Posts Tagged ‘خاوند’



Read Online
Download

#… تیری ناپسندیدہ حالت تیرے شوہر کو غمگین نہ کرے ،نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظر پڑے یااچانک سامنے آجائے تو تیرے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوں۔
#… خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے اس کو خوب راضی اور خوش کرو، جتنی تم اس کی اطا عت کر و گی اور اس کو خوش رکھو گی اسی قدر وہ آپ کی محبت کو محسو س کر ے گا اور آپ کو بھی خوش رکھنے کی کو شش کر ے گا ۔
# … آپ کے شو ہر سے لغزش ہو جا ئے تو منا سب مو قع اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر و ۔
# … کشادہ دِل ہو جاؤ شوہر کی طرف سے ہو نے والی منفی با تیں فرامو ش کر دو۔
#… اپنی عقلمندی اور شو ہر کے ساتھ اپنی محبت و تعلق کے ذر یعہ اس کی غلطیوں کی اصلاح کر و ، شو ہر کے جذبا ت مجروح کر نے کی ہر گز کو شش نہ کرو۔
# … اپنے شوہر کے سا منے کسی اجنبی آدمی کی تعریف نہ کرو ، ہاں البتہ اگر کو ئی دینی صفت اس میں ہو تو کو ئی حر ج نہیں۔
# … شو ہر کے متعلق کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
# … شو ہر کے سا منے ہمیشہ وہی بات کرو ، جو اس کو پسند ہو اور وہی کام کر و جو اس کی نظر میں اچھا ہو ۔
#… اپنے خا وند کو یہ با ت سمجھا ؤ کہ جب بھی اس کی طرف سے شدت کا اظہار ہو وہ احترام کا دامن ہا تھ سے نہ جانے دے ، کیونکہ یہ شدت ، عارضی اور وقتی ہوتی ہے ۔
#… اپنے خا وند کو باور کر اؤ کہ جب اس (خاوند ) کے والدین یا اعزہ واقربا ء میں سے کوئی بیما ر ہو تو دونوں کو اس کی بیما ر پر سی کر نی چا ہیے ، نہ یہ کہ صرف خاوند ہی اس کی بیما ر پر سی کر ے ۔
#… جب مالی تنگی پیش آئے تو آزردہ خاطر نہ ہو ، اپنے شو ہر کو بتا ؤ کہ اس کو اللہ نے بہت سی خیریں عطا فرمائی ہیں ۔
# … کو شش کر و کہ جب وہ ہنسے تو تم بھی ہنسو اور جب وہ روئے یا غمگین ہو تو تم بھی غم و حزن کا اظہار کر و ۔
# … جب وہ بات کر ے تو پوری تو جہ سے سنو اور خاموش رہو۔
#… اس کے دِ ل میں نہ بٹھا وٴ کہ تم اس سے ہمیشہ فلا ں چیز ما نگتی ہو ، ہا ں اگر اس کے ذ کر کر نے سے وہ خو ش ہوتا ہوتو پھر کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
#… ایسی غلطیاں بار بار کر نے سے پر ہیز کر و جس کے متعلق تم جا نتی ہو کہ تمہارا شو ہر ان کو پسند نہیں کر تا یا ان کو دیکھنا نہیں چا ہتا ۔
#… جب آپ کا شوہر گھر میں نفل نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے کھڑی ہو جا یا کرو اور نماز پڑھا کرو اور جب کو ئی علم کی کتا ب پڑھے تو تمہیں بھی بیٹھ کر اس کو سننا چا ہیے ۔
#… شوہر کے سامنے اپنی ذاتی آرزوؤں کے با رے میں زیادہ با تیں نہ کیا کرو۔
#… ہر چھو ٹی بڑی بات میں خاوند کی رائے کو ترجیح دو ، آپ کی اس سے محبت ، اکثر مو قعوں پر اس چیز کو ظاہر کر تی ہو۔
#… شوہر جو راز بیا ن کر ے اس کی حفا ظت کر و، اس کا افشا ء نہ کرو، خواہ آپ کے ماں با پ کا کیوں نہ ہو ، کیونکہ اگر تم اس کے راز کو کھولو گی تو اس کے سینہ میں غصے کی آ گ بھڑک سکتی ہے اور کینہ و عداوت پیدا ہوسکتی ہے ۔
# … کسی پیرا یہ میں بھی اپنا تعلیم یا فتہ اور ڈگر ی ہو لڈر ہونا بیان نہ کر و ، کیونکہ یہ چیز نفرت کا سبب بنتی ہے ۔
# … اپنے شو ہر کے ساتھ نر م انداز میں پیش آؤ ، ورنہ گھر ، با زار والا نقشہ پیش کر ے گا ۔
# … جب گھر میں کشید گی یا نا چاکی پیدا ہو تو گھر چھو ڑ نے کا کبھی نہ کہو ، کیونکہ اس سے اس کے دِل میں آئے گا کہ تم اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتی ہو ۔
# … جب خاوند گھر سے جانے لگے تو اس کے سامنے اپنی آزردگی اور بے چینی کا اظہا ر کرو۔
#… جب کہیں جا نے کا کوئی پروگرام ہواور وہ کسی وجہ سے کینسل کر ے تو اس کے عذر کو قبول کر و ۔
# … اس کے سامنے غیرت کا اظہا ر نہ کرو ، کیونکہ یہ تبا ہی لا نے والا ہتھیار ہے ۔
# … اپنے خاوند سے یوں بات نہ کر و کہ جس سے تم بے قصور معلوم ہو اور وہ قصور والے ۔
# … خاوند کے جذبات کا خیال رکھو، اس کے سامنے اپنے رشتہ داروں کے فضا ئل زیادہ ذکر نہ کرو ۔
#… اپنے خا وند سے جھو ٹ با لکل نہ بولو ، کیونکہ اس سے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی ۔
#… اپنے کو یہ با ت ہمیشہ با ور کر اؤ کہ اگر وہ اس سے شادی نہ کر تا تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر تی ؟
#…کبھی ایسی حالت اختیا نہ کرو جو تیرے شوہر کو اچھی نہ لگے بہترین عورت وہ ہے جس پر اُس کے خا وند کی نظر پڑے تو اس کی سعادت ، اچھی حالت اس کی آنکھوں کے سا منے نمایاں ہو۔
#… جب بھی تیری طرف خا وند نظر کر ے تو تیر ے ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ نمایاں ہو ۔
#… اپنے شوہر کی نافرماں بردار ی سے اسے بہت زیادہ راضی کر تیری فرما نبرداری کے مطابق ہی تیرا شوہر تیری محبت کاا حسا س کرے گا اور تجھے راضی کر نے کی جلدی کوشش کریگا ۔
#… تیری جو غلطی تیرے شو ہر کے نو ٹس میں آ گئی ہو اس کے تکدر کو دور کر نے کے لیے منا سب وقت اور مناسب طر یقہ اختیا ر کر ۔
#…(بر داشت کے لئے) فراخ دل ہو ( شوہر کے سامنے ) اسکی ان غلطیوں کا زیاد ہ تذکر ہ نہ کر جو اس سے کسی غیر کی خا طر سر زد ہو گئی ہو ں ۔
#…اپنے شوہر کی محبت کی بنا ء پر ہر طرح کی ذہا نت اور عقلمند ی سے اسکی غلطیوں کا تدارک کر اور اس کے احساسات کو مجروح کر نے کی کو شش نہ کر ۔
#… اپنے خا وند کے خلاف غیروں کی با توں کو سچا نہ جان
#… ہمیشہ اپنے شو ہر کے سامنے ایسے کام کر جنہیں وہ پسند کر تا ہو۔اور ایسی با تیں کر جنہیں وہ ہمیشہ سننے کی رغبت رکھتا ہو ۔
#…اپنے شوہر کی طبیعت کو اچھی طر ح سمجھ لے تاکہ اس کے دل میں تیرا احترا م ہو ۔ کسی معاملے میں جب بھی کوئی سخت لہجہ اختیا ر کر تا ہے وہ وقتی ہو تا ہے ۔( یہ نہ سمجھ کہ اس کے دل میں تیرے خلاف کو ئی مستقل جذبہ ہے )
#…جب اس کے سا تھ با ت چیت کر ے تو اس کی کسی مالی تنگی پر کسی قسم کی تنگ دلی کا اظہار نہ کر اور اُس کی طرف سے جو تجھے بہت سی بھلائیاں حاصل ہو ئی ہیں ان کا اُس کے پا س ذکر کر ۔
#…جب بات کر ے تو پو ری طر ح خاموش رہ اور اس کی طرف کا ن دھر (پو ری توجہ دے )
#…بکثرت اُ سے یا د نہ دلا کہ تو نے اس سے ہمیشہ کو ئی طلب کی ہے ۔( مگر وہ حا صل نہیں ہو ئی ) البتہ اسے وہ چیز اُس وقت یا د دلا جب تو جان لے کہ وہ اس کے ذکر سے خوش ہو گا ۔
#…بار بار غلطیا ں کر نے اور ایسے مو قف میں واقع ہو نے سے اپنے آپ کو بچا جسے تیرا خا وند دیکھنا نہ چا ہتا ہو ۔
#…اپنے شو ہر کے سا منے اپنی ذا تی خوا ہشا ت کے با رے میں زیا دہ با تیں نہ کر ۔ بلکہ بکثرت اصرار کر کہ وہ تیرے سا منے اپنی ذاتی خو اہشات کا ذکر کر ے۔
#…ہر چھو ٹے بڑے معا ملے میں اس کی را ئے پر اپنی ر ائے کو مقدم نہ کر بلکہ بعض مواقع میں تو اُسی کی رائے کو اُس سے محبت کی بنا ء پر پیش کر نے میں پہل کر ے ۔
#…اس کی اجا زت کے بغیر کو ئی نفلی روزہ نہ رکھ اور اُس کے علم کے بغیر اُس کے گھر سے با ہر نہ نکل ۔
#…جو راز کی با ت وہ تیر ے سامنے بیان کر ے اسے یا د رکھ اس کی حفا ظت کر اور اسے اپنی ماں اور باپ کے پاس بھی ظا ہر نہ کر اس لئے کہ یہ بات اُس کے سینے کو غصے
سے تیرے خلاف بھڑکا دیگی ۔
#… اس انداز کے ساتھ اپنے شوہر سے بات نہ کر گویا تو معصوم ہے اور وہ گنہگار آدمی ہے۔
#… اپنی اولاد کو بات کرنے میں سچائی اور عمل میں اخلاص کا عادی بنا۔
# … تو اکیلی کھانا نہ کھا۔بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد کے درمیان بیٹھ کر کھاناکھا۔
# … اپنی اولاد کو صفائی پسند کرنے کا عادی بنا۔ اور انہیں یاد دلا کہ صفائی کے ساتھ ہی وہ ایمان کی صفت سے متصف ہوں گے۔
#… اپنی اولاد کے سامنے گالی گلوچ
لعن طعن یا حقارت آمیز کلمات نہ بول اس لئے کہ وہ تیرے تمام الفاظ اپنے ذھن میں جمع کر لیں گے یاد کر لیں گے۔
#… ایسی باتوں سے پرہیز کر جس کے بعد اس کی معذرت پیش کرنی پڑے اور انتہائی طور پر فضول اور بکثرت باتوں سے دور رہ ۔ اپنے پروردگار کے اس ارشاد کو یاد رکھ؛
﴿لاخیر فی کثیرمن نجو ھم الا من امر بصد قةاو معروف اواصلاح بین النا س﴾(النساء
۱۱۳)
”ان کی اکثر سر گو شیو ں میں کوئی بھلائی نہیں ہے البتہ جس شخص نے صدقے ،کسی نیکی یا لو گو ں کے درمیا ن اصلاح کا حکم دیا ۔(اس میں بھلائی ہے )
#…ہر سنی سنا ئی بات کو (بلا تحقیق )بیان کر دینا پر ہیز گا رموٴ من عو رتوں کی عا دت نہیں ہے ۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے :
”آد می کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنا ئی کو بیا ن کرتا پھر ے“۔
(مسلم۔ مقدمہ وابو داود حدیث نمبر
۹۹۲ ۴ )
#…اس بات کی حرص کر کہ تیرے منہ سے اچھے کلمات ہی نکلیں۔ اس لئے کہ جو تو کہنا چا ہتی ہے اس کا وزن کیا جائیگا ۔اسکی قدروقیمت متعین ہو گی۔
# … اپنی ذمہ داریو ں سے غافل جاہل عورتوں کی صحبت اختیارنہ کر ۔
#… موٴمن عورت اپنی بہنوں کے عذر قبول کر تی ہے ۔اور منا فق عورت اپنی بہنوں کی لغزشیں تلا ش کر تی ہے۔
#… ایسی عورت کی صحبت اختیار کر جس سے تو اپنے معاملے میں سلا متی پاتی ہے اسکی صحبت تجھے نیکی پر ابھا ر یگی۔ اور اس کا دید ار تجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلائیگا۔
# … جو عورت تجھ سے بات کر رہی ہو اُسے پور ے شوق کے ساتھ غور سے سن ۔ جب تو اس سے بات کر ے تو اس سے اپنی نظر نہ پھیر ۔ کسی سبب سے با ت بھی کر نے والی کی با ت کو قطع نہ کر ۔ اگر تو کسی معا ملے میں قطع کلا می پر مجبو ر ہو تو با ت کر نے والی کو نر می اور سکو ن کے سا تھ آگاہ کر دے۔
#… جھو ٹ ، غیبت ،چغل خور ی ، مز اح اور مسلمان عورتوں کے سا تھ ٹھٹھے مخول سے بچ ۔
# … بر ی با ت اور بے حیا ئی کی بات سے پر ہیز کر ۔
# … اپنے عمل اور اپنے نفس کے ساتھ تکبر اور گھمنڈاختیا ر نہ کر ۔
#… مسلمان عورتوں کے چھو ٹے بچوں کو اپنی اولاد سمجھ ۔ درمیا نی عمر کی بچیوں کو اپنی بہنیں اور بڑی عمر والی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھ ۔ اپنی اولاد پر رحم کر نا تجھ پر لازم ہے ۔ اپنی بہنوں سے صلہ رحمی کر اور اپنی ماؤں کے سا تھ احسا ن کر ۔
# … اپنی اولاد کو جنت کی تر غیب دے ۔ بیشک جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے نماز اور رو زے ادا کئے اپنے ماں با پ کی فرما ں بر داری کی جھو ٹ نہ بولا اور کسی پر حسدنہ کیا ۔
# … اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پرد ے اور شرم و حیا کی رغبت دلا ۔ انہیں چھو ٹے تنگ کپڑے اور اکیلی پینٹ یا شرٹ ( قمیص ) پہننے کی عا دی نہ بنا تا کہ وہ بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت اپنی خصو صیت کو پہچان لیں ۔
# … سا ت سال کی عمر میں ہی اپنی بیٹیوں کو اوڑھنی پہننے کی عادی بنا ۔
#… اپنی اولاد میں سے جس کو تو دیکھے کہ با ئیں ہا تھ سے کھا تا یا پیتا ہے اُسے اس سے روک دے ۔(اور دا ئیں ہا تھ سے کھا نے پینے کی تعلیم دے )
#… اپنی اولاد کوناخن ترا شنے اور کھا نے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہا تھوں کے دھو نے کی نصیحت کر نا نہ بھول۔
# … موٴ من عورت با تیں کم اور عمل زیادہ کر تی ہے ۔ منا فق عورت با تیں زیادہ عمل کم کر تی ہے ۔
# … چا ہئے کہ تو تین طر یقوں سے اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کا حق ادا کر ے ۔ اللہ تعالی کے احکا م پر عمل کر تے ہوئے ، ا س کی ڈانٹ سے اپنے آپ کو بچا تے ہو ئے ، لوگوں سے ان کی تکلیف دور کر تے ہو ئے ، اپنے نفس کی پا کدامنی اور اپنی تنہا ئی میں حفاظت کر تے ہو ئے ۔
#… دوسری عورتوں کے نزدیک قدروقیمت میں زیادہ کم وہ عورت ہے جو علم دین میں ان سب سے کم ہو ۔
#… تین خصلتوں کے بعد شر مندگی لا حق نہیں ہو تی ۔ دیانت داری ، پاکدامنی اور کام کر نے سے پہلے سوچ بچا ر۔
#… عو رت کی قدرو قیمت اس کی جسمانی خو بیوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی قدرو قیمت دینی خو بیوں میں ہے ۔
# … کسی بَد عادت عورت کے ساتھ بیٹھے سے تیرا تنہا بیٹھے رہنا بہتر ہے۔
#…سچی بات کرنا، لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی،امانت کی حفاظت، ہمسائی کے حق کی حفاظت، سوال کرنے والی کو عطا کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا ، ملاقات کے لئے آ نے والی کی عزت کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا، ملاقات کے لئے آنے والی کی عزت کرنا، عہد پورا کرنا اور شرم و حیا یہ سب عمدہ اور کریمانہ اخلاق و عادات ہیں۔
# …مسلمان عورت اپنے ماں باپ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
# …مسلمان عورت سچ بولتی ہے جھوٹ نہیں بولتی۔
#… مسلمان عورت اپنی بیمار بہن کی زیارت کرتی ہے اور اپنی محتاج بہن پر سخاوت کرتی ہے۔
بہت قیمتی نصیحتیں
#… اگر تو خشوع کی توفیق چا ہتی ہے تو فضو ل نظر با زی سے دور رہ ۔
#…ا گر تو دانائی کی تو فیق کو پسند کر تی ہے تو فضول با توں کو چھو ڑدے۔
#… اگر تو اپنے عیبوں سے باخبر ہو نے کی تو فیق چا ہتی ہے تو دوسرے کے عیبو ں کی ٹوہ لگا نا چھو ڑ دے ۔
#… جو تجھ پر زیا دتی کر ے اس پر بردبار ہو جا ۔
# … بہت سخی عورت وہ ہے جو کسی کو مال عطا کر کے صرف اللہ ہی سے اس کی جزا ء چاہتی ہے ۔
#… بد کر دار عو رتو ں کی ساتھی نہ بن ،وہ تجھے کھا نے کے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچ دے گی ۔
#… بخیل عورت کے ساتھ نہ بیٹھ جس ما ل کی تو محتاج ہے وہ اسے اپنے مال میں ملا لے گی ( تجھے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے رو ک دے گی )
# … جھو ٹی عو رت کی محبت میں نہ رہ وہ فر یب نظر کے در جہ میں ہے ۔وہ قریب کو تجھ سے دور کر دیگی اور بعید کو تجھ سے قریب کر دیگی ۔
#… احمق عورت کے پا س نہ بیٹھ اس لئے کہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کے ارادے کے باوجود نقصان پہنچادیگی ۔
#… احسان جتلا نے والی کی سا تھی نہ بن کہ وہ ہمیشہ اپنی مالی بر تر ی سے تجھے تنگ کرے گی ۔
# … کسی مکا ر عورت کے ساتھ نہ بیٹھ اس لئے کہ اُس کے پیش نظر اپنا ہی نفع ہوتا ہے ۔
#… کسی بد دیانت عورت کی سا تھی نہ بن کہ جس طرح اُس نے تیرے غیر کے سا تھ خیا نت کی ہے اسی طر ح تیرے سا تھ بھی خیا نت کرے گی۔
# … دورخے پن اور دو زبا ن والی عورت کی سا تھی نہ بن ۔
# … ایسی عورت سے بھی صحبت نہ رکھ جو تیرے راز کو نہ چھپا ئے ۔
#… مصیبت زدہ مسلما ن عورتوں سے ان کی تکلیف کو دور کر نا ۔
# … محتاج مسلمان عورتوں کے قرض ادا کر نا ۔
# … کھانا کھلا نا اور بھو کی عورتوں سے ان کی بھو ک دور کر نا ۔
#… اپنی ایما ندار بہنوں کی حا جتیں پو ری کر نے میں جلد ی کر نا ۔
# … راستوں سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا نے میں سستی نہ کر ۔
# … علم حا صل کر اور دوسری مسلمان عورتوں کو تعلیم دے ۔
# … تجھ پر بھلا ئی کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا لا زم ہے ۔
#… سنتیں اور نو افل ادا کر نے پر ہمیشگی اختیا ر کر ۔
# … اپنے رشتہ دا روں سے ملا قات تجھ پر وا جب ہے اگر چہ وہ تجھ سے قطع تعلق کریں ۔
#… اپنے فو ت شدہ افرادا ہل خانہ کو اپنی دعا میں یاد رکھ۔
# … دو سروں کے سا تھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کر ۔
# … جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں انہیں پوری دیا نت داری اور عمدگی سے ادا کر ۔
# … اپنی مسلمان بہن کے سا منے مسکرا کہ یہ صدقہ ہے۔
#… دنیا دار عو رتوں سے میل جو ل نہ رکھ ۔
#… اپنے رب کے عذاب و سزا سے ڈرنا تیری عادت ہونی چا ہےئے ۔
# … اپنے ماں باپ کے احسان کر نے والی بن ۔
#… دنیا میں عورت کی بد بختی کی چار علا متیں ہیں :
دل کی سختی ، آنسو ؤ ں کا خشک ہو جا نا ،(یعنی خوف الہیٰ سے آنکھو ں میں آنسو نہ آنا) لمبی آرزو اور دنیا کی حرص ۔
#… جان لے کہ ہر چیز میں سو چ بچار کے لئے ٹھہر اؤ بہتر ہے مگر آخرت کے معاملے میں تاخیر بہتر نہیں ہے (کہ ابھی وقت ہے پھر یہ عمل کر لو نگی)
# … یاد رکھ کہ بچے ،بو ڑھے ،بیو گان اور مسا کین صدقات کے سب لوگو ں سے زیادہ حق دار ہیں ۔
# … ہر عمل کو ختم کر نے پر اپنے رب سے دعا کر کہ وہ تیرا عمل قبول کر لے ۔
﴿ والحمد للہ رب العالمین ﴾ 

عورتو ں کے اند ر ایک عادت یہ دیکھی گئی کہ گھر کے اندر میلی کچیلی بن کر رہیں گی اور با ہر دیکھو توبن سنورکے نظر آئیں گی ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ دنیا نے آپ کو محبتیں نہیں دینی خاوند نے محبت دینی ہے ۔ اس لئے عورت کی ذمہ داریوں میں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ مر د کی عمرجو انی کی ہو یا بڑھا پے کی عورت ہمیشہ گھر کے اندر صاف ستھری رہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت دلہن ہی بن کر رہے ۔ مگر صاف ستھرا رہنا تو ایک اچھی عادت ہے۔ میلا کچیلا بندہ تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تو صاف ستھری بن کر رہے اور خوش اخلاق خوش مزاج بن کر رہے ۔
مرد کی پٹڑی کیوں بدل جا تی ہے ؟
اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ آکر مرد کی پٹڑی بدل جا تی ہے کہ مرد چو نکہ خود پریشان ہوتا ہے اپنے کام اور کاروبا ر کی وجہ سے گھر میں جب آتا ہے تو اس کو بیوی با سی اور میلے منہ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا دیکھنے کو دل نہیں کر تا ۔ وہی مرد جب دفتر میں جا تا ہے تو اس کو کام کرنے والی لڑکی نہا ئی دھو ئی اچھے کپڑے پہنی مسکرا تی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا رنگ گو را ہے یا کالا ہے ۔ وہ جیسی کیسی ہے اب اس کے خاوند کو وہ اچھی لگنے لگ جا تی ہے ۔ اور اگر گھر میں بیوی جھگڑے والی ہے اور وہ پریشان حال ہو کر گھر سے نکلا اور دفتر میں کسی ایسی بد کردار لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ لیا ۔ اور پو چھ لیا سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں ۔ تو بس سمجھ لو مرد کی پٹڑی بدل گئی ۔ اس بدکردار لڑکی کا ایک فقرہ دوسری عورت کی سار ی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ عورت کے حق پر عورت ہی ڈا کہ ڈا لتی ہے ۔مگر اس ڈاکے میں عورت کا اپنا بھی قصور ہے ۔ اس کو چا ہیے تھا کہ گھر میں خا وند کو سکو ن دیتی ،خو شیا ں دیتی ،صاف نظر آتی ، اس کے اندر دل کشی ہو تی ۔جب اس نے خود ہی اسی چیزکو نظر انداز کر دیا تو گویا اس نے خاوند کو مو قع دیا کہ یہ دو سری لڑکی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ایسی عو رتیں میلی کچیلی رہتی ہے وہ بیچاری شا دی شدہ بیوہ ہو تی ہے ۔ خاوند ان کی طر ف دھیان ہی نہیں کر تے ۔
جو سمجھ دار عورت ہو تی ہے وہ سمجھتی ہے کہ میری ذمہ دا ریوں میں سے جیسے یہ ہے کہ میں نماز ادا کروں ، میرا ما لک حقیقی خو ش ہو گا ایسے ہی میرے فر ائض میں سے ایک فر ض ہے کہ میں صاف ستھر ی رہوں کہ میرا خاوند مجھ سے خوش ہو ۔ اب دیکھو بندہ صاف ستھرا بھی ہے اور اچھا بھی رہے اور اوپر سے خا وند بھی خو ش ہو اس کوکہتے ہیں ۔ نور علیٰ نور۔ تو اگر آ پ کے صاف ستھرا رہنے سے مرد آپ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تو اور آپ کو کیا چا ہیے ۔ اس لئے جو عورت صاف ستھری رہتی ہے ، خوش مز اج رہتی ہے اور کھلے چہر ے کے ساتھ خا وند کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ ہمیشہ کے لئے خا وند کی آنکھ کی پتلی بن جا تی ہے ۔ کچھ عقل بھی استعمال کر نی چا ہیے ۔
بر مو قع اور بر محل با ت شو ہر کے دل کو متا ثر کر تی ہے
عقل مند بیو یاں ہمیشہ اپنے خاوند وں کے دلوں کو جیتتی ہیں ۔ با ت اتنے اچھے انداز سے ، بر مو قع اور بر محل کر تی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جا تی ہیں ۔ اس لئے ایک شا عر نے عر بی کے شعر میں کہا جس کا تر جمہ کچھ یو ں بنتا ہے ۔
”سلمٰی کی با تیں ٹوٹے ہو ئے ہا ر کے موتیوں کی طرح ہو تی ہیں “
تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو اپنی محبوبہ کی با تیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹو ٹے ہو ئے ہا ر کے جو مو تی ہیں جو جھڑ رہے ہیں ۔ لہٰذا بیوی کی خو بصورت انداز میں کی ہو ئی بات مرد کو متاثر کرتی ہے ۔
ہا رون الرشید ایک مر تبہ کھا نا کھا کر فا رغ ہو ا ۔ اس کا خیال بنا کہ کھا نا کھا یا ہے ذرا با ہر نکلتے ہیں ۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ چلو چا ند نی رات ہے ذرا با ہر چل کر چہل قدمی کر لیتے ہیں ۔ بیوی کہنے لگی کی امیر المو منین ! آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیو ں خوش ہو ں گے ۔ کہنے لگا ، کیا مطلب ؟ کہنے لگی ایک طرف میرا چہرا ہو گا ایک طرف چا ند ہو گا ۔ دو سو کنوں کو آپ کیسے جمع کر یں گے ۔ تو با ت سن کے ہا رون الرشید خوش ہوگیا ۔اس طر ح بیوی ایسی عقل مندی کی با تیں کر سکتی ہے کہ جس سے خا وند کے دل میں اس کی اور زیادہ محبت پیدا ہو جائے ۔
ایک مر تبہ ہارون الرشید نے بیوی کو بتا یا کہ دیکھو سو رج گرہن لگ گیا ۔ وہ … دیکھو ۔ دیکھ کر کہنے لگی کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج نے میر احسن دیکھا تو آگ بگو لہ تھا اور آگ بگولہ ہو کر اس نے پردہ کر لیا اس لئے آج اس کو گہن نظر آ رہا ہے ۔ اب ہیں تو یہ الفاط ہی مگر الفاظ ہی تو دوسرے کے دل کو خوش کر دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ زیب النسا ء مخفی جو بڑی شا عرہ بھی تھی اور وقت کی شہزادی بھی تھی ۔ ایک مر تبہ با غ کے اند ر چہل قد می کر رہی تھی تو اس کا منگیتر عا قل خان وہ بھی کہیں سے اس طرف کو آنکلا ۔ اس نے کیا کیا کہ چند پھو ل تو ڑے اور ان کا گلدستہ بنا کر اس نے زیب النسا ء کو تحفہ پیش کیا ۔ اب یہ شا عر ہ تھی تو جب اس نے یہ گلدستہ لیا تو شعر کہنے لگی ۔
# بگواے عا شق صادق چرا گلدستہ آ وردی
دل بلبل شکستہ زہر ما گلد ستہ آ وردی
” بتا ؤ عا شق صادق ! تم نے مجھے جو گلدستہ پیش کیا تو تم نے میرا دل خوش کیا ۔ لیکن بلبل کے دل کو تو تم نے توڑ دیا “
کہ پھو ل تو ڑنے سے بلبل کا دل افسردہ ہو تا ہے ۔ تو کیسا اس نے اچھو تا انداز اپنا کر بات کہی کہ اے عاشق !تو نے مجھے گلدستہ پیش کیا میرا دل خوش کر نے کے لیے مگر تو نے بلبل کا دل تو توڑ دیا ۔ تو عا قل خان آگے سے کہنے لگا ۔
# بر ائے زینت دستک نہ ایں گلد ستہ آوردم
بخو بی با تو می زد گل پیشک بستہ آو ردم
” کہ اے نا زنین ! میں نے آپ کے ہا تھو ں کی زیب و زینت کے لئے گلد ستہ پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی مو جو د گی میں یہ پھو ل اپنے حسن و جمال کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ لہٰذا میں نے ان قیدیوں کو جگڑ کر آپ کی خد مت میں پیش کر دیا“
اب دیکھو ہے تو با ت ہی لیکن اس با ت سے اس کا دل کتنا خو ش ہو ا ہو گا ۔ تو عورت کو چا ہیے کہ کچھ عقل سمجھ سے کا م لے ۔ پر وردگا ر نے اسی لئے تو عقل دی ہو تی ہے ۔ عقل سے فا رغ ہو کر سو چنا کہ خا وند خود ہی مانے یا خا وند کو کوئی مجھ سے منا دے ۔ یہ کیا بات ہو ئی۔
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاقاً یہ شعر پڑھا ۔
# ان النسآ ء شیا طین خلقن لنا
نعو ذ باللہ من شر الشیاطین
” بے شک عورتیں گو یا شیطا ن کی طر ح ہیں جو ہما رے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ ہم شیطا ن کے شر سے اللہ کی پنا ہ چا ہتے ہیں “
حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے بھی آگے سے یہ خوش کن جواب شعر کی صورت میں دیا ۔
# ان النسآ ء ریا حین خلقن لکم
وکلکم یشمی شید الر یا حین
” بے شک عورتیں تو مہکتے ہو ئے پھو ل کی طرح ہیں جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور تم میں سے ہر ایک پھو لوں کی خو شبوں کو سو نگنے کا متمنی ہوتا ہے“
تو دیکھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کس طر ح ان سے خوش طبعی فرمائی اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کتنا خو بصورت جو اب دیا۔
اس لئے با ت کر نے کا انداز بھی کوئی ہونا چا ہیے ۔ اے حسین عورت ! اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے حسن عطا کیا ہے تو بدکلا می سے اپنے چہرے کو نہ بگا ڑا کر ۔ اور اے بد صورت عورت ! اگر اللہ نے تجھے حسن سے محروم کیا ہے تو بد کلا می کے ذر یعے اپنے اندر دو سرا عیب نہ پیدا کر ۔ 

بیوی کیلئے ضروری ہے کہ خا وند کے ساتھ بات ہمیشہ نر م لہجہ میں کی جا ئے اور عزت کے صیغے میں کی جائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو گھر کا قوام بنایا عورتوں کے قوام ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ الرجال قوامون علی النسا ء ﴾ ( النسآ ء : ۳۴
مرد عورتوں کے سر پر ست و نگہبان ہیں
اور فرمایا :
﴿وللرجال علیھن درجة ﴾ ( البقرة : ۲۲۸)
اور مر دوں کو عورتوں پر ایک درجہ حا صل ہے
اب جب اللہ تعالیٰ نے تر تیب ایسی بنا دی تو اللہ کی بند یا ں اس با ت پر را ضی ہو ں خو ش ہو ں کہ اللہ نے ہما رے میا ں کو ہما را سردار بنا یا ، ہمارا بڑا بنایا۔ یہ بھی اس کو بڑا بنا کر رکھے ۔ اللہ تعالیٰ کی تر تیب پر راضی رہے گی تو اس کا اپنا دنیا کا بھی فا ئدہ آخرت کا بھی فا ئدہ ۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ عورت اگر پڑھی ہو ئی زیادہ ہے یا سمجھ دار زیا دہ ہے، عقل مند زیادہ ہے تو یہ پھر خا وند کے سا تھ حا کمانہ لہجے میں بات کر نے لگ جا تی ہے ۔ جیسے آ رڈر پا س ہو رہا ہو تا ہے ۔ یہ ایسے اس کے سا تھ ڈیل کرنا شروع کر دیتی ہے اور یہ چیز پھر خا وند کے دل میں نفرت پیدا کر دیتی ہے ۔ عورت حسن میں زیا دہ ہے ، تعلیم میں زیادہ ہے ، عقل میں زیا دہ ہے ، مال میں زیادہ ہے مگر درجہ پروردگار نے خاوند ہی کا رکھا ۔ اس کو چا ہیے کہ اپنے خا وند سے نرم لہجے میں گفتگو کر ے عزت کے لہجے میں گفتگو کر ے ۔ ”تو“ کی بجا ئے ”آپ“ کے لہجے میں گفتگو کرے ۔ جب یہ عزت کے ساتھ اس کا نام لے گی تو یہ چیز خاوند کے دل میں محبت کو بڑھا دے گی ۔
چنا نچہ صحا بیات کے با رے میں آتا ہے کہ جب وہ اپنے خا وند کی بات نقل کر نے لگتی تھیں۔ تو کہتی تھیں ۔ ﴿حدثنی سیدی ﴾ میرے سردار نے یوں کہا ۔ اب اندازہ لگا ئیے اگر صحا بیا ت اپنے خا وندوں کے بار ے میں یہ لفظ استعمال کر سکتی ہیں ۔ ﴿حد ثنی سیدی﴾ میرے سردار نے مجھ سے یہ بات کہی ۔ تو پھر آج کی عورت کو کم ازکم ” آپ “ کے لفظ کے ساتھ تو گفتگو کر نی چا ہیے ۔

طلاق کے اس احسن طریقہ میں یوں تو بے شمار فوائد ہیں، چنداہم فائدے یہ ہیں:
(۱)… سب سے اہم فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ طلاق کے جتنے واقعات سامنے آتے ہیں ان میں ننانوے فیصد واقعات میں میاں بیوی اس واقعہ سے بہت پچھتاتے اور شرمندہ ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح دوبارہ ان کا رشتہ ازدواج بحال ہوجائے،لیکن چونکہ وہ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں اور رجوع کرنے یا بلاحلالہ دوبارہ نکاح کرنے کے تمام درجے عبور کرچکے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا شرمندہ ہونا اور صلح پر آمادہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔
مذکورہ طلاق کے احسن طریقہ پر عمل کرنے میں طلاق دینے کے بعد تین ماہواریاں گزرنے تک عدت ہے، بشرطیکہ حمل نہ ہو، ورنہ وضع حمل تک عدت ہے، اور عدت کے دوران دونوں میاں بیوی کو علیٰحدگی اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور و فکرکا اچھا خاصا وقت مل جاتا ہے، اور مستقبل کے سلسلہ میں صحیح فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے، اگر دوران عدت دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ طلاق دینا اچھا نہیں ہے اور اپنے کئے پرنادم ہوں، بیوی خاوند کی فرمانبرداری کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا عہد کرے، خاوند بھی گھر کی بربادی اور بچوں کی کفالت و پرورش کی دشواریوں کا اندازہ لگا کر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارنے میں سلامتی دیکھے توابھی کچھ نہیں بگڑا، دوبارہ میاں بیوی والے تعلقات خاص قائم کرلیں، بس رجوع ہوگیا۔ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔
بہتر یہ ہے کہ کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے خاوند کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹاتا ہوں۔“ یا یوں کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ رکھ لیتا ہوں۔“ یہ رجوع کا افضل طریقہ ہے تاکہ دوسروں کو تعلقات کی بحالی سے کوئی غلط فہمی نہ ہو اور رجوع کرنا بھی طلاق کی طرح سب کے علم میں آجائے ،اوراگر عدت کے دوران خاوندنے رجوع نہ کیا اور عدت گزر گئی تو اب مطلقہ اس کے نکاح سے پوری طرح آزاد ہوگئی، اب جہاں اس کا دل چاہے نکاح کرے، طلاق دینے والے سے اس کا کچھ تعلق نہیں رہا، دونوں بالکل اجنبی ہوگئے۔
(۲)… طلاق کے اس احسن طریقے میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر رشتہ ازدواج سے آزاد ہونے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کسی وجہ سے ایک دوسرے کی یاد ستانے لگے، کبیدگیوں اور رنجشوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے محاسن، خدمات اور احسانات پر غور کرنے کا ازسرنو موقع ملے، اور پھر دوبارہ ایک دوسرے سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں، تو طلاق اور عدت گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی حلالہ کے دوبارہ آپس میں نئے مہر کے ساتھ باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
بالفرض دوبارہ نکاح ہوگیا اور بدقسمتی سے دوبارہ بھی اس کو کامیابی کے ساتھ نہ نباہ سکے اور خدانخواستہ پھر طلاق کی نوبت آگئی تو دوبارہ طلاق دینے سے پہلے اس بار بھی ان تمام تفصیلات پر عمل کرنا چاہئے، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے (یعنی پہلے افہام و تفہیم سے کام لے، پھر زجر و تنبیہ کرے، پھر خاندان کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنائے) پھر بھی طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو پھر طلاق احسن دی جائے، (یعنی ماہواری سے پاک زمانے میں جس میں بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو، صاف الفاظ میں صرف ایک طلاق دے) جس میں دوبارہ خاوند کو اختیار ہے کہ وہ عدت کے دوران رجوع بھی کرسکتا ہے اور عدت کے بعد بغیر کسی حلالہ کے باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دوبارہ نکاح بھی کرسکتا ہے، لیکن اب طلاق دینے والا طلاق کے دو درجے عبور کرچکا ہے اور دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، رجوع کرنے یا نکاح ثانی کرنے سے یہ دی ہوئی دو طلاقیں ختم نہیں ہوتی وہ تو واقع ہوچکی ہیں، البتہ دو طلاقوں تک شریعت نے یہ سہولت رکھ دی ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقوں کے بعد دونوں شرمندہ ہوں اور ملاپ کرنا چاہیں تو دو طلاقوں تک ان کیلئے ا س کی گنجائش ہے ۔
اب اس کے بعد دونوں کے لئے بڑا اہم لمحہ فکریہ ہے اور اب انہیں مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے بہت زیادہ فکر و نظر کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ ازدواجی زندگی قائم کرنے کے دو درجے پہلے ہی عبور کرچکے ہیں، اب انہیں آئندہ کے لئے آخری مرتبہ پھر ایک حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ فیصلہ ایک آخری فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ اگر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسا کر زندگی بسر کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں، ورنہ عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی بغیر کسی حلالہ کے ہوسکتا ہے۔ پھر اگر ان دونوں نے یہ گرانقدر موقع بھی ضائع کردیا اور اپنی نادانی، نالائقی او ربداطواری سے اس دفعہ بھی طلاق کی نوبت آگئی اور خاوند طلاق دے بیٹھا تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، جس میں نہ رجوع ہوسکتا ہے او رنہ حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
احسن طریقہ سے طلاق دینے میں دو مرتبہ طویل عرصہ تک دونوں کو ایک دوسرے کی علیٰحدگی اور اس سے پیدا شدہ اثرات پر سنجیدگی سے غور و فکر کا موقع ملتا ہے اور دوبارہ رشتہ ازدواج کو بحال اور قائم کرنے کا راستہ بھی باقی رہتا ہے۔ دفعتاً تین طلاق دینے میں ایسا کوئی فائدہ نہیں ہے، میاں بیوی دونوں سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور سخت دشواری کا شکار ہوتے ہیں۔
طلاق کے اس احسن طریقے میں کہیں جلد بازی اور عجلت نہیں۔ جلد بازی شیطانی عمل ہے، جس کا انجام پشیمانی ہے۔ چنانچہ آپ اندازہ لگائیں کہ شریعت نے اول یہ حکم دیا کہ میاں بیوی خود ہی اپنے معاملہ کو سلجھائیں، خاوند افہام و تفہیم سے کام لے، اس سے کام نہ چلے تو بیوی کا بستر علیٰحدہ کردے، اس سے بھی بیوی اپنی اصلاح نہ کرے تو زجر و توبیخ اور معمولی مار سے اس کی اصلاح کرے۔ یہ بھی مفید نہ ہوتو کسی ثالت اور حکم کے ذریعے صلح و صفائی کرائی جائے۔ جب اس طرح بھی اصلاح حال کی امید نہ ہو اور کوئی صورت مل کر رہنے کی نہ رہے تو بیوی کو اگر ماہواری آرہی ہو تو اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے، ابھی طلاق نہ دے، جب حیض سے بالکل پاک ہوجائے تو طلاق کے احسن طریقے کے مطابق اس کو صرف ایک طلاق زبانی یا تحریری دے دے۔
دیکھئے! ہر جگہ دونوں کو بار بار غور و فکر کا موقع دیاجارہاہے اور سوچ بچار کا پورا پورا وقت دیا جارہا ہے، اور پھر شریعت اسلامیہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے ہر پہلو سے یہ نمایاں ہورہا ہے کہ حتی الامکان نکاح برقرار رہے اور طلاق کا استعمال نہ ہو، اور اگرسخت مجبوری میں طلاق دینا ہی پڑے تو بھی اس کا استعمال کم سے کم ہو، تاکہ آئندہ بھی اگر وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکیں۔

جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔
(۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …
(
۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…
(
۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

یوں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کے بے شمار غلط سلط طریقے رائج ہیں اور نئے نئے غلط طریقے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ غلط، ناجائز اور خلاف شرع طریقہ اور بے شمار آفات و مصائب سے بھرا ہو اوہ طریقہ ہے جو ہمارے یہاں بکثرت رائج ہے، اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ طریقہ سوفیصد رائج ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو، اور پھر اپنی جہالت سے اسی کو طلاق دینے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے، اس طریقہ سے ہٹ کر طلاق دینے کو طلاق دینا سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ نامراد طریقہ ایک دم تین طلاق دینے کا ہے۔ اسی بناء پر ہر خاص و عام، جاہل، پڑھا لکھا، امیر، غریب، غصہ میں یا غور و فکر کے بعد، زبانی یا تحریری جب طلاق دیں گے دفعتاً تین طلاقیں دیں گے، اس سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے، بلکہ اتفاق سے شوہر اگر ایک یا دو طلاقیں دینے پر اکتفا کر بھی لے تو اس کو تیسری طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھمکی دے کر یا کسی طرح مزید غصہ دلا کر تیسری طلاق بھی اسی وقت دلوائی جاتی ہے، اور جب تک خاوند تین طلاقیں نہ دے دے، نہ خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، نہ بیوی کا، نہ دیگر اہل خانہ کا اور نہ دیگر اقرباء کا، اور اس سے پہلے نہ بچوں کی بربادی کا خیال آتا ہے، نہ گھر اجڑنے کا، نہ دو خاندانوں میں عداوت و دشمنی کا، کوئی بھی اس وقت ہوش سے کام نہیں لیتا، اور جب خاوند بیوی کو طلاق کی تینوں گولیاں مار دیتا ہے تو سب کو سکون ہوجاتا ہے اور ہوش آجاتا ہے۔
پھر جب چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے اور ان کے کھوئے کھوئے معصوم چہرے سامنے آتے ہیں اور گھر اجڑتا نظر آتا ہے تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں اور ہر ایک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں اور معافی و شافی کرکے بہت جلد صلح و آشتی پر تیارہوجاتے ہیں، مگر سر سے پانی پھر جانے کے بعد یہ پشیمانی اور صلح و آشتی کچھ کام نہیں آتی اور نہ رونے دھونے سے کچھ کام چلتا ہے، تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی خاوندپر حرام ہوجاتی ہے۔ جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا اور حلالہ کے بغیر باہم دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،اور طلاق دینے میں ناجائز طریقہ اختیار کرنے کا گناہ عظیم علیٰحدہ ہوا، پھر اگرناحق طلاق دی ہو تو ناحق طلاق دینا ظلم ہے جو خود گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے۔
اس کے بعد علماء کرام اور مفتیان عظام کے دروازوں کو دستک دی جاتی ہے اور بڑی عاجزی کے ساتھ اپنی درد بھری داستان سنائی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی بربادی کا ذکر ہوتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہائے جاتے ہیں اور درخواست کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گنجائش نکال کر ان کے گھر کو تباہی سے بچایا جائے، کوئی کفارہ بتلایا جائے جس سے دی ہوئی تین طلاقیں کالعدم ہوجائیں او رہم دوبارہ میاں بیوی بن جائیں۔ مگر اب میاں بیوی کہاں بن سکتے ہیں، دوبارہ میاں بیوی بننے کے جتنے راستے اور جو جو گنجائشیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھی تھیں وہ سب اپنی نادانی سے یک لخت ختم کردیں۔ اس وقت لے دے کر صرف یہ طریقہ رہ جاتا ہے کہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر نکاح کے بعد یہ دوسرا شخص مطلقہ سے باقاعدہ جماع (ہمبستری) کرے اور جماع کے بعد اپنی خوشی سے اس کو طلاق دے اور پھر مطلقہ اس دوسرے شوہر کی بھی عدت طلاق گزارے، تب کہیں جاکر وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اس سے نکاح کرسکتی ہے، مگر مطلقہ کا نکاح ثانی کرتے وقت یہ شرط لگانا کہ دوسرا شوہر نکاح کے بعد اس کو ضرور ہی طلاق دے، خود موجب لعنت ہے۔حدیث پاک میں ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت آئی ہے۔
اور بعض دفعہ شوہر ثانی بغیر جماع کئے طلاق دے دیتا ہے، بلکہ اسی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تو مطلقہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی، کیونکہ پہلے شوہر پر حلال ہونے کے لئے دوسرے شوہر کا وطی (ہمبستری) کرنا شرط ہے، پھر یہ طریقہ بھی کوئی شخص اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہی کرسکتا ہے یا بہت ہی سخت مجبوری میں اس کو گوارا کرسکتا ہے۔ سلیم الطبع اور غیرت مند آدمی اس کو نہیں اپنا سکتا۔ اور بعض لوگ دوسرے طریقوں سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے یہ دوسرے طریقے بہت ہی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ مذکورہ طریقے میں صحیح طرز پر عمل کرنے سے مطلقہ بہرحال پہلے خاوند کے لئے حلال تو ہوجاتی ہے مگر دوسری صورت اختیار کرنے سے مطلقہ پہلے خاوند پر حلال ہی نہیں ہوتی، بدستور حرام رہتی ہے۔
رجوع کی ناجائز شکلیں
چنانچہ بعض جگہ تمام احکام کو پس پشت ڈال کر عذاب قبر، عذاب آخرت اور قہر خداوندی سے بے خوف ہوکر صراحةً تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر کسی حلالہ او رنکاح کے میاں بیوی میں رجوع کرادیا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے یا دیگر اہل محلہ یہ کہہ کر ان کی تسلی کردیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی، یا گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ،یا بالکل تنہائی میں طلاق نہیں ہوتی، یا دل میں طلاق دینے کاارادہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، یا بیوی کو طلاق کا علم نہ ہو توطلاق نہیں ہوتی، یا بیوی طلاق نامہ کی رجسٹری واپس کردے اور وصول نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی، یا جب تک وہ طلاق کی تحریر نہ پڑھے اور قبول نہ کرے طلاق نہیں ہوتی، یا محض لکھ کر دینے سے جبکہ خاوند نے زبانی طلاق نہ دی ہو طلاق نہیں ہوتی یا مطلقہ حمل سے ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ یہ سب جاہلوں کی اپنی خودساختہ اور من گھڑت دلیلیں ہیں جو بالکل لچر ہیں۔


ازروئے شروع ان سب صورتوں میں بلاشبہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کا رجوع محض حرام کاری کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس طرح ان کی ساری زندگی گناہ میں گزرتی ہے جس میں یہ دونوں مرد و عورت تو گناہگار ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں جنہوں نے ان دونوں کو اس حرام زندگی گزارنے پر آمادہ کیا۔
بعض لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد تین کا اقرار نہیں کرتے، یا طلاق سے ہی منکر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح طلاقیں واقع نہ ہوں گی یا پھر سفید جھوٹ بول کر بجائے تین طلاقوں کے دو لکھواتے ہیں اور بتلاتے ہیں اور مفتی کو دھوکہ دے کر رجو ع کا فتویٰ لے لیتے ہیں اور لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں کہ فلاں بڑے مفتی صاحب کا یا فلاں بڑے مدرسہ کا فتویٰ منگوالیا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا رجوع کرسکتا ہے۔
اس طرح عوام کو بھی دھوکا دیتے ہیں تاکہ کسی کے سامنے رسوائی نہ ہو اور پھر ان عیاریوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی حلال ہوگئی جو محض اور محض خود فریبی ہے۔مفتی غیب داں نہیں، وہ تحریر و بیان کا پابند ہے، جوکچھ اس کو بتایا جائے گا وہ اسی کے مطابق جواب لکھ کر دے گا، بیان و تحریر کی ذمہ داری صاحب واقعہ پر ہے، اصل حقیقت چھپا کر ایک یا دو طلاقوں کے حکم کو تین طلاقوں کے حکم پر فٹ کرنے سے بیوی حلال ہرگز نہ ہوگی، بدستور حرام رہے گی۔ ایسے لوگ مفتی اور عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اللہ جل شانہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ برابر حق تعالیٰ کے سامنے ہیں اور اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکتے۔
بعض لوگ تین طلاقوں سے بچنے کے لئے جب فقہ حنفی میں کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنا مسلک حنفی چھوڑ کر غیر مقلدوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے فتویٰ لے کر رجوع کرلیتے ہیں، ان کے مسلک میں ایک ہی مجلس کے اندر اگر کوئی شخص تین طلاقیں دفعتاً دے دے تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مسلک قرآن حکیم، احادیث صحیحہ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، چاروں اماموں حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور علمی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ (اس سلسلہ میں چند حدیثیں آخر میں آرہی ہیں) ان کے مسلک پر عمل کرکے لوگ حرام کاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دفعتاً تین مرتبہ طلاق دینے میں مصیبت ہی مصیبت اور گناہ ہی گناہ ہے۔
ہی طلاق کے مسائل سیکھ لئے جاتے (جب کہ مسائل کو سیکھنا اس وقت فرض بھی تھا) اور پھر ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ گھر اور بچے برباد نہ ہوتے۔ سکون غارت نہ ہوتا۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقیں دینے سے مکمل اجتناب کرنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو غصہ میں ہرگز ہرگز طلاق نہ دی جائے۔ اگر کبھی غصہ میں ایسی نوبت آنے لگے تو فوراً وہاں سے علیٰحدہ ہوجائیں اور جب غصہ ختم ہوجائے اور پھر بھی طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اس سلسلہ میں کم از کم پہلے قرآن و سنت کی ان مختصر مندرجہ ذیل تعلیمات کا ضرور مطالعہ کرلیں اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

گھروں میں معمولی نوعیت کے جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات کوئی بڑا جھگڑ ابھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر خاوند بیوی دونوں برداشت سے کام لیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی قابل تعریف کردار ادا کریں تو طلاق کی نوبت نہیں آتی۔ اگر عورت خاوند کی نافرمانی پر اتر آئے تو بھی فوری طور پر طلاق دینے سے منع کیا گیا، بلکہ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو راستہ بتایاہے وہ اس طرح ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن (سورہ نساء، آیت ۳۴)
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو تو انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ اور پھر خواب گاہوں سے انہیں الگ کردو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو۔
اس آیت میں اصلاح کا طریقہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن سے نافرمانی کا ڈر ہو پہلے انہیں زبان سے سمجھایا جائے، ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ورنہ گھر کے اندر ان کا سوشل (سماجی)بائیکاٹ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے۔ اب وہ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی باز نہ آئیں تو ہلکی پھلکی سزا دو، یعنی ایسی سزا دی جائے جو اصلاح کا باعث بنے، اذیت ناک نہ ہو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا :
فاتقوا اللہ عزوجل فی النساء (مسند امام احمد جلد
۵ صفحہ ۷۳)
عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے، آپ نے فرمایا:
ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت
(سنن ابی داوٴد ص
۲۹۱)
”نہ تو عورت کے چہرے پر مار، اور نہ ناشائستہ کلام کر اور بائیکاٹ بھی گھر کے اندر کر۔“
اگر ان مندرجہ بالا صورتوں کو اپنانے کے بعد عورت راہ راست پر آجاتی ہے تو اب طلاق دینے جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً (سورہٴ نساء، آیت
۳۴)
پس اگر وہ عورتیں تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
مقصد یہ ہے کہ جب عورت خاوند سے بغاوت نہیں کرتی اور اب اطاعت گزار ہوچکی ہے اور گھر کا سکون بحال ہوچکا ہے تو اب طلاق دے کر اسے پریشان نہ کیا جائے۔
مصالحتی کمیٹی
اگر مندرجہ بالا تین طریقے بھی مفید ثابت نہ رہوں اور اتفاق و اتحاد کی کوئی راہ نہ نکلے بلکہ میاں بیوی کے درمیان عداوت اور اختلاف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو اب ذمہ دار حضرات مثلاً حکومتی افراد یا علاقے کے کونسلر یا محلہ دار اور گاؤں کے قابل اعتماد بزرگ حضرات کا فرض ہے کہ وہ دو آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جس میں ایک عورت کے خاندان سے ہو اور دوسرا مرد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ رشتہ داری کی بنیاد پر یہ لوگ اندرونی حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، یہ حضرات مصالحت کی کوشش کریں۔
نوٹ:۔ مصالحتی کمیٹی میں حسب ضرورت دوسرے مناسب افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ نیز کمیٹی دو سے زیادہ آدمیوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔
اگر ان لوگوں نے خلوص نیت سے کام لیا تو انشاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوجائیں گے
ارشاد خداوندی ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکمًا من اھلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیمًا خبیرًا
(سورہ نساء، آیت
۳۵)
اگر تمہیں ان کے درمیان ناچاکی کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے خاندان سے اور ایک پنچ عورت کے خاندان سے مقرر کرو اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بیوی) کے درمیان موافقت پیدا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
طلاق کی نوبت
اگر ان تمام طریقوں کو اپنانے کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکیں اور خاوند بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت پیدا نہ ہو بلکہ انکا اکٹھا رہنا ناممکن ہوجائے تو سخت مجبوری کے تحت طلاق دی جائے۔
لیکن طلاق دیتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر کسی وقت حالات بدل جائیں، ان دونوں کے درمیان صلح ہوجائے اور اب دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کرنا چاہیں تو کسی قسم کی پریشانی اٹھانا نہ پڑے۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم طلاق کی اقسام، طلاق دینے کے طریقوں اور طلاق کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ طلاق دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے!


بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں
بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں اللہ ر ب العزت کو عبداللہ نام سب سے زیادہ پسند ہے ۔ عبدالرحمٰن نام پسند ہے ایسے نام رکھیں کہ قیامت کے دن جب پکا رے جا ئیں تو اللہ رب العزت کو اس بندے کو جہنم میں ڈالتے ہو ئے محسوس فرمائیں کہ میرا بندہ میرے رحمت والے نام کے ساتھ ساری زندگی پکا را جاتا رہا اب اس کو جہنم میں میں کیسے ڈالوں ۔ ایسا نام ہونا چا ہیے ۔
آج کل کی بچیاں نئے نئے ناموں کی خوشی میں بے معانی قسم کے نام رکھ لیتی ہیں۔ الٹے سیدھے نام جس کا نہ اس کی ماں کو معانی کا پتہ اور نہ کسی اور کو پتہ مہمل قسم کے نام رکھ دیتی ہیں یہ بچے کے ساتھ زیادتی ہو تی ہے۔ بچے کے حقوق میں سے ہے ماں باپ ایسا نام رکھیں کہ جب بچہ بڑا ہو اور اس نام سے اسکو پکا را جا ئے تو بچے کو خوشی ہو ۔یہ بچے کا حق ہے۔ جو ماں باپ کے اوپر ہو تا ہے ۔ اس لیے بچے کو ہمیشہ اچھا نام دیں ۔ انبیاء کے ناموں میں سے نام دیں ۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے نام دیں ۔ اولیاء کرام کے ناموں میں سے نام دیں ۔ ایک روایت میں آتا ہے جس گھر کے اند ر کوئی بچہ محمد نام کا ہو تا ہے اللہ رب العزت اس نام کی برکت سے سب اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بر ی فرما دیتے ہیں ۔ تو محمد کا نام احمد کا نام بہت پیا ر ا ہے ۔ ہمارے مشائخ تو دس دس نسلوں تک باپ کا نام محمد پہلے کا نام محمد پھر بیٹے کانام محمد اور پھر اس کے بیٹے کانام محمد پھر اس کے بیٹے کا نام محمد ۔ یہ نام اتنا پیا را تھا کہ دس دس نسلوں تک یہی نام چلتا چلا جاتا تھا۔لیکن آ ج اس نام کو رکھ تو دیتے ہیں ساتھ کوئی دوسرا لفظ لگادیتے ہیں اور نام زیادہ دوسرا مشہور ہوتا ہے ۔مثلا محمد اویس نام رکھا اب اویس زیادہ مشہور کر دیا ۔ محمد کا نام کوئی جانتا بھی نہیں اس لیے محمد نام اللہ رب العزت کو پیا را ہے ۔ احمد نام قرآن میں ہے اللہ رب العزت کو پیا را ہے ۔ چا ہیں تو محمد احمد نام بھی رکھ سکتی ہیں ۔ بہت پیا را نام ہے۔عبداللہ رکھ سکتی ہیں ۔ عبداللہ ابراہیم رکھ سکتی ہیں ۔ انبیا ء علیہم السلام ، اولیاء کر ام کے ناموں پر بچوں کے نام رکھیں تاکہ قیامت کے دن ان ہی کے سا تھ ان کا حشر ہو جائے ۔ اور اللہ رب العزت کی رحمت ہو ۔ بچیوں کے نام بھی اسی طرح صحابیا ت رضی اللہ عنہن کے ناموں پر رکھیں ۔ ام الموٴمنین کے نام پر رکھیں ۔ نبی علیہ السلام کی بیٹیوں کے ناموں پر رکھیں ۔ بچیوں کے نام بھی اچھے رکھیں کہ ایسے نام نہ رکھیں کہ جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو۔ بہر حال اس با ت کا بھی خاص خیال رکھیں ۔


اپنی بیوی پر سب سے بڑا ظلم شوہر کا کہ کسی غیر محرم عورت سے نا جا ئز تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی عورت سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر عورت سے جنسی تعلقا ت قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہا نے گھڑ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کا ہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور کر نہیں رہتی ۔ نا فرمانبردار ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان بہا نوں کا کسی غیر عورت کے ساتھ نا جا ئز تعلقات قائم کر نے کا کوئی جواز نہیں۔

مردوں کو یہ جان لینا چا ہئے کہ اگر چہ ان کی بیویاں مکمل طور پر نافرنبردارہی کیوں نہ ہو ں یہ امرانہیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ خود کو حرام کا ری میں الجھا ئیں ۔ غیر مرد و زن کا با ہمی اختلاط کسی طور جا ئز نہیں ۔ ایسے مغربی افکا ر کی اسلام میں کو ئی جگہ نہیں ہے۔ اگر خاوند کو اپنی بیوی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نا جا ئز تعلقات کا علم ہو جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟
ایک شخص جو خود کو ایسی حرام کا ری میں ملوث کر تا ہے وہ اپنی بیوی ، اولاد اور اپنے دین سے غداری کا مر تکب ہوتا ہے ۔ وہ اپنے ذہن میں تصور کر ے بیوی گھر کی چار دیواری میں مقید اپنے ذہن میں شوہر کی محبت بسا ئے گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے ۔ ہر وقت اس کے آرام کے لئے متفکر رہتی ہے اور اشتیاق بھری نگا ہوں سے اس کی گھر میں واپسی کی منتظر رہتی ہے ۔ عورت کے لئے اس کا شوہر دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس کی بیما ری کی حالت میں اتنی لگن سے تیماداری اور خدمت کر تی ہے کہ اسے اپنی سدھ بدھ بھی نہیں رہتی ۔ وہ اپنے آرام اور خوشی کو تیا گ کر اس کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون پہنچا نے کی کو شش کر تی ہے ۔ اس کی خوراک اور لباس کا خاص خیا ل رکھتی ہے ۔ بیوی کی ان بے لوث خدمات کے بعد اگر شوہر غیر محرم عورت سے تعلقات بڑھا تا ہے تو اس سے بڑھ کر نا شکر گزار اور کون ہو گا ؟ وہ ایسی حما قت کر کے اپنی بیوی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے ۔ کیا یہ ایک معزز شوہر کے طور طریقے ہو سکتے ہیں ؟ کیا ایسی حرکتیں ایک پاکباز شوہر کو زیب دیتی ہیں ؟ شو ہر اپنے اس قبیح فعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ابدہ ہے ۔ بے وفا ئی کا ارتکاب کر کے وہ اپنی بیوی کے سامنے بھی جو ابدہ ہے۔ غلط مثال قائم کر کے وہ اپنے اس ظلم کے لئے اپنے بچوں کے سامنے بھی جوابدہ ہے۔ اسے چا ہئے کہ غیر عورت کے چنگل سے خود کو آزاد کر ائے اور اس کے لئے ہر تدبیر اختیا ر کر ے ۔ اگر وہ واقعی پشیما ن اور برائی سے بچنے کی خواہش میں مخلص ہے ۔ اللہ سے خلوص دل سے مدد چا ہے ۔ یقینا اس دلدل سے باہر نکل آئے گا ۔
کا ش وہ ایسی قبیح حرکت کرنے سے پیشتر ایک نظر اللہ تعالیٰ کی تعزیرات پر ڈال لے تو شاید وہ باز آئے ۔
﴿الزانیة والزانی فا جلد وا کل واحد منھما ما ئة جلدة ولا تاخذ کم بھما رافة فی دین اللہ ان کنتم تو منون باللہ والیوم الا خرو لیشھد عذابھما طا ئفة من الموٴمنین

 

(النور۲)
”زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھا نے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ مو جو درہے۔“
یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے قرآن مجید نہیں بتا تا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حا صل ہوتا ہے ۔ بکثرت معتبر روایات سے ثا بت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری ) بیان فرمائی ہے بلکہ عملاً آپ نے متعد د مقدمات میں یہی سزانا فذبھی کی ہے ۔

 


اپنے سسرال والوں کا احترام کر یں 
بعض لو گوں کی عادت ہوتی ہے کہ بیوی سے کوئی غلطی ہو تو اس کے سارے خاندان کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں ہاں ، تمہارا تو سارا خاندان ایسے ہے ، تمہا ری تو سات پشتیں گندی ہیں …وغیرہ وغیرہ ۔ اگر آپ اپنی بیوی سے ایسا رویہ بر تیں گے تو پھر آپ بھی یہ ذہن سے نکال دیں کہ وہ آپ اور آپ کے خاندان کی عزت کر ے گی ۔ 
بیوی اگر سا س کی خدمت نہ کرے تو ؟ 
یاد رہے کہ اسلا م کے قانونی نقطئہ نظر کے مطا بق عورت پر فر ض نہیں کہ وہ سسرال کی خدمت گزاری کر ے اگر وہ سسرال کی خدمت بجا لا تی ہے تو اس کی نیکی اور احسان ہے اور اگر وہ یہ خدمت نہیں کر تی تو اسلامی قانون کے مطا بق آپ اس کے خلا ف کو ئی اقدام نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ ان کی خدمت ان کے بیٹے پر فر ض ہے ۔ اس لیے اگر آپ کی بیوی آپ کے والدین کی خدمت نہیں کر تی تو اسے مار پیٹ کر اس کا م کے لیے ہر گزمجبور نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے پیا ر سے سمجھا ئیں کہ میرے والدین بو ڑھے ہیں ، خدمت کے مستحق ہیں ، میرے سا تھ تم بھی ان کی خدمت میں ہا تھ بٹا ؤ تو خوش ہو گے اور ہمارے حق میں دعائے خیر کر یں گے اور ان سے ہم نیکی کر یں گے تو کل کو ہمیں بھی نیک اولاد اور نیک بہوئیں ملیں گی ۔ 
سسرالی الجھنیں اور ان کا حل 
ہما رے ہاں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام چل رہا ہے ، جو آپس کی محبت اور خاندانی میل ملاپ کا اچھا ذریعہ خیال کیا جا تا ہے لیکن جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہمارے گھر وں میں 90فیصد ازدواجی نا چا قیاں میا ں بیوی کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے نہیں بلکہ فریقین کے سسرال کی بے جا اندورنی مداخلتوں اورخاندانی رقابتوں کی وجہ سے ہیں ، آپ جا نتے ہیں کہ ہما را معاشرتی طبقاتی معاشرہ ہے، نچلا طبقہ ، درمیا نی طبقہ اور با لا ئی طبقہ ، ہر طبقے میں اپنے اپنے انداز میں سسرالی جھمیلے اور رنجشیں پا ئی جا تی ہیں جو عمربھر بلکہ مر نے کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں ساری عمر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ذہنی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہو نے کا مو قع ہی نہیں ملتا جنسی نظام کے فطری تقا ضوں کے تحت مبا شرت بھی کر تے ہیں بچے بھی پیدا ہو جا تے ہیں لیکن دونوں کے درمیان ایک طر ح کی بیگا نگی کی دیوار ہمیشہ حا ئل رہتی ہے ایک دوسرے کا جیون ساتھی ہو نے کے با وجود اجنبی سا تھی ہو تے ہیں دونوں کو اپنے اپنے خا ندانو ں سے اپنی اپنی دلچسپیاں ، ہمدردیاں، اور وابستگیا ں قائم رہتی ہیں اور میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر بھی چھا ئی رہتی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے ماں با پ اپنی بیٹی کے ساتھ تو زیادہ تعلق اور اپنا ئیت کا اظہار کر تے ہیں لیکن داماد کو غیرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں لہٰذا داماد اپنے آپ کو بیوی اور اس کی ماں باپ کے درمیان ایک طرح کا غیر محسوس کر تا ہے ۔ غیریت کا یہ احساس اس کے دل میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور یوں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات بھی متاثر ہو کر رہ جا تے ہیں ۔ والدین کو چا ہیے کہ بیٹی تو ان کی بیٹی ہے ہی ، لہٰذا بیٹی کے بجا ئے داماد پر زیادہ تو جہ دیں تا کہ وہ بھی اپنے آپ کو نئے کنبے کا ایک فرد تصور کر ے بیوی بھی اپنے میاں کی اس الجھن کو ختم کر نے کے لئے مو ثر کردار ادا کر سکتی ہے کہ اپنے رویے سے احساس دلا دے کہ وہ اس کا میاں اصل میں دونوں ایک ہی ہیں اس طرح اس کے والدین دونوں میں تفر یق پیدا کر نے سے گریز کریں گے اور داماد کو بھی اپنی بیٹی کی طرح ہی قبول کر لیں گے اور دونوں کو اپنے فیصلے آپ کر نے کی اجا زت دے دیں گے بسا اوقات بیوی کا تعلق کسی کھا تے پیتے گھر انے سے ہوتا ہے اس کے والدین عمو ماً اسے طرح طرح کی تحا ئف وغیرہ سے نو ازتے رہتے ہیں لیکن بیٹی کے میاں کو عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات بیوی اگر ان تحا ئف میں سے کوئی چیز میاں کو دے دے تو وہ اس کو بھی برا مناتے ہیں اس قسم کے یک طرفہ حسن سلوک سے بھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہو نے لگتی ہیں جن کا اصل سبب بیوی کے ماں باپ ہو تے ہیں والدین کو چا ہیے کہ اگر انہوں نے یہ شوق پورا کر نا ہی ہے تو پھر بیٹی اور داماد دونوں ہی کو اپنے تحا ئف سے نوازیں بصورت دیگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنے والدین سے تحائف وصول کر نے سے گریز کر ے ۔
بعض اوقات لڑکی کی ساس اپنی بہو کی خرید و فروخت یا دوسری سر گرمیوں پر کڑی نکتہ چینی کر تی ہے جس سے بہو اور بیٹے کے آپس کے تعلقات متا ثر ہو نے کا خدشہ ہو تا ہے بہو کے لئے اس صورت حال سے بیٹے کے لئے ایک نسخہ تجویز ہے جو یہ ہے کہ وہ اپنی ساس کی خریدو فروخت اور ان کی پسند کے دیگر مشا غل کی بھر پور تعر یف کر ے ،……وغیرہ وغیرہ یوں آپ کی ساس انشاء اللہ عزوجل آپ پر نقطہ چینی کر نا چھوڑے دے گی ۔

بیوی کے اقارب سے بے اعتنا ئی نہ کرنے کی نصیحت 
ایک بڑی غلطی عام طور پر جو خاوند لوگ کر لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو کہتے ہیں کہ تم سے تو مجھے پیا ر ہے مگر تمہا رے ابو اچھے نہیں لگتے ، امی اچھی نہیں لگتی ، مجھے تمہا رے بھا ئی اچھے نہیں لگتے ۔ عورت کو اگر یہ کہہ دیا جا ئے کہ اس کے قر یب کے محرم مر دوں سے مجھے نفرت ہے تو سو چئے کہ پھر اس بچی کے دل پر کیا بیتے گی ۔ اس لئے کہ بیوی کا اپنے والدین کے ساتھ تعلق جذبا تی لگا ؤ میں داخل ہے اور فطری چیز ہے ۔وہ کبھی بر داشت نہیں کر سکتی کہ اس کے والدین کے بارے میں کوئی الٹی سیدھی با ت کر ے ۔ اگر وہ کسی مجبو ری کی وجہ سے خاموش بھی ہو جائے گی تو دل تو اس کا ضرور دکھے گا ۔ اس کی مثال ایسی سمجھیں کہ خاوند کے اپنے والدین کے با رے میں بیوی کچھ ایسی با تیں کر دے تو خاوند کے دل پر کیا گزرے گی ۔ اسی طرح جب خاوند بیوی کے والدین کے با رے میں بات کر تا ہے تو اس کے دل پر بھی وہی کچھ گزرتا ہے ۔
کبھی یہ با ت بھی ایک لڑائی کا ذریعہ بنتی ہے کہ خاوند چا ہتا ہے کہ میرے رشتے دار مطمئن رہیں اور بیوی چا ہتی ہے کہ میرے رشتہ دار مطمئن رہیں۔ اس کے لئے ایک بہترین نصیحت یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کا ایک با پ اور ایک ماں تھی اب شادی کے بعد دوباپ اور دومائیں ہیں ۔ کیونکہ شریعت نے ساس اور سسر کو ماں اور باپ کا درجہ دیا ۔ توجب بیوی ساس اور سسر کو ماں اورباپ کی نظر سے دیکھے گی تو جھگڑاہی نہیں رہے گا۔اسی طرح جب خا وند بھی ساس اور سسر کو ماں اور باپ کی نظر سے دیکھے گا تو لڑائی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔ خاوند کے جتنے رشتے دار ہیں ان سب کے ساتھ شر عی طریقے پر اچھا تعلق رکھنا اور ان کو مطمئن رکھنا بیوی کی ذمہ داری ہو نی چا ہیے اور خاوند کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ بیوی کے رشتے داروں کو خوش رکھے ۔ جب گھر میں یہ ذمہ داریاں اس طرح تقسیم ہو جائیں کہ بیوی ہر وقت یہ سو چے کہ میں اپنے میاں کے رشتے داروں کو ہر وقت کیسے خوش رکھ سکتی ہوں ، اس کی امی کو کیسے خوش رکھوں ، اس کی بہنوں کو کیسے خوش رکھوں ، اس کے دوسرے رشتے داروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھوں تو پھر دونوں کے درمیان جھگڑے کا کو ئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔
لیکن آج کل نو جو ان تو عام طور پر یہ غلطی کر لیتے ہیں ۔وہ نہیں سمجھتے کہ اس کی کتنی اہمیت ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ خبردار ! تم نے اپنے گھر نہیں جا نا ۔ خبر دار تم نے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر نی ۔ اور یہ معاملہ بڑا عجیب ہو جا تا ہے ۔

مرد کی نسبت عورت کو بچوں کی تربیت کرنے کے بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة التحریم کی آیت قوا انفسکم و اھلیکم نارا کی تفسیر میں صحیح بخاری میں یہ قول منقول ہے۔
﴿کلکم راع وکلکم مسئول من رعیتہ الرجل راع علی اھلہ و ھو مسئول۔ المرا ة راعیتہ علی بیت زوجھا وھی مسئولة عنھا۔﴾
”تم میں سے ہر ایک نگران و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا ان لوگوں کی بابت جو تمہاری نگرانی میں ہوں گے۔ مرد اپنے اہل و عیال پر حکمران و نگران ہے اور وہ اپنی رعیت میں اپنے عمل پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہے۔“
اس حدیث کا یہ ٹکڑا یہاں خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو صرف کھلانے پلانے ہی کا ذمہ دار نہیں ہے اس کے دین و اخلاق کی حفاظت و نگرانی بھی اس کے ذمہ ہے اور بیوی کی ذمہ داری دوگنی ہے۔ وہ شوہر کے گھر اور مال کی نگران تو ہے ہی ، اس کے بچوں کی تربیت کی خصوصی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ شوہر معاش کے حصول کے لیے زیادہ تر باہر رہتا ہے اور گھر میں بچے اپنی ماوٴں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کی دوہری ذمہ داری ان کی ماں پر آتی ہے۔
اسلام کے اکثر مشاہیر نے ولایت اپنی والدہ کے ہاتھوں پائی ہے۔ ماں کی انتھک محنت، مادرانہ شفقت اور اخلاق و روحانی تربیت سے وہ بلند مقا مات تک پہنچے۔
ایک مسلمان بچے کی دینی تعلیم اس دنیا میں اس کے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ننھے بچے کے کانوں میں اذان اقامت کہی جاتی ہے۔ جو اس کے دل میں ایمان کی شمع روشن کرتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے۔ علامہ ابن قیم اپنی کتاب ”تحفة الودود“ میں فرماتے ہیں۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہو گا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے جس طرح مرنے کے وقت اس کوکلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے۔ اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کر دے، اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے۔
آجکل اکثر و بیشتر خواتین اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ ان کے مادرانہ فرائض میں صرف بچوں کو کھلاناپلانا اور کپڑے پہنانا ہے، جب کے اسلام ان سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے اور جسمانی صحت سے بھی زیادہ روحانی بالیدگی کو ترجیح دیتا ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی، روحانی اور اخلاقی تربیت پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھے۔
جس قسم کی محبت کا اظہار آجکل کے والدین اپنے بچوں سے کرتے ہیں وہ سچی محبت نہیں ہے۔ یہ محبت تو سم قاتل ہے۔ ایسے ماں باپ جو اپنے ان فرائض سے غفلت برتتے ہیں جن کی نشاندہی اسلام نے کی ہے، بہت بڑے مجرم اور گنا ہگار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو گہرے اندھیرو ں میں دھکیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی محبت جو بچوں کو جہنم کا راستہ دکھائے بہت بڑی نا انصافی اور دشمنی ہے۔ والدین کو اپنی محبت کا رخ اس طرف موڑنا چاہیے جس کی نشاندہی شریعت کرتی ہے۔
اولاد اللہ کی طرف سے نعمت اور امانت ہے۔ اس امانت میں کسی طور پر خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ والدین ان کی بُری تربیت کر کے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یوں ان کا مستقبل اور آخرت تباہ کر دیتے ہیں۔
والدین کے لیے اولاد کی صحیح تربیت کے متعلق ہدایات تو بہت ہیں مگر ہم یہاں خاص خاص کا ذکر کرتے ہیں۔
(۱)…جاننا چاہیے کہ یہ امر بہت ہی خیال رکھنے کے قابل ہے کہ بچپن میں جو عادت بھلی یا بری پختہ ہو جاتی ہے وہ عمر بھر نہیں جاتی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی عادات پر گہری نظر رکھی جائے۔ بچپن کی عادات اس کے کردار کی تعمیر کرتی ہیں۔
(۲)…بچے کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے سے پرہیز کرے۔ بعض مائیں بچے میں اطاعت شعاری کی خاطر اسے جن بھوت سے ڈراتی ہیں، یہ بہت بری حرکت ہے، اس سے بچے کا دل کمزور ہو جاتا ہے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری عمر دل و دماغ پر چھا یا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ والدین لاعلمی سے اپنے بچوں میں بہادری کے جذبات ابھارنے کی بجائے انہیں بزدل بنا دیتے ہیں۔
(۳)…بچوں کی خوراک کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں۔ وقت بے وقت کھلا کر ان کی عادات نہ خراب کریں۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑے گا۔
(۴)…بچپن سے ہی انہیں مسواک کرنے کی عادت ڈالیں۔
(۵)… بچوں کو ہدایت کریں کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئیں۔
(۶)…انہیں کھانے پینے ، سونے ، کپڑے پہننے، طہارت خانے میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے آداب سے آگاہ کریں۔
(۷)… بچہ جب بولنے کے قابل ہو تو والدہ سب سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کے نام سکھائے۔ بلکہ اس کی قوت گویائی سے بہت پہلے والدین اس کے سامنے قرآنی آیات ، اللہ تعالیٰ کے نام اور کلمہ پڑھا کریں۔ دودھ پیتے بچے کا ذہن جو کچھ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے۔
(۸)…والدین چھ ماہ کے بچے کے سامنے بھی اپنے ستر سے آزاد نہ ہوں۔
(۹)…بچے کے دل میں عیش و عشرت کے سامان کی محبت نہ پیدا ہونے دیں اور انہیں نئے نئے فیشنوں سے دور رکھیں۔ ہمیشہ ان کو سادگی کا درس دیں۔
(۱۰)… انہیں ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ ان کی طہارت، نظافت اور غسل کا خیال رکھیں۔ کپڑے بھی پاک صاف ہوں۔ بناوٴ سنگھار اور نمود و نمائش سے پرہیز کریں۔ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ ہوں۔ زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج کو خراب نہ کریں۔
(۱۱)…عورت خواہ امیر کبیر ہو کبھی کبھار بچوں کو پیوند لگے کپڑے ضرور پہنائے۔
(۱۲)…جب تک وہ جوانی کی حدود کو نہ چھونے لگے ، بچی کو زیورات نہ پہنائیں ورنہ زیورات اور بناوٴ سنگھار سے محبت بچپن ہی سے اس کے دل میں جڑ پکڑ لے گی۔
(۱۳)…بچوں کے ہاتھ سے خوراک وغیرہ غریبوں کو دلوائیں تاکہ ان کے دل میں فراخدلی ، سخاوت اور فیاضی گھر کر جائے۔ کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کریں کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائی خود ہی آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ بچوں میں سب سے بڑا ماں کی نگرانی میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں میں تقسیم کرے۔
(۱۴)…دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کریں اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔
(۱۵)…بچوں کو چیخنے چلانے اور اونچی آ واز میں گفتگو سے منع کریں اور ایسا کرنے سے خود بھی پرہیز کریں۔ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے کی تاکید کریں۔
(۱۶)…بچوں کی ہر جاو بے جا ضد پوری نہ کریں بلکہ حکمت کے ساتھ ان کی یہ عادتیں چھڑانے کی کوشش کریں۔ کبھی کبھی مناسب سختی بھی کریں۔ بے جا لاڈ پیار سے ان کو ضدی اور خود سر نہ بنائیں۔
(۱۷)…بچوں کو عادت ڈالیں کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ہر کام میں نوکروں کا سہارا نہ لیں۔ اس سے بچے کاہل ، سست اور اپاہج بن جاتے ہیں۔ بچوں کو جفاکش، محنتی اور سخت کوش بنائیں۔
(۱۸)…ان کو باہر کے بچوں کے ساتھ ملنے جلنے سے روکیں۔ بہن بھائی اپنے گھر کی حدود کے اندر مل جل کر کھیلیں جہاں ان کی سب حرکات و سکنات ماں باپ کی نظروں کے سامنے ہوں گی۔
(۱۹)…ان کو اڑوس پڑوس میں آوارہ پھرنے کی اجازت نہ دیں۔
(۲۰)…اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں اور ان کی کوتاہیوں پر غصہ ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تر بیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کریں۔ اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہر حال غالب رکھیں کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
(۲۱)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ شفقت، محبت اور نرمی کا برتاوٴ کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرکے ان کو خوش رکھیں اور ان میں اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھاریں۔
(۲۲)…اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش اور توانائی صرف کردیں۔ اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔یہ عورت کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔
(۲۳)…”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اس عمر کوپہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو “ گو اس حدیث پر عمل کر وانے کی ذمہ داری
باپ پر ہے مگر والدہ بھی دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ۔
(۲۴)…وا لدہ بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلا ح سے مایو سی کا اظہا ر نہ کرے بلکہ ان کی ہمت بڑھا نے کے لیے ان کی معمولی معمولی اچھا ئیو ں کی بھی دل کھو ل کر تعریف
کرے۔ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اوران میں خود اعتما د ی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کو شش کرے تا کہ یہ کار گاہ حیات میں او نچے سے اونچامقا م حاصل کر سکیں۔
(۲۵)…والدہ بچوں کو جنوں،پر یوں کے اوٹ پٹانگ قصے کہا نیاں نہ سنا ئے بلکہ ان کو نبیوں کے قصے ، صالحین کی کہا نیا ں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجا ہد انہ کا رنا مے ضرور سناتی رہے ۔ تر بیت و تہذیب کردار سازی اور دین سے شغف کے لیے اس کو انتہائی ضروری سمجھے اور ہزار مصرو فیتوں کے با وجود اس کے لیے وقت نکالے ۔ اکثرو بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحا نی کے ساتھ پڑھ کر سنائے اور مو قع موقع سے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث بھی بتا ئے اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اجا گر کر نے کی کو شش کر ے ۔
(۲۶)…بچو ں میں باہم لڑائی ہوجائے تو بچے کی بے جا حما یت نہ کرے ۔ یہ خیا ل رکھے کہ اپنے بچے کے لیے اس کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لیے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھے اور ہر پیش آنے والے نا خوشگوار واقعہ میں اپنے بچے کی کوتاہی اور غلطی کا کھو ج لگا کر حکمت اور مسلسل تو جہ سے اس کو دور کرنے کی پر سوز کو شش کر ے ۔
(۲۷)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کر ے اور اس معاملے میں بے اعتدالی سے بچنے کو پوری پو ری کو شش کر ے ۔ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیا دہ میلان ہو تو معذوری ہے لیکن سلوک بر تاؤ اور لین دین میں ہمیشہ انصاف اور مسا وات کا لحاظ رکھے اور کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کر ے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔ اس سے دوسرے بچوں میں احسا س کمتری ،نفرت ، مایوسی اور آ خر کا ر بغا وت پیدا ہو گی اور یہ بر ے جذبات فطری صلا حیتوں کے پر وان چڑھنے میں زبر دست رکاوٹ اور اخلا قی و روحانی تر قی کے لیے سم قاتل ہیں ۔
(۲۸)… بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کر ے ۔ اس کی اپنی زندگی بچوں کے لیے ایک ہمہ وقتی خاموش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سیکھتے رہتے ہیں ۔ بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھو ٹ نہ بو لے ۔
حضرت عبداللہ ابن عا مر رضی اللہ عنہ اپنا ایک قصہ بیان کر تے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا ” یہاں آمیں تجھے چیز دوں گی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا ۔ پو چھا ” تم بچے کو کیا دینا چا ہتی ہو “ والدہ بو لیں ” میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے فرمایا ” اگر تم دینے کا بہانہ کر کے بلاتیں اور بچے کے آنے پر کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامہ میں یہ جھوٹ لکھ دیا جا تا “۔
(۲۹)… اپنے بچو ں کو بر ی صحبت سے بچا ئے ۔ ا ٓس پا س کے جن بچو ں کی عا د تیں خر اب ہیں یا وہ لکھنے پڑ ھنے سے بھا گتے ہیں یاتکلف کے کھا نے اور شو خ کپڑ ے پہننے کے عا دی ہیں ان کے پا س بیٹھنے سے اور ان کے ساتھ کھیلنے سے رو کے ۔
(۳۰)… سو برائیوں کی ایک برا ئی ، ٹیلی ویژن ۔ اگر عورت چا ہتی ہے کہ بچوں کا مستقبل محفوظ رہے ، وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں ، دین و دنیا کی نظروں میں سر خرو ہوں تو ٹیلی ویژن کا داخلہ اپنے گھر میں ممنو ع قرار دیدے ۔
(۳۱)… بچوں کو ایسے کھلونے لا کر نہ دے جو انسانوں یا حیوانوں کی شبا ہت سے مماثلث رکھتے ہو ں یا ان پر ایسی شکلیں بنی ہو ئی ہوں ۔
(۳۲)…ان باتوں سے بچوں کو نفرت دلاتی رہے ، غصہ ، جھوٹ بولنا ، کسی کو دیکھ کر جلنا یا حسد کر نا ، چوری ، غیبت ، اپنی بات کی پچ کر نا ، خواہ مخواہ اس کو بنا نا ، بے فائدہ باتیں کر نا ، بات بے با ت ہنسنا یا زیادہ ہنسنا ، دھوکہ دینا ، بھلی بر ی با ت کا نہ سو چنا اور جھٹ منہ سے نکال دینا ۔ ان باتوں میں سے اگر کوئی بات ہو جائے تو فوراً روکے اور سختی سے تنبیہ کر ے ۔
(۳۳)…بچے سے اگر کوئی بات خوبی کی ظاہر ہو والدین اس پر بر ملا اپنی خوشی کا اظہار کریں ۔ بچے کو شابا ش دیں پیا ر کریں ۔ اگر ہو سکے تو اپنے پا س سے انعام بھی دیں تا کہ اس کا دل بڑھے اور وہ نیکیوں کی طرف مزید مائل ہو ۔ اگر اس کی کوئی بری بات دیکھیں تو ڈانٹنے ڈپٹنے سے پر ہیز کر یں ۔ تنہائی میں اسے سمجھائیں اور اپنی دانست بھر اس برائی کے نتیجہ سے آگاہ کریں ۔ ” تم نے کیسی بر ی حرکت کی ہے ۔ دیکھنے والے دل میں تمہا رے بارے میں کیا خیال کر تے ہوں گے ۔ خبر دار پھر ایسا مت کر نا ۔ نیک بچے ایسا نہیں کیا کرتے “۔ اگر پھر وہی بری حرکت کرے تو اس کو منا سب سزا دیں ۔
(۳۴ )… عورت غصے کی حالت میں بچے کو کبھی سزانہ دے۔ اگر اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اسے سزا دینا ضروری ہو گیا ہے تو پہلے اس کے لیے منا سب سز ا تجویز کر ے اور اپنا غصہ فرو ہونے کے بعد اسے سزا دے ۔ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بچے کو سزا دینا سراسر نا انصافی ہے ۔
(۳۵)…بچوں میں صبح سویر ے اٹھنے کی عادت ڈالے ۔
(۳۶)… ان کو ا یسی کتب یا رسائل پڑھنے کی اجا زت نہ دے جن میں بے ہودہ قصے کہانیاں ، خلاف شرع مضامین ، تصاویر ہوں یا دوسرے مغربی یا مغرب زدہ لڑیچر جو یقینابچوں کے اخلاق اورکردار پر براا ثر ڈالتے ہیں۔اسلا می کتب پڑھنے کو دے جن سے ان کی دینی سوجھ بوجھ میں اضا فہ ہو ۔ نہ صرف اس سمت میں ا ن کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ایسی کتب خو د شوہر سے کہہ کر ان کے لئے مہیا کرے ۔
(۳۷)…عورت کو چا ہئے کہ بچے کو باپ سے ڈرا تی رہے کہ غلطی اور شرا رت پر وہ اسے نہ صرف تنبیہ کرے گا بلکہ سزا بھی دے گا ۔ بچے کے دل میں با پ کی محبت اور عزت بھی پیدا کرنے کی کو شش کر ے ۔
(۳۸)…بچے کو کوئی کام چھپ کر نہ کر نے دے ۔ کھیل ہو ، کھانا ہو یا کوئی اور شغل ، جو کام وہ چھپ کر کرے گا عورت سمجھ جائے کہ بچہ خود اس کام کو برا سمجھتا ہے ۔ اگر وہ واقعی برا ہے۔ تو اس سے چھڑائے اور اگر اچھا ہے جیسے کھا نا پینا تو اس سے کہے کہ سب کے سا منے کھائے پیئے ۔
(۳۹ )…آتش بازی ، با جہ یا فضول اشیا ء خریدنے کے لیے بچے کو رقم مت دے ۔
(۴۰)…بچو ں کو ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت نہ د ے جن میں پیسوں یا کسی دوسری چیز کی ہار جیت ہو ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے یہ جو اء ہے ۔
(۴۱)… اگر بچے کسی شخص کی سیاہ رنگت یا کوئی اور جسمانی نقص دیکھ کر اس کا تمسخر اڑائیں تو ان کی سر زنش کر ے ۔ انہیں بتائے کہ اچھی بر ی شکلیں اللہ تعالیٰ نے بنا ئی ہیں اور بے شک اللہ عقل کل کا مالک ہے ۔
(۴۲)…والدین بچوں میں اپنا کام خود کر نے کی عادت ڈالیں تاکہ ان میں سستی اور کاہلی کی عادت نہ پڑ جائے ۔ اپنا بستر خود بچھا ئیں ، صبح سویر ے اٹھ کر تہہ کر کے احتیا ط سے رکھیں ۔ کپڑے الماریوں میں سلیقے سے رکھیں اور اپنے کمرے کی صفائی کا خود خیال رکھیں۔ چیزوں کو ادھر ادھر نہ بکھیریں بلکہ سلیقہ سے رکھیں۔ بچوں کو صاف ستھرا رہنا سکھائیں۔ صفائی میں غفلت برتنے پر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں۔ صفائی کا خیال نہ رکھنا اور اس معاملے میں لاپرواہی برتنا بچوں میں عام ہے۔ والدین اس سمت میں ان کی خاص طور پر تربیت کریں۔ بار بار تاکید کریں اور مایوس ہو کر چھوڑ نہ دیں کہ ان پر تو کوئی اثر ہوتا ہی نہیں، ابھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر گیا تھا اور کیسا مٹی میں لت پت ہو کر واپس آگیا ہے۔
(۴۳)…بچوں کو عاجزی و انکساری کی تعلیم دیں۔ بچے اپنی اشیاء کی تعریف نہ کریں اور نہ انہیں پاکر فخر کریں اور دوسرے بچوں پر اپنی بڑائی جتائیں۔ شیخی بگھارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
(۴۴)…بچوں کی موجودگی میں ماں باپ آپس میں تلخ گفتگو اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
(۴۵)…مغرب کے بعد بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ مغرب کے بعد شیاطین کثرت سے نکلتے ہیں اور بچے آسانی سے ان کی شیطنت کے زیر اثر آسکتے ہیں۔
(۴۶)…ماں باپ لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیں جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھویں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ نا شکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی نافرمانی بھی۔
حضرت ابن شریط فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے۔
﴿اذا ولدللرجل ابنتہ بعث اللہ عزوجل ملئکتہ یقو لون السلام علیکم یا اھل البیت یکتنفو نھا با جنحتہم و یمسحون با یدیھم علی راسھا ویقو لون ضعیفة خرجت من ضعیفة القیم علیھا معان الی یوم القیمتہ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)﴾
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔“
(۴۷)…والدین لڑکیوں کی تر بیت اور پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کریں اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ سے بہشت بریں کی آرزو کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:
﴿من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات…او ا ثنتین حتی لو قالوا او واحدة لقال واحدة وجبت لہ الہ الجنة (مشکوة۔ ابن عباس)﴾
جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سر پرستی کی انہیں تعلیم و تربیت اور تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ اللہ ان کو بے نیاز کر دے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ نے جنت واجب فرما دی۔ اس پر ایک آدمی بو لا اگر دو ہی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے وہ فرما تی ہیں کہ :
﴿جاء تنی امرئة ومعھا ابنتان لہا تسالنی فلم تجد عندی غیر تمرة واحدة فا عطیتہا ایا ھا فقسمتہا بین ابنتیھا ولم تا کل منھا ثم قامت فخر جت فدخل النبی فحد ثتہ فقال من ابتلی من ھذہ البنات بشیٴ فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار (بخاری ۔ مسلم)﴾
ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سارا ماجرا سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن کر فرمایا ” جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
(۴۸)…لڑکی کو حقیر نہ جانے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دے۔ دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کرے اور یکساں سلوک کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
﴿من کانت لہ انثی فلم یئد ھا و لم یھنہا ولم یو ثر و لدہ علیھا یعنی الذکور ادخلہ اللہ الجنة (ابو داوٴد)﴾
جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور نہ زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا۔
(۴۹)…لڑکیوں سے کہے کہ جو کام کھانے پکانے، سینے پرونے، کپڑے دھونے، رنگنے ، سینے کا کام گھر میں ہوا کرے اس میں غور کرکے دیکھا کریں اور جب عمر ذرابڑی ہو تو ان کو یہ کام خود کرنے کی تربیت دے۔
(۵۰)…والدین جائیداد میں لڑکی کا مقررحصّہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ حصہ ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار موٴمن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خلاف ورزی بھی۔
(۵۱)…ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتی رہے۔ خدائے رحمٰن ، رحیم سے توقع ہے کہ ماں کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پر سوز دعائیں ضائع نہ فر مائے گا۔

آپس میں ناراضگی کی حالت میں کبھی نہ سونے کی نصیحت
یہ بھی نصیحت ہے نصیحت ما ننے والو ں کیلئے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے آپس میں بحث ہو جائے یاآپس میں کوئی بات ہو جائے ۔ اوّل تو ہونی ہی نہیں چاہیے۔ اگر فرض کرو ہو جائے تو اب میاں بیوی کو چا ہیئے کہ ناراض حالت میں کبھی نہ سوئیں ۔ یہ جو ہوتا ہے کہ پہلے آپس میں کوئی بات چل رہی تھی ، پھر ناراض ہو کر خاوند نے ادھر کروٹ لے لی ۔ بیوی نے ادھر رخ کرلیا اور سمجھتے ہیں کہ ہم سوگئے ،ہر گز نہیں یہ گھر بگڑنے کی ایک ابتداء ہوتی ہے۔ زندگی میں یہ فیصلہ کر لیجئے کہ ہم نے ہمیشہ کسی نہ کسی نتیجے پر متفق ہونے کے بعد سونا ہے ۔ اگر کوئی بات آپس میں اختلاف رائے کی ہوجائے تو اول تو اس محبت کے وقت میں اختلاف رائے کی باتیں ہی نہ کریں ۔ اگر کوئی بات نکل بھی آئی ، بیوی نے اعتراض کر دیا ، خاوند نے اعتراض کردیا اور آپس میں دلائل چل پڑے تو جب تک ایک دوسرے کو سمجھا نہ لیں ، جب تک ایک دوسرے کو منانہ لیں اس وقت تک ناراضگی کی حالت میں سونا اپنے اوپر آپ ایسے سمجھیں کہ جس طرح حرام ہو تا ہے
اس لئے کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جب کوئی بیوی اس حالت میں سوتی ہے کہ خاوند اس سے ناراض ہو، اللہ کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جب تک وہ اپنے خاوند کو منا نہیں لیتی تو بیوی کو چاہیے کہ وہ عقل کے ناخن لے کہ ایسی حالت میں کیوں سورہی ہے جبکہ خاوند اس سے ناراض ہے۔ اور آدمی سوچے کہ میری بیوی میری خادمہ ہے اس کے دل کو میں نے تکلیف پہنچادی ، اس کا دل دکھی ہے تبھی تو ناراض ہے۔ اگر اس دکھی دل کو میں نے اس وقت نہ خوش کیا ایسا نہ ہو کہ کہیں اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے کہ تو نے اپنی بیوی کو خوش کیوں نہ کیا جبکہ اس کو خوش کرنے کا حکم شر یعت میں دیا گیا۔ لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ خاوند کو منالے اور خاوند کو بھی چاہیے کہ بیوی کو منالے ۔ ناراضگی کی حالت میں کبھی نہیں سونا چاہیے ۔ بلکہ ایسے وقت میں بھی یہی سوچنا چاہیے کہ
# فرصت زندگی کم ہے محبتوں کے لئے
لاتے ہیں کہا ں سے وقت لوگ نفرتوں کے لئے
یہ تو زندگی اتنی چھوٹی ہے کہ اگر ساری زندگی محبت میں گزاردی جائے پھر بھی زندگی کا وقت تھوڑا ہے۔ پتہ نہیں لوگ نفرت کے لئے کہا ں سے وقت نکال لیتے ہیں ۔ نفرتوں کے لئے تو وقت ہے ہی نہیں ۔ اس وقت کو محبتوں میں گزار دیجئے۔
میاں بیوی میں فقط جیت ہوتی ہے
اگر کبھی بحث و تکرار ہو بھی جائے تو اس نصیحت کو تھام لیجئے کہ ہم نے ایک دوسرے سے ناراض ہو کر نہیں سونا۔ منا ہی لینا ہے، چاہے خاوند کو معذرت کرنی پڑے چاہے بیوی کو۔ موقع کے مناسب جو بھی ہو، دونوں کو ایک دوسرے سے معذرت کرلینی چاہیے ۔ احساس کر لینا چاہیے اور ناراضگی کی حالت میں کبھی نہیں سونا چاہیے ۔ اس لئے کہ جب ناراضگی کی حالت میں سوئیں گے تو شیطان کو دلوں میں نفرتیں ڈالنے کا بیج مل جائے ، اور بیج کو پانی دے گا اور پھر دلوں میں نفرتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ اس لئے جب ناراضگی ہو تو ایک دوسرے کو کوئی شعر سنادیں ۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ۔
# اتنے اچھے موسم میں روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں
تو یہ بات اگر انسان کر لے کہ بھئی ہار جیت تو ہم کل پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اس بحث کا فیصلہ کل کر لیں گے، آج دوستی کر لیں ۔ آج محبت سے وقت گزار لیتے ہیں۔ تو جب اس طرح آپس میں پیار محبت سے میاں بیوی وقت گزاریں گے تو نفرتیں ختم ہو جائیں گی۔ اور واقعی میاں بیوی میں تو ہار ہوتی نہیں میاں بیوی میں تو جیت ہی جیت ہوتی ہے ۔ یہ بیوی کی جیت ہے کہ اس نے خاوند کو قر یب کر لیا اور خاوند کی جیت ہے کہ اس نے بیوی کو قریب کرلیا ۔ لہٰذا میاں بیوی کے درمیان ہار نہیں ہوتی ، میاں بیوی کے درمیان فقط جیت ہوتی ہے، جس نے بھی معافی مانگ لی گویا اس نے جیت لیا، کیا جیت لیا؟ دوسر ے کا دل جیت لیا۔ تو معافی مانگنا ہار نہیں ، معافی مانگنا تو جیت ہے۔ اب بیوی جیتے یا خاوند جیتے اللہ کرے دونوں جیت جائیں اور محبت و پیار کی زندگی گزاریں ۔

بے جا تنقید نہ کرنے کی نصیحت
بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی بیویوں کے کاموں پر تنقید ی نگاہ رکھتے ہیں۔ ہرکام میں سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ؟ یہ کیا کیا؟ یہ کیوں کیا؟ یہ کیسے کیا؟ وہ کیو ں نہ کیا؟ یہ پہلے کیوں کیا؟ وہ بعد میں کیوں کیا؟ اس طرح کی تنقیداور بے جا سوالات سے عورت چڑ چڑاتی ہے اور ظاہر ہے اگر وہ بھی آگے سے ترکی بہ ترکی جواب دے تو آپ کو غصہ آئے گا اور بات بڑھے گی ۔ اور اگر وہ آپ پر غصہ نہ کرے گی تو دل ہی دل میں کڑھے گی یا گھر کے سامان یا بچوں پر اپنا غصہ نکالے گی۔
بیوی کو طعنہ نہ دینے کی نصیحت
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو مندمل ہو جاتا ہے مگر زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا ۔ یہی حال طعنوں کا ہے ۔ کسی کو طعنہ دینے سے بظاہر کو ئی نقصان ہوتا نظر نہیں آتا مگر اندر ہی اندر وہ طعنہ اپنا اثر دکھاتا ہے بعض ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کئی عورتیں پیچیدہ امراض کا شکار اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں زندگی بھر دوسروں سے طعنے سننا پڑتے ہیں ۔ کبھی خاوند اسے طعنے دے رہا ہے ، کبھی ساس طعنے دے رہی ہے، کبھی نندوں کی باری ہے اور کبھی جیٹھانیاں اور دیورانیاں اس پر برس رہی ہیں ۔اگر آپ سمجھدار شوہر ہیں تو آپ کبھی اپنی بیوی کو طعنے نہ دیں ۔ اس پر طنز یہ جملے نہ کسیں ۔ اس سے یا تو وہ نفسیاتی مریض بن جائے گی یا پھر برداشت سے باہر ہوجائے گی اور آپ پر زبان درازی شروع کردے گی ۔ اور ظاہر ہے یہ دونوں صورتیں خود آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی اور آپ کی اِ زدواجی زندگی خوشیوں کی بجائے اُ لجھنوں کا شکار ہوجائے گی۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ غصہ کسی اور بات پر ہوتا ہے مگر اسے بیوی پر اتارا جاتا ہے۔ آپ ایسی غلطی کبھی نہ کریں ۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ غصہ تو باہر کسی شخص پر آیا مگر اس کی بجائے آپ نے آکر بیوی کو پیٹنا شروع کردیا۔ یہ تو نہایت احمقانہ بات ہے اور اس کا ارتکاب بھی احمق اور بے وقوف لوگ ہی کرتے ہیں۔ جب باہر سے گھر آئیں توباہر کی دنیا کو باہر ہی چھوڑ آئیں ، باہر کے کاموں کو اپنے دماغ میں بھی لے کرنہ آئیں ، باہر کسی سے اونچ نیچ ہوئی ، کوئی مصیبت یا پریشانی کا مسئلہ پیدا ہواتواسے باہر ہی چھوڑآئیں اور گھر کی دنیا میں ان باتوں کو یاد ہی نہ کیا کریں ۔ اس طرح آپ میں اتنی طاقت اور برداشت پیدا ہو جائے گی کہ آپ باہر کے غصے کو گھر والو ں پر نہیں اتاریں گے۔
آ پ سوچیے کہ سارادن باہر کے ججھٹ میں رہنے کے بعد شام کو گھر واپس آئیں اور ادھر آپ کی بیوی گھر کو صاف ستھرا کر کے ، کھانا بنا ئے اور بنے سنورے انداز میں آپ کا انتظار کر رہی ہو، پھو لوں کی طرح چہچہاتے بچے ابو کے انتظار میں اداس بیٹھے ہوں اور آپ کے آنے پر سب میں خوشی کی لہر دوڑ جائے مگر آ پ گھر میں داخل ہوتے ہی گالیاں بکنے لگیں ۔ چیزیں اُٹھا اٹھا کر پھینکناشروع کر دیں اور جنت بھر ے گھر کو آناً فا ناً جہنم کا گڑ ھا بنا دیں تو کیا فائدہ ؟ کیا اس سے آپ کا نقصان پورا ہوجائے گا؟
نہیں ، اس سے تو آپ کی پریشانی اور بڑھے گی ۔ پہلے آپ اکیلے پریشان تھے ، اب بیوی بچے بھی پریشان ہوں گے۔ سمجھدار شوہر وہ ہوتا ہے جو اس موقع پر گھر کے سکون سے فائدہ اٹھاتا ہے اور گھر کی خوشی میں باہر کے غصے کو بھلا دیتا ہے۔ 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بیوی خوبصورت یا ” معیاری “ نہ ہو نے پر نصیحت
شادی سے پہلے ہر مرد نے اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں بڑا اونچا معیار قائم کر رکھا ہوتا ہے مگر جب شادی ہوتی ہے تو عورت اس معیار پر پورا نہیں اترتی ۔ چنانچہ شوہر کا دل بجھنے لگتا ہے اور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے بے شمار طلاقو ں کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ ” بیوی معیاری اور خوبصورت نہیں تھی۔
دراصل یہ بھی شیطان کاایک دھوکا ہے جس کے ذریعے وہ خاندانوں کو اجاڑتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس شیطانی دھوکے سے بچیں اور یہ یاد رکھیے کہ جو معیا ر آپ چاہتے ہیں ، اس پر اس دنیا میں کوئی عورت پورا نہیں اترے گی ۔ آپ لاکھ سمجھتے رہیں کہ اگر فلاں لڑکی میری بیوی بنتی تو وہ میرے معیار پر پوری اترتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر اسی لڑکی سے آپ کی شادی ہوجاتی تو آپ اس میں بھی سونقص نکال دیتے اور کسی اور خاتون کے بارے میں یہ کہتے سنائی دیتے کہ ”وہ میرے معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔
اگر آپ ذہنی معیار کو کچھ نیچے لے آئیں گے تو آپ یہ حسرت کرنا چھوڑ دیں گے ورنہ اس حسرت میں ہمیشہ جلتے رہیں گے اور بیسیوں عورتیں بدلنے کے باوجود آپ کی یہ حسرت کبھی پوری نہ ہو گی ۔ ایک چیز آپ سے دور کسی ” شوکیس “ میں بڑے سلیقے سے رکھی ہو تو وہ جاذبِ نظر معلوم ہوگی مگر جب وہی چیز آپ کے ہاتھ میں آجائے تو آپ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں اس سے دل بہلانے کے بعد اسے چھوڑ دیں گے ۔ اب اُسے دوبارہ اُسی شوکیس میں رکھ بھی دیں تو آپ کے لیے وہ جاذبِ نظر نہیں رہے گی کیونکہ آپ اس سے کھیل چکے ہیں ، اب اس جگہ کو ئی نئی چیز آپ کے لیے جاذب ِ نظر ہوگی ، خواہ وہ اس سے بھی کمترہی کیوں نہ ہو۔ یہی مثال عورت کی بھی ہے ۔ پہلے چار دن آپ کوایک عورت جاذبِ نظرمعلوم ہوگی ، بعد میں وہی آپ کے معیا ر ِ حسن پر فیل ہوجائے گی اور اس کی جگہ کوئی نئی عورت جو آپ کی دسترس سے دور ہے ، وہ آپ کو بھلی لگے گی خواہ ماہرین ِ حسن کے نزدیک اُس کاحسن پہلی سے سودرجہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اس لیے یاد رکھیے کہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے ، بدلتی خواہشات کی پیروی کانام نہیں۔ عورت سے آپ نے شادی کی ہے وہ اب آپ کی بیوی ۔ آپ کی عز ت، آپ کے بچوں کی ماں ہے ۔ اب آپ اسی کو حسینئہ عالم سمجھیں ، اسی کے ناز ونخرے برداشت کریں اور اس کے علاوہ دوسری عورتوں کی طرف للچائی نظروں سے نہ دیکھیں ۔ اگر آپ میں استطاعت ہے تو ایک اور شادی کرلیں ۔ اگر دوبیویوں کے اخراجات پورے کرنے کی استطاعت نہیں تو ایک ہی پر قناعت کریں ۔ اگر اس میں کوئی کمی ہے تو یادرکھیے کہ دنیا کی ہر عورت میں کوئی نہ کوئی کمی ضرورہوتی ہے اور جس چیز میں سب برابر ہیں وہ ایک ہی چیز ہے اور اس ایک چیز کی خاطر بیوی بدلنا کوئی دانشمندی نہیں ۔
اسی طرح حسن کاجو معیا ر آپ نے قائم کیاہے ذرا اس پر اپنی بہنوں کو تو ل کر دیکھ لیں ۔ اگر آپ کی بہنیں اس معیار پر پورانہ اتریں اور یقینا وہ بھی ا س معیار پر پورانہ اتریں گی تو کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کے بہنوئی آپ یاآپ کے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے یہ کہتے دکھائی دیں کہ فلاں صاحب کی بہن تو ہمارے معیار پر پوری نہیں اتری ۔ کیا اس بنیاد پر اگر وہ آپ کی بہنوں کو طلاق دینا چاہیں تو آپ کوان کا یہ طرزِ عمل پسند آئے گایا آپ اس پر آگ بگولہ ہوجائیں گے ۔ غور کیجیے کہ دوسروں کے لیے تو ایک چیز آپ پسند نہ کریں مگر خود آپ اسی کا ارتکاب کریں ، تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟
علاوہ ازیں آپ ذرایہ بھی سوچیے کہ جس طرح کے حسن کا معیار آپ نے قائم کیاہے ، کیا آپ خود اس پر پورا اترتے ہیں ؟ جتنی خوبیاں آپ مانگتے ہیں کیا آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو واقعی اتنی خوبیوں والی بیوی ملے ؟ جتنی حسین پری عورت آپ چاہتے ہیں ، کیا اس کے مقابلے میں آپ کاحسن بھی ویسا ہے؟ جس طرح کا پیما نہ لے کر آپ شریک حیات تلاش کرنے نکلے ہیں وہی پیمانہ لے کر اگر کوئی دُلہا تلاش کرنے نکلاہو تو سچ سچ بتایئے کیا آپ اس پیمانے پر پورااتریں گے ؟
آپ خود تو اس معیار کے مقابلہ میں صفر ہوں اور اپنے لیے وہ عورت چاہیں جو سوفیصد اس معیار پر پوری اترے، یہ بے وقوفی اور حماقت نہیں تو بتایئے حماقت پھر کس بلا کانام ہے؟
اگر آپ قناعت کی اہمیت جانتے ہیں اور تقدیر پر راضی رہنے کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں تو یقین کیجیے آپ کی وہی بیوی جسے آپ اپنے معیار سے کمتر سمجھتے تھے ، آپ کی نظر میں اتنی بلند یوں پر فائز ہو جائے گی کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اور پھر اس کے مشورے کے بغیر آپ ایک قدم بھی نہ اٹھائیں گے ۔ حتیٰ کہ اس کا دیدار کیے بغیر آپ کادن نہ کٹے گا۔

 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


نا فرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ
بعض اوقات عورت سے کوئی غلطی ہو جائے تو سمجھدار بیوی خود ہی معافی مانگ لیتی ہے اور آئندہ اس غلطی کو نہ کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہے مگر بعض عورتیں کچھ لا پر وا ہوتی ہیں۔ انہیں بار بار سمجھا نے کی ضرورت ہو تی ہے۔ اگر آپ کی بیوی کا شمار بھی انہی عورتوں میں ہوتا ہے تو پھر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ اپنی بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھا ئیں اور بار بار سمجھا ئیں ۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی بات سمجھ لے گی اور اپنی اصلا ح کر لے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ آپ اصلاح کے لیے حکیمانہ اُسلوب اختیار کریں ورنہ ممکن ہے کہ آپ کے غلط انداز سے سمجھانے کا الٹا نقصان ہو اور بیوی مزید بگڑ جائے۔ بیوی کو سمجھا نے کا طریقہ کچھ اختصار سے بتا تے ہیں۔ اسے مد نظر رکھیں:
(۱)…بعض اوقات بیوی آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے قصداً کو ئی ایسا نخرہ یا شرارت کرتی ہے جسے آپ اس کی نافرنانی ، گلہ شکوہ یا غلط رویہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے سنجیدہ ا ور خشک انداز میں وعظ و نصیحت شروع کر دیتے ہیں۔ بیوی سمجھ جاتی ہے کہ شوہر صاحب میرا مقصد انہیں سمجھے اور آپ کی نصیحتیں اس پر پتھر بن کر برس رہی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں غلطی دراصل شوہر کررہا ہوتا ہے جو اپنی بیوی کا مزاج نہیں سمجھ پاتا۔ لہٰذ ا بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی بیوی کا مزاج سمجھیں تاکہ اس کی غلطی اور نخرے میں فرق کر سکیں اس کی پیار طلب شرارت اور نافرمانی میں امتیاز کر سکیں۔
(
۲)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی موقع پر اصلاح ضروری ہوتی ہے لیکن ہر غلطی ایسی نہیں ہوتی کہ آپ فوراً اصلاح کے لیے لیکچر دینا شروع کردیں۔لہٰذا پہلے یہ دیکھیں کہ آپ اپنی بیوی میں جو غلطی محسوس کررہے ہیں ، وہ ایسی ہے کہ اس پر فوراً اصلاح کی جائے یا کسی اور مناسب وقت پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے بیوی کو سمجھانا مناسب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت ہو ، اس کے مطابق عمل کریں۔
(
۳)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے طنز یہ انداز اختیار نہ کریں ۔ جتنی غلطی ہے اس سے بڑھ کر الزام نہ دیں ۔ انتہائی شگفتہ انداز میں بیوی کو سمجھا نے کی کوشش کریں تاکہ وہ یہ سمجھے کہ آپ اس کے لیے مشفق و مہربان ہیں ، دشمن نہیں ۔
(
۴)…بیوی کو سمجھا نے کے لیے مناظر انہ انداز بھی اختیار نہ کریں ۔ بحث و مباحثہ کی کیفیت پیدا نہ کریں ۔ بلکہ داعیانہ و مصلحانہ انداز اختیار کریں ۔ ایک وقت اگر بیوی اپنی ضد پر اصرار کرے تو مزید نہ اُلجھیں بلکہ کسی اور وقت میں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۵)…دوسروں کی موجودگی میں بیوی کی اصلاح کے لیے اس کی غلطیاں بیان نہ کریں ۔ اس میں اس کی ہتک ہے اور اس طرح وہ آپ کی بات کا برُا اثر لے گی ۔ اس لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ یا تو علیٰحدگی میں سمجھاتے یا پھر اس انداز میں سمجھاتے کہ صرف غلطی کرنے والے کو علم ہو تا کہ مجھے سمجھایا جارہا ہے اور دوسروں کو بالکل خبر نہ ہوتی کہ غلطی کس نے کی تھی۔
(
۶)…بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں منہ سے کچھ کہنے کی بجائے عمل سے سمجھانا پڑتا ہے اگر اس کی غلطی اس نو عیت کی ہوتو پھر زبانی تقریر کی بجائے خود عمل کرکے سمجھانے کی کوشش کریں۔
(
۷)…جب بیوی کواس کی کسی غلطی پر ٹوکنا اور سمجھانا چاہتے ہو ں تو اسکی پچھلی تمام غلطیوں کو پھر سے دہرانے کی کوشش نہ کریں اور یہ انداز اختیار کریں کہ تم تو ہمیشہ سے ایسی اور ایسی تھی۔ تمہیں تو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ اس طرح آپ کچھ اصلاح نہیں کر سکتے بلکہ اور بگاڑ ہی پیدا کریں گے ۔

بیوی کو سمجھانے کے طریقے
(
۸)…”مسلم شریف “ کی ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور عورت تمہارے بتائے ہوئے راستہ پر کبھی سیدھی نہ ہوگی پس اگر تم عورت کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو اس حالت میں فائدہ اٹھا سکتے ہو کہ اس کا ٹیڑھاپن اس میں باقی رہے گا لیکن اگر تم یہ چاہو کہ اس کی کجی دور کر کے فائدہ اٹھا وٴ تو سیدھا کرتے کرتے اس کو تم تو ڑدو گے اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے ۔ یعنی اس کی حالت ضرور بدلتی رہے گی کبھی خوش ہوگی کبھی ناخوش، کبھی شکر گزار ہوگی کبھی نہیں ،کبھی تمہاری اطاعت کرے گی کبھی نہیں ،کبھی تھوڑے پر صبر کرے گی کبھی طمع اور حرص کرے گی اور بات بات پر طعنہ دے گی اور تمہاری نافرمانی کرے گی ۔
بہرحال عورت کے تمام عادات و اطوار و اخلاق برُے نہیں اگر کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں اس کی خوبیوں اور اس کی بھلائیوں پر نظر کرنی چاہیے اور اس خامیوں پر درگزر اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کی اذیتوں اور نقصان کو برداشت کرنا چاہیے۔
(
۹)…آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا آپ کے والدین یا آپ کی بہنیں وغیرہ آپ سے بیوی کی شکایت کریں تو فوری طور پر مشتعل ہونے یا کوئی قد م اٹھا نے سے گریز کریں اس وقت بیوی کوکچھ بھی نہ کہیں کم ازکم اتنا صبر کرلیں کہ دونمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی ظہر کے وقت بات پیش ہوئی تومغرب تک اور اگر مغرب کے وقت پیش آتی تو فجر تک ۔
اس کے بعد بیوی سے بات کریں اگر واقعتااس کی غلطی معلوم ہوتو اس کو سمجھا ئیں اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشاء اللہ عزوجل آپ کے گھر میں بہت ہی زیادہ مثبت تبدیلی رونما ہوگی آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی بیوی کی نگاہ میں آپ کی عزت رہے گی ۔ آپ کی سمجھداری اور بردباری کاسکہ بھی جمے گا اور وہ آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔
(
۱۰)…آپ کو آپ کی ہمشیر ہ نے بتایا کہ فلاں موقع پر بھابھی نے فلاں رشتہ دار سے فلاں فلاں بات کی جس سے ہماری شکایت کا پہلو نکلتا ہے توآپ اس پر فوری ردعمل ہر گز ظاہر نہ کریں اور نہ بیوی پر جرح شروع کردیں بلکہ حکمت سے کام لیں اول غور کریں کہ آیا بات واقعی اتنی اہم ہے جتنی بہن نے سمجھی ؟
اگر اہم نہ ہو تو ٹال دیں اور اگر اہم ہو تو بیوی کو سمجھا نے کیلئے عمومی انداز اختیار کریں۔
(
۱۱)…ایک تدبیر یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی بیوی کی چار شکایتیں پہنچی ہیں یا خود کو کچھ باتیں ناگوار محسوس ہوتی ہیں تو سب پر الگ الگ نہ سمجھا ئیں ، بلکہ ان سب کی وجہ پر غور کریں ۔ پھر اس وجہ کا سد باب کرنے کی کوشش کریں ۔
(۱۲)…اور کوئی بات سمجھا تے ہوئے گڑے مردے نہ اکھاڑیں ۔ کہ جو بات ہوگئی سو ہوگئی اس کو بھول جایئے ۔
یاد رکھیئے!اگر آپ پرانی باتوں کو نہیں بھولیں گے اور بیوی کی ہر چھوٹی بڑی کوتاہی اور غفلت یا ددلاکر اس کے ذہن کو کچوکے دیتے رہیں گے تو یہ بالکل نامناسب ہوگا۔
(
۱۳)…اور سمجھا نے میں موقع محل کا ضرور خیال رکھیں کہ جب آپ بیوی کو سمجھا رہے ہوں تو وقت اور جگہ بھی ایسی مناسب ہوکہ بات نہ بگڑے اورمقصد پورا ہوجائے بعض اوقات جب مناسب موقع پر اور مناسب وقت سے سمجھا یا جاتا ہے تو بیوی کی غلطی نہ ہو تو بھی وہ مان جاتی ہے اور بعض اوقات موقع کا خیال نہیں رکھا جاتا تو غلطی ہونے کے باوجود وہ ضد پر آجاتی ہے اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔
(
۱۴)… اس کا خاص خیا ل رکھیں کہ کبھی بھی کسی کے سامنے اس کو نہ سمجھا ئیں دوسرو ں کے سامنے اس کو ذلیل نہ کریں اس طرح اکیلے میں سمجھاتے ہوئے بھی اپنے رشتہ دارو ں کی عورتوں کی مثالیں دیکر نہ سمجھائیں ۔
اصلاح کیلئے نرمی ، محبت ، اپنا ئیت ، نصیحت ، برداشت ، ہمدردی ، خیر خواہی ، دل سوزی اور درمندی کے جذبات سے معمور اور تلخ کلامی سخت بیانی اور طعن و تشیع سے دور ہو نا چاہیے۔
ان سب تدبیر وں کے ساتھ استغفار بھی کرتے ر ہنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست سے بیوی نا فرمان ہو جاتی ہے اس طرح بیوی کی اصلاح کیلئے بھی خوب دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی بھی فکر کرتے رہنا چاہیے۔
اگر بیوی پر غصہ آجائے تو؟
جہاں محبت ہوتی ہے ، وہاں لڑائی بھی ہوتی ہے اور جہاں پیار آتا ہے، وہاں غصہ بھی آتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے بیوی پر سخت غصہ آجائے تو فوراً بیوی پر غصہ اتارنے کی بجائے اس غصے کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اپنا غصہ دور کریں کیونکہ غصے کی حالت میں انسان جذباتی ہو کر غلط قدم اٹھالیتا ہے اور اسے افسوس ہوتا ہے ۔ اکثر طلا قیں غصے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اور جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی بات پر طلاق دے دی ۔
غصہ دور کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کریں :
۱)…اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں ، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں ۔
۲)…غصہ آئے تو تعوذ پڑ ھیں اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔
۳)…اٹھ کر وضو یا غسل کریں تاکہ جسم نارمل ہوجائے ۔
۴)…اپنے آپ میں غصہ دبانے کی کوشش کریں کیونکہ پہلو ان وہ نہیں جو مد مقابل کو گرا لے بلکہ اصل پہلو ان تو وہ ہے جو اپنے غصے کو پچھاڑلے تاکہ غصہ اسے پچھاڑلے ۔
۵)…یہ طے کرلیں کہ غصہ کی حالت میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے بلکہ جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تب کوئی فیصلہ کریں گے۔
۶)…غصہ کے وقت گھر سے کچھ دیر کے لیے باہر چلے جائیں یا کسی اور اہم کام میں مصروف ہوجائیں ۔
۷)…اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پہلے نماز بڑھیں یا پھر نفل نماز پڑھنے میں مصروف ہوجائیں ،
۸)…یہ سوچیے کہ جس طرح آپ کو اپنی بیوی کی کسی غلطی یا نافرمانی پر اتنا غصہ آیا ہے خود اللہ تعالیٰ کو آ پ کی غلطیوں اور نافرمانیوں پر کتنا غصہ آتا ہوگا۔ اگر آپ اس غصے کے باوجود بھی اپنی بیوی کو معاف کردیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ پر اپنے غصے کو معاف کردیں گے ۔ ان شاء اللہ !
 

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner