Posts Tagged ‘Wife’



اپنے میا ں کو اللہ کے راستے میں خر چ کر نے کے لئے کہتی رہا کریں ۔ اس لئے کہ صد قہ بلا ؤ ں کو ٹا لتا ہے ۔ صد قے سے رزق میں بر کت ہو تی ہے ۔ حدیث پا ک میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے قسم کھا کر فر ما یا کہ صد قہ دینے سے انسا ن کے ما ل میں کمی نہیں ہو تی ۔ اب بتا ئیے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ویسے ہی کہہ دیتے تو کا فی تھا ۔ لیکن اللہ صادق و امین محبوب نے قسم کھا کر فرمایا کہ صدقہ دینے سے انسان کے مال کے اندر کمی نہیں آ تی ۔ اس لئے اپنے خا وند کو اس صد قہ کے با رے میں وقتاً فو قتاًکہتی رہیں ۔ کبھی پر یشان حال ہو تو مشورہ دیں کہ کچھ صد قہ اللہ کے راستے میں خر چ کر دیں ۔ صد قے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ جو کچھ ہے سا را کچھ دے کے فا رغ ہو جا ؤ ۔ بلکہ آپ نے اگر پیسہ بھی خرچ کیا تو اللہ کے ہاں وہ بھی صد قے میں شمار کر لیا جا ئے گا ۔
خو د بھی اللہ کے راستے میں خاوند کی اجا زت سے دینے کی عا دت ڈالیں ۔ اپنے بچوں کے ہا تھوں سے بھی دلوا یا کر یں ۔ کو ئی غر یب عورت آجائے ، پیسے دینا چا ہتی ہیں تو اپنی بیٹی کے ہا تھ پہ رکھ کر کہا کر یں کہ بیٹی جا ؤ دے کے آؤ تا کہ بچی کو سبق مل جا ئے کہ میں نے بھی اللہ کے راستے میں خر چ کر نا ہے ۔ یقین کر یں کہ جتنا ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے با لمقابل اللہ کے راستے میں ہم بہت کم خرچ کر تے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ۔
﴿ و فی امو الھم حق معلوم للسئا ئل والمحروم ﴾ ( المعارج : ۲۵)
” اور وہ جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے سا ئلوں اور مسکینوں کے لئے “
سخا وت کی قدر
یہ دل کی سخا وت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ نبی علیہ السلام کے پا س حا تم طائی کی بیٹی گر فتا ر ہو کر آئی تو اللہ کے محبوب کو بتا یا گیا ۔ اس کا والد بڑا سخی تھا ۔ اس با ت کو سن کر اللہ کے نبی نے اس بچی کو آزاد کر دیا ۔ کہنے لگی ، میں اکیلی کیسے جا ؤں ۔ چنا نچہ آپ نے دو صحا بہ کو اس کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کو بحفا ظت واپس گھر پہنچا ئیں ۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے اکیلی جا تے شر م آ تی ہے ۔ میں آزاد ہو گئی جب کہ میرے قبیلے کے سارے لو گ یہاں قید ہیں ۔ نبی علیہ السلام نے بچی کی بات پر قبیلے کے سارے لوگوں کو معاف فرما دیا ۔ سخا وت اللہ تعالیٰ کو اور اللہ کے محبوب کو اتنی پسند ہے۔ 

خاوند کو پریشانی کے وقت میں تسلی دیا کرے ۔ یہ صحا بیا ت کی سنت ہے ۔ جیسے نبی علیہ السلام پہلی وحی کے بعد﴿ زملونی زملو نی ﴾کہتے ہو ئے گھر تشریف لائے تھے تو خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ان کو تسلی دی تھی۔بلکہ آپ فرماتے تھے کہ ﴿خشیت علی نفسی ﴾ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ تو انہوں نے فرما یا کلا ہر گز نہیں ۔ ﴿انک لتصل الرحم﴾ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ ﴿وتحمل الکل ﴾اور دوسروں کا بو جھ اٹھانے والے ہیں ۔﴿ تکسب المعدوم﴾ اور آپ تو جن کے پا س کچھ نہیں ان کو کما کر دینے والے ہیں ۔ ﴿وتکری الضیف﴾۔ مہمان نو ازی کر نے والے ہیں ۔ جب آپ میں اتنے اچھے اخلاق ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ضا ئع نہیں فرمائیں گے ۔ چنانچہ اہلیہ کی ان با توں سے اللہ کے محبوب کو تسلی مل گئی تھی ۔ خا وند کبھی کا روبار سے یا کسی اور بات سے پر یشان ہو تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر میں آئے تو تسلی کے بول بولے ۔ یہ نہ ہو کہ اس کی پر یشانی کو اور بڑ ھا نے کے لئے پہلے سے تیا ر ہو ۔

بچوں کو بد دعا نہ دینے کی نصیحت
آ ج بچیوں کو تربیت کا پتہ نہیں ہو تا کئی تو ایسی ہو تی ہیں بچا ری کہ چھو ٹے سے بچے سے اگر غلطی ہوئی یا بچے نے رونا شروع کر دیا تو غصے میں آکر اب اس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہہ رہی ہیں کبھی اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتی ہیں میں مر جاتی تو اچھا تھا کبھی بچے کو بد دعائیں دینا شروع کر دیتی ہیں یاد رکھنا کہ بچے کو کبھی بد دعا نہ دینا کوئی زندگی میں ایسا وقت نہ آئے کہ غصے میں آ کے بد دعائیں دینے لگ جا نا ایسا کبھی نہ کرنا ۔ اللہ پا ک کے ہاں ماں کا جو مقام ہو تا ہے ۔ ماں کے دل اور زبا ن سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی اوپر جا تی ہے عر ش کے دروازے کھل جا تے ہیں تو دعا اللہ کے یہاں پیش کردی جاتی ہے ، اور قبول کردی جاتی ہے۔ مگر شیطان بڑا مردود ہے وہ ماں کے ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ میں گالی تو دیتی ہوں مگر میر ے دل میں نہیں ہوتی ۔ یہ شیطان کا بڑا پھندا ہے ۔ حقیقت میں تو یہ بدد عا کے الفاظ کہلواتا ہے اور ماں کو تسلی دیتا ہے کہ تو نے کہا تو تھا کہ مر جا ؤ مگر تمہارے دل میں نہیں تھا ۔ کبھی بھی شیطان کے دھو کے میں نہ آنا ۔ بچے کو بد دعا نہ کر نا ۔ کئی مائیں بچوں کو بد دعائیں دے کر ان کی عاقبت خراب کر دیتی ہیں ۔ اپنی زندگی بر با د کر دیتی ہیں ۔
ماں کی بد دعا کا اثر
ایک عورت کو اللہ نے بیٹا دیا مگر غصے میں قابو نہیں پا سکتی تھی ، چھو ٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو کوسنے لگ جا تی ایک دفعہ بچے نے کوئی بات ایسی کر دی غصہ آیا اور کہنے لگی ۔ کہ تو مر جاتا تو اچھا تھا ۔ اب ماں نے جو الفاظ کہہ دیئے اللہ نے اس کی دعا کو قبول کر لیا مگر بچے کو اس وقت مو ت نہیں دی بلکہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا ۔ اچھا بنا یا لائق بنا یا ۔ وہ بچہ بڑا ہو ا عین بھر پو ر جوانی کا وقت تھا یہ نیک بن گیا لو گوں میں عزت ہوئی لو گ نام لیتے کہ بیٹا ہو تو فلاں جیسا ہو ۔ پھر اللہ نے اس کو بخت دیئے کاروبار بھی اچھا ہو گیا تھا لوگوں میں اس کی عزت تھی ۔تذکرے اور چرچے تھے۔ اب ماں نے اس کی شادی کا پروگرام بنا یا ۔ خو بصورت لڑکی کو ڈھونڈا ۔ شادی کی تیاریاں کیں جب شادی میں چند دن باقی تھے ۔ اس وقت اللہ نے اس بیٹے کو مو ت عطا کر دی ۔ اب ماں رونے بیٹھ گئی ۔ میرا تو جوان بیٹا رخصت ہوگیا رو رو کر حال خراب ہو گئے ۔ کسی اللہ والے کو اللہ نے خواب میں بتایا ہم نے اس کی دعا کو ہی قبول کیا تھا جس نے بچپن میں کہا تھا کہ تو مر جا تا تو اچھا تھا۔ہم نے نعمت اس وقت واپس نہیں لی ۔ہم نے اس نعمت کو بھر پور بننے دیا ۔ جب عین شباب کے عالم میں جوانی کے عالم میں یہ پہنچا نعمت پک کر تیا ر ہو گئی ہم نے اس وقت پھل توڑا تا کہ ماں کو سمجھ لگ جائے کہ اس نے کس نعمت کی نا قدر ی کی۔ اب سو چئے اپنی بددعا اپنے سا منے آتی ہیں ۔یہ قصور کس کا ہو ا اولاد کا ہو ا یا ماں باپ کا ہو ا یہ ایک عبرت اور نصیحت پکڑنے کا ایک نمو نہ ہے ۔
حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا
بی بی مر یم علیہا السلام کے لئے اس کی ماں نے کتنی دعائیں کیں ۔ اور پھر یہ دعا ئیں کر تی رہیں یہی نہیں کہ بچے کی پیدائش ہو گئی تو دعا ئیں بند کر دیں ۔
قرآن مجید میں ہے کہ یہ اس کے بعد بھی دو دعائیں کر تی رہیں ۔
﴿ انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطٰن الرجیم ﴾ ( ال عمران)
اے اللہ میں نے اپنی بیٹی کو اور اس کی آنے والی ذریت کو شیطا ن رجیم کے خلاف آپ کی پنا ہ میں دیا ۔ گو یا بچی چھو ٹی ہے مگر ماں کی محبت دیکھئے ۔ فقط اس بچے کے لئے ہی دعا ئیں نہیں مانگ رہی اس کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعا مانگ رہی ہے ۔ اللہ رب العزت کو ماں کی یہ بات اتنی پسند آئی ۔ فرمایا :
﴿ فتقبلھا ربھا بقبول حسن وا نبتھا نبا تا حسنا ﴾ ( ال عمران )
اللہ رب العزت نے پھر اس بچی کو قبول فر مالیا اور پھر اس کی تر بیت فرمائی تو یہ ماں کی دعا تھی اور مر بی تو حقیقت میں اللہ رب العزت ہے ۔ تو ماں کی دعا ؤ ں کو قبولیت حاصل ہے ۔بچو ں کی جسمانی نشوونما اور اخلا قی اور روحانی تر بیت یہ والدین کی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ جو والدین اس ذمہ دا ری کو احسن انداز میں پو را کر تے ہیں ان کی اولاد دنیا میں ان کے لئے راحت و آرام کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں تر قی درجات کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد کی ذمہ داریا ں پو ری کر نے کی تو فیق عطا فرمائے ۔


اولاد کی اچھی تر بیت کر نا بھی عورت کی ذمہ داری ہے کہ بچے ماں کے ساتھ زیاد ہ وقت گزارتے ہیں ، اس لیے جب ماں بچپن میں ہی ان بچوں کی تر بیت کرے گی تو یہ بڑے ہوکر نیک بنیں گے۔ بچے کی مثال پگھلی ہوئی دھا ت کی طرح ہو تی ہے ، اس کو آپ جس سا نچے میں ڈالیں گے اسی کی شکل اختیا ر کر لے گی ۔ تو ماں بچپن سے اسے نیکی سکھائے گی تو بچے بھی نیک بن جائیں گے اور اگر بچپن میں محبت کی وجہ سے اُ ن کی تر بیت نہ کی تو پھر یہ بڑے ہوکر کسی کی بھی بات نہیں سنیں گے۔ یاد رکھئے کہ ” بچپن کی کوتاہیاں بچپن میں بھی انسان سے زائل نہیں ہوتیں “ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتیں بچوں کے معاملے بالکل ہی لا پر واہ ہوتی ہیں ۔ جس کے اثرات بچوں کی شخصیت پر پڑتے ہیں ۔ اس لئے بچوں کی تر بیت پر خصوصی توجہ دیں۔
بچے پر ماں کا اثر
لہٰذا جو عورتیں ایام حمل میں نماز پرھتی ہیں ، نیکی کر تی ہیں ، سچ بو لتی ہیں ، کسی کا دل نہیں دکھا تی ، اللہ تعالیٰ کو راضی کر تی ہیں ، نیک کام کر تی ہیں ان تمام چیزوں کے اثرات ان کے بچوں پر پڑتے ہیں ۔
اور جب بچے کی ولا دت ہو ئی تو ماں اب بچے کو جو دودھ پلا رہی ہے تو اس کے بھی اثرات ہو تے ہیں ۔ پہلے ماں کے جسم سے خوارک لے رہا تھا اس کے اثرات تھے ، اب دودھ لے رہا ہے اس کے اثرات ہیں ۔ آج کل تو ویسے ہی ڈبوں کا دودھ آگیا … کیا پتہ کس کا دودھ ہے ۔ تو جا نو روں کا دودھ پی کر جا نوروں والی عا دتیں آجا تی ہیں ۔ عورت کو ہر ممکن کو شش کر نی چا ہیے کہ بچے کو اپنا دودھ پلا ئے اگر چہ تھو ڑا ہو ۔ ہاں دودھ کی کمی پو ری کر نے کے لئے اور پلا نا پڑے تو اوربات ہے۔ مگر کچھ عورتیں اس سے بھا گتی ہیں ۔ اب بتا ئیں کہ ماں کے دودھ کی بر کتیں اس بچے کے اندر کیسے آ ئیں گی ۔ ہما رے اسلاف میں جب بچو ں کی پر ورش کا وقت ہو تا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو با وضو دودھ پلا یا کر تی تھیں ۔ بچہ دودھ پیتا تھا ، مائیں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی تھیں ۔ تو بچے کے جسم میں دودھ جا تا تھا اور بچے کے دل میں نو ر جا یا کر تا تھا ۔
با وضو دودھ پلا نے کی بر کت
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ سات لاکھ ہندؤں نے ان کے ہا تھ پر اسلام قبول کیا ۔ جب گھر گئے ، بڑے خو ش ، ماں نے پو چھا بیٹا بڑے خوش نظر آتے ہو ۔ امی !اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت دی کہ اتنے لو گو ں نے اسلام قبول کیا ۔ ماں نے کہا کہ بیٹا یہ تیرا کمال نہیں ہے یہ میرا کما ل ہے ۔ امی ! آپ نے صحیح کہا ، لیکن کیسے ؟ کہنے لگی کہ بیٹا جب تو چھو ٹا تھا تو میں نے کبھی تجھے بے وضو دودھ نہیں پلایا ۔ یہ وضو کی بر کت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ہا تھ پر سات لاکھ انسانوں کو کلمہ پڑ ھنے کی تو فیق عطا فر ما دی ۔
اور آج کیا حال ہے کہ بچے کو سینے سے لگا کر فیڈ دے رہی ہو تی ہیں اور بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔گانے چل رہے ہیں،سن رہی ہیں اور بچے کو دودھ پلا رہی ہیں اور پھر کہتی ہیں کہ میری مانتا نہیں،اگر یہی حا ل ہو گا تو بچے نا فرما ن نہیں ہو نگے تو اور کیا ہو گا؟ یا درکھیے : بچوں کی تر بیت مستقل ایک کا م ہے ما ں با پ کو ابتد اء سے ہی بچو ں کی نیکی کی طرف اٹھا نا چا ہئے ۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner


بچے کو شروع سے ہی صفا ئی کا عادی بنانا
بچے کو بچپن ہی سے صفا ئی رکھنا سکھا ئیں ۔ یہ ماں کی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ ان کو یہ سمجھا ئیں کہ اللہ رب العزت پا کیزہ رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ۔﴿ واللہ یحب المتطھرین ﴾ اور اللہ تعالیٰ طہا رت کر نے والوں سے محبت فرماتے ہیں ۔کہیں تو فرما یا ﴿الطھو رنصف الا یمان ﴾ پا کیز گی تو آدھا ایمان ہے ۔آپ یو ں سمجھائیں گی کہ اللہ رب العزت تو بچوں کی صفائی کو پسند فرما تے ہیں تو پھر بچہ صا ف رہنا پسند کرے گا ۔ چنا نچہ اچھے لو گ پیدا نہیں ہو تے بلکہ اچھے لوگ تو بنائے جا تے ہیں ۔ مائیں اپنی گو دوں میں لو گوں کو اچھا بنا دیا کر تی ہیں ۔ گر می کے مو سم میں بچے کو روزانہ غسل کروائیں کپڑے گندے دیکھیں تو فو راً بدل دیں بستر نا پاک ہر گز نہ رہنے دیں ۔ فو راً اسے پاک کر دیں ۔ لہٰذا بچوں کی تر بیت کا خاص خیا ل رکھیں ۔ کئی مر تبہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ کئی بچے ہیں بہت چھو ٹے ہیں ایک پیٹ میں ہے ۔ دوسرا گو د میں ہے تیسر ے نے انگلی پکڑی ہو ئی ہے ۔ چو تھا صحن کے اند ر شور مچا رہا ہے ۔ پا نچواں پڑ وسی کے بچے کو ایذادے رہا ہے ۔ اب عورت کو سمجھ نہیں آ رہی کھا ئے کدھر کی چوٹ ، بچا ئے کد ھر کی چوٹ ۔ یہ ماں بیچا ری کس پر تو جہ دے اور کس پر تو جہ نہ دے۔ اس با رے میں بھی سن لیجئے۔ ” فتاوی شامی اور فتا ویٰ عالمگیری نے فتویٰ لکھا ہے کہ بچو ں کی تر بیت کی خا طر دو بچو ں کے درمیان منا سب و قفہ رکھنے کے لئے عورت کو دوا کھا نے کی اجازت ہے ۔ اتنا وقفہ ہو کہ جس میں بچوں کی تر بیت اچھی ہو سکے ۔
” انما الا عمال بالنیا ت “ اعمال کا دارو مد ارنیت کے اوپر ہو تا ہے اگر یہ دل میں نیت ہو کہ ہم غریب ہیں آ نے والے بچے کو ، کیسے پا لیں گے ، تو یہ کفر کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں کہ ﴿ ولا تقتلوااولادکم خشیتہ املا ق ﴾ یہ جو خشیتہ املاق کے الفا ظ ہیں مفسر ین نے لکھا کہ یہ شر ط لگا دی گئی ۔ اگر ذہن میں ہے کہ یہ کھا ئیں گے کہاں سے ۔ بچیا ں زیادہ ہو گئیں تو ہم ان کے جہیز کہاں سے بنائیں گے ۔ اگر رزق کا ڈر ہے تو اس ڈر سے اگر کو ئی ایسی با ت کی تو یہ کفر ہے منع ہے حرا م ہے لیکن اگر نیت کو ئی اور ہے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ صحت اجا زت نہیں دیتی یا تر بیت کا معاملہ ہے کہ عورت چا ہتی ہے کہ میرے بچے تر بیت پا ئیں ۔ بجا ئے اس کے کہ یہ بر ے ہوں اور دنیا میں گنہگار لو گوں کا اضافہ زیادہ ہو جائے ۔ میں بچو ں کی اچھی تر بیت کر نا چا ہتی ہوں لہٰذا تر بیت کی نیت سے اگر کچھ وقفہ رکھنے کے لیے کوئی دوائی کھا نی چا ہے تو فتاویٰ شا می اور عالمگیری میں علما ء نے اس کے با رے میں اجازت لکھی ہے ۔


دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات عورت کا اپنے شو ہر کی پہلی بیوی سے اولا د کے ساتھ سلوک بہت خراب اوردلوں کو لرزا دینے والا ہوتا ہے ۔ ایک عورت جب وہ ایسے مرد سے شادی کر تی ہے جس کی پہلے سے اولاد ہو تی ہے کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا چا ہیے ۔ آج کل کے جہا لت کے دور میں شروع شروع میں اکثر بچے اپنی نئی ماں سے خائف رہتے ہیں اور اسے بن بلا یا مہمان تصور کر تے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے لا علمی اور اسلامی اقدار اور تر بیت میں کمی کے با عث وہ اپنی نئی ماں کے صحیح مقام اور رتبہ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں ۔ عام طور پر وہ اپنی سوتیلی ماں کے سا تھ گستا خانہ ، نا روا ، نا فرما نبرداری اورغیر اسلامی رویہ اپنا تے ہیں جسے وہ اپنے ذہن میں ایک نا مہر بان ، ظالم اور ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھنے والی تصور کر تے ہیں ۔ 
سو تیلی اولاد کے ذہنوں سے اس تصور کو دور کر نے کی کو شش کرنا عورت کا پہلا کام ہو نا چاہیے۔ یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ یقینا اس کے لئے وقت اور صبر درکار ہو گا ۔ عورت کو ہر حال میں بچوں کے اعتماد کو جیتنا اوربحال کرنا ہو گا ۔ اسے ایسے راستے اختیا ر کر نا ہوں گے جن سے وہ ان کے دلوں کو جیت سکے ۔ اس کے لئے انتہا ئی درجے کی سوجھ بوجھ اور صبر کی ضرورت ہو گی ۔
عورت ہر گز ان کے باپ کے پاس ان کی غلطی یا نا فرما نی کی شکایت نہ کر ے۔ اس سے ان کے دل اور سخت ہو جا ئیں گے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ دشمنی میں بہت آگے بڑھ جا ئیں گے ۔ اگر کبھی کبھا ر اس کی اشد ضرورت پیش آبھی جا ئے بچوں کے نا رواسلوک اور غلطیوں پر سر زنش کے لیے ان کے باپ کو بتا ئے بغیر چارہ نہ ہو تو وہ ایسا تنہا ئی میں کر ے تاکہ بچے اس سے آگا ہی نہ پا سکیں ۔ نیز وہ اپنے شو ہر سے وعدہ لے لے کہ وہ بچوں کو اس امر سے آگاہ نہیں کر ے گا کہ شکایت ان کی ماں نے کی ہے ۔ اب یہ باپ پر مو قوف ہے کہ بیوی کو شریک کیے بغیر وہ خود ان سے کس طرح نپٹتا ہے ۔
شوہر جب اپنے بچوں کو سر زنش کر رہا ہو تو کبھی کبھار وہ خود بچوں کی طرفداری کرے اور شوہر کے آگے ان کے لیے ڈھا ل بن کر کھڑی ہو جا ئے ۔ شوہر بیوی کے اس رویے کا ہر گز برا نہیں منا ئے گا بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ بچوں کی طرفداری کے اظہار سے بچے اپنی نئی ماں کے ساتھ جلد مانو س ہو جا ئیں گے اور اسے اپنا ہمدرد اورمحافظ سمجھیں گے ۔اس قسم کے دوسرے طریقوں سے اسے بچوں کے دلوں کو جیتنا ہو گا ۔
سو تیلے بچوں کے ساتھ سلوک کے لیے عورت کو تھوڑی سی سمجھ داری اورصبر کی ضرورت ہو گی ۔ عقلمند ی کے طریقے اپنا کر وہ بچوں کے دل جیت لے گی اور یوں خود کو اور اپنے شوہر کو بہت سے مصائب سے بچا لے گی جن کا سامنا ایسے بہت سے گھروں کو کرنا پڑتا ہے جہاں سو تیلی ماں اور بچے ہو تے ہیں ۔
بعض عورتیں بہت غیر معقول رویہ اختیار کر تی ہیں اور کو شش کر تی ہیں کہ سو تیلے بچوں اور اس کے شوہر کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی ہو جائے ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ خاوند کے دل سے بچوں کی محبت کھرچ کر نکال دیں ۔ یہ بہت ظالمانہ فعل ہے اور گنا ہ عظیم۔ وہ یہ کیوں بھول جا تی ہیں کہ ایسے نا رواطرز عمل سے اپنی خوشیوں کی منز ل کو خود سے دور کر رہی ہیں۔
سو تیلے بچے اس کے پاس امانت ہیں ۔ اسے ان سے محبت کر نی چا ہیے ۔ ان کے مسائل کو سمجھنا چا ہیے اور ان کے حل کرنے میں ان کی مدد کر نی چا ہیے ۔ عورت کو چا ہیے کہ سو تیلے بچوں کو ان کاصحیح مقام دے اور ان کو تحفظ فراہم کر ے ۔ وہ ان کے ساتھ دشمنی مول نہ لے۔ہمسری اور رقابت نہ کر ے ۔ بعض اوقات سو تیلی ماں اپنی نو جوان سو تیلی بچیوں کی ہمسری کرنے لگتی ہے ۔ایسا رویہ ایک عورت کے لیے جب کہ وہ ماں کی حیثیت رکھتی ہو شایان شان نہیں بیوی کبھی بھی خاوند کو اس امتحان میں نہ ڈالے جہاں اسے مجبور ہو کر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر نا پڑے ، بیوی یا بچوں کا ۔ بعض اوقات بیوی محسوس کر تی ہے کہ اس کا خاوند اپنے بچوں کی بے جا طور پر طرفداری کر تا ہے اور کسی وقت اس کے ساتھ سلوک بہتر نہیں ہو تا۔ مگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنی نا پسند یدگی کا اظہار کسی طور شو ہر کو نہ ہونے پا ئے ۔ اگر وہ اپنے دل میں بھی ملال نہ لا ئے تو سب سے بہتر ہے ۔ ذہن کی پختگی اورصبر انسان کے مر تبے اور شان میں اضا فہ کرتا ہے ۔

 


اگر ایسا اتفاق ہو جائے کہ مرد دوسری شادی رچالے تو پہلی بیوی کو نہ تو ایسا سوچنا چاہیے اور نہ ہی ایسا بر تاؤ کرنا چا ہیے جیسا کہ غیر مسلم عورتیں کرتی ہیں۔
وہ تو شوہر کی دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ ان کے معاشرہ میں یہ قا بل قبو ل نہیں۔
یاد رکھو!اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک سے زا ٰئد شا دیو ں کی اجا زت دی ہے ، اسلا م کی رو سے ایک مر د کو حق حا صل کہ وہ ایک سے زائد عورتوں سے شاد ی کرے۔
دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی نہ اس طرح برتاوکرے جیسے اس کی دنیا اندھیرا ہو گئی ہو اور اس کی زندگی سے رو شنی مفقود ہو گئی ہو ۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ذہنی طو ر پراسے جھٹکاضرور لگے گااور وہ غمزدہ بھی ہو گی مگر اسے حالا ت کا مقابلہ سو جھ بو جھ ، عقلمندی، ذہن کی پختگی اور صبر سے کرنا ہو گا ۔ اسے اپنی نفسا نی خواہشات جن کو شیطان ابھا رتا ہے کو دبا نا ہو گا اور احسا سات کو بے لگا م ہو نے سے روکنا ہو گا ۔
اگر ان حالات کا مقابلہ وہ حسد ، نفرت ، بغض ، کینہ اور عداوت سے کر ے گی تو اس کو یہ امر یا درکھنا چا ہیے کہ اس کی حا لت مزید خراب ہو جائے گی ۔ شوہر کو دوسری بیوی سے بد ظن اور علیٰحدہ کر نے کی اسکی کو ششیں بار آ ور نہیں ہو ں گی ۔ اپنے نا رواسلوک سے اس کا خاوند اس طرف سے بر گشتہ ہو جائے گا اور اسے وہ کٹنی نظر آنے لگے گی ۔ عورت اپنے برے روئیے سے کچھ اپنا ہی نقصان کر ے گی اور فا ئدہ کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
پہلی بیوی کو اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لینا چا ہیے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتی ۔ اسے ایسی کوشش سے احتراز کر نا ہو گا جس سے وہ اپنے خاوند کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے حق سے دستبر دار ہونے کے لیے مجبور کر ے ۔
عورت کو چا ہیے کہ اپنے خاوند کے دوسری شادی کے فیصلے کو پر وقاررویئے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے لیے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مزید ہو گی ۔ یقینا نقصا ن میں نہ رہے گی ۔ اپنے نفس پر قابو پا کر نئے حالا ت سے سمجھوتہ کر نا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں اپنے نفس سے جنگ کر نے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ۔
نفس کے خلاف مجاہد ہ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے اور جب تک وہ اس زمین پر مقیم ہے اسے نفس اما رہ کے خلاف نبرد آزما ہو نا پڑے گا ۔ ایک مسلمان کو اس امر کی اجازت نہیں کہ ایسی خواہشات کی پیروی کر ے جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ پہلی بیوی کو یہ جان لینا چا ہیے کہ ردّعمل حسد کی بنا پر ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خا طر حسد کو ترک کر دے۔
یاد رکھو ! ایک مسلمان اس دنیا میں آزاد نہیں کہ جو مر ضی میںآ ئے کہے اور کرے ۔ ہماری رہا ئش ، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات و کردار پر لا تعداد بندشیں اللہ کی طرف سے عائد ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ﴿الدنیا سجن المو من و جنة الکافر
(
بہ روایت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ ، مسلم کتاب الزہد۔ ترمذی کتاب الزھد ۔ ابن ماجہ ۔ ابواب الزہد)
دنیا موٴمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے “۔
اچھی اور سچی مسلمان عورت اپنے خاوند کی دوسری بیوی کی عزت کر یگی ۔ اپنے مجروح جذبات پر قابو پا ئے گی ۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ سوت کے ساتھ مہر بانی اور شا ئستگی سے پیش آئیگی ۔ اسلامی طور طریقے اپنانے سے اس کے شو ہر کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات صحت مندانہ ماحول میں ترقی کر یں گے اور ان دونوں میں آپس میں پیا ر و محبت بڑھے گا ۔
عورت کو اپنے شوہر سے دوسری بیوی کے متعلق حقارت آمیز ، طعن آمیز اور تمسخر آمیز گفتگو نہیں کرنی چا ہیے ۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہے ایسا کر نے سے خاوند کو دوسری بیوی سے بر گشتہ کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ اس کے بر عکس اس کا یہ طرز عمل خاوند اور دوسری بیوی کے تعلقا ت کو مزید استوار کر نے کا با عث ہو گا ۔وہ اپنی پہلی بیوی کی نا جائز غیبت پر نالاں ہو کر دوسری بیوی کی طرف زیادہ رجوع کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ دوسری بیوی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جس وجہ سے وہ اس کی زیادہ تو جہ اور ہمدردی کی مستحق ہو گی ۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو عقد ہ کھلے گا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوئی ہے ۔ اسے ایک سچی مسلمان عورت ہونے کے نا طے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجا نا چا ہیے اور صبر کرنا چا ہیے ۔ ایسا با عزت رویہ اپنا کر وہ یقینا فا ئدہ میں رہے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ایک عورت ، جب اس کا شوہر دوسری عورت سے شادی کر تا ہے ، اس پر صبر کرتی ہے ، ایک شہید کا ثواب پائیگی “۔
عورت اپنے صبر کی بدولت اور دوسری شادی کی حقیقت کو پر وقار اور حوصلہ مندی سے قبول کرنے کی صورت میں بہت بڑا ثواب کما ئیگی اور اللہ کے ہاں بڑا رتبہ پا ئے گی پھر وہ کیوں غمزدہ اور مایوسی کا شکار ہو ؟ بہتر ہے کہ وہ جان لے کہ اس کا برا طرز عمل اس کی اپنی شادی کو تباہی کے غار میں دھکیل دینے میں معاون ثا بت ہو گا ۔
دنیوی زندگی ، بہر حال مصیبتوں ، کو ششوں اور سختیوں سے عبا رت ہے جس سے ہر ایک مسلمان کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ مکمل خوشی کا ملنا اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔ اس کے لیے جنت ہے اور اس میں پہنچنے کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ۔ اگر وہ یہ خیال کر تا ہے کہ سختیاں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس پر برداشت و صبر کی روش اختیار کر تا ہے تو اسے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہو تا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ عارضی ہے اور اس دنیا کا رنج و غم بھی عارضی ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جو مستقل جائے قرار ہے ۔ اس دنیا میں اگر انسان نے نیک اعمال کئے ہو ں گے تکلیف میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہر کیا ہو گا تو اسے اس دنیا میں بھی رنج و تکلیف محسوس نہ ہو گی اور آخرت میں اس کے لئے جنت کا وعدہ اللہ نے کیا ہو ا ہے ۔

شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت
اے مسلما ن بہن !
اس حدیث مبارک کو تو جہ سے پڑھیے!
حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی عورتیں ، بہترین عورتیں ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو تی ہیں ، بچوں پر بڑی مہر با ن ہو تی ہیں اور تنگ دست شو ہر کے مال کی حفا ظت کر تی ہیں ۔“ ( البخاری ۳۳۳۳، مسلم ۱۶/۸۰)
حدیث مذکو رہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ” قریش کی عورتیں ، بہتر ین عورتیں ہیں ۔“ یہ قریش کی عورتوں کو عرب کی عورتوں پر خا ص طو ر پر فضیلت دینا ہے اس لیے کہ اہل عرب عمو ماً اونٹوں والے ہو تے تھے ۔ ( فتح الباری : ۶/۳۷۳)
پھر فرمایا کہ ” احناہ “ یعنی بچوں پر بہت شفقت کر نے والی ہو تی ہیں ، ” حا نیتہ “ اس عورت کو کہتے ہیں جو با پ کے مر نے کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کر تی ہو ، جیسا کہ کہا جا تا ہے :” حنت المرأة علی ولدھا “ یعنی عورت نے بچوں کے باپ کے مر نے کے بعد دوسری شادی نہیں کی ، کیونکہ جو شادی کر لیتی ہے اس کو ” حا نیتہ “ نہیں کہتے ۔ اس حدیث سے اولاد پر شفقت و مہر با نی اور ان کی اچھی تر بیت کر نے کی فضیلت معلوم ہو ئی کہ جب بچوں کا باپ فوت ہو جائے تو بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھا ل بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے ۔ ( شرح النووی : ۱۶ / ۸۰)
پھر فرمایا: ” وار عاہ علی زوج فی ذات ید “ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے مال کی خوب حفاظت رکھتی ہے اور فضو ل خر چی نہیں کر تی ۔ ” وذات ید “ کا معنی قلیل الما ل ہے ، یعنی تنگ دست ہو ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بناتی ہے، شو ہر کے ساتھ تنگ زندگی گزار تی ہے ، شو ہر کی تنگ دستی اور مادی حالت سے نہیں اکتاتی بلکہ صبر و احتساب سے کا م لیتی ہے اور جا نتی ہے کہ اصل لذت ایمان کی لذت ہے نہ کہ مال کی لذت ۔
لیجئے !سنیئے ! حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھا نجے حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے کیا فرماتی ہیں : حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھا نجے سے فرمایا: ” اے میر ے بھا نجے ! ہم مسلسل چاند پر چاند دیکھتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ نے پو چھا : خالہ جان پھر آپ کا گزر بسر کیسے ہو تا تھا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : دو سیاہ چیزیں ، یعنی کھجو ر اور پا نی پر گزر ہو تا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار سے کچھ پڑوسی ہو تے تھے ، وہ کبھی کبھا ر اپنی بکریوں کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا تے تھے۔“ ( البخاری : ۶۳۵۹

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner