احمد جلد
۵ صفحہ ۷۳)
عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے، آپ نے فرمایا:
ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت
(سنن ابی داوٴد ص
۲۹۱)
”نہ تو عورت کے چہرے پر مار، اور نہ ناشائستہ کلام کر اور بائیکاٹ بھی گھر کے اندر کر۔“
اگر ان مندرجہ بالا صورتوں کو اپنانے کے بعد عورت راہ راست پر آجاتی ہے تو اب طلاق دینے جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً (سورہٴ نساء، آیت
۳۴)
پس اگر وہ عورتیں تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
مقصد یہ ہے کہ جب عورت خاوند سے بغاوت نہیں کرتی اور اب اطاعت گزار ہوچکی ہے اور گھر کا سکون بحال ہوچکا ہے تو اب طلاق دے کر اسے پریشان نہ کیا جائے۔
مصالحتی کمیٹی
اگر مندرجہ بالا تین طریقے بھی مفید ثابت نہ رہوں اور اتفاق و اتحاد کی کوئی راہ نہ نکلے بلکہ میاں بیوی کے درمیان عداوت اور اختلاف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو اب ذمہ دار حضرات مثلاً حکومتی افراد یا علاقے کے کونسلر یا محلہ دار اور گاؤں کے قابل اعتماد بزرگ حضرات کا فرض ہے کہ وہ دو آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جس میں ایک عورت کے خاندان سے ہو اور دوسرا مرد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ رشتہ داری کی بنیاد پر یہ لوگ اندرونی حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، یہ حضرات مصالحت کی کوشش کریں۔
نوٹ:۔ مصالحتی کمیٹی میں حسب ضرورت دوسرے مناسب افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ نیز کمیٹی دو سے زیادہ آدمیوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔
اگر ان لوگوں نے خلوص نیت سے کام لیا تو انشاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوجائیں گے
ارشاد خداوندی ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکمًا من اھلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیمًا خبیرًا
(سورہ نساء، آیت
۳۵)
اگر تمہیں ان کے درمیان ناچاکی کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے خاندان سے اور ایک پنچ عورت کے خاندان سے مقرر کرو اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بیوی) کے درمیان موافقت پیدا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
طلاق کی نوبت
اگر ان تمام طریقوں کو اپنانے کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکیں اور خاوند بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت پیدا نہ ہو بلکہ انکا اکٹھا رہنا ناممکن ہوجائے تو سخت مجبوری کے تحت طلاق دی جائے۔
لیکن طلاق دیتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر کسی وقت حالات بدل جائیں، ان دونوں کے درمیان صلح ہوجائے اور اب دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کرنا چاہیں تو کسی قسم کی پریشانی اٹھانا نہ پڑے۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم طلاق کی اقسام، طلاق دینے کے طریقوں اور طلاق کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ طلاق دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے!

1916 کی ایک یادگار تصویر

Posted: اکتوبر 1, 2012 by EtoPk in مضامین
ٹيگز:

ایک صدی قبل غیر مسلم عورتیں جو اپنے آپ کو خاندانی سمجھتی تھیں وہ بھی مکمل پردہ کا اہتمام کرتی تھیں البتہ جو باندیاں یا لونڈیاں ہوتی تھیں وہ اس کا نہ اہتمام کرتی تھیں اور نہ ہی ان کے لئے اسلام میں ضروری قرار دیا گیا ہے۔
آپ خود فیصلہ کریں آزاد خاندانی عورت ہیں یا لونڈی، باندی وغیرہ۔۔۔؟؟

In 1916, in Vienna, Austria, presented the king with his wife – which, as the queen was – was entirel

y covered only by the fact that it is the queen and not have to be looked by any man.

But this practice was originally started by Prophet Mohammed (peace be upon him) 1400 years ago on ALLAH’s command to protect the dignity of Women.
In a nut-shell, every Muslim woman is considered as ‘QUEEN’.
Note: This photo is not photo-shopped or morphed.
Its video still exists (2:15)