Posts Tagged ‘Milk’


بچے پر ما ں کے دو دھ کے اثرات
بچے کیلئے پہلا تحفہ جو ماں اسے پیش کر سکتی ہیں وہ ماں کا اپنا دودھ ہی ہوتا ہے۔ ماں کو چاہیے کہ بچے کو اپنا دودھ ضرور پلائے ہاں اگر دودھ میڈیکلی ٹھیک نہیں ۔ بچے کیلئے نقصان دہ ہے تو یہ اور بات ہے لیکن اگر ماں کا دودھ بچے کیلئے ٹھیک ہے تو اس سے بہتر غذا بچے کو اور کوئی نہیں مل سکتی۔ ہر ماں کو چاہیئے کہ ضرور دودھ پلائے ۔ تاکہ بچے کے اندر ماں کی محبت آجائے۔
اگر ماں دودھ ہی نہیں پلائے گی تو ماں کی محبت بچے کے اندر کیسے آئے گی بعض ما ئیں شروع سے ہی بچے کو ڈبوں کے دودھ پر لگا دیتی ہیں پھر جب ڈبے کا دودھ پی کر بچے بڑے ہوتے ہیں ماں کو ماں نہیں سمجھتے اس لئے کسی شاعر نے کہا #
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اعتبار کی
دودھ ڈبے کا پیا تعلیم ہے سرکا ر کی
جب نہ دین کی تعلیم پائی ہے نہ ما ں کا دود ھ پیا ہے تو پھر اس میں اچھے اخلاق کہا ں سے آئیں گے ۔
ایک ماں اپنے بیٹے سے نا راض ہو ئی کہنے لگی بیٹے تم نے میری با ت نہ مانی تو کبھی بھی تمہیں اپنا دودھ معاف نہیں کر وں گی ۔ اس نے مسکرا کر کہا امی میں تو نیڈو کے ڈبے کا دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں آپ نے مجھے اپنا دودھ پلا یا ہی نہیں ۔ مجھے معاف کیا کر یں گی ۔ تو ایسا واقعی دیکھا گیا کہ ڈبوں کے دودھ کے اثرات اور ہو تے ہیں اور ماں کے دودھ کے اثرات اور ہو تے ہیں ۔
بچے کو دودھ پلانے کے آداب
ما ں کو چا ہئے کہ بچے کو دودھ خود پلائے خود بسم اللہ پڑ ھ لے ۔ اور جتنی دیر بچہ دودھ پیتا رہے ماں اللہ کے ذکر میں مشغول رہے ۔ ماں اللہ رب العزت کی یاد میں مشغول رہے ۔ ماں دعائیں کر تی رہے اللہ میرے دودھ کے ایک ایک قطرے میں میرے بیٹے کو علم کا سمندر عطا فرما۔ تو ما ں کی اس وقت کی دعائیں اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہیں۔
با وضو اپنے بچوں کو دودھ پلا ئے تو وہ ما ں بڑی خو ش نصیب ہے ۔ اور اگر نہیں پلا سکتی تو کم از کم دودھ پلاتے وقت دل میں اللہ کا ذکر تو کر سکتی ہے ۔ اور یہ نہ کرے کہ ادھر دودھ پلا رہی ہیں ادھر بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہیں ۔ اگر گناہ کی حالت میں دودھ پلا ئیں گی تو بچہ نا فرمان بنے گا۔ اللہ ربّ ا لعزت کا بھی اورماں با پ کا بھی ۔ بعد میں رونے کا پھر کیا فائدہ اس لئے بچپن سے ہی بچے کی تر بیت ٹھیک رکھی جا ئے ۔ اگر ماں کا دودھ کم ہوتو اس کو چا ہئیے کہ ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اپنا علا ج کر وائے ۔ فوراً ڈبے کے دودھ پر ڈالنے کی کیا ضرورت ، بچیا ں عام طور پر یہ غلطی کر لیتی ہیں ۔ سمجھتی ہیں کہ ہمارا دودھ پو را نہیں اور تھوڑا تھوڑا ڈبے کا دینا شروع کر دیتی ہیں ۔اب ڈبے کے دودھ کا ذائقہ کچھ اور ، اور ماں کے دودھ کا ذائقہ کچھ اور ۔ عام طو ر پر بچے ماں کا دودھ چھوڑکر ڈبے کا دودھ لینا شروع کر دیتے ہیں تو ایسا ہر گز نہ کر یں ۔ جب تک کوئی بہت بڑی مجبو ری نہ ہو ۔ ورنہ تو بچے کو اپنا دودھ پلا ئیں ۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی محبت بچے کے دل میں کیسے سرائیت کر جا تی ہے ۔ یہ ماں اپنا دودھ پلا ئے گی تو بچے کے اندر ماں کے اخلا ق بھی آ ئیں گے ۔ ماں کی ایمانی کیفیت کی بر کا ت بھی بچے کے اند رآئیں گی ۔
فیڈ ر ، چو سنیاں بیماری کا مر کز
