Posts Tagged ‘Divorce’


#… تیری ناپسندیدہ حالت تیرے شوہر کو غمگین نہ کرے ،نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظر پڑے یااچانک سامنے آجائے تو تیرے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوں۔
#… خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے اس کو خوب راضی اور خوش کرو، جتنی تم اس کی اطا عت کر و گی اور اس کو خوش رکھو گی اسی قدر وہ آپ کی محبت کو محسو س کر ے گا اور آپ کو بھی خوش رکھنے کی کو شش کر ے گا ۔
# … آپ کے شو ہر سے لغزش ہو جا ئے تو منا سب مو قع اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر و ۔
# … کشادہ دِل ہو جاؤ شوہر کی طرف سے ہو نے والی منفی با تیں فرامو ش کر دو۔
#… اپنی عقلمندی اور شو ہر کے ساتھ اپنی محبت و تعلق کے ذر یعہ اس کی غلطیوں کی اصلاح کر و ، شو ہر کے جذبا ت مجروح کر نے کی ہر گز کو شش نہ کرو۔
# … اپنے شوہر کے سا منے کسی اجنبی آدمی کی تعریف نہ کرو ، ہاں البتہ اگر کو ئی دینی صفت اس میں ہو تو کو ئی حر ج نہیں۔
# … شو ہر کے متعلق کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
# … شو ہر کے سا منے ہمیشہ وہی بات کرو ، جو اس کو پسند ہو اور وہی کام کر و جو اس کی نظر میں اچھا ہو ۔
#… اپنے خا وند کو یہ با ت سمجھا ؤ کہ جب بھی اس کی طرف سے شدت کا اظہار ہو وہ احترام کا دامن ہا تھ سے نہ جانے دے ، کیونکہ یہ شدت ، عارضی اور وقتی ہوتی ہے ۔
#… اپنے خا وند کو باور کر اؤ کہ جب اس (خاوند ) کے والدین یا اعزہ واقربا ء میں سے کوئی بیما ر ہو تو دونوں کو اس کی بیما ر پر سی کر نی چا ہیے ، نہ یہ کہ صرف خاوند ہی اس کی بیما ر پر سی کر ے ۔
#… جب مالی تنگی پیش آئے تو آزردہ خاطر نہ ہو ، اپنے شو ہر کو بتا ؤ کہ اس کو اللہ نے بہت سی خیریں عطا فرمائی ہیں ۔
# … کو شش کر و کہ جب وہ ہنسے تو تم بھی ہنسو اور جب وہ روئے یا غمگین ہو تو تم بھی غم و حزن کا اظہار کر و ۔
# … جب وہ بات کر ے تو پوری تو جہ سے سنو اور خاموش رہو۔
#… اس کے دِ ل میں نہ بٹھا وٴ کہ تم اس سے ہمیشہ فلا ں چیز ما نگتی ہو ، ہا ں اگر اس کے ذ کر کر نے سے وہ خو ش ہوتا ہوتو پھر کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
#… ایسی غلطیاں بار بار کر نے سے پر ہیز کر و جس کے متعلق تم جا نتی ہو کہ تمہارا شو ہر ان کو پسند نہیں کر تا یا ان کو دیکھنا نہیں چا ہتا ۔
#… جب آپ کا شوہر گھر میں نفل نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے کھڑی ہو جا یا کرو اور نماز پڑھا کرو اور جب کو ئی علم کی کتا ب پڑھے تو تمہیں بھی بیٹھ کر اس کو سننا چا ہیے ۔
#… شوہر کے سامنے اپنی ذاتی آرزوؤں کے با رے میں زیادہ با تیں نہ کیا کرو۔
#… ہر چھو ٹی بڑی بات میں خاوند کی رائے کو ترجیح دو ، آپ کی اس سے محبت ، اکثر مو قعوں پر اس چیز کو ظاہر کر تی ہو۔
#… شوہر جو راز بیا ن کر ے اس کی حفا ظت کر و، اس کا افشا ء نہ کرو، خواہ آپ کے ماں با پ کا کیوں نہ ہو ، کیونکہ اگر تم اس کے راز کو کھولو گی تو اس کے سینہ میں غصے کی آ گ بھڑک سکتی ہے اور کینہ و عداوت پیدا ہوسکتی ہے ۔
# … کسی پیرا یہ میں بھی اپنا تعلیم یا فتہ اور ڈگر ی ہو لڈر ہونا بیان نہ کر و ، کیونکہ یہ چیز نفرت کا سبب بنتی ہے ۔
# … اپنے شو ہر کے ساتھ نر م انداز میں پیش آؤ ، ورنہ گھر ، با زار والا نقشہ پیش کر ے گا ۔
# … جب گھر میں کشید گی یا نا چاکی پیدا ہو تو گھر چھو ڑ نے کا کبھی نہ کہو ، کیونکہ اس سے اس کے دِل میں آئے گا کہ تم اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتی ہو ۔
# … جب خاوند گھر سے جانے لگے تو اس کے سامنے اپنی آزردگی اور بے چینی کا اظہا ر کرو۔
#… جب کہیں جا نے کا کوئی پروگرام ہواور وہ کسی وجہ سے کینسل کر ے تو اس کے عذر کو قبول کر و ۔
# … اس کے سامنے غیرت کا اظہا ر نہ کرو ، کیونکہ یہ تبا ہی لا نے والا ہتھیار ہے ۔
# … اپنے خاوند سے یوں بات نہ کر و کہ جس سے تم بے قصور معلوم ہو اور وہ قصور والے ۔
# … خاوند کے جذبات کا خیال رکھو، اس کے سامنے اپنے رشتہ داروں کے فضا ئل زیادہ ذکر نہ کرو ۔
#… اپنے خا وند سے جھو ٹ با لکل نہ بولو ، کیونکہ اس سے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی ۔
#… اپنے کو یہ با ت ہمیشہ با ور کر اؤ کہ اگر وہ اس سے شادی نہ کر تا تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر تی ؟
#…کبھی ایسی حالت اختیا نہ کرو جو تیرے شوہر کو اچھی نہ لگے بہترین عورت وہ ہے جس پر اُس کے خا وند کی نظر پڑے تو اس کی سعادت ، اچھی حالت اس کی آنکھوں کے سا منے نمایاں ہو۔
#… جب بھی تیری طرف خا وند نظر کر ے تو تیر ے ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ نمایاں ہو ۔
#… اپنے شوہر کی نافرماں بردار ی سے اسے بہت زیادہ راضی کر تیری فرما نبرداری کے مطابق ہی تیرا شوہر تیری محبت کاا حسا س کرے گا اور تجھے راضی کر نے کی جلدی کوشش کریگا ۔
#… تیری جو غلطی تیرے شو ہر کے نو ٹس میں آ گئی ہو اس کے تکدر کو دور کر نے کے لیے منا سب وقت اور مناسب طر یقہ اختیا ر کر ۔
#…(بر داشت کے لئے) فراخ دل ہو ( شوہر کے سامنے ) اسکی ان غلطیوں کا زیاد ہ تذکر ہ نہ کر جو اس سے کسی غیر کی خا طر سر زد ہو گئی ہو ں ۔
#…اپنے شوہر کی محبت کی بنا ء پر ہر طرح کی ذہا نت اور عقلمند ی سے اسکی غلطیوں کا تدارک کر اور اس کے احساسات کو مجروح کر نے کی کو شش نہ کر ۔
#… اپنے خا وند کے خلاف غیروں کی با توں کو سچا نہ جان
#… ہمیشہ اپنے شو ہر کے سامنے ایسے کام کر جنہیں وہ پسند کر تا ہو۔اور ایسی با تیں کر جنہیں وہ ہمیشہ سننے کی رغبت رکھتا ہو ۔
#…اپنے شوہر کی طبیعت کو اچھی طر ح سمجھ لے تاکہ اس کے دل میں تیرا احترا م ہو ۔ کسی معاملے میں جب بھی کوئی سخت لہجہ اختیا ر کر تا ہے وہ وقتی ہو تا ہے ۔( یہ نہ سمجھ کہ اس کے دل میں تیرے خلاف کو ئی مستقل جذبہ ہے )
#…جب اس کے سا تھ با ت چیت کر ے تو اس کی کسی مالی تنگی پر کسی قسم کی تنگ دلی کا اظہار نہ کر اور اُس کی طرف سے جو تجھے بہت سی بھلائیاں حاصل ہو ئی ہیں ان کا اُس کے پا س ذکر کر ۔
#…جب بات کر ے تو پو ری طر ح خاموش رہ اور اس کی طرف کا ن دھر (پو ری توجہ دے )
#…بکثرت اُ سے یا د نہ دلا کہ تو نے اس سے ہمیشہ کو ئی طلب کی ہے ۔( مگر وہ حا صل نہیں ہو ئی ) البتہ اسے وہ چیز اُس وقت یا د دلا جب تو جان لے کہ وہ اس کے ذکر سے خوش ہو گا ۔
#…بار بار غلطیا ں کر نے اور ایسے مو قف میں واقع ہو نے سے اپنے آپ کو بچا جسے تیرا خا وند دیکھنا نہ چا ہتا ہو ۔
#…اپنے شو ہر کے سا منے اپنی ذا تی خوا ہشا ت کے با رے میں زیا دہ با تیں نہ کر ۔ بلکہ بکثرت اصرار کر کہ وہ تیرے سا منے اپنی ذاتی خو اہشات کا ذکر کر ے۔
#…ہر چھو ٹے بڑے معا ملے میں اس کی را ئے پر اپنی ر ائے کو مقدم نہ کر بلکہ بعض مواقع میں تو اُسی کی رائے کو اُس سے محبت کی بنا ء پر پیش کر نے میں پہل کر ے ۔
#…اس کی اجا زت کے بغیر کو ئی نفلی روزہ نہ رکھ اور اُس کے علم کے بغیر اُس کے گھر سے با ہر نہ نکل ۔
#…جو راز کی با ت وہ تیر ے سامنے بیان کر ے اسے یا د رکھ اس کی حفا ظت کر اور اسے اپنی ماں اور باپ کے پاس بھی ظا ہر نہ کر اس لئے کہ یہ بات اُس کے سینے کو غصے
سے تیرے خلاف بھڑکا دیگی ۔
#… اس انداز کے ساتھ اپنے شوہر سے بات نہ کر گویا تو معصوم ہے اور وہ گنہگار آدمی ہے۔
#… اپنی اولاد کو بات کرنے میں سچائی اور عمل میں اخلاص کا عادی بنا۔
# … تو اکیلی کھانا نہ کھا۔بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد کے درمیان بیٹھ کر کھاناکھا۔
# … اپنی اولاد کو صفائی پسند کرنے کا عادی بنا۔ اور انہیں یاد دلا کہ صفائی کے ساتھ ہی وہ ایمان کی صفت سے متصف ہوں گے۔
#… اپنی اولاد کے سامنے گالی گلوچ
لعن طعن یا حقارت آمیز کلمات نہ بول اس لئے کہ وہ تیرے تمام الفاظ اپنے ذھن میں جمع کر لیں گے یاد کر لیں گے۔
#… ایسی باتوں سے پرہیز کر جس کے بعد اس کی معذرت پیش کرنی پڑے اور انتہائی طور پر فضول اور بکثرت باتوں سے دور رہ ۔ اپنے پروردگار کے اس ارشاد کو یاد رکھ؛
﴿لاخیر فی کثیرمن نجو ھم الا من امر بصد قةاو معروف اواصلاح بین النا س﴾(النساء
۱۱۳)
”ان کی اکثر سر گو شیو ں میں کوئی بھلائی نہیں ہے البتہ جس شخص نے صدقے ،کسی نیکی یا لو گو ں کے درمیا ن اصلاح کا حکم دیا ۔(اس میں بھلائی ہے )
#…ہر سنی سنا ئی بات کو (بلا تحقیق )بیان کر دینا پر ہیز گا رموٴ من عو رتوں کی عا دت نہیں ہے ۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے :
”آد می کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنا ئی کو بیا ن کرتا پھر ے“۔
(مسلم۔ مقدمہ وابو داود حدیث نمبر
۹۹۲ ۴ )
#…اس بات کی حرص کر کہ تیرے منہ سے اچھے کلمات ہی نکلیں۔ اس لئے کہ جو تو کہنا چا ہتی ہے اس کا وزن کیا جائیگا ۔اسکی قدروقیمت متعین ہو گی۔
# … اپنی ذمہ داریو ں سے غافل جاہل عورتوں کی صحبت اختیارنہ کر ۔
#… موٴمن عورت اپنی بہنوں کے عذر قبول کر تی ہے ۔اور منا فق عورت اپنی بہنوں کی لغزشیں تلا ش کر تی ہے۔
#… ایسی عورت کی صحبت اختیار کر جس سے تو اپنے معاملے میں سلا متی پاتی ہے اسکی صحبت تجھے نیکی پر ابھا ر یگی۔ اور اس کا دید ار تجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلائیگا۔
# … جو عورت تجھ سے بات کر رہی ہو اُسے پور ے شوق کے ساتھ غور سے سن ۔ جب تو اس سے بات کر ے تو اس سے اپنی نظر نہ پھیر ۔ کسی سبب سے با ت بھی کر نے والی کی با ت کو قطع نہ کر ۔ اگر تو کسی معا ملے میں قطع کلا می پر مجبو ر ہو تو با ت کر نے والی کو نر می اور سکو ن کے سا تھ آگاہ کر دے۔
#… جھو ٹ ، غیبت ،چغل خور ی ، مز اح اور مسلمان عورتوں کے سا تھ ٹھٹھے مخول سے بچ ۔
# … بر ی با ت اور بے حیا ئی کی بات سے پر ہیز کر ۔
# … اپنے عمل اور اپنے نفس کے ساتھ تکبر اور گھمنڈاختیا ر نہ کر ۔
#… مسلمان عورتوں کے چھو ٹے بچوں کو اپنی اولاد سمجھ ۔ درمیا نی عمر کی بچیوں کو اپنی بہنیں اور بڑی عمر والی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھ ۔ اپنی اولاد پر رحم کر نا تجھ پر لازم ہے ۔ اپنی بہنوں سے صلہ رحمی کر اور اپنی ماؤں کے سا تھ احسا ن کر ۔
# … اپنی اولاد کو جنت کی تر غیب دے ۔ بیشک جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے نماز اور رو زے ادا کئے اپنے ماں با پ کی فرما ں بر داری کی جھو ٹ نہ بولا اور کسی پر حسدنہ کیا ۔
# … اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پرد ے اور شرم و حیا کی رغبت دلا ۔ انہیں چھو ٹے تنگ کپڑے اور اکیلی پینٹ یا شرٹ ( قمیص ) پہننے کی عا دی نہ بنا تا کہ وہ بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت اپنی خصو صیت کو پہچان لیں ۔
# … سا ت سال کی عمر میں ہی اپنی بیٹیوں کو اوڑھنی پہننے کی عادی بنا ۔
#… اپنی اولاد میں سے جس کو تو دیکھے کہ با ئیں ہا تھ سے کھا تا یا پیتا ہے اُسے اس سے روک دے ۔(اور دا ئیں ہا تھ سے کھا نے پینے کی تعلیم دے )
#… اپنی اولاد کوناخن ترا شنے اور کھا نے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہا تھوں کے دھو نے کی نصیحت کر نا نہ بھول۔
# … موٴ من عورت با تیں کم اور عمل زیادہ کر تی ہے ۔ منا فق عورت با تیں زیادہ عمل کم کر تی ہے ۔
# … چا ہئے کہ تو تین طر یقوں سے اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کا حق ادا کر ے ۔ اللہ تعالی کے احکا م پر عمل کر تے ہوئے ، ا س کی ڈانٹ سے اپنے آپ کو بچا تے ہو ئے ، لوگوں سے ان کی تکلیف دور کر تے ہو ئے ، اپنے نفس کی پا کدامنی اور اپنی تنہا ئی میں حفاظت کر تے ہو ئے ۔
#… دوسری عورتوں کے نزدیک قدروقیمت میں زیادہ کم وہ عورت ہے جو علم دین میں ان سب سے کم ہو ۔
#… تین خصلتوں کے بعد شر مندگی لا حق نہیں ہو تی ۔ دیانت داری ، پاکدامنی اور کام کر نے سے پہلے سوچ بچا ر۔
#… عو رت کی قدرو قیمت اس کی جسمانی خو بیوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی قدرو قیمت دینی خو بیوں میں ہے ۔
# … کسی بَد عادت عورت کے ساتھ بیٹھے سے تیرا تنہا بیٹھے رہنا بہتر ہے۔
#…سچی بات کرنا، لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی،امانت کی حفاظت، ہمسائی کے حق کی حفاظت، سوال کرنے والی کو عطا کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا ، ملاقات کے لئے آ نے والی کی عزت کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا، ملاقات کے لئے آنے والی کی عزت کرنا، عہد پورا کرنا اور شرم و حیا یہ سب عمدہ اور کریمانہ اخلاق و عادات ہیں۔
# …مسلمان عورت اپنے ماں باپ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
# …مسلمان عورت سچ بولتی ہے جھوٹ نہیں بولتی۔
#… مسلمان عورت اپنی بیمار بہن کی زیارت کرتی ہے اور اپنی محتاج بہن پر سخاوت کرتی ہے۔
بہت قیمتی نصیحتیں
#… اگر تو خشوع کی توفیق چا ہتی ہے تو فضو ل نظر با زی سے دور رہ ۔
#…ا گر تو دانائی کی تو فیق کو پسند کر تی ہے تو فضول با توں کو چھو ڑدے۔
#… اگر تو اپنے عیبوں سے باخبر ہو نے کی تو فیق چا ہتی ہے تو دوسرے کے عیبو ں کی ٹوہ لگا نا چھو ڑ دے ۔
#… جو تجھ پر زیا دتی کر ے اس پر بردبار ہو جا ۔
# … بہت سخی عورت وہ ہے جو کسی کو مال عطا کر کے صرف اللہ ہی سے اس کی جزا ء چاہتی ہے ۔
#… بد کر دار عو رتو ں کی ساتھی نہ بن ،وہ تجھے کھا نے کے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچ دے گی ۔
#… بخیل عورت کے ساتھ نہ بیٹھ جس ما ل کی تو محتاج ہے وہ اسے اپنے مال میں ملا لے گی ( تجھے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے رو ک دے گی )
# … جھو ٹی عو رت کی محبت میں نہ رہ وہ فر یب نظر کے در جہ میں ہے ۔وہ قریب کو تجھ سے دور کر دیگی اور بعید کو تجھ سے قریب کر دیگی ۔
#… احمق عورت کے پا س نہ بیٹھ اس لئے کہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کے ارادے کے باوجود نقصان پہنچادیگی ۔
#… احسان جتلا نے والی کی سا تھی نہ بن کہ وہ ہمیشہ اپنی مالی بر تر ی سے تجھے تنگ کرے گی ۔
# … کسی مکا ر عورت کے ساتھ نہ بیٹھ اس لئے کہ اُس کے پیش نظر اپنا ہی نفع ہوتا ہے ۔
#… کسی بد دیانت عورت کی سا تھی نہ بن کہ جس طرح اُس نے تیرے غیر کے سا تھ خیا نت کی ہے اسی طر ح تیرے سا تھ بھی خیا نت کرے گی۔
# … دورخے پن اور دو زبا ن والی عورت کی سا تھی نہ بن ۔
# … ایسی عورت سے بھی صحبت نہ رکھ جو تیرے راز کو نہ چھپا ئے ۔
#… مصیبت زدہ مسلما ن عورتوں سے ان کی تکلیف کو دور کر نا ۔
# … محتاج مسلمان عورتوں کے قرض ادا کر نا ۔
# … کھانا کھلا نا اور بھو کی عورتوں سے ان کی بھو ک دور کر نا ۔
#… اپنی ایما ندار بہنوں کی حا جتیں پو ری کر نے میں جلد ی کر نا ۔
# … راستوں سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا نے میں سستی نہ کر ۔
# … علم حا صل کر اور دوسری مسلمان عورتوں کو تعلیم دے ۔
# … تجھ پر بھلا ئی کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا لا زم ہے ۔
#… سنتیں اور نو افل ادا کر نے پر ہمیشگی اختیا ر کر ۔
# … اپنے رشتہ دا روں سے ملا قات تجھ پر وا جب ہے اگر چہ وہ تجھ سے قطع تعلق کریں ۔
#… اپنے فو ت شدہ افرادا ہل خانہ کو اپنی دعا میں یاد رکھ۔
# … دو سروں کے سا تھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کر ۔
# … جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں انہیں پوری دیا نت داری اور عمدگی سے ادا کر ۔
# … اپنی مسلمان بہن کے سا منے مسکرا کہ یہ صدقہ ہے۔
#… دنیا دار عو رتوں سے میل جو ل نہ رکھ ۔
#… اپنے رب کے عذاب و سزا سے ڈرنا تیری عادت ہونی چا ہےئے ۔
# … اپنے ماں باپ کے احسان کر نے والی بن ۔
#… دنیا میں عورت کی بد بختی کی چار علا متیں ہیں :
دل کی سختی ، آنسو ؤ ں کا خشک ہو جا نا ،(یعنی خوف الہیٰ سے آنکھو ں میں آنسو نہ آنا) لمبی آرزو اور دنیا کی حرص ۔
#… جان لے کہ ہر چیز میں سو چ بچار کے لئے ٹھہر اؤ بہتر ہے مگر آخرت کے معاملے میں تاخیر بہتر نہیں ہے (کہ ابھی وقت ہے پھر یہ عمل کر لو نگی)
# … یاد رکھ کہ بچے ،بو ڑھے ،بیو گان اور مسا کین صدقات کے سب لوگو ں سے زیادہ حق دار ہیں ۔
# … ہر عمل کو ختم کر نے پر اپنے رب سے دعا کر کہ وہ تیرا عمل قبول کر لے ۔
﴿ والحمد للہ رب العالمین ﴾ 

طلاق کے اس احسن طریقہ میں یوں تو بے شمار فوائد ہیں، چنداہم فائدے یہ ہیں:
(۱)… سب سے اہم فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ طلاق کے جتنے واقعات سامنے آتے ہیں ان میں ننانوے فیصد واقعات میں میاں بیوی اس واقعہ سے بہت پچھتاتے اور شرمندہ ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح دوبارہ ان کا رشتہ ازدواج بحال ہوجائے،لیکن چونکہ وہ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں اور رجوع کرنے یا بلاحلالہ دوبارہ نکاح کرنے کے تمام درجے عبور کرچکے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا شرمندہ ہونا اور صلح پر آمادہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔
مذکورہ طلاق کے احسن طریقہ پر عمل کرنے میں طلاق دینے کے بعد تین ماہواریاں گزرنے تک عدت ہے، بشرطیکہ حمل نہ ہو، ورنہ وضع حمل تک عدت ہے، اور عدت کے دوران دونوں میاں بیوی کو علیٰحدگی اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور و فکرکا اچھا خاصا وقت مل جاتا ہے، اور مستقبل کے سلسلہ میں صحیح فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے، اگر دوران عدت دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ طلاق دینا اچھا نہیں ہے اور اپنے کئے پرنادم ہوں، بیوی خاوند کی فرمانبرداری کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا عہد کرے، خاوند بھی گھر کی بربادی اور بچوں کی کفالت و پرورش کی دشواریوں کا اندازہ لگا کر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارنے میں سلامتی دیکھے توابھی کچھ نہیں بگڑا، دوبارہ میاں بیوی والے تعلقات خاص قائم کرلیں، بس رجوع ہوگیا۔ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔
بہتر یہ ہے کہ کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے خاوند کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹاتا ہوں۔“ یا یوں کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ رکھ لیتا ہوں۔“ یہ رجوع کا افضل طریقہ ہے تاکہ دوسروں کو تعلقات کی بحالی سے کوئی غلط فہمی نہ ہو اور رجوع کرنا بھی طلاق کی طرح سب کے علم میں آجائے ،اوراگر عدت کے دوران خاوندنے رجوع نہ کیا اور عدت گزر گئی تو اب مطلقہ اس کے نکاح سے پوری طرح آزاد ہوگئی، اب جہاں اس کا دل چاہے نکاح کرے، طلاق دینے والے سے اس کا کچھ تعلق نہیں رہا، دونوں بالکل اجنبی ہوگئے۔
(۲)… طلاق کے اس احسن طریقے میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر رشتہ ازدواج سے آزاد ہونے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کسی وجہ سے ایک دوسرے کی یاد ستانے لگے، کبیدگیوں اور رنجشوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے محاسن، خدمات اور احسانات پر غور کرنے کا ازسرنو موقع ملے، اور پھر دوبارہ ایک دوسرے سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں، تو طلاق اور عدت گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی حلالہ کے دوبارہ آپس میں نئے مہر کے ساتھ باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
بالفرض دوبارہ نکاح ہوگیا اور بدقسمتی سے دوبارہ بھی اس کو کامیابی کے ساتھ نہ نباہ سکے اور خدانخواستہ پھر طلاق کی نوبت آگئی تو دوبارہ طلاق دینے سے پہلے اس بار بھی ان تمام تفصیلات پر عمل کرنا چاہئے، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے (یعنی پہلے افہام و تفہیم سے کام لے، پھر زجر و تنبیہ کرے، پھر خاندان کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنائے) پھر بھی طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو پھر طلاق احسن دی جائے، (یعنی ماہواری سے پاک زمانے میں جس میں بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو، صاف الفاظ میں صرف ایک طلاق دے) جس میں دوبارہ خاوند کو اختیار ہے کہ وہ عدت کے دوران رجوع بھی کرسکتا ہے اور عدت کے بعد بغیر کسی حلالہ کے باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دوبارہ نکاح بھی کرسکتا ہے، لیکن اب طلاق دینے والا طلاق کے دو درجے عبور کرچکا ہے اور دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، رجوع کرنے یا نکاح ثانی کرنے سے یہ دی ہوئی دو طلاقیں ختم نہیں ہوتی وہ تو واقع ہوچکی ہیں، البتہ دو طلاقوں تک شریعت نے یہ سہولت رکھ دی ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقوں کے بعد دونوں شرمندہ ہوں اور ملاپ کرنا چاہیں تو دو طلاقوں تک ان کیلئے ا س کی گنجائش ہے ۔
اب اس کے بعد دونوں کے لئے بڑا اہم لمحہ فکریہ ہے اور اب انہیں مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے بہت زیادہ فکر و نظر کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ ازدواجی زندگی قائم کرنے کے دو درجے پہلے ہی عبور کرچکے ہیں، اب انہیں آئندہ کے لئے آخری مرتبہ پھر ایک حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ فیصلہ ایک آخری فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ اگر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسا کر زندگی بسر کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں، ورنہ عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی بغیر کسی حلالہ کے ہوسکتا ہے۔ پھر اگر ان دونوں نے یہ گرانقدر موقع بھی ضائع کردیا اور اپنی نادانی، نالائقی او ربداطواری سے اس دفعہ بھی طلاق کی نوبت آگئی اور خاوند طلاق دے بیٹھا تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، جس میں نہ رجوع ہوسکتا ہے او رنہ حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
احسن طریقہ سے طلاق دینے میں دو مرتبہ طویل عرصہ تک دونوں کو ایک دوسرے کی علیٰحدگی اور اس سے پیدا شدہ اثرات پر سنجیدگی سے غور و فکر کا موقع ملتا ہے اور دوبارہ رشتہ ازدواج کو بحال اور قائم کرنے کا راستہ بھی باقی رہتا ہے۔ دفعتاً تین طلاق دینے میں ایسا کوئی فائدہ نہیں ہے، میاں بیوی دونوں سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور سخت دشواری کا شکار ہوتے ہیں۔
طلاق کے اس احسن طریقے میں کہیں جلد بازی اور عجلت نہیں۔ جلد بازی شیطانی عمل ہے، جس کا انجام پشیمانی ہے۔ چنانچہ آپ اندازہ لگائیں کہ شریعت نے اول یہ حکم دیا کہ میاں بیوی خود ہی اپنے معاملہ کو سلجھائیں، خاوند افہام و تفہیم سے کام لے، اس سے کام نہ چلے تو بیوی کا بستر علیٰحدہ کردے، اس سے بھی بیوی اپنی اصلاح نہ کرے تو زجر و توبیخ اور معمولی مار سے اس کی اصلاح کرے۔ یہ بھی مفید نہ ہوتو کسی ثالت اور حکم کے ذریعے صلح و صفائی کرائی جائے۔ جب اس طرح بھی اصلاح حال کی امید نہ ہو اور کوئی صورت مل کر رہنے کی نہ رہے تو بیوی کو اگر ماہواری آرہی ہو تو اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے، ابھی طلاق نہ دے، جب حیض سے بالکل پاک ہوجائے تو طلاق کے احسن طریقے کے مطابق اس کو صرف ایک طلاق زبانی یا تحریری دے دے۔
دیکھئے! ہر جگہ دونوں کو بار بار غور و فکر کا موقع دیاجارہاہے اور سوچ بچار کا پورا پورا وقت دیا جارہا ہے، اور پھر شریعت اسلامیہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے ہر پہلو سے یہ نمایاں ہورہا ہے کہ حتی الامکان نکاح برقرار رہے اور طلاق کا استعمال نہ ہو، اور اگرسخت مجبوری میں طلاق دینا ہی پڑے تو بھی اس کا استعمال کم سے کم ہو، تاکہ آئندہ بھی اگر وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکیں۔

بعض اوقات ایسی صورتیں بھی پیش آجاتی ہیں کہ اصلاح اعمال کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، کسی طریقہ سے اتفاق نہیں ہوتا، ازدواجی زندگی سے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کا آپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، ایسے سنگین حالات میں دونوں کے اس ازدواجی تعلق کو ختم کردینا ہی طرفین کے لئے راحت اور سلامتی کا باعث ہوتاہے۔ ایسے آخری اور انتہائی حالات میں شریعت نے خاوندکو طلاق کا اختیار دیا ہے، اور یہ کہہ کر دیا ہے کہ اس اختیار کا استعمال کرنابہت ہی ناپسندیدہ، مبغوض اور مکروہ ہے، صرف مجبوری میں اس کی اجازت ہے اور ا س کا طریقہ بھی خود ہی بتلایا ہے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کی ہے، جس میں بے شمار دینی اور دنیوی فوائد ہیں۔
طلا ق دینے کا احسن طریقہ
چنانچہ قرآن و سنت کے ارشادات اور صحابہ و تابعین کے عمل سے طلاق دینے کے طریقے کے متعلق جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میاں بیوی میں کسی طرح صلح و صفائی او رمیل جول نہ ہوتا ہو اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا ہو تو طلاق دینے کا احسن (بہترین) طریقہ یہ ہے کہ جب بیوی ماہواری سے پاک ہو اور اس پاکی کے زمانہ میں خاوند نے بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو تو خاوند صاف الفاظ میں بیوی کو صرف ایک طلاق دے دی، مثلاًیوں کہہ دے کہ ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“ اس کے بعد عدت گزرنے دے۔ عدت کے دوران رجوع کرے تو بہترہے، ورنہ ا س طرح عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح کا رشتہ خودبخود ٹوٹ جائے گا، بیوی شوہر سے بالکل جدا ہوجائے گی اور آزاد ہوگی، اور اس کو اختیار ہوگا کہ جہاں چاہے نکاح کرے۔ فقہائے کرام نے اس طرح طلاق دینے کو طلاق احسن کہاہے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسی کو طلاق کا بہترین طریقہ قرار دیاہے۔ لہٰذا جب طلاق دینا بہت ہی ناگزیر ہو تو اسی طریقہ کے مطابق طلاق دینا چاہئے۔

یوں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کے بے شمار غلط سلط طریقے رائج ہیں اور نئے نئے غلط طریقے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ غلط، ناجائز اور خلاف شرع طریقہ اور بے شمار آفات و مصائب سے بھرا ہو اوہ طریقہ ہے جو ہمارے یہاں بکثرت رائج ہے، اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ طریقہ سوفیصد رائج ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو، اور پھر اپنی جہالت سے اسی کو طلاق دینے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے، اس طریقہ سے ہٹ کر طلاق دینے کو طلاق دینا سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ نامراد طریقہ ایک دم تین طلاق دینے کا ہے۔ اسی بناء پر ہر خاص و عام، جاہل، پڑھا لکھا، امیر، غریب، غصہ میں یا غور و فکر کے بعد، زبانی یا تحریری جب طلاق دیں گے دفعتاً تین طلاقیں دیں گے، اس سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے، بلکہ اتفاق سے شوہر اگر ایک یا دو طلاقیں دینے پر اکتفا کر بھی لے تو اس کو تیسری طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھمکی دے کر یا کسی طرح مزید غصہ دلا کر تیسری طلاق بھی اسی وقت دلوائی جاتی ہے، اور جب تک خاوند تین طلاقیں نہ دے دے، نہ خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، نہ بیوی کا، نہ دیگر اہل خانہ کا اور نہ دیگر اقرباء کا، اور اس سے پہلے نہ بچوں کی بربادی کا خیال آتا ہے، نہ گھر اجڑنے کا، نہ دو خاندانوں میں عداوت و دشمنی کا، کوئی بھی اس وقت ہوش سے کام نہیں لیتا، اور جب خاوند بیوی کو طلاق کی تینوں گولیاں مار دیتا ہے تو سب کو سکون ہوجاتا ہے اور ہوش آجاتا ہے۔
پھر جب چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے اور ان کے کھوئے کھوئے معصوم چہرے سامنے آتے ہیں اور گھر اجڑتا نظر آتا ہے تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں اور ہر ایک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں اور معافی و شافی کرکے بہت جلد صلح و آشتی پر تیارہوجاتے ہیں، مگر سر سے پانی پھر جانے کے بعد یہ پشیمانی اور صلح و آشتی کچھ کام نہیں آتی اور نہ رونے دھونے سے کچھ کام چلتا ہے، تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی خاوندپر حرام ہوجاتی ہے۔ جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا اور حلالہ کے بغیر باہم دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،اور طلاق دینے میں ناجائز طریقہ اختیار کرنے کا گناہ عظیم علیٰحدہ ہوا، پھر اگرناحق طلاق دی ہو تو ناحق طلاق دینا ظلم ہے جو خود گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے۔
اس کے بعد علماء کرام اور مفتیان عظام کے دروازوں کو دستک دی جاتی ہے اور بڑی عاجزی کے ساتھ اپنی درد بھری داستان سنائی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی بربادی کا ذکر ہوتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہائے جاتے ہیں اور درخواست کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گنجائش نکال کر ان کے گھر کو تباہی سے بچایا جائے، کوئی کفارہ بتلایا جائے جس سے دی ہوئی تین طلاقیں کالعدم ہوجائیں او رہم دوبارہ میاں بیوی بن جائیں۔ مگر اب میاں بیوی کہاں بن سکتے ہیں، دوبارہ میاں بیوی بننے کے جتنے راستے اور جو جو گنجائشیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھی تھیں وہ سب اپنی نادانی سے یک لخت ختم کردیں۔ اس وقت لے دے کر صرف یہ طریقہ رہ جاتا ہے کہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر نکاح کے بعد یہ دوسرا شخص مطلقہ سے باقاعدہ جماع (ہمبستری) کرے اور جماع کے بعد اپنی خوشی سے اس کو طلاق دے اور پھر مطلقہ اس دوسرے شوہر کی بھی عدت طلاق گزارے، تب کہیں جاکر وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اس سے نکاح کرسکتی ہے، مگر مطلقہ کا نکاح ثانی کرتے وقت یہ شرط لگانا کہ دوسرا شوہر نکاح کے بعد اس کو ضرور ہی طلاق دے، خود موجب لعنت ہے۔حدیث پاک میں ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت آئی ہے۔
اور بعض دفعہ شوہر ثانی بغیر جماع کئے طلاق دے دیتا ہے، بلکہ اسی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تو مطلقہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی، کیونکہ پہلے شوہر پر حلال ہونے کے لئے دوسرے شوہر کا وطی (ہمبستری) کرنا شرط ہے، پھر یہ طریقہ بھی کوئی شخص اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہی کرسکتا ہے یا بہت ہی سخت مجبوری میں اس کو گوارا کرسکتا ہے۔ سلیم الطبع اور غیرت مند آدمی اس کو نہیں اپنا سکتا۔ اور بعض لوگ دوسرے طریقوں سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے یہ دوسرے طریقے بہت ہی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ مذکورہ طریقے میں صحیح طرز پر عمل کرنے سے مطلقہ بہرحال پہلے خاوند کے لئے حلال تو ہوجاتی ہے مگر دوسری صورت اختیار کرنے سے مطلقہ پہلے خاوند پر حلال ہی نہیں ہوتی، بدستور حرام رہتی ہے۔
رجوع کی ناجائز شکلیں
چنانچہ بعض جگہ تمام احکام کو پس پشت ڈال کر عذاب قبر، عذاب آخرت اور قہر خداوندی سے بے خوف ہوکر صراحةً تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر کسی حلالہ او رنکاح کے میاں بیوی میں رجوع کرادیا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے یا دیگر اہل محلہ یہ کہہ کر ان کی تسلی کردیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی، یا گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ،یا بالکل تنہائی میں طلاق نہیں ہوتی، یا دل میں طلاق دینے کاارادہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، یا بیوی کو طلاق کا علم نہ ہو توطلاق نہیں ہوتی، یا بیوی طلاق نامہ کی رجسٹری واپس کردے اور وصول نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی، یا جب تک وہ طلاق کی تحریر نہ پڑھے اور قبول نہ کرے طلاق نہیں ہوتی، یا محض لکھ کر دینے سے جبکہ خاوند نے زبانی طلاق نہ دی ہو طلاق نہیں ہوتی یا مطلقہ حمل سے ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ یہ سب جاہلوں کی اپنی خودساختہ اور من گھڑت دلیلیں ہیں جو بالکل لچر ہیں۔


ازروئے شروع ان سب صورتوں میں بلاشبہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کا رجوع محض حرام کاری کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس طرح ان کی ساری زندگی گناہ میں گزرتی ہے جس میں یہ دونوں مرد و عورت تو گناہگار ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں جنہوں نے ان دونوں کو اس حرام زندگی گزارنے پر آمادہ کیا۔
بعض لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد تین کا اقرار نہیں کرتے، یا طلاق سے ہی منکر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح طلاقیں واقع نہ ہوں گی یا پھر سفید جھوٹ بول کر بجائے تین طلاقوں کے دو لکھواتے ہیں اور بتلاتے ہیں اور مفتی کو دھوکہ دے کر رجو ع کا فتویٰ لے لیتے ہیں اور لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں کہ فلاں بڑے مفتی صاحب کا یا فلاں بڑے مدرسہ کا فتویٰ منگوالیا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا رجوع کرسکتا ہے۔
اس طرح عوام کو بھی دھوکا دیتے ہیں تاکہ کسی کے سامنے رسوائی نہ ہو اور پھر ان عیاریوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی حلال ہوگئی جو محض اور محض خود فریبی ہے۔مفتی غیب داں نہیں، وہ تحریر و بیان کا پابند ہے، جوکچھ اس کو بتایا جائے گا وہ اسی کے مطابق جواب لکھ کر دے گا، بیان و تحریر کی ذمہ داری صاحب واقعہ پر ہے، اصل حقیقت چھپا کر ایک یا دو طلاقوں کے حکم کو تین طلاقوں کے حکم پر فٹ کرنے سے بیوی حلال ہرگز نہ ہوگی، بدستور حرام رہے گی۔ ایسے لوگ مفتی اور عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اللہ جل شانہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ برابر حق تعالیٰ کے سامنے ہیں اور اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکتے۔
بعض لوگ تین طلاقوں سے بچنے کے لئے جب فقہ حنفی میں کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنا مسلک حنفی چھوڑ کر غیر مقلدوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے فتویٰ لے کر رجوع کرلیتے ہیں، ان کے مسلک میں ایک ہی مجلس کے اندر اگر کوئی شخص تین طلاقیں دفعتاً دے دے تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مسلک قرآن حکیم، احادیث صحیحہ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، چاروں اماموں حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور علمی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ (اس سلسلہ میں چند حدیثیں آخر میں آرہی ہیں) ان کے مسلک پر عمل کرکے لوگ حرام کاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دفعتاً تین مرتبہ طلاق دینے میں مصیبت ہی مصیبت اور گناہ ہی گناہ ہے۔
ہی طلاق کے مسائل سیکھ لئے جاتے (جب کہ مسائل کو سیکھنا اس وقت فرض بھی تھا) اور پھر ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ گھر اور بچے برباد نہ ہوتے۔ سکون غارت نہ ہوتا۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقیں دینے سے مکمل اجتناب کرنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو غصہ میں ہرگز ہرگز طلاق نہ دی جائے۔ اگر کبھی غصہ میں ایسی نوبت آنے لگے تو فوراً وہاں سے علیٰحدہ ہوجائیں اور جب غصہ ختم ہوجائے اور پھر بھی طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اس سلسلہ میں کم از کم پہلے قرآن و سنت کی ان مختصر مندرجہ ذیل تعلیمات کا ضرور مطالعہ کرلیں اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

چونکہ طلاق کے ذریعے صرف بیوی خاوند کے درمیان جدائی ہی نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں کے درمیان نفرت کی دیوار بھی کھڑی ہوجاتی ہے، اور بعض اوقات تو باہمی جھگڑوں کا نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور ان کی آئندہ زندگی برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔
اور اگر کوئی عورت کسی اشد مجبوری کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہوجاتی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر مابأس فحرام علیھا رائحة الجنة (جامع ترمذی ص ۱۹۱)
جو عورت کسی اشد مجبور ی کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
ان روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کی بات برداشت کرتے ہوئے حتی الامکان طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا چاہئے۔ 

میاں بیوی کے رشتے کے اپنے تحفظات بھی ہیں، جیساکہ میاں بیوی کے تعلق اور رشتے سے ظاہر ہے، لیکن ان میں سے کوئی ایک شرائط عقد سے مخل ہونے لگے، رشتے کے لوازمات سے اعراض کرے، اور جھگڑوں کے باعث افہام و تفہیم کی کوئی صورت نہ رہے، اور گھر بگڑنے لگے اورکسی ایک یا دونوں کی ناسمجھی کے باعث فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے، تو ان کا ایک چھت کے نیچے رہنا سوائے وقت ، مال و دولت کے ضیاع کے کچھ نہیں ہوتااور اس کے برے اثرات خاندان او ربچوں پر بھی پڑتے ہیں۔
طلاق کی اجازت میں حکمت الٰہیہ پوشیدہ ہے۔ کیونکہ شریعت نے نہ تو طلاق دینے کا حکم دیا اور نہ ہی اس کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کی اجازت انتہائی ناپسندیدگی کے ساتھ چند قیود لگا کر دی ہے۔
اس لئے اس اعتراف کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کہ اگر طلاق اور تفریق کی اجازت نہ ہوتی تو شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت میں کئی ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا جس کو سہنا اس کے بس میں نہیں ہوتا اور بگاڑ مزید عام ہوجاتا ۔ گناہ اور شرور بڑھ جاتے اور پھر ان کی زندگی دشوار گزار راستے پر چلنے کی دعوت دیتی اور معشوقات اور آشنا بنانے سے کوئی روک ٹوک نہ ہوتی ،لیکن ان سب حالات سے روکنے، خاندان، عزت اور ارواح کی حفاظت کے لئے شریعت اسلامیہ نے مرد کو طلاق دینے کی اجازت عطا فرمائی ہے، اسی طرح عورت کو بھی اپنے شوہر کے سوء اخلاق، کسی عیب اور ا س سے تکلیف پہنچنے کی بناء پر اجازت دی ہے کہ وہ اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور قاضی معاملہ کی نوعیت کو دیکھ کر ان کے درمیان جدائی کا فیصلہ کرے۔


یہ زوجیت کے رشتے کی گرہ کھولنا ہے جیسے کوئی شخص کہے تو طلاق والی ہے (یا تجھے طلاق ہے) اس کو طلاق صریح کہتے ہیں، یا طلاق کنایہ ہو جیسے شوہر اپنی بیوی کو کہے اپنے گھر چلی جا(دفع ہوجا) برقع اوڑھ لے اور اس میں طلاق کی نیت کرلے۔
طلاق زندگی میں آنے والی مشکلات کا فوری حل نہیں ہے بلکہ اسے پہلے پیار سے سمجھانا، نصیحت کرنا، بستر الگ کردینا اور ہلکی سی پٹائی کرنا یا بڑوں سے فیصلہ کرانا ضروری ہے اس کے بعد دو مرتبہ تک طلاق دینا حلال ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی، ایک ساتھ تین طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
طلاق کا حکم
طلاق میاں بیوی سے ضرر دور کرنے کیلئے مشروع ہے اور جائز ہے اس کے دلائل بہت ہیں۔ مشہور آیت ”الطلاق مرتان“ ہے۔

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولایحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون
طلاق دوبار ہے پھر یا تو بطریق شائستہ رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو ان میں سے کچھ واپس لے لو، ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ خدا کی حدودوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں، یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، ان سے باہرنہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں وہ گناہگار ہوں گے۔
اسی طرح سورئہ طلاق کی آیت نمبر
۱ میں ہے:
یاایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدة
”اے پیغمبر! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شماررکھو۔“
حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ماہواری کے دن طلاق دے دی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے طہر تک اسے چھوڑ رکھ اور پھر جب اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے تو پھر جی چاہے تو اسے رکھ لے ورنہ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دے۔
طلاق کے جواز پر اجماع بھی ہے اور حالات طلاق کے جواز کی دلیل ہیں، کیونکہ کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہتی اور کسی ایک کو شدید ضرر لاحق ہوجاتا ہے اور شادی کو باقی رکھنا محض ایک خرابی ہوتا ہے اور شوہر پر خرچے اور رہائش کا انتظام لازم کرنا ا س کے لئے محض نقصان ہوتاہے اور بیوی کو ان حالات میں روکے رکھنا سو معاشرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ بے فائدہ جھگڑے ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں بگاڑ کو دور کرنے کے لئے طلاق کو جائز قرار دیاہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کی بدزبانی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
شادی کرنا نظام تناسل برقرار رکھنے کی مصلحت کی بناء پرسنت واجبہ ہے۔ اسی نظام کے قائم رہنے میں مصلحت اور فائدہ ہے۔ لیکن طلاق میں سنت کا تعطل اور مصلحت کو فاسد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتے، اسی وجہ سے طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔


طلاق کی دھمکی نہ دینے کی نصیحت
﴿الذی بیدہ عقدة النکا ح﴾ ( البقرہ ۲۳۷)
” وہ (مرد) جس کے ہا تھ میں نکا ح کی گرہ ہے “
قانو نی طور پر مرد کو طلاق دینے اور نکاح کی گرہ کھولنے کا کا مل اختیا ر ہے ۔ تجدید اگر ہے تو وہ اخلا قی ہے ۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایسا کر تا ہے تو بہت بڑا ظلم کر تا ہے جس کی اسے اللہ کے ہاں جو اب دہی کرنا ہو گی ۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ﴾ ( رواہ ابوداؤد ، کتا ب النکاح )
” اللہ کے نزدیک حلا ل چیزوں میں سب سے بر ی چیز طلا ق ہے “
لفظ طلاق ایک اصطلا ح ہے جس سے شوہروں کو بچنا چا ہئے ۔ اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لینا چا ہئے ۔ آج کل بہت سے خاوند کم علمی عقلی اور غصہ میں اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ۔ کچھ شوہر اپنی بیویوں کے سا تھ گرم سرد بحث میں اور غصہ سے بے قابو ہو کر یہ فعل کر گزرتے ہیں ۔ غصہ میں اندھے ہو کر ایک سا تھ تین طلاق دے دیتے ہیں ۔ شادی کی عمارت اسی وقت ڈھیر ہو جا تی ہے اور ان کے درمیان زن و شو کا رشتہ ختم ۔ جب غصہ ذرا ٹھنڈا پڑ تا ہے تو وہ اپنی اس حر کت پر پشیمان ہو تے ہیں۔
ہا ئے اس زود پشیمان کا پشیمان ہو نا
اب آنسو بہا نے سے فا ئدہ ! نا قا بل تلا فی نقصا ن تو ہو چکا ۔ اب کوئی راستہ با قی نہیں رہا جس سے تین طلاق دینے کے بعد میاں بیوی دوبارہ اکھٹے ہو سکیں ۔ جس شخص نے بھی غصہ کی حالت میں طلاق دی بعد میں ضرور پچھتا یا اور اب پچھتا ئے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔
پچھتا نے پر ہی کیا موقوف ، پڑا روتا رہے ، ٹسوئے بہا تا رہے ، کسی کا اس میں کیا دوش ، اس نے تو خود ہی تلا فی کے سارے راستے مسدود کر دیئے ۔ محبت کر نے والی بیوی گئی ،بچے اس گھر سے محروم ہو گئے جس میں انہیں حفا ظت اور رہنما ئی ملتی تھی ، جہا ں ماں کی محبت تھی اور با پ کی شفقت ۔ آناً فا ناً سب ختم ہو گیا ۔
ایک سا تھ تین طلاق دینے سے مو ثر تو ہو جا تی ہے لیکن یہ طر یقہ بہت نا معقول ہے اور بہت بڑا گناہ ۔ نسا ئی شریف میں درج ذیل حدیث اس بر ائی کی طرف اشارہ کرتی ہے :
﴿عن رجل طلق امرا تہ ثلث تطلیقات جمیعاً مقام غضبان ثم قال: ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظھر کم ؟ حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ ! الا اقتلہ ؟﴾ ( سنن النسا ئی ، کتاب الطلا ق ، بہ رو ایت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ )
” محمود بن لیبد رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ ایک شخص نے بیک وقت بیوی کو تین طلاق دیدی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فر ما یا ” کیا کتاب اللہ عزوجل کو کھلو نا سمجھ لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تم لوگوں میں موجود ہو ں“ایک شخص نے اٹھ کر کہا ” اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا میں اس شخص کو قتل کر دوں ؟“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کو دیکھتے ہو ئے ایک صحا بی نے بلا تو قف اس شخص کو جس نے بیک وقت تین طلاق دی تھیں قتل کر نے کی اجا زت ما نگی ۔ اس حقیقت کے باوجود آج کل کے شوہروں نے قرآن اور شریعت کے قوانین کو مذاق بنا لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ احمقانہ تیز گفتگو کے دوران انتہا ئی غصہ میں آکر تین طلاق دینے کی حما قت کر بیٹھتے ہیں ۔ وہ مرد ، عورتوں سے بڑھ کر عقل کی نا پختگی اور کم ظرفی کا اظہار کر تے ہیں ۔ شوہروں میں کچھ تعداد ایسے شوہروں کی بھی ہو گی جنہیں شریعت کے قوانین کا علم نہیں ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو تی ہی تین ہیں جو بیک وقت دی جائیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو نا قص العقل پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق دینے کا اختیا ر صرف مرد کو حا صل ہے ۔ اگر کہیں یہ حق عورتوں کو تفویض کر دیا گیا ہو تا تو طلاق روزانہ کا معمول ہوجاتا ۔ اپنی کم عقلی کی وجہ سے وہ اپنے کا موں کے نتائج کو محسوس نہ کر سکتی ۔ لیکن آج کل بہت سے مرد حضرات بھی کم عقلی اور ذود رنجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ایک شخص جب غصہ میں اندھا ہو کر تین طلاق دیتا ہے تو وہ عقلمند ی کے اعتبا ر سے عورت سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ طلا ق ایک تباہ کن فعل ہے ۔ اس پر عمل درآمد بڑی سوچ بچا ر کے بعد کیا جا نا چا ہئے ۔ حالات جب حد سے گزر جا ئیں اور ان کے سدھر نے کی کوئی صورت با قی نہ رہے تو مرد بڑے تحمل اور بردباری سے ہر پہلو پر غور کر کے یہ قد م اٹھا ئے تاکہ اسے بعد میں پچھتا نا نہ پڑے ۔
اگر شوہر طلاق دینے کا ارادہ کر لے تو اسے چائیے کہ بیوی کوطہر (جب وہ حیض سے نہ ہو) میں صرف ایک طلاق دے ۔نکاح کے بندھن کہ توڑنے کے لیے ایک طلاق کا فی ہے لیکن مصالحت کی صورت میں پھر زن و شوہر کی صورت میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
آجکل شر یعت کے قوانین سے لا علمی کی بنا پر بعض شوہر طلاق کے لفظ کو غیر اہم تصور کرتے ہیں۔ بیوی سے بات چیت میں ذرا سی تلخی آ جانے پر طلاق داغ دیتے ہیں ۔ شوہر وقتاََ فوقتاََ طلاق دیتا رہتا ہے اور بیوی سے ازواجی تعلقات بھی بدستور قائم رکھتا ہے ۔ یہ حرام کاری اور زنا ہے۔ اس لئے یہا ں طلا ق کے مو ضو ع کو اختصا ر سے در ج کیا جاتا ہے ۔

Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:

Delivered by FeedBurner


اگر ایسا اتفاق ہو جائے کہ مرد دوسری شادی رچالے تو پہلی بیوی کو نہ تو ایسا سوچنا چاہیے اور نہ ہی ایسا بر تاؤ کرنا چا ہیے جیسا کہ غیر مسلم عورتیں کرتی ہیں۔
وہ تو شوہر کی دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ ان کے معاشرہ میں یہ قا بل قبو ل نہیں۔
یاد رکھو!اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک سے زا ٰئد شا دیو ں کی اجا زت دی ہے ، اسلا م کی رو سے ایک مر د کو حق حا صل کہ وہ ایک سے زائد عورتوں سے شاد ی کرے۔
دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی نہ اس طرح برتاوکرے جیسے اس کی دنیا اندھیرا ہو گئی ہو اور اس کی زندگی سے رو شنی مفقود ہو گئی ہو ۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ذہنی طو ر پراسے جھٹکاضرور لگے گااور وہ غمزدہ بھی ہو گی مگر اسے حالا ت کا مقابلہ سو جھ بو جھ ، عقلمندی، ذہن کی پختگی اور صبر سے کرنا ہو گا ۔ اسے اپنی نفسا نی خواہشات جن کو شیطان ابھا رتا ہے کو دبا نا ہو گا اور احسا سات کو بے لگا م ہو نے سے روکنا ہو گا ۔
اگر ان حالات کا مقابلہ وہ حسد ، نفرت ، بغض ، کینہ اور عداوت سے کر ے گی تو اس کو یہ امر یا درکھنا چا ہیے کہ اس کی حا لت مزید خراب ہو جائے گی ۔ شوہر کو دوسری بیوی سے بد ظن اور علیٰحدہ کر نے کی اسکی کو ششیں بار آ ور نہیں ہو ں گی ۔ اپنے نا رواسلوک سے اس کا خاوند اس طرف سے بر گشتہ ہو جائے گا اور اسے وہ کٹنی نظر آنے لگے گی ۔ عورت اپنے برے روئیے سے کچھ اپنا ہی نقصان کر ے گی اور فا ئدہ کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
پہلی بیوی کو اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لینا چا ہیے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتی ۔ اسے ایسی کوشش سے احتراز کر نا ہو گا جس سے وہ اپنے خاوند کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے حق سے دستبر دار ہونے کے لیے مجبور کر ے ۔
عورت کو چا ہیے کہ اپنے خاوند کے دوسری شادی کے فیصلے کو پر وقاررویئے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے لیے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مزید ہو گی ۔ یقینا نقصا ن میں نہ رہے گی ۔ اپنے نفس پر قابو پا کر نئے حالا ت سے سمجھوتہ کر نا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں اپنے نفس سے جنگ کر نے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ۔
نفس کے خلاف مجاہد ہ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے اور جب تک وہ اس زمین پر مقیم ہے اسے نفس اما رہ کے خلاف نبرد آزما ہو نا پڑے گا ۔ ایک مسلمان کو اس امر کی اجازت نہیں کہ ایسی خواہشات کی پیروی کر ے جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ پہلی بیوی کو یہ جان لینا چا ہیے کہ ردّعمل حسد کی بنا پر ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خا طر حسد کو ترک کر دے۔
یاد رکھو ! ایک مسلمان اس دنیا میں آزاد نہیں کہ جو مر ضی میںآ ئے کہے اور کرے ۔ ہماری رہا ئش ، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات و کردار پر لا تعداد بندشیں اللہ کی طرف سے عائد ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ﴿الدنیا سجن المو من و جنة الکافر
(
بہ روایت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ ، مسلم کتاب الزہد۔ ترمذی کتاب الزھد ۔ ابن ماجہ ۔ ابواب الزہد)
دنیا موٴمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے “۔
اچھی اور سچی مسلمان عورت اپنے خاوند کی دوسری بیوی کی عزت کر یگی ۔ اپنے مجروح جذبات پر قابو پا ئے گی ۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ سوت کے ساتھ مہر بانی اور شا ئستگی سے پیش آئیگی ۔ اسلامی طور طریقے اپنانے سے اس کے شو ہر کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات صحت مندانہ ماحول میں ترقی کر یں گے اور ان دونوں میں آپس میں پیا ر و محبت بڑھے گا ۔
عورت کو اپنے شوہر سے دوسری بیوی کے متعلق حقارت آمیز ، طعن آمیز اور تمسخر آمیز گفتگو نہیں کرنی چا ہیے ۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہے ایسا کر نے سے خاوند کو دوسری بیوی سے بر گشتہ کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ اس کے بر عکس اس کا یہ طرز عمل خاوند اور دوسری بیوی کے تعلقا ت کو مزید استوار کر نے کا با عث ہو گا ۔وہ اپنی پہلی بیوی کی نا جائز غیبت پر نالاں ہو کر دوسری بیوی کی طرف زیادہ رجوع کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ دوسری بیوی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جس وجہ سے وہ اس کی زیادہ تو جہ اور ہمدردی کی مستحق ہو گی ۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو عقد ہ کھلے گا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوئی ہے ۔ اسے ایک سچی مسلمان عورت ہونے کے نا طے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجا نا چا ہیے اور صبر کرنا چا ہیے ۔ ایسا با عزت رویہ اپنا کر وہ یقینا فا ئدہ میں رہے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ایک عورت ، جب اس کا شوہر دوسری عورت سے شادی کر تا ہے ، اس پر صبر کرتی ہے ، ایک شہید کا ثواب پائیگی “۔
عورت اپنے صبر کی بدولت اور دوسری شادی کی حقیقت کو پر وقار اور حوصلہ مندی سے قبول کرنے کی صورت میں بہت بڑا ثواب کما ئیگی اور اللہ کے ہاں بڑا رتبہ پا ئے گی پھر وہ کیوں غمزدہ اور مایوسی کا شکار ہو ؟ بہتر ہے کہ وہ جان لے کہ اس کا برا طرز عمل اس کی اپنی شادی کو تباہی کے غار میں دھکیل دینے میں معاون ثا بت ہو گا ۔
دنیوی زندگی ، بہر حال مصیبتوں ، کو ششوں اور سختیوں سے عبا رت ہے جس سے ہر ایک مسلمان کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ مکمل خوشی کا ملنا اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔ اس کے لیے جنت ہے اور اس میں پہنچنے کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ۔ اگر وہ یہ خیال کر تا ہے کہ سختیاں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس پر برداشت و صبر کی روش اختیار کر تا ہے تو اسے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہو تا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ عارضی ہے اور اس دنیا کا رنج و غم بھی عارضی ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جو مستقل جائے قرار ہے ۔ اس دنیا میں اگر انسان نے نیک اعمال کئے ہو ں گے تکلیف میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہر کیا ہو گا تو اسے اس دنیا میں بھی رنج و تکلیف محسوس نہ ہو گی اور آخرت میں اس کے لئے جنت کا وعدہ اللہ نے کیا ہو ا ہے ۔

Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]

Allah Almighty also says what means:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]

It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:

  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.

Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:

There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]

Thank you again for your question.
Salam.