Posts Tagged ‘مشروط نکاح’

مشروط نکاح

Posted: دسمبر 12, 2012 by EtoPk in مضامین, دینی مسائل
ٹيگز:, ,

جب خاوند یا بیوی نکاح کرتے وقت کوئی شرط رکھیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
(۱)… وہ شرط عقد نکاح سے ملی ہوئی ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط کے ساتھ نکاح کررہا ہوں کہ تیرے پاس رات نہیں گزاروں گا۔
(۲)… نکاح ، شرط سے معلق ہے۔ یعنی شرط کے پائے جانے پر نکاح کے انعقاد کا دارومدار ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ اگر فلاں شخص آیاتو میں تجھ سے نکاح کروں گا۔
ان میں سے پہلی شرط عقد نکاح پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتی۔ پھر دیکھیں گے اگر وہ ان امورمیں سے ہے جن کو عقد چاہتا ہے تو وہ شرط بھی نافذ ہوجائے گی۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کررہا ہوں کہ تو کسی اور کی بیوی نہ ہو یا کسی اور کی عدت نہ گزار رہی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر اس شرط کو عقد نہیں چاہتا تو پھر یہ شرط لغو ہوجائے گا اور نکاح صحیح ہوجائے گا۔ اس کی مثال یہی زیر بحث مسئلہ ہے۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے نکاح کررہا ہوں تاکہ تو اس شخص کے لئے حلال ہوجائے، جس نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں۔
گویا شرط کسی قسم کی بھی ہونکاح کے انعقاد میں فر ق نہیں پڑتا، جبکہ کوئی دوسری رکاوٹ نہ ہو۔ اس لئے فقہ حنفی کے ضابطہ کے مطابق تحلیل (حلالہ) کی شرط کے باوجود نکاح صحیح ہوجائے گا، البتہ شرط باطل ہوجائے گی اور دوسرا خاوند طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔
چنانچہ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:
لان النکاح لایبطل بالشروط الفاسدة بل یبطل الشرط مع صحة العقد ومما لاشک ان شرط التحلیل لیس من مقتضی العقد فیجب بطلانہ وصحة العقد (عبدالرحمن حریری۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۰)
کیونکہ نکاح، فاسد شرائط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا بلکہ عقد صحیح ہوجاتا ہے اور شرط باطل ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حلالہ کی شرط ان امور میں سے نہیں ہے جن کو عقد نکاح چاہتا ہے۔ پس اس (شرط) کا باطل ہونا عقد کا صحیح ہونا ضروری ہے۔
حدیث کا مفہوم
اگر یوں کہا جائے کہ حدیث شریف میں حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے (جیسا کہ پہلے حدیث گزر چکی ہے) تو اس کے باوجود نکاح کیسے صحیح ہوگا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حلالہ کی شرط پرنکاح کا عمل حرام ٹھہرے گا، یعنی نکاح ہوجائے گا اور یہ لوگ حرام کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ انہوں نے ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ا س کی مثال یوں سمجھئے کہ جمعة المبارک کے دن اذان (پہلی اذان) کے بعد کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کے لئے تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
واذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع (سورہٴ جمعہ ۶۳/۹)
اور جب جمعة المبارک کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص دکان بند نہ کرے اور سودا بیچے تو خریدنے والا اس سودے کا مالک اور یہ اس رقم کا مالک ہوجائے گاجو بطور قیمت وصول کی ہے۔ گویا حرام ہونے کے باوجود سودا ہوجائے گا۔