یہ بات ذہن میں رکھنا کہ اکثر عورتیں جو ڈبوں کے دودھ پلا تی ہیں تو ان کے بچے بیمار رہتے ہیں اس بیماری کا سبب ان کی فیڈر اور چوسنیا ں ہیں ۔ یہ فیڈر اور چوسنیاں تو بیماری کی سینٹر ہو تی ہیں جہاں پر جر اثیم بیکٹیریا پر ورش پا تے ہیں ۔ لا کھوں کروڑوں کی تعدا دمیں آپ جتنا مر ضی ان کودھو تی رہیں ، جتنا مر ضی گرم پانی میں ڈالتی رہیں ۔ چو نکہ وہ ربڑ کے بنے ہو تے ہیں اس لئے اس کے اندر بیکٹیر یا کا چھپنا آسان ہو تا ہے یا تو یہ کریں کہ اگر ڈبے کا دودھ ہی مجبو راً پلا نا ہے تو ہر دوسرے دن اس کا فیڈر اور چوسنی کا نیپل بدلتے رہیں ۔ تاکہ بیکٹیریا اس میں پیدا ہی نہ ہو سکیں ۔ اور اگر اتنا نہیں کر سکتیں تو پھر دوسرا طر یقہ یہ ہے کہ بچے کو سٹیل کے برتن اور چمچ کے ساتھ دودھ پلا ئیں جو ما ں بچے کو سٹیل کے صاف بر تنوں میں دودھ پلا تی ہے اس بچی کے پیٹ میں کوئی خرابی نہیں آ تی ۔ یا تو اپنا دودھ پلا ئیں یا سٹیل کے بر تنوں چمچ کے ساتھ دودھ پلا ئیں ۔ اگر یہ بھی نہیں کر پاتی اور فیڈ ر چوسنی دینی پڑتی ہے تو پھر ہر دوسرے تیسرے دن اسکو بد لتی رہیں ۔ ایک فیڈر مہینہ چلانا وہ تو بچے کے منہ میں بیکٹیریا کی ایک برگیڈ فوج داخل کر نے کی مانند ہے ۔ اب یہ بچہ بیما ر ہو گا مگر قصور ماں کا ہو گا ۔ معصوم بچے ہو تے ہیں یہ ماں باپ کی لا علمی اور لا پر واہیوں کی وجہ سے بیچار ے صحت کے بجائے بچپن سے بیمار ہو تے ہیں ۔ سا ری عمر اس کمزوری کے اثرات ہو تے ہیں ۔ اس لئے سب سے ا چھا تو یہی ہے کہ اپنا دودھ ہو ۔ جس کی بر کتیں بھی ساتھ جا رہی ہوں۔

عورت بچے کو اپنا دودھ پلائے۔ ماں پر بچے کا یہ حق ہے۔ قرآن نے اولاد کو ماں کا یہی احسان یاد دلا کر ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کا فرض یہ کے وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ توحید کا درس دے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کی محبت بھی پلائے اور اس محبت کو اس کے قلب و روح میں بسانے کی کوشش کرے۔ پرورش کی ذمہ داری کسی ملازمہ پر ڈال کر اپنا بوجھ ہلکا نہ کرے بلکہ اس خوشگوار دینی فریضے کو خود انجام دے کر روحانی سکون اور سرور محسوس کرے۔
مسلمان عورت اس امر کونہ بھولے کہ بچوں کی پرورش میں ماں کے دودھ کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
آج کل اکثر عورتیں اپنی ظاہری خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ننھے بچے کو اپنا دودھ پلانے سے پرہیز کرتی ہیں۔ ان کی اپنی خود غرضانہ خواہش انہیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے مانع رکھتی ہے۔ بچے کو اس نعمت سے محروم رکھنا اس کے حق میں بہت بڑی نا انصافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کی بہت تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے جو بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی قدرتی اور پاکیزہ ذمہ داری سے اچھی طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”دودھ کے ہر گھونٹ کے عوض جو بچہ اپنی ماں کے چھاتی سے حاصل کرتا ہے عورت کے نامہٴ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اگر عورت اپنے بچے کی خاطر رات کو جاگتی ہے، اسے اللہ کی راہ میں ستر غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے“۔
ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” جب ایک عورت اپنے ننھے بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو دودھ کے ہر گھونٹ کے عوض عورت کو ایک مرتے ہوئے شخص کی زندگی بچانے کے بقدر ثواب ملتا ہے۔ جب وہ اپنے بچے کو خوراک دیتی ہے تو ایک خاص فرشتہ اسے مبارکباد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے“(کنزالعمال)
نیز دودھ پلانے والی خاتون کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مجاہد کی طرح بتایا جو اللہ کی راہ میں مسلسل پہرہ دے رہا ہو اور اگر اس دوران اس عورت کا انتقال ہو جائے تو وہ شہادت کا اجر پاتی ہے۔
