ہر کا م کو اپنے وقت پر سمیٹنے کی عاد ت ڈال لیجئے ۔ آ ج کا کا م کل پر نہ چھو ڑ یے کہ یہ بھی کل کر لو ں گی ، یہ بھی کل کر لو ں گی ۔ کل کل کر تے اتنے کام جمع ہو جا تے ہیں کہ پھر انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں کر پا تا ۔ سیدہ فا طمة الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی زند گی کو دیکھئے وہ اپنا کا م خود سمیٹتی تھیں ۔ حتیٰ کی حد یث پا ک میں آیا ہے کہ ان کے ہا تھوں کے اند ر گٹے پڑ گئے تھے ۔ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کا م خود کر تی تھیں ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کام خود کر تی تھیں ۔ جس طرح مر د مصلے پر بیٹھ کر عباد ت کر ے تو آپ سمجھتی ہیں کہ اس کو اجر مل رہا ہے ، اس سے زیادہ آپ کو اجر اس وقت ملتا ہے جب آپ گھر کے کام کاج کو سمیٹ رہی ہو تی ہیں ۔
با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ نے ایک نو جوان کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں نوافل میں مصروف رہتا ۔ انہوں نے پو چھا ، تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میرا بڑا بھا ئی ہے ، اس نے میرے کا روبار کو سنبھا ل لیا ہے اور میری روزی کا ذمہ لے لیا ہے ، مجھے عبا دت کے لئے فا رغ کر دیا ہے ۔ با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے ، تیرا بھا ئی بڑا عقلمند ہے تیری سا ری عبا دت کا اجر تیرے بھا ئی کو بھی ملے گا اور تیرا بھا ئی تجھ سے افضل کا م میں لگا ہو ا ہے ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مصلے پہ ہی فقط عبا دت نہیں ہو تی بلکہ عورت جو گھر کے کام کاج کر رہی ہو تی ہے سب کچھ اس کا عبا دت میں لکھا جا تا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کا م کو عورتیں عباد ت سمجھ کر نہیں مصیبت سمجھ کر کر تی ہیں ۔ چنا نچہ ان کی ہر وقت یہ خو اہش ہوتی ہے کوئی کام کر نے والی مل جا ئے کہ میں صرف بتا ؤ ں اور وہ آگے کا م کر ے ۔ اب بتا کے کام کر والیا تو جو جسم نے کا م کر نے کی مشقت اٹھا نی تھیں اور اس پر آپ کے نامہ اعمال میں اجر لکھا جا نا تھا وہ اجر تو نہیں لکھا جا ئے گا ۔ آپ کے درجے پھر کیسے اللہ کے ہاں بڑ ھیں گے ۔ اس لئے گھر کے کام میں پسینہ بہانا ، مشقت اٹھا نا ایسا ہی ہے کہ جیسے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کی عبا دت کا اجر پا نا ۔ اس لئے عورت گھر کے کاموں کو خوشی سے قبول کر ے اور اپنے دل میں یہ سو چے کہ ان کا موں کی وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہو گا ۔ چنا نچہ ایک حد یث پا ک میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک عو رت وہ ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں مصروف ہو اور اس کے ہا تھ کام کاج میں مصروف ہوں ۔جب نبی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کام کاج کو خود کر نے کی عادت ڈالنی چا ہیے ۔ اس کے دو فا ئدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کا م سمٹیں گے اورا جر ملے گا اور دوسری با ت کہ اپنی صحت بھی ٹھیک رہے گی ۔ چو نکہ آج گھر کے کام کاج کر نے کی عادت نہیں اس لئے لڑکپن کی عمر ہو تی ہے اور بیما ریو ں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے میرے سر میں درد ہے ، ذرا سا بس کوئی با ت سو چتی ہو ں تو سر میں درد ہو جا تی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے ، مجھے کمر میں شروع ہو گئی ہے ۔ کسی کو آنکھوں میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سار ی مصیبتیں ہا تھ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے ہیں ۔
سیدہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک چکی تھی اور وہ چکی کے اوپر گندم خود پیستی تھیں جس سے رو ٹی بنا ئی جا تی تھی ۔ سو چنے کی بات ہے اگر ام الموٴ منین اپنے ہا تھوں سے چکی خود پیستی تھیں تو پھر آج کی عورت اپنے گھر کا کا م خود کیو ں نہیں کر تی ۔ جب گھر کا کا م نہیں کر یں گی تو پھر کہیں گی کہ جی اب ہمیں فلاں کلب میں جا نے کی ضرورت ہے ، چر بی چڑھ رہی ہے ۔ پھر ہمیں ٹر یڈ مل لا کر دیں تا کہ ہم اس پر چلا کر یں ۔ کیا ضرورت ہے ان کی ، گھر کے کام کاج میں ایک تو اجر ملے دوسرا خاوند کا دل جیت لو گی اور پھر تیسرا یہ کہ خود بخود آپ کے جسم کی شو گر توانا ئی میں بدل جا ئے گی اور آپ کی صحت بھی درست رہے گی ۔ تو گھر کے کام کاج کو اپنی عزت سمجھیں اور اپنا فرض منصبی سمجھیں ۔ اور اس کو سمجھیں کہ میں مصلے پہ بیٹھ کر جو عبا دت کر وں گی اس سے زیادہ گھر کے کا م کاج کر نے سے مجھے اللہ کا قرب نصیب ہو گا ۔
