نومبر, 2011 کے لیے آرکائیو


Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


آج نکاح میں دو چیزیں سب سے زیادہ رکاوٹ بنتی ہیں:
۱۔ دین کی خدمت کا جذبہ اور ان میں ہمہ تن مشغولیت
۲۔غربت
مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس خوف سے جلد نکاح یا متعدد نکاح نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ دین کی خدمات لے رہے ہیں تو اہل وعیال کی کثرت ان کےمعاش کی فکر اور سوکنوں کے جھگڑے نمٹانے کے چکر میں ان خدمات میں کمی واقع نہ ہو جائے نیز سابقہ دور جہاد میں کئی ایسے مجاہدین کے حالالت سننے اور دیکھنے میں آئے جو رشتہ ملنے کے باوجود یہ سوچ کر ایک شادی بھی نہیں کرتے تھے کہ جہاد میں مصروفیت کے باعث کسی بھی وقت شہادت سے سرفراز ہو سکتے ہیں، تو ان حالات میں بیوی بچوں کا بوجھ پالنا بلا وجہ کی مصیبت سرمول لینے کے مترادف ہے، لہٰذا ہلکے پھلکے رہ کر اور بیوی بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر مصروف جہاد رہنا چاہئے، بیویاں تو خود سے حوروں کی شکل میں شہادت کے بعد مل جائیں گی، بلا شبہ ان کا یہ جذبہ(صرف جذبے کی حد تک) قابل تحسین ہے۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کرام میں نکاح سے روکنے والی یہ دونوں رکاوٹیں یعنی دین کی (خدمات کا جذبہ، ان میں عملی مشغولیت اور غربت) بطریق اتم موجود تھیں، دین کی خدمات متعدیہ میں سے مشکل اور افضل ترین اور دنیا کی تمامتر مرغوبات سے سب سے زیادہ غافل کردینے والی خدمت جہاد ہے، صحابہ اس وقت ان خدمات اور جہاد میں مشغول تھے جب اسلام  کو جہاد اور دوسری خدمات کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور پھر جہادی مصروفیت بھی ایسی کہ روم اور فارس اور ان جیسی نہ معلوم مزید کیسی بڑی بڑی سلطنتیں کہ جنہوں نے مٹھی بھر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ان سے ٹکراو تھا دوسری طرف علمی میدان میں دشمنان اسلام کی سازشیں چاروں طرف سے بھرپور طریقے سے امڈ کر اسلام اور اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے پورے اسلام ہی کی مشکوک بانے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔
مگر جہادی اور علمی میدان کی یہ تمامتر قربانیاں اور دنیا سے غایت درجہ کی بے رغبتی صحابہ کرام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نکاح کی کثرت والی سنت سے بہر حال باز نہ رکھ سکتی اور بھلا باز  رکھتی بھی کیسے۔۔۔؟؟ صحابہ تو دیکھ چکے تھے کہ ان سے زیادہ غریب اور مسکین تو ان کے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے،غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولھا جلنے کی نوبت نہ آتی، مگر اس کے باوجود بیویوں کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قناعت نہیں کی بلکہ  اتزوج النسا  کہہ کر اس کی قولی وعملی ترغیب بھی دے ڈالی، بلکہ جب غربت کے بناعث امہات المومنین نے مال غنیمت کا سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرب کی طرف سے یہ حکم سنایا کہ میرے ساتھ اگر اسی حال میں رہنا ہے تو رہو ۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بعض حضرات کہتے ہیں کہ دوسری شادی محض ایک مباح کام ہے اور اس عمل کا اقدام کرکے اہل علم اور دیگر نیک لوگ قوم کی طرف سے عیش پرستی شہوت پرستی کے جن طعنوں اور جس قیل وقال کا شکار ہو کر بدنام ہوتے ہیں اس بدنامی سے بچنا فرض ہے اور دیندار لوگ پہلے ہی بہت بدنام ہیں، لہٰذا ایک ایسے عمل جس کی خود ان کی ذات اور معاشرے کو کوئی ضرورت بھی نہیں اور یہ عمل فرض وواجب بھی نہیں تو اس عمل کا اقدام کرکے اپنی بدنامی میں مزید اضافے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ دوسری شادی حلال ہے اور بدنامی سے بچنا فرض ۔۔۔۔فرض کی اہمیت ایک مباح کام سے زیادہ ہوتی ہے۔
 آیت میں اس نظریے پر یوں رد ہے کہ اگر اپنی ذات ، قوم یا معاشرے کو حلال کردہ ایک اقدام کی عملی ضرورت نہ بھی ہو تو بھی ایک کام جسے اللہ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں حلال قرار دے دیا ہو ، اس سے اجتناب کرکے خود کو بدنامی سے بچانا اتنا اہم نہیں بلکہ اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کام کا عملی اقدام کرکے لوگوں کے ایسے بگڑے ہوئے مزاج کی اصلاح کی کوشش کی جائے ، جس بگڑے ہوئے مزاج کے باعث وہ خدا کی طرف سے واضح لفظوں میں حلال کردہ ایک عمل کو بدنامی کا سبب اور باعث عار سمجھ رہے ہیں۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟،مولانا طارق مسعود صاحب۔)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


رائیونڈ اجتماع کے تمام بیانات براہ راست سنیں
start 17/11/2011 at 4:00pm

باپ جو اولاد کے لئے منزلہ رہبر اور مربی ہوتاہے (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے) اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک سے زائد بیویاں رکھے تاکہ اس معاملے میں اس کی اولاد کے بگڑے ہوئے دماغوں کی کسی قدر اصلاح ہو سکے اور اس کی آل اولاد میں سے اگر کوئی اس حلال کام کا اقدام کرنا چاہے تو اس آل اولاد پر اس معاملے میں ذرا سی بھی تنگی نہ رہے ۔
چھوٹے بھائی کی نسبت بڑے بھائی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ  (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے)ایک سے زائد شادیاں کرے تا کہ اس کے چھوٹے بھائیوں کے بگڑے ہوئے دماغوں  کی کسی قدر اصلاح ہو سکے اور ان پر اس معاملے میں بڑے بھائی کے عمل کو دیکھ کر ذراسی بھی تنگی نہ رہے ۔
کسی مسلمان خاندان کے مسلمان بڑوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ  (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے)وہ ایک سے زائد بیویاں رکھیں تاکہ ان کے چھوٹوں کے بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح ہو اور جب کوئی انہیں طعنہ دے تو خاندان کے ان بڑوں کی مثال پیش کرکے وہ خود کو بھی اس اقدام کا پوری طرح مستحق ثابت کر سکیں ۔
بعض اکابر اور محقق اہل علم کی رائے کے مطابق ملک کے مفتیانِ کرام اور علما کرام پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زبانی ترغیب کے ساتھ اس سنت کا عملی اقدام کریں تا کہ ان پر اعتماد کرنے اور ان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح ہوسکے۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟،مولانا طارق مسعود صاحب۔)

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


عرب عالم عبداللہ الفقیہ لکھتے ہیں:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان عورتوں کے خلاف بہت غیرت آتی تھی جو خود کو نکاح کے لئے از خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی تھیں ، نیز صحیح بخاری میں ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو جماعتوں میں منقسم تھیں۔
 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زوجہ کے گھر تشریف فرماتھے، اسی دوران دوسری زوجہ نے ایک پیالے میں خادم کے ہاتھ کھانا بھجوایا، پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم جس زوجہ کے گھر تھے ان زوجہ کو اپنی باری میں سوکن کی اس مداخلت پر اتنی غیرت آئی کہ انہوں نے اس پیالے کو لے کر زمین پر دے مارا  اور اس کے دو ٹکڑے کر دیئے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آئی اس کے بعد آپ نے زمین پر جھک کر اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا دوبارہ ڈالا اور اس وقت موجود افراد کو کھانا تناول کرنے کا حکم دیا۔
 مگر یہ مشکلات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد بیویاں رکھنے سے باز نہیں رکھ سکیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ مرد جب پہلی زوجہ کو اعتماد میں لئے بغیر اور اسے راضی کئے بغیر دوسری شادی کرے تو مشکلات زیادہ ہوتی ہیں اور اسے راضی کرکے یہ اقدام کرے تو مشکلات کم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر وہ بیوی کو راضی کرنے کی کوشش کرے اور پھر بھی بیوی راضی نہ ہو تو بھی مرد کے لئے یہ اقدام جائز ہے، کیونکہ مرد کو دوسری شادی سے زبردستی روکنے کا نہ تو بیوی کو حق ہے اور نہ ہی بیوی کے ولیوں کو۔
لہٰذا عورت کو چاہئے کہ اس کا شوہر جب کسی عورت سے نکاح کا خواہش مند ہو تو اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے کیونکہ اس کا یہ رکاوٹ ڈالنا بسا اوقات طلاق یا شوہر کے دل میں زوجہ کی نفرت کا سبب بنتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں  کے احوال کو درست فرمائے۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner