حلالہ کے منکرین ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلالہ عورت پر ظلم ہے۔ لیکن یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ ہر اہل علم جانتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں یا ایک دو طلاقوں کی صورت میں عدت گزر جائے تواب عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا اور اب اس نے طلاق دے دی تو پہلے خاوند سے نکاح کے سلسلے میں بھی عور ت کی مرضی اور اجازت ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک عورت اجازت نہیں دے گی اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو کس طرح اس عمل کو عورت پر ظلم قرار دیا جائے گا۔ عورت کو کون مجبور کرتا ہے کہ حلالہ کرائے اور پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرے!
خلاصہ:
(۱)…جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں، چاہے تینوں اکٹھی ہوں یا الگ الگ دی گئی ہوں، دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ خاوند (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
(۲)… اگر اس عور ت نے دوسری جگہ نکاح کرلیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
(۳)… اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے اور اس کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے، لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
(۴)…اگر دوسرے خاوند سے نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے، تاکہ پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کرلے، تو حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور یہ عمل حرام ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔
(۵) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(۶)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(۷)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے، ہٹ دھرمی کی بجائے کھلے دل اور دیانت داری کے ساتھ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کا قانون خلع
اسی طرح کے نازک وقت کیلئے اسلام نے کشمکش کی آخری شکل میں ”خلع“ کی اجازت بخشی ہے، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے پیش بندی کے طور پر سختی کے ساتھ خلع سے روکا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر ماباس فحرام علیہ رائحة الجنة۔ (رواہ احمد، مشکوٰة باب الخلع)
جو عورت ذرا ذرا سی بات پر اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے اس پر جنت کی بوحرام ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (مشکوٰة باب الخلع)
شوہر سے علیٰحدہ ہونے والی اور خواہ مخواہ خلع کی طالب عورتیں منافق ہیں۔
ان حدیثوں کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنے شوہروں سے جدائی کی خواہش نہ کریں، تلذذ کی خاطر ایساکرنا اسلام کے ایک عظیم الشان قانون کو بازئچہ اطلاق بنالیتا ہے۔
لیکن اگر واقعی عورت دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیارنہ کی گئی تو رب العزت کے قائم کردہ حدود باقی نہ رہ سکیں گے، اور عورت کو ظن غالب ہے کہ موجودہ تعلقات دین و دنیا کے لئے مضر ہیں، توایسی مجبوری اور نزاکت کے وقت عورت خلع کے
(۵) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(۶)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(۷)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے، ہٹ دھرمی کی بجائے کھلے دل اور دیانت داری کے ساتھ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کا قانون خلع
اسی طرح کے نازک وقت کیلئے اسلام نے کشمکش کی آخری شکل میں ”خلع“ کی اجازت بخشی ہے، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے پیش بندی کے طور پر سختی کے ساتھ خلع سے روکا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر ماباس فحرام علیہ رائحة الجنة۔ (رواہ احمد، مشکوٰة باب الخلع)
جو عورت ذرا ذرا سی بات پر اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے اس پر جنت کی بوحرام ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (مشکوٰة باب الخلع)
شوہر سے علیٰحدہ ہونے والی اور خواہ مخواہ خلع کی طالب عورتیں منافق ہیں۔
ان حدیثوں کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنے شوہروں سے جدائی کی خواہش نہ کریں، تلذذ کی خاطر ایساکرنا اسلام کے ایک عظیم الشان قانون کو بازئچہ اطلاق بنالیتا ہے۔
لیکن اگر واقعی عورت دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیارنہ کی گئی تو رب العزت کے قائم کردہ حدود باقی نہ رہ سکیں گے، اور عورت کو ظن غالب ہے کہ موجودہ تعلقات دین و دنیا کے لئے مضر ہیں، توایسی مجبوری اور نزاکت کے وقت عورت خلع کے
قانون سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ (بقرہ۔ ۲۹) سو اگر تم لوگوں کو احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خواندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلع گو حدود اللہ کے عدم قیام کی شرط کے ساتھ خلع کی اسلام نے اجازت دی ہے، اس سے پہلے ہرگز اجاز ت نہیں ہے۔ خلع کی مثال عہد نبوی میں موجود ہے، حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما سے بیاہی گئی تھیں، ایک صبح کو سویرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لئے کاشانہ نبوی سے نکلے، دروازہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کپڑوں میں لپٹی سمٹی ہوئی کھڑی ہے۔ صبح کی تاریکی ابھی باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کون ہیں؟ آواز آئی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سہل کی بیٹی حبیبہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا بات ہے؟ حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ نہ تو میں ثابت بن قیس کے ساتھ ہوں اور نہ ثابت میرے ساتھ۔ یعنی ہم دونوں میاں بیوی میں اتفاق اور نباہ کی امید باقی نہیں رہی۔ آپ نے یہ قصہ سن لیا او رنماز کے لئے روانہ ہوگئے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ حبیبہ بن سہل انصاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اسے آکر انہوں نے یہاں بیان کیا۔ حضرت حبیبہ نے مہر کی واپسی پر بھی اپنی آمادگی ظاہر کردی اور درخواست کی کہ شوہر کا عطیہ موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے فرمایا اپنا عطیہ واپس لے لو، یہ سن کر حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے بیوی سے اپنا عطیہ واپس لے لیا اور اس طرح دونوں میں جدائی ہوگئی۔ (موطا امام مالک باب الخلع) بخاری میں ہے، حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر بیان دیا: یارسول اللہ ثابت بن قیس ما اعیب علیہ فی خلق ولا دین ولکن اکرہ الکفر فی الاسلام یارسول اللہ (ﷺ) میں ثابت بن قیس کو ان کے اخلاق و دین میں عیب نہیں لگاتی، لیکن بات یہ ہے کہ میں اسلام میں کفر کی بات پسند نہیں کرتی۔ یہ سن کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم ان کا باغ واپس کرنے کو تیار ہو؟ ثابت کی بیوی نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ معلوم کرکے آپ نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا: |
اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة واحدة (زاد المعاد ج ۴ ص ۳۴)
با غ لے لے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔
بخاری نے یہ واقعہ جو بیان کیا ہے یہ ہے تو حضرت ثابت ہی کی بیوی کا، مگر حبیبہ کا نہیں بلکہ ان کی دوسری بیوی جمیلہ بنت ابی سلول کا ہے۔ ابن ماجہ میں یہی واقعہ جمیلہ کے نام کے ساتھ مذکور ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کوتاہ قد، بدصورت اور تیز مزاج تھے۔ اس لئے کسی عورت کی نگاہ میں سماتے نہیں تھے۔ بعض روایت میں ان کی بیوی کا ان کے باب میں بڑا سخت جملہ ہے۔
حدیث کی کتابوں میں خلع کے اور واقعات بھی مذکور ہیں، یہاں تفصیل مقصود نہیں ہے۔