با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ نے ایک نو جوان کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں نوافل میں مصروف رہتا ۔ انہوں نے پو چھا ، تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میرا بڑا بھا ئی ہے ، اس نے میرے کا روبار کو سنبھا ل لیا ہے اور میری روزی کا ذمہ لے لیا ہے ، مجھے عبا دت کے لئے فا رغ کر دیا ہے ۔ با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے ، تیرا بھا ئی بڑا عقلمند ہے تیری سا ری عبا دت کا اجر تیرے بھا ئی کو بھی ملے گا اور تیرا بھا ئی تجھ سے افضل کا م میں لگا ہو ا ہے ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مصلے پہ ہی فقط عبا دت نہیں ہو تی بلکہ عورت جو گھر کے کام کاج کر رہی ہو تی ہے سب کچھ اس کا عبا دت میں لکھا جا تا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کا م کو عورتیں عباد ت سمجھ کر نہیں مصیبت سمجھ کر کر تی ہیں ۔ چنا نچہ ان کی ہر وقت یہ خو اہش ہوتی ہے کوئی کام کر نے والی مل جا ئے کہ میں صرف بتا ؤ ں اور وہ آگے کا م کر ے ۔ اب بتا کے کام کر والیا تو جو جسم نے کا م کر نے کی مشقت اٹھا نی تھیں اور اس پر آپ کے نامہ اعمال میں اجر لکھا جا نا تھا وہ اجر تو نہیں لکھا جا ئے گا ۔ آپ کے درجے پھر کیسے اللہ کے ہاں بڑ ھیں گے ۔ اس لئے گھر کے کام میں پسینہ بہانا ، مشقت اٹھا نا ایسا ہی ہے کہ جیسے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کی عبا دت کا اجر پا نا ۔ اس لئے عورت گھر کے کاموں کو خوشی سے قبول کر ے اور اپنے دل میں یہ سو چے کہ ان کا موں کی وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہو گا ۔ چنا نچہ ایک حد یث پا ک میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک عو رت وہ ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں مصروف ہو اور اس کے ہا تھ کام کاج میں مصروف ہوں ۔جب نبی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کام کاج کو خود کر نے کی عادت ڈالنی چا ہیے ۔ اس کے دو فا ئدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کا م سمٹیں گے اورا جر ملے گا اور دوسری با ت کہ اپنی صحت بھی ٹھیک رہے گی ۔ چو نکہ آج گھر کے کام کاج کر نے کی عادت نہیں اس لئے لڑکپن کی عمر ہو تی ہے اور بیما ریو ں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے میرے سر میں درد ہے ، ذرا سا بس کوئی با ت سو چتی ہو ں تو سر میں درد ہو جا تی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے ، مجھے کمر میں شروع ہو گئی ہے ۔ کسی کو آنکھوں میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سار ی مصیبتیں ہا تھ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے ہیں ۔
سیدہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک چکی تھی اور وہ چکی کے اوپر گندم خود پیستی تھیں جس سے رو ٹی بنا ئی جا تی تھی ۔ سو چنے کی بات ہے اگر ام الموٴ منین اپنے ہا تھوں سے چکی خود پیستی تھیں تو پھر آج کی عورت اپنے گھر کا کا م خود کیو ں نہیں کر تی ۔ جب گھر کا کا م نہیں کر یں گی تو پھر کہیں گی کہ جی اب ہمیں فلاں کلب میں جا نے کی ضرورت ہے ، چر بی چڑھ رہی ہے ۔ پھر ہمیں ٹر یڈ مل لا کر دیں تا کہ ہم اس پر چلا کر یں ۔ کیا ضرورت ہے ان کی ، گھر کے کام کاج میں ایک تو اجر ملے دوسرا خاوند کا دل جیت لو گی اور پھر تیسرا یہ کہ خود بخود آپ کے جسم کی شو گر توانا ئی میں بدل جا ئے گی اور آپ کی صحت بھی درست رہے گی ۔ تو گھر کے کام کاج کو اپنی عزت سمجھیں اور اپنا فرض منصبی سمجھیں ۔ اور اس کو سمجھیں کہ میں مصلے پہ بیٹھ کر جو عبا دت کر وں گی اس سے زیادہ گھر کے کا م کاج کر نے سے مجھے اللہ کا قرب نصیب ہو گا ۔