جو خواتین جدید تہذیب کے تقاضوں سے متاثر ہو کر بچے کو دودھ نہیں پلاتیں یا اس خطرے سے اپنے بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھتی ہیں کہ دودھ پلانے سے ان کے حسن و جمال اور ان کی دلکشی اور رعنائی میں فرق آجائے گا اور ان کا شباب تباہ ہو جائے گا، وہ ماں ہوتے ہوئے بھی ماں کی مامتا، ماں کے جذبات اور ماں کے دل سے محروم ہیں، اس لیے کہ بچے کے لیے کوئی بھی دودھ ماں کے دودھ کا بدل نہیں بن سکتا۔ اس انداز سے سوچنے والی خواتین کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ ان نا پسندیدہ محر کات کے تحت اپنے بچوں کو اپنے دودھ سے محروم کرنے والی خواتین کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت ہی درد ناک انجام سے ڈرایا ہے۔ معراج کی شب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہی:
﴿ثم انطلق بی فاذا بنساء تنھش ثدیھن الحیات قلت ما بال ھو لاء قیل ھو لا ء یمنعن اولا دھن البانھن ۔
(تر غیب و ترہیب)
”پھر(حضرت جبرائیل علیہ السلام ) مجھے اور آگے لے چلے کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں ہیں جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں، کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں“۔
ماں کا دودھ بچے کے لیے فطری غذا ہے جو اس کو بھر پور صحت اور توانائی بخشتا ہے۔ لیکن وہ صرف جسمانی غذا ہی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی غذا بھی ہے۔ ماں کا دودھ بچے کے قلب و روح، جذبات، احساسات اور اخلاق و کردار پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
ماں کو بچے سے جو غیر معمولی انس ، محبت ، گہراطبعی لگاوٴ اورا نتہائی قلبی اور روحانی تعلق ہوتا ہے اس میں بڑا حصہ دودھ کا ہے۔ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی وہ بچے کے سینے میں اپنے لیے وہ جذ بات ہر گز نہیں پاسکتیں جو دودھ پلانے ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔اگر انہیں بچوں کی طرف سے سرد مہری بے تعلقی اور بیگانگی کی شکایت ہے تو وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں اس لیے کہ عمر کے ابتدائی دو سالوں میں اپنے گرم سینے سے لگا کر انہوں نے جب بچے کے سینے میں مہرو محبت خلوص و یگانگت اور روحانی قلبی تعلق کی گرمی منتقل ہی نہیں کی تو قدرتی طور پر اس کا یہی نتیجہ ہو نا چاہیے۔
اب جب کہ عورت کو اپنا دودھ پلانے سے متعلق اسلامی تعلیمات اور اس فرض کی ادائیگی میں ثواب سے آگاہ کر دیا گیا ہے، کوئی بھی مسلمان عورت جسے اپنے فرائض کی ادائیگی اور عدم ادائیگی سے متعلق خدا کا خوف ہو گا بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے ہر گز گریز نہیں کرے گی۔اگر چہ غیر مسلم طبی ماہرین نے عورت کا بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے فوائد اور قدر و قیمت سے متعلق بہت کچھ لکھا ہے، ایک سچی مسلمان عورت کو ایسی ترغیبات کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے اس کے لیے اپنے اس قدرتی اور اسلامی فرض کی ادائیگی کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿قل اطیعوا اللہ و الرسول فان تو لو ا فان اللہ لایحب الکٰفرین ( آل عمران ۳۲)
ان سے کہو ” اللہ اوررسول کی اطاعت قبول کر لو “ پھر اگر وہ تمہا ری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لو گو ں سے محبت کر ے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکا ر کر تے ہو ں۔
﴿ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ﴾ (النسا ء۸۰)
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے در اصل اللہ کی اطاعت کی۔
اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بچہ کو دودھ پلائے اور رضائی ماں کا درجہ بھی تقریباََ حقیقی ماں کے برابر ہے۔ ماں بیماری اور نقاہت کی صورت میں بچے کی عام دودھ سے نشو ونما کر سکتی ہے۔ بہر حال مقصد بچے کو معینہ عرصہ تک دودھ پلانا ہے تاکہ اس کی مناسب نشوو نما ہو۔ والد پر یہ فرض ہے کہ بچہ اور اس کی والدہ کی کفالت کرے اور ان کے مصارف برداشت کرے۔